بچوں کی تعلیم کی راہ میں رکاوٹیں
غریب ممالک کے بچوں کو تعلیم کے حصول میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
NIDDERAU, GERMANY:
غریب ممالک کے بچوں کو تعلیم کے حصول میں بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ تو واضح ہیں یعنی اسکول ہوتے ہی نہیں تو جائیں کہاں۔ دوسری ذرا ڈھکی چھپی مشکلات ہیں یعنی وہ اساتذہ جو اسکولوں میں پڑھا رہے ہیں، انھوں نے وہ تربیت ہی حاصل نہیں کی جو پڑھانے کے لیے ضروری ہے۔ گلوبل پارٹنر شپ فار ایجوکیشن کے مطابق بچوں کی راہ میں دس بڑی رکاوٹیں مندرجہ ذیل ہیں:
٭ تعلیم کے لیے فنڈنگ نہ ہونا: غریب ملکوں کی حکومتیں خود بھی تعلیم پر کم خرچ کرتی ہیں اور ڈونرز کی جانب سے بھی تعلیم کے لیے امداد میں کمی آرہی ہے۔
٭ اساتذہ کا نہ ملنا یا غیر تربیت یافتہ اساتذہ کا ہونا: اسکول میں بچے کے لیے سب سے زیادہ اہمیت اس کے استاد کی ہوتی ہے۔ ہمارے پرائمری اسکولوں میں خاص طور پر اساتذہ کی اکثریت غیر تربیت یافتہ ہے۔
٭ کمرۂ جماعت کا نہ ہونا: اکثر دیہی علاقوں میں بچے درختوں کے نیچے یا کھلے آسمان تلے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ ایک مناسب عمارت کے بغیر اچھی تعلیم کا تصور محال ہے۔
٭ دنیا کے اکثر حصوں میں بچوں کے لیے سیکھنے کے مواد کی کمی ہوتی ہے اور انھیں گھسی پٹی نصابی کتب پر گزارا کرنا پڑتا ہے۔
٭ معذور بچوں کو عام اسکولوں میں داخلہ نہیں دیا جاتا حالانکہ تعلیم کا حصول ہر بچے کا بنیادی حق ہے۔
٭ ''غلط'' صنف سے تعلق رکھنا: تعلیم سے بچوں کی محرومی کی سب سے بڑی وجہ ان کی صنف ہے۔ لڑکیوں کی تعلیم میں پیش رفت کے باوجود ابھی بھی بہت سی بچیاں تعلیم سے محروم ہیں۔
٭ خانہ جنگی یا تنازعات کے شکار علاقوں میں رہنے والے بچے بھی تعلیم کے حق سے محروم ہوجاتے ہیں۔ جنگ کے نتیجے میں تعلیمی ادارے تباہ ہوجاتے ہیں۔
٭ گھر سے اسکول تک کا فاصلہ: گھر سے اسکول کے دور ہونے کی صورت میں بھی بچے خاص طور پر لڑکیاں تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں۔ اکثر جگہ بچے تین تین گھنٹے کی مسافت طے کرکے اسکول پہنچتے ہیں۔ جسمانی طور پر کمزور یا کسی معذوری کا شکار بچوں کے لیے یہ اور بھی مشکل ہوجاتا ہے۔
٭ بھوک اور ناکافی غذائیت: بھوک یا فاقہ کشی کا بچے کی تعلیم پر کیا اثر پڑتا ہے، اس کے بارے میں بہت کم بات کی جاتی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے 17 ملین بچوں کی جسمانی نشوونما بھوکے رہنے کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے اور ان کی سیکھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے۔
٭ تعلیمی اخراجات: ترقی پذیر ملکوں میں پرائیویٹ اسکولوں نے تعلیم کو اشیائے تعیش میں شامل کردیا ہے۔ اگر آپ کے پاس پیسے ہیں تو آپ اپنے بچوں کے لیے تعلیم خرید سکتے ہیں۔ گورنمنٹ اسکول کا تعلیمی معیار اتنا گر گیا ہے کہ غریب ترین خاندان بھی اپنے بچوں کو وہاں بھیجنا پسند نہیں کرتے، دوسرے غربت کی وجہ سے بہت سے والدین اس بات کو ترجیح دیتے ہیں کہ ان کے بچے کوئی ہنر سیکھ لیں، کسی ورکشاپ میں کام کریں، اخبار یا تولیے سگنلز پر کھڑے ہوکر بیچیں، چھوٹی چھوٹی بچیاں خوش حال گھروں میں ملازمائیں بن جائیں تاکہ ان کے پیٹ کی آگ بجھ سکے۔ اسکول کی تعلیم ان کی ترجیحات میں شامل نہیں ہوتی۔
معلوم نہیں وہ دن کب آئے گا جب پاکستان میں اسکول جانے والی عمر کے سارے بچے اسکول جانے لگیں گے اور کم ازکم پرائمری تعلیم مکمل کر پائیں گے۔ غریب طبقے کے بچے اول تو اسکول جا نہیں پاتے اور اگر والدین کسی نہ کسی طرح انھیں داخل کرا بھی دیں تو کچھ عرصے بعد ہی وہ اسکول چھوڑنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
حکومت اور سماجی اداروں کی کوششوں کی بدولت صورت حال کچھ بہتر تو ہوئی ہے لیکن داخلوں کی تعداد میں بہت سست روی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس صورتحال کے ذمے دار بہت سے عوامل ہیں لیکن حکومت سب کے لیے مفت تعلیم کے مقصد کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔
گزشتہ دنوں عورت فاؤنڈیشن نے آکسفیم کے تعاون سے صوبہ پنجاب میں ملتان، مظفر گڑھ اور رحیم یار خان کے اور سندھ میں دادو کے 522 اسکولوں کا سروے کیا، ان میں سے تقریباً نصف لڑکیوں کے اسکولز تھے۔ اس سروے کا مقصد صنفی عدسہ سے تعلیمی بجٹ کو دیکھنا تھا کہ تعلیم کے لیے مختص رقم کس طرح سے خرچ کی جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سروس ڈلیوری خاص طور پر اسکول کونسلوں، سہولیات اور اساتذہ سے متعلق مسائل کا جائزہ لینا تھا۔
اس سروے کے نتیجے میں تعلیمی بجٹ کی مینجمنٹ کے حوالے سے منصوبہ بندی، بجٹ بنانے اور مانیٹرنگ میں کم شفافیت اور احتساب کی کمی نظر آئی۔ بجٹ کے منفی پہلوؤں پر بھی زیادہ غور نہیں کیا جاتا۔ تنخواہ کے علاوہ بجٹ کے دیگر حصے مثلاً ایڈمنسٹریشن، اسٹیشنری، یوٹیلیٹیز اور دیکھ بھال وغیرہ کے اخراجات کے لیے مہیا کردہ رقم کم ہوتی جا رہی ہے، حکومت کو اس پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔ اسکولوں کو جاری کی جانے والی رقومات کا کوئی مقررہ وقت نہیں ہوتا اور یہ ایڈہاک بنیاد پر غیر شفاف طریقے سے جاری کی جاتی ہیں۔ اسکول کونسلوں کی سربراہی عام طور پر اسکول کا سربراہ کرتا ہے۔
ان کونسلوں کی کارکردگی کے بارے میں ملی جلی آرا سامنے آئی ہیں۔ کچھ اضلاع میں ان کونسلوں نے تعلیمی سہولیات کو بہتر بنانے میں اچھا کردار ادا کیا ہے۔ اسکولوں کی بہتری کے منصوبوں کی بروقت تکمیل کے حوالے سے کارکردگی کے بارے میں بھی ملی جلی آرا سامنے آئیں جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا تھا کہ بہتری کے منصوبے تیار ہی نہیں کیے گئے تھے۔ معاشرے کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے لحاظ سے کمروں اور اساتذہ کی تعداد کم ہے۔ بہت سے اسکولز بجلی، پانی، بیت الخلا وغیرہ جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔
اس سروے کی بنیاد پر مندرجہ ذیل تجاویز سامنے آئی ہیں:
٭ بجٹ کے انتظامی طریقوں کو زیادہ شفاف بنایا جائے اور خودمختاری اور احتساب کے پہلوؤں پر زیادہ توجہ دی جائے۔ خاص طور پر جو افسر یہ رقومات نکلوانے اور تقسیم کرنے کا ذمے دار ہے (DDO) اس کو رقومات جاری کرنے کے طریقوں کو شفاف بنایا جائے۔
٭ صوبائی حکومت کو ایسی ذمے داریاں مقامی حکومت/ بلدیاتی اداروں کو منتقل کردینی چاہئیں۔ پنجاب میں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن اتھارٹی بنانے اور اس کو اختیارات دینے اور انتظامی امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
٭ اسکولوں کے مجموعی بجٹ کے علاوہ جس میں اساتذہ اور دیگر متعلقہ عملہ کی تنخواہیں شامل ہیں کے علاوہ Non-Salary بجٹ میں 15 تا 20 فیصد اضافہ کیا جائے۔
٭ رقومات جاری کرنے کے طریقہ کار کا جائزہ لیا جائے، اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں زیادہ رقومات جاری کی جائیں۔
٭ اسکول کونسلوں کی چیئرمین شپ کمیونٹی کے ارکان خاص طور پر اسکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو دی جائے۔ اسکول کو بہتر بنانے کی منصوبہ بندی، پروکیورمنٹ، آڈٹ، اسکولوں کی کارکردگی کی مانیٹرنگ اور داخلے بڑھانے کے حوالے سے تربیت دی جائے۔
٭ مقامی سطح پر سروس ڈلیوری کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل پر غور کرنا چاہیے۔
٭ مقامی سطح پر کمیونٹیوں اور مقامی سیاست دانوں کو زیادہ فعال کردار ادا کرنا چاہیے۔
٭ سہولتوں کو بہتر بنانے کے ساتھ ساتھ تعلیم کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے اساتذہ کی تربیت اور نصاب کو بھی بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔