ماضی یا مستقبل راستے صرف دو ہیں

ان دنوں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم مودی جرأت مندانہ فیصلے کر رہے ہیں۔


Zahida Hina February 21, 2016
[email protected]

دلی میں 'جشن ریختہ' ہے۔ زبان و ادب کا جشن جس میں ہزاروں شریک ہیں۔ اردو اور پاکستانی مہمانوں کے لیے لوگوں کی آنکھیں فرشِ راہ ہیں جن میں اکثریت غیرمسلموں کی ہے۔ چند ہفتوں پہلے پٹھان کوٹ کا واقعہ ہوا ہے۔ سرکاری موقف ہمیں اخباروں کے ذریعے معلوم ہوتا رہتا ہے لیکن شہریوں کے چہروں پر وحشت اور دہشت کی پرچھائیں بھی نہیں۔

دلی سے واپسی پر یہ خبر نظر سے گزرتی ہے کہ 31 مارچ اور پہلی اپریل کو امریکی صدر مسٹر اوباما کی دعوت پر نیوکلیائی ہتھیاروں کی حفاظت کے بارے میں چوٹی کانفرنس ہونے والی ہے، جس میں پاکستانی اور ہندوستانی وزرائے اعظم شریک ہوں گے۔ زبانی طیور کی یہ امکان بھی سنا گیا ہے کہ واشنگٹن میں دونوں وزرائے اعظم کی آپس میں ایک ملاقات بھی ہو گی۔ اس چوٹی کانفرنس کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ نہ لگنے پائیں۔ اس کے ساتھ ہی صدر اوباما کا ایجنڈا یہ بھی ہے کہ پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کشیدگی اور تناؤ کو کم اور ختم کیا جا سکے۔

یہ ایک دل چسپ بات ہے کہ جب ہندوستان میں بی جے پی اور پاکستان میں میاں نواز شریف کی مسلم لیگ اقتدار میں ہوتی ہیں تو دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بحالی کا عمل زیادہ تیزی سے شروع ہو جاتا ہے۔ جب پاکستان میں نواز شریف اور ہندوستان میں اٹل بہاری واجپائی وزیراعظم تھے تو دونوں پڑوسی ملکوں کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کا ایک اہم دور شروع ہوا تھا۔ معاہدہ لاہور پر دستخط ہوئے اور آمد ورفت کی آسانیاں پیدا ہوئیں لیکن بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کو پٹری سے اتارنے کے لیے بعض عناصر نے اپنا ہاتھ دکھا دیا اور دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات اتنے کشیدہ ہوئے کہ سرحدوں پر دونوں ملکوں کے سپاہی آنکھوں میں آنکھ ڈالے مہینوں کھڑے رہے۔

ان دنوں وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم مودی جرأت مندانہ فیصلے کر رہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے حکومتی سربراہوں اور حکومتی اداروں کے درمیان زیادہ فعال اور قریبی رابطوں سے اعتماد پیدا ہوتا ہے اور مسائل کے حل کی راہیں کھلتی ہیں۔ مودی نواز تعلقات میں جو گرم جوشی پیدا ہوئی ہے اس کے لیے دونوں رہنما مبارکباد کے مستحق ہیں کیونکہ انھوں نے لائن آف کنٹرول پر کشیدہ صورت حال کے باوجود امن کے لیے جرأت مندانہ پیش قدمی کی ہے جس کے نتیجے میں اس وقت سرحدی اور سفارتی کشیدگی میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اگر باہمی رابطے اور مکالمہ جاری رہتا ہے تو رفتہ رفتہ حالات مزید بہتر ہو جائیں گے۔

ہماری خواہش نہ ہو تب بھی ہمیں ماضی کی نفسیات سے باہر نکلنا ہو گا کیونکہ آج کی دنیا ایک یکسر بدلی ہوئی دنیا ہے۔ دنیا کا کوئی ملک اپنے خطے اور عالمی برادری سے کٹ کر ترقی نہیں کر سکتا ۔ شمالی کوریا کی مثال سامنے ہے۔ نعرے بازی اور جنگجو یا نہ سیاست کا زمانہ گزر چکا۔ ایران میں کتنا زبردست انقلاب آیا تھا۔

اس انقلاب کے رہنماؤں نے خود کو عالمی برادری سے الگ تھلگ رکھا جس کا نتیجہ معاشی تباہی اور سماجی بے چینی کی صورت میں سامنے آیا۔ 37 برس کے دوران حالات بد سے بدتر ہوئے تو جوش کی جگہ ہوش کا راستہ اپنانا پڑا۔ آج ایران دوبارہ عالمی برادری کا ایک سرگرم رکن بن رہا ہے۔ کون تصورکر سکتا تھا کہ وہ امریکا جو کبھی ایران میں نفرت کی علامت ہو ا کرتا تھا وہ آج ایرانی نوجوانوں کا پسندیدہ ملک بنتا جا رہا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی نے معیشت میں ایک ناقابل تصور انقلاب برپا کر دیا ہے۔

ترقی یافتہ اور ترقی پذیر، امیر اور غریب سب ہی ملک ایک دوسرے کی ضرورت بن چکے ہیں۔ عالمی تبدیلی کی یہ لہر ہمارے خطے کو بھی اپنی زد میں لے چکی ہے۔ ہم چاہیں نہ چاہیں، تاریخ نے یہ فیصلہ صادر کر دیا ہے کہ معاشی تعاون اور مفاہمت کا راستہ اپنایا جائے۔

آج تمام ماہرین اقتصادیات اور معیشت یہ جان چکے ہیں کہ آنے والے دنوں میں جنوبی ایشیا عالمی ترقی میں اہم کردار ادا کرنے والا ہے، اس خطے کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے۔ جنوب ایشیائی ملکوں کے پڑوسی ملکوں کو بھی شامل کر لیا جائے تو تعداد 3 ارب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں حقیقت یہ ہے کہ جنوبی ایشیا کا خطہ، دنیا کی نصف آبادی کو براہ راست متاثر کرتا ہے۔

باقی نصف دنیا جس میں امریکا، یورپ، کینیڈا اور آسٹریلیا سمیت کئی ترقی یافتہ ملک شامل ہیں، ان کی پائیدار معاشی ترقی کا مکمل انحصار جنوبی ایشیا اور اس خطے سے متعلق ملکوں کی ترقی پر ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ 21 ویں صدی میں معاشی اور سیاسی حوالے سے ہندوستان، چین اور پاکستان سمیت خطے کے بعض دیگر ممالک کتنا اہم کردار ادا کرنے والے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی اہم ترین طاقتیں ہندوستان اور پاکستان میں پائیدار مفاہمت کے لیے سنجیدگی سے سرگرم ہیں۔

یہ امید افزا صورت حال ہے کہ جب ہمارا خطہ خود کو عالمی تبدیلیوں سے ہم آہنگ کرنے کی کوششیں کر رہا ہے تو اس وقت دونوں ملکوں کی حکومتوں کے سربراہ ایسے رہنما ہیں جنھیں بھرپور عوامی مینڈیٹ کے ساتھ اپنے اپنے ملکوں کے کاروباری طبقوں اور طاقتور اداروں کی حمایت حاصل ہے اور ان میں مشکل فیصلے کرنے کا عزم بھی موجود ہے۔

آنے والے چند برس پاکستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات کے حوالے سے نہایت اہم اور نازک ہیں۔ یہ دونوں ملک اپنے شانوں پر تاریخ کا بھاری بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں۔ انھیں دانش مندی سے اس بوجھ کو اتارنا ہو گا۔ اس کام میں نہ تاخیر ہونی چاہیے اور نہ ہی جلد بازی کی جا سکتی ہے۔ تاریخ کے اس بوجھ کا ایک پس منظر ہے۔ اٹھارویں صدی میں صنعتی انقلاب آیا تو ایک صدی کے دوران چند استعماری ملکوں نے 80 فیصد دنیا پر قبضہ کر لیا۔ منڈی اور خام مال پر قبضے کے لیے جنگیں ہوئیں، نت نئے ملک وجود میں آئے یا لائے گئے۔ قومی آزادی اور انقلاب کی تحریکیں شروع ہوئیں۔

دو عالمی جنگوں سے تھک ہار کر استعماری ملک اپنی نوآبادیوں کو آزاد کرنے پر مجبور ہوئے۔ اسی دوران سرد جنگ شروع ہوئی اور عالمی سطح پر ایک نئی محاذ آرائی کا آغاز ہو گیا۔ اس سرد جنگ نے دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا اور یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ہو گئے۔ کئی مرتبہ ایٹمی جنگ کا خطرہ سامنے آیا لیکن ٹل گیا۔ 1990ء کی دہائی سے دو قطبی دنیا ختم ہونے لگی اور اب حالات پھر معمول پر آ رہے ہیں۔ صنعتی انقلاب کے بعد عالمی سطح پر تغیر اور تبدل کا جو بے قابو عمل شروع ہوا تھا وہ اب تھم رہا ہے۔ دنیا کے ملک آپس میں دوبارہ دوستانہ تعلقات بحال کر رہے ہیں اور کرۂ ارض جنگ سے امن کے راستے پر گامزن ہو رہا ہے۔

جنوبی ایشیا بھی دنیا کے دیگر خطوں کی طرح صنعتی انقلاب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے غیر معمولی حالات سے متاثر ہوا تھا۔ ہندوستان کا بٹوارا ہوا، لاکھوں انسانوں نے ترکِ وطن کیا، لاکھوں بے گناہ قتل ہوئے۔ ان تمام مصائب سے گزرنے کے باوجود اس خطے میں امن اور استحکام قائم نہ ہو سکا۔ پاکستان بحران سے دوچار ہوا اور دو لخت ہو گیا۔ جنگیں ہوئیں، ملک ٹوٹے لیکن نتیجہ اس کے سوا اور کچھ بر آمد نہ ہوا کہ نفرتیں پہلے سے کہیں زیادہ بڑھتی چلی گئیں۔

اب ہمارے پاس صرف دو راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم خود کو ماضی میں قید رکھیں یا ماضی کی نفسیات سے آزادی حاصل کر کے 21 ویں صدی کے چیلنجوں کا سامنا کریں۔ تبدیلی کا یہ عمل یقینا بہت مشکل ہے۔ اس کی راہ میں وہ تمام طبقات اور عناصر ایک رکاوٹ ثابت ہوں گے جن کے مفادات ماضی کی دنیا کے مخصوص حالات سے وابستہ تھے۔ پرانے اسٹیک ہولڈر کبھی نئے اسٹیک ہولڈر کے لیے آسانی سے جگہ خالی نہیں کرتے۔

اس مشکل سے ہماری طرح مشرق وسطیٰ سمیت دنیا کے کئی ممالک گزر رہے ہیں۔ حقیقت تو یہی ہے کہ خواہ کسی کو پسند ہو یا ناپسند ہو، بدلنا تو سب کو ہو گا کیونکہ دنیا کا کوئی بھی دانش مند ملک تاریخ کے آگے بڑھتے ہوئے طاقتور دھارے کے سامنے کھڑا ہو کر خودکشی کرنے کی حماقت نہیں کر سکتا۔ مجھے امید نہیں یقین ہے کہ ہم بھی دنیا کے ایسے ہی دانش مند ملکوں میں شامل ہیں۔ جنگجوئی کو اپنے تمام مسائل کا حل سمجھنے والے عناصر آخر کار پسپا ہوں گے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان ہو یا پاکستان دونوں ملکوں کے عوام اپنا اچھا برا خوب سمجھتے ہیں۔ وہ یہ جانتے ہیں کہ جنگ ان کے مسئلوں کا حل نہیں، تب ہی وہ جشن ریختہ جیسی ادبی، ثقافتی اور تہذیبی تقریبات میں جی کھول کر شرکت کرتے ہیں اور انتہا پسندوں اور نفرت پھیلانے والوں کا ایجنڈا یہ کہتے ہوئے مسترد کر دیتے ہیں کہ:

ہم نہیں خودکشی پہ آمادہ!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔