بارش کے چند مہربان قطرے
لاہور میرا شہر نہیں لیکن میں اس شہر کے ذکر پر جذباتی ہو جاتا ہوں۔
بارش کے ملاپ اور اس کے فراق کے ذکر میں آپ کو بارہا زحمت دے چکا ہوں۔ بارش میری کمزوری ہی نہیں مجبوری بھی ہے اور میں اپنی اس کمزوری اور مجبوری کو آپ پر خواہ مخواہ مسلط کرتا رہتا ہوں وجہ یہ ہے کہ میں ایک بارانی علاقے کا باشندہ ہوں اور بارش میری زندگی ہے۔ جب برائے تعلیم لاہور منتقل ہوا تھا تو والدہ نے ایک پرانی ضرب المثل دہرائی تھی کہ 'وَنج نی دھیئے راوی نہ کوئی ونجی نا کوئی آوی، جا نی بیٹی راوی جا جہاں نہ کوئی تمہیں ملنے آئے نہ جائے۔
یہ ایک ماں کی اداسی تھی جو میرے لاہور آنے کے ارادے پر شروع ہو گئی تھی کیونکہ ہمارے گاؤں سے لاہور بہت دور تھا اور اتنا زیادہ فاصلہ تھا کہ ایک دن میں طے نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پیدل یا گھوڑوں پر سفر ہوا کرتا تھا اتنے لمبے سفر میں سوار اور سواریاں دونوں تھک جاتی تھیں اور تھکان اتارنے کے لیے لمبا وقت درکار ہوتا تھا یعنی دنوں کے سفر میں کوئی لاہور پہنچتا تھا پھر مجھے یاد ہے کہ والدہ نے میرے بڑے بھائی سے کہا کہ اسے خرچہ زیادہ دینا کہ سنا ہے لاہور میں تو پانی بھی بکتا ہے۔ یہ زمانے بھی گزر گئے اور وہ لاہور بھی گزر گیا جو بہت دور تھا۔
اب چند گھنٹوں میں لاہور پہنچ جاتے ہیں اور پانی کی ٹوٹی کھولیں تو پانی کے فوارے چھوٹنے لگتے ہیں جس کی قیمت ماہ بماہ اکٹھی ادا کی جاتی ہے۔ پھر وہ لاہور جس کا دوسرا نام راوی تھا اب کہیں غائب ہو گیا ہے۔ ہم ایسے بے رحم اور بے حس لوگ ہیں کہ دریا تک بیچ دیتے ہیں۔ یہ وہ راوی تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے نیویارک سے پطرس بخاری نے صوفی تبسم کے نام خط لکھا تھا کہ صوفی صاحب کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔ آج پطرس کی روح کو کون بتائے کے اب راوی کی یاد میں پورا لاہور اور اس میں مغلوں کی یادگاریں بھی آہیں بھرتی ہیں۔ لاہور بہت بدل گیا ہے۔
گزشتہ جمعے کو مدتوں بعد لاہور میں بارش ہوئی بارش کیا تھی بادلوں سے جدا ہونے والے چند قطرے تھے جو زمین سے ملنا چاہتے تھے اور اس سے اداس تھے اور جنھیں میرے جیسے بارش کے امیدواروں نے بارش کا نام دے دیا اور پتہ نہیں یہ قطرے بھی لاہور میں کہاں برسے اب لاہور نہ جانے کہاں کہاں تک پھیل گیا ہے کہ اس کا کوئی حدود اربعہ ہی نہیں کہ جدھر جائیں ادھر لاہور کا کوئی نیا ٹکڑا سامنے آ جاتا ہے اس لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ لاہور میں بارش ہوئی ہے جب کہ اب یہ بارش نہیں بس چند قطرے تھے۔ لاہوری بارش کے انتظار میں ہیں کہ اس بار سردیاں ہی نہیں آئیں، بارش ہو تو سردی بھی جگہ پائے۔ میں نے ڈر کے مارے گاؤں فون نہیں کیا کہ اگر وہاں سے بارش نہ ہونے کی خبر ملی تو اب مزید کسی محرومی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
پہلے ہی میرا دوسرا گھر لاہور ہی آدھا رہ گیا ہے اس کی زمین پر تعمیرات پھیلتی جا رہی ہیں لیکن اس سے وابستہ تاریخ کتابوں میں تو ہے مگر اس کی سرزمین پر سے گم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک حکمران نے کئی دریا جن میں راوی بھی تھا بھارت کے سپرد کر دیے۔ بھلا دریا بھی کسی نے کسی کو دیے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ بھی ہوا اور اب ان دنوں ایک اور تماشا ہو رہا ہے اور میرا ممدوح فاتح لاہور اس شہر میں سڑکیں بنا رہا ہے اور یہ سڑکیں لاہور کی ان یادگاروں کے لیے خطرہ بن رہی ہیں جو کسی بھی قیمت اور خرچ پر بحال نہیں ہو سکیں گی۔ وہ لوگ اور زمانے گزر گئے، وہ ہنرمند چلے گئے وہ باذوق حکمران لاہور کی زمین میں پیوند زمین ہو گئے۔
کہیں اپنی یادگاروں کے آس پاس باقی رہ گئیں یہ اینٹ اور لکڑی کی یادگاریں جنھیں تاریخ کی دولت سے بے خبر رؤسا زخمی کر رہے ہیں۔ ایک ایسی تاریخ جس کو تعمیر کرنے والے چلے گئے ہیں لیکن اپنی روح افزاء اور دلفریب یادگاریں اپنی یاد دلانے کے لیے چھوڑ گئے۔ ان تاریخی یادگاروں کو لاہور کی سرزمین سے جدا کر دیجیے اور پھر لاہور کے در و دیوار کو ننگا دیکھئے جی چاہے گا کہ راوی زندہ ہوتا اور آپ اس میں ڈوب مرتے۔ زمین کی رونق اس کی تعمیرات سے ہوتی ہے اور دنیا کسی شہر کی دیواروں کو نہیں ان دیواروں سے تعمیر ہونے والی عمارتوں کو دیکھنے آتی ہے جو کسی زمین کا زیور ہوتی ہیں اور اس زمین کو تاریخ دیتی ہیں۔
لاہور میرا شہر نہیں لیکن میں اس شہر کے ذکر پر جذباتی ہو جاتا ہوں۔ شاید اس لیے کہ میں نے اپنے گاؤں کے بعد اگر کسی شہر کا نام سنا تو وہ لاہور تھا جس کے صوفیائے کرام سے میرے بزرگوں کا تعلق تھا اور اس تعلق کی داستانیں ہم تک پہنچا کرتی تھیں۔ لاہور کا ایک بابرکت تعارف یہ داستانیں تھیں اور وہ بزرگ اساتذہ بھی جن کے سامنے میں نے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا اور جنھوں نے مجھے محبت اور شفقت کی نظروں سے دیکھا تھا۔
وہ نظریں جو میری زندگی پر اتنی مہربان رہی ہیں جتنی مہربانی میں برداشت کر سکتا ہوں۔ بالکل ذاتی بات ہے کہ بارش میرے لیے جتنی نعمت ہے جب یہ لاہور پر برستی ہے تو مجھے اتنی ہی خوشی ہوتی ہے جتنی اس کے میرے گاؤں پر برسنے میں ہوتی ہے۔ یوں میرے لیے میرا گاؤں اور لاہور دو جڑواں آبادیاں ہیں۔
ایک نے مجھے اس قابل کیا کہ میں لاہور آ کر یہاں سے فیض حاصل کر سکوں اور دوسرے نے لاہور کی نعمتیں مجھ پر ارزاں کر دیں اور مجھے ہر محرومی سے بے نیاز کر دیا۔ گزشتہ جمعے کی صبح لاہور کے جس حصے میں رہتا ہوں وہاں ہلکی سی رم جھم ہوئی اور میں اس میں خوش ہو گیا۔ ہم عام لوگوں کی خوشیاں بھی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں۔ اللہ کرے ہمیں یہ نصیب رہیں اور بارش کے چند قطرے ہی ہمارے نصیب لکھے جائیں۔ بعد میں دیکھا اور لطف لیا کہ لاہور میں خوب بارش ہوئی اور قطرے باراں رحمت بن گئے اور یہ کالم ایک موسلادھار بارش پر ختم ہوا۔
یہ ایک ماں کی اداسی تھی جو میرے لاہور آنے کے ارادے پر شروع ہو گئی تھی کیونکہ ہمارے گاؤں سے لاہور بہت دور تھا اور اتنا زیادہ فاصلہ تھا کہ ایک دن میں طے نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ اس زمانے کی بات ہے جب پیدل یا گھوڑوں پر سفر ہوا کرتا تھا اتنے لمبے سفر میں سوار اور سواریاں دونوں تھک جاتی تھیں اور تھکان اتارنے کے لیے لمبا وقت درکار ہوتا تھا یعنی دنوں کے سفر میں کوئی لاہور پہنچتا تھا پھر مجھے یاد ہے کہ والدہ نے میرے بڑے بھائی سے کہا کہ اسے خرچہ زیادہ دینا کہ سنا ہے لاہور میں تو پانی بھی بکتا ہے۔ یہ زمانے بھی گزر گئے اور وہ لاہور بھی گزر گیا جو بہت دور تھا۔
اب چند گھنٹوں میں لاہور پہنچ جاتے ہیں اور پانی کی ٹوٹی کھولیں تو پانی کے فوارے چھوٹنے لگتے ہیں جس کی قیمت ماہ بماہ اکٹھی ادا کی جاتی ہے۔ پھر وہ لاہور جس کا دوسرا نام راوی تھا اب کہیں غائب ہو گیا ہے۔ ہم ایسے بے رحم اور بے حس لوگ ہیں کہ دریا تک بیچ دیتے ہیں۔ یہ وہ راوی تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے نیویارک سے پطرس بخاری نے صوفی تبسم کے نام خط لکھا تھا کہ صوفی صاحب کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے۔ آج پطرس کی روح کو کون بتائے کے اب راوی کی یاد میں پورا لاہور اور اس میں مغلوں کی یادگاریں بھی آہیں بھرتی ہیں۔ لاہور بہت بدل گیا ہے۔
گزشتہ جمعے کو مدتوں بعد لاہور میں بارش ہوئی بارش کیا تھی بادلوں سے جدا ہونے والے چند قطرے تھے جو زمین سے ملنا چاہتے تھے اور اس سے اداس تھے اور جنھیں میرے جیسے بارش کے امیدواروں نے بارش کا نام دے دیا اور پتہ نہیں یہ قطرے بھی لاہور میں کہاں برسے اب لاہور نہ جانے کہاں کہاں تک پھیل گیا ہے کہ اس کا کوئی حدود اربعہ ہی نہیں کہ جدھر جائیں ادھر لاہور کا کوئی نیا ٹکڑا سامنے آ جاتا ہے اس لیے یہی کہا جا سکتا ہے کہ لاہور میں بارش ہوئی ہے جب کہ اب یہ بارش نہیں بس چند قطرے تھے۔ لاہوری بارش کے انتظار میں ہیں کہ اس بار سردیاں ہی نہیں آئیں، بارش ہو تو سردی بھی جگہ پائے۔ میں نے ڈر کے مارے گاؤں فون نہیں کیا کہ اگر وہاں سے بارش نہ ہونے کی خبر ملی تو اب مزید کسی محرومی کی گنجائش باقی نہیں رہی۔
پہلے ہی میرا دوسرا گھر لاہور ہی آدھا رہ گیا ہے اس کی زمین پر تعمیرات پھیلتی جا رہی ہیں لیکن اس سے وابستہ تاریخ کتابوں میں تو ہے مگر اس کی سرزمین پر سے گم ہوتی جا رہی ہے۔ ایک حکمران نے کئی دریا جن میں راوی بھی تھا بھارت کے سپرد کر دیے۔ بھلا دریا بھی کسی نے کسی کو دیے ہیں لیکن ہمارے ہاں یہ بھی ہوا اور اب ان دنوں ایک اور تماشا ہو رہا ہے اور میرا ممدوح فاتح لاہور اس شہر میں سڑکیں بنا رہا ہے اور یہ سڑکیں لاہور کی ان یادگاروں کے لیے خطرہ بن رہی ہیں جو کسی بھی قیمت اور خرچ پر بحال نہیں ہو سکیں گی۔ وہ لوگ اور زمانے گزر گئے، وہ ہنرمند چلے گئے وہ باذوق حکمران لاہور کی زمین میں پیوند زمین ہو گئے۔
کہیں اپنی یادگاروں کے آس پاس باقی رہ گئیں یہ اینٹ اور لکڑی کی یادگاریں جنھیں تاریخ کی دولت سے بے خبر رؤسا زخمی کر رہے ہیں۔ ایک ایسی تاریخ جس کو تعمیر کرنے والے چلے گئے ہیں لیکن اپنی روح افزاء اور دلفریب یادگاریں اپنی یاد دلانے کے لیے چھوڑ گئے۔ ان تاریخی یادگاروں کو لاہور کی سرزمین سے جدا کر دیجیے اور پھر لاہور کے در و دیوار کو ننگا دیکھئے جی چاہے گا کہ راوی زندہ ہوتا اور آپ اس میں ڈوب مرتے۔ زمین کی رونق اس کی تعمیرات سے ہوتی ہے اور دنیا کسی شہر کی دیواروں کو نہیں ان دیواروں سے تعمیر ہونے والی عمارتوں کو دیکھنے آتی ہے جو کسی زمین کا زیور ہوتی ہیں اور اس زمین کو تاریخ دیتی ہیں۔
لاہور میرا شہر نہیں لیکن میں اس شہر کے ذکر پر جذباتی ہو جاتا ہوں۔ شاید اس لیے کہ میں نے اپنے گاؤں کے بعد اگر کسی شہر کا نام سنا تو وہ لاہور تھا جس کے صوفیائے کرام سے میرے بزرگوں کا تعلق تھا اور اس تعلق کی داستانیں ہم تک پہنچا کرتی تھیں۔ لاہور کا ایک بابرکت تعارف یہ داستانیں تھیں اور وہ بزرگ اساتذہ بھی جن کے سامنے میں نے زانوئے تلمذ تہہ کیا تھا اور جنھوں نے مجھے محبت اور شفقت کی نظروں سے دیکھا تھا۔
وہ نظریں جو میری زندگی پر اتنی مہربان رہی ہیں جتنی مہربانی میں برداشت کر سکتا ہوں۔ بالکل ذاتی بات ہے کہ بارش میرے لیے جتنی نعمت ہے جب یہ لاہور پر برستی ہے تو مجھے اتنی ہی خوشی ہوتی ہے جتنی اس کے میرے گاؤں پر برسنے میں ہوتی ہے۔ یوں میرے لیے میرا گاؤں اور لاہور دو جڑواں آبادیاں ہیں۔
ایک نے مجھے اس قابل کیا کہ میں لاہور آ کر یہاں سے فیض حاصل کر سکوں اور دوسرے نے لاہور کی نعمتیں مجھ پر ارزاں کر دیں اور مجھے ہر محرومی سے بے نیاز کر دیا۔ گزشتہ جمعے کی صبح لاہور کے جس حصے میں رہتا ہوں وہاں ہلکی سی رم جھم ہوئی اور میں اس میں خوش ہو گیا۔ ہم عام لوگوں کی خوشیاں بھی چھوٹی چھوٹی ہوتی ہیں۔ اللہ کرے ہمیں یہ نصیب رہیں اور بارش کے چند قطرے ہی ہمارے نصیب لکھے جائیں۔ بعد میں دیکھا اور لطف لیا کہ لاہور میں خوب بارش ہوئی اور قطرے باراں رحمت بن گئے اور یہ کالم ایک موسلادھار بارش پر ختم ہوا۔