بڑے پھر چھوٹے چور

الائے رم کی چوری مشکل کام ہے اس لیے نشئی قسم کے چور صرف وہیل کپوں کی چوری پر اکتفا کرتے ہیں۔

h.sethi@hotmail.com

ALEXANDRIA:
مسلم لیگ (ن) کی حکومت تین سالہ اقتدار مکمل کرنے کو ہے اور تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان مسلسل الزام لگاتے چلے آ رہے ہیں کہ نواز شریف نے مینڈیٹ چرا کر پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل کر کے حکومت بنائی ہے۔ کئی لوگوں کو اس چوری والے الزام میں حقیقت نظر آتی ہو گی لیکن یہ پورا سچ اس لیے نہیں کہ نواز شریف اس سے قبل دو بار وزارت عظمیٰ کا نامکمل عہدہ رکھ چکے ہیں اور گو کہ انھیں اقتدار کی منزل تک پہنچانے والے غاصب جنرل ضیاء الحق تھے میاں نواز شریف سے بھی جنرل پرویز مشرف نے بذریعہ چوری بلکہ ڈکیتی مینڈیٹ چھینا تھا۔ یہ چوری ڈکیتی اور چھینا جھپٹی ہمارے چھوٹے چھوٹے وارداتیوں کے خمیر میں بھی داخل ہو چکی ہے اس لیے اگر کوئی چھوٹا سا چور اکبر الٰہ آبادی کا یہ شعر پڑھ کر سرخ آنکھیں دکھائے تو چپ رہنے میں ہی عافیت ہے کہ؎

ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے

ڈاکا تو نہیں ڈالا چوری تو نہیں کی ہے

کچھ روز قبل ایک دوست کے گھر جانا ہوا تو خلاف معمول خاتون خانہ خود چائے کی سروس کرنے لگیں۔ دریافت کیا تو ہمیں بتایا گیا کہ انھوں نے گھر کا کام کرنے والی ملازم فیملی کو ایک دن قبل برخاست کر دیا تھا وجہ پوچھی تو پتہ چلا کہ سردی کا موسم ہونے کی وجہ سے انھوں نے ایک قیمتی گرم شال خریدی تھی جو چند روز بعد غائب ہو گئی۔ گھر کی ملازمہ نے بھی اس شال کی تعریف سنی تھی۔ چوری کے شک کی بنیاد پر گھریلو ملازم فیملی کو پولیس کے حوالے کرنے کی بجائے آزاد کر دیا گیا تھا۔

ایک صاحب اپنی نئی ٹویوٹا موٹر کار پر ملنے آئے تو دیکھا کہ ان کی کار کی ڈکی پر لگا سلور کار مونوگرام غائب تھا پوچھا تو انھوں نے بتایا کہ ڈیفنس کے علاقے کی POSH مارکیٹ میں کار پارک کی تھی گھر پہنچ کر معلوم ہوا کسی ضرورت مند یا کمینے سے چور نے اسے پیچ کس سے اتار لیا ہے۔ کہنے لگے شکر ہے چور کی فوری ضرورت صرف چند سو روپے تھی۔

مالدار اور شوقین لوگ اب کاروں کے خوبصورت اور مہنگے وہیل کیپ خریدتے ہیں بعض وہیل کپوں کا سیٹ تو پانچ سے سات ہزار کا لیکن الائے رم کا سیٹ چالیس پچاس ہزار تک کا ملتا ہے۔

الائے رم کی چوری مشکل کام ہے اس لیے نشئی قسم کے چور صرف وہیل کپوں کی چوری پر اکتفا کرتے ہیں۔ ایک صاحب نے مصروف پارکنگ ایریا میں گاڑی کھڑی کی اور ٹوکن والے لڑکے سے کہا دیکھو کہ خبیث نے ڈرائیونگ سیٹ والی سائیڈ کے دونوں کپ چوری کر لیے ہیں وہ صاحب ایک گھنٹے بعد کار لینے آئے تو ٹوکن کے پیسے وصول کرنے والے نے کہا سر میں نے دونوں وہیل کپ خود سے لگا دیے ہیں ان صاحب نے خوش ہو کر اس آدمی کو پانچ سو روپے انعام دیا اور تیزی سے نکل گئے۔ گھر پہنچے تو دیکھا کہ کار کے دوسری سائیڈ والے وہیل کپ غائب تھے۔


گن پوائنٹ پر موبائل اور پیسہ لوٹنے کی وارداتیں تو چوری کے زمرے میں نہیں آتیں کیوں کہ آج کا موضوع خفیہ لوٹ سے متعلق ہے لیکن موبائل فون رضا مندی سے حاصل کر کے لے بھاگنے کا ایک واقع خورشید امامی کے ساتھ پیش آیا جو میری خورشید سے ایک بڑی موبائل فون مارکیٹ کے باہر ملاقات کے چند منٹ قبل پیش آیا تھا۔

اس نے بتایا کہ ایک موٹر سائیکل سوار اس کے پاس رکا پچھلی سیٹ پر بیٹھے لڑکے نے خورشید کو انکل کہہ کر مخاطب کیا اور کہا کہ آپ نے مجھے پہچانا کہ نہیں خورشید نے مروت سے ہاں کہہ دیا جس پر اس لڑکے نے کہا انکل آپ جیسا فون میں نے بھی خریدا ہے ذرا اپنے والا مجھے دکھائیں جس پر خورشید نے اپنا فون اس لڑکے کو پکڑا دیا۔ پچھلی سیٹ پر بیٹھے لڑکے نے موبائل پکڑ کر دیکھا تو فوراً ہی دوسرے لڑکے نے موٹر سائیکل بھگا دیا اور یہ جا وہ جا۔پاکستان کے ہر اس شہر میں جہاں نکاس آب کے لیے سیوریج کا نظام ہے وہاں گٹر اور ان کے اوپر ڈھکن ہوتے ہیں تا کہ بوقت ضرورت صفائی کی جا سکے واٹر اور سینی ٹیشن والوں نے ابتدا میں لوہے کے ڈھکن استعمال کیے لیکن اوپر کی سطح سے چوری نیچے کی سطح پر آئی تو چھوٹے چوروں نے لوہے کے ڈھکن اٹھا کر بیچنے شروع کر دیے۔

ڈھکن غائب ہوئے تو وہاں خطرناک اور کھلے سوراخ پیدا ہوئے جن میں گندگی تو جمع ہوئی لیکن یہ ایسے مین ہول تھے جن میں انسان اور جانور گرنے اور موت کے منہ میں جانے لگے۔ محکموں نے نئے ڈھکن لگائے لیکن ڈھکن چوروں نے وہ بھی اٹھانے شروع کر دیے۔ پھر سیمنٹ کے ڈھکن بنا کر مین ہولوں پر رکھے تو یا وہ ٹوٹ کر گر جاتے یا ان کے گرد لوہے کا رنگ نکال کر لوہا حاصل کرنے والوں نے انھیں اٹھا لے جانا یا توڑنا شروع کر دیا۔

محکمے اس آنکھ مچولی سے تنگ آ کر کھلے مین ہولوں کو ڈھانپنے سے غفلت برتنے لگے جس کا نتیجہ زیادہ حادثات کی شکل میں ظاہر ہونے لگا۔ شہر کراچی میں ننگے مین ہولوں کی وجہ سے حادثات میں اضافہ ہوا تو ایک شہری نے حکومت کو جگانے کے لیے اپنی کمائی سے ڈھکن بنوا کر مین ہول ڈھانپنے شروع کر دیے۔

اس مہم کی خوب پبلسٹی ہوئی۔ شنید ہے کہ کراچی کی انتظامیہ کو شرم آ گئی ہے اور سوراخ ڈھانپ کر ڈھکن چوروں کی سرکوبی کی جا رہی ہے ملک کے تمام بڑے شہروں میں ڈھکن چوری کی وبا عام ہے اور حادثات جوں کے توں ہیں۔اسکول کے زمانے کی ایک بات یاد آتی ہے کہ ایک خوشحال گرانے کی خاتون کا ہمارے ہاں آنا جانا رہتا تھا لیکن جب بھی وہ رخصت ہو جاتیں تو گھر میں گفتگو سننے کو ملتی کہ کوئی چھوٹی موٹی چیز غائب ہو گئی ہے اور یہ بات ہو رہی ہوتی کہ وہی خاتون اٹھا لے گئی ہوں گی۔ کالج میں پہنچے تو سائیکالوجی کی کلاس میں لفظ KLEPTOMANIA پڑھا تو معلوم ہوا کہ بعض لوگوں کو ایک نفسیاتی عارضہ ہوتا ہے کہ وہ بغیر ضرورت کے کوئی نہ کوئی چیز اٹھا لے جاتے ہیں۔

لوگ ہمارے حکمرانوں پر ناجائز بدعنوانی کی تہمت لگاتے ہیں کہ وہ جاتے ہوئے سرکاری خزانہ اڑا لے جاتے ہیں لیکن یہ تو ان کی نفسیاتی مجبوری ہوتی ہے اور اگر کسی کا خیال ہے کہ ایک عبادت گاہ سے اس کا جوتا یا پانی پینے کی جگہ سے رنجیر بندھا سلور کا گلاس غائب پایا گیا تھا تو وہ اس فعل کو ضرورت کی مجبوری سمجھے نہ کہ نفسیاتی بیماری۔گزشتہ دنوں ویلنٹائن ڈے منانے پر پابندی کے باعث ہم نے ایک مجنوں قسم کے شخص کو ہاتھ میں ایک عدد سرخ گلاب کا پھول پکڑے گلیوں میں گھومتے اور ایک شعر گنگناتے پایا تو یقین آ گیا کہ بعض لوگ لوٹنے کی بجائے لٹنے کو بھی تیار رہتے ہیں۔ شعر تھا ؎

دل کی بستی عجیب بستی ہے

لوٹنے والے کو ترستی ہے
Load Next Story