مہنگائی و بے روزگاری ایٹم بم اور ہم
حد تو یہ کہ روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ اور وعدہ کرنے والے بھی کب کے زمین اوڑھ کے سوگئے
مملکت خداداد کے معرض وجود میں آنے کے بعد سے لے کر تادم تحریر مجموعی طور پر کتنے حکمران اب تک مسند اقتدار پر براجمان ہوئے اس کی کل تعداد کا تعین سہل نہیں خاصا تفصیل طلب ہے لیکن یہ بات ہمیں اچھی طرح ازبر ہے اور بہت مختصر بھی ہے کہ آج تک پاکستان کے کسی بھی حکمران نے عوام کے مسائل حل کرنے کا کوئی شافی پروگرام عوام تک نہیں پہنچایا۔
حد تو یہ کہ روٹی کپڑا اور مکان دینے کا نعرہ اور وعدہ کرنے والے بھی کب کے زمین اوڑھ کے سوگئے لیکن عوام کو کچھ نہ ملا۔ کسی صاحب اقتدار نے یہ نہیں بتایا کہ مہنگائی، بیروزگاری اور غربت کے بڑھتے ہوئے عفریت کا مقابلہ کیسے کیا جائے گا؟ کسی نے ہم عوام کو یہ سچی تسلی نہیں دی کہ ان کی پریشان حال زندگی میں خوشگوار ہوا کا جھونکا کیسے اور کب آئے گا؟ عام لوگوں کی غربت، حد درجہ مہنگائی، پسماندگی، جہالت، علاج معالجے کے فقدان اور ٹرانسپورٹ کی دشواریوں سے کون مائی کا لال نجات دلائے گا؟ اور وہ نجات دہندہ کب اور کیوں کر وارد ہوگا، وطن عزیز کی سرزمین پر۔۔۔!
کتنے دکھ، افسوس اور کرب کی یہ بات ہے کہ 68 برسوں سے زائد ہوچکے، عوام الناس کے مسائل کے دل خوش کن جھوٹے اعلانات کے سوا ان کی زندگی میں کسی خوشگوار تبدیلی کا کوئی مظہر اب تک سامنے نہیں آسکا، حالانکہ ملک اور ملت کو مجموعی طور پر جن مسائل کا سامنا ہے وہ بھی اس بات کے متقاضی ہیں کہ ان کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی جائے۔
ہمارے ایک قاری پرچون فروش ہیں جن کی کریانے کی دکان ہے، انھوں نے ہمیں ایک روز کہا ''آج عوام مہنگائی اور غربت کی جس چکی میں پس رہے ہیں آپ جیسا درمیانے طبقے کا سفید پوش آدمی بھی اس کا مکمل ادراک نہیں کرسکتا۔ میں ایک دکاندار ہوں، پرچون فروش ہوں، میں جب دیکھتا ہوں کہ گاہک (مرد، عورتیں اور بچے) ایک کلو آٹا، ایک پاؤ چینی، دس روپے کا چائے کا ساشے اور ایک انڈے کی قیمت ریزگاری گن گن کر جس طرح پوری کرتے ہیں تو میرے دل سے بے ساختہ بددعا نکلتی ہے کہ خدایا آسمان سے اپنا عذاب بھیج تاکہ گھٹ گھٹ کر اور سسک سسک کر مرنے والی یہ بے بس مخلوق فوراً اس عذاب سے نجات پاجائے۔''
اس پرچون فروش کے جذبات بلاشبہ شدید ہیں لیکن بلاشبہ یہ ایسا شخص ہے جو دن میں سو دو سو گاہکوں کو سودا بیچتا ہے اور ان کی حالت اپنی آنکھوں سے دیکھتا ہے۔ اس نے اپنے دل کے پھپھولے اور عوام کی ترجمانی جن الفاظوں اور لہجے سے ہم سے کی اسے من و عن تو رقم نہیں کیا جاسکتا لیکن اس کا معنی و مفہوم یہ تھا کہ ساری زندگی اختیار اور اقتدار کے مزے لوٹنے اور قومی خزانے پر جشن طرب منانے والوں کو اگر بروقت تنبیہ نہ کی گئی اور حالات یہی رہے تو ایسی تحریک جنم لے سکتی ہے جو سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔
ایک برطانوی جریدے Lancet کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 45 فیصد افراد نفسیاتی امراض بالخصوص ڈپریشن اور غیر معمولی فکرمندی کا شکار ہیں۔ کیا کسی کو معلوم ہے کہ پاکستان میں ان امراض کے اسباب کیا ہیں اور ان کے علاج کی سہولتوں کا کس قدر فقدان ہے۔ مذکورہ جریدے کی اطلاع کے مطابق پاکستان میں پانچ کروڑ سے زائد افراد نفسیاتی، دماغی اور اعصابی امراض کا شکار ہیں جب کہ معیاری سہولتیں شاید لاکھ دو لاکھ مریضوں کے لیے بھی کافی نہیں ہیں۔ پاکستان کی قریباً نصف آبادی بالخصوص عورتیں اور بچیاں خوراک کی کمی کا شکار ہیں۔ غربت، ڈپریشن اور دوسرے معاشرتی عوامل کا نتیجہ ہے کہ پاکستان میں لاتعداد نوجوان مرد اور ان سے زیادہ نوجوان عورتیں اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا خاتمہ کرلیتے ہیں اور ہمارے ارباب اختیار ہیں کہ وہ معیشت کے استحکام اور مضبوطی اور ترقی پر فخر کرتے نہیں تھکتے۔
قومی معیشت کی بہتری کے حکومتی دعوؤں اور عالمی اداروں کی جانب سے موجودہ اقتصادی پالیسیوں کی تعریف و تحسین کے باوجود خود حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے حوالے سے سامنے آنیوالی یہ معلومات حیرت انگیز اور تشویش ناک ہیں کہ ملک میں بے روزگاری کی شرح پچھلے تیرہ برسوں کے مقابلے میں آج سب سے زیادہ ہے۔ حکومت کے جاری کردہ حالیہ ''لیبر فورس سروے'' برائے سال 2014-15 کی روشنی میں مرتب کردہ انسٹیٹیوٹ فار پالیسی ریفارم کی ایک تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پندرہ سے انیس سال کے دس لاکھ سے زائد مرد نہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں اور نہ کوئی ملازمت کر رہے ہیں جس کی بنا پر ان کے جرائم پیشہ اور شدت پسند تنظیموں کے آلہ کار بن جانے کے امکانات بہت زیادہ ہیں۔
جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے تو اس کی اتھاہ گہرائی کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔ بجٹ سے پہلے بجٹ اور بجٹ کے بعد منی بجٹ کے مظاہر تو عرصہ دراز سے ہم سب کو دیکھنے کو ملتے چلے آرہے ہیں لیکن ابھی حال ہی میں ادویات کی قیمتوں میں 40 سے 70 فیصد تک اضافہ بے چارے عوام کے سر پر مہنگائی کے ایٹم بم سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح کھانے کے تیل اور گھی پر بھی فی کلو 15 روپے کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ بالکل اسی طرح وفاقی وزیر خزانہ نے ریٹائرڈ ملازمین، پنشنرز اور بیواؤں کی ماہانہ اسکیم کی مد میں مزید کمی کردی ہے۔
مذکورہ بالا بے روزگاری، مہنگائی اور زیادتیوں کے اعداد و شمار کے بعد اس قوم کو شاباش ہی دی جاسکتی ہے جو ہر نئے حاکم یا حکمران کو ڈھول پر رقص کرکے خوش آمدید کہتی ہے اور پھر اس کی تذلیل کرکے اسے رخصت کردیتی ہے اور کسی نئے حکمران کے خیر مقدم کی تیاریوں میں لگ جاتی ہے۔ ترس آتا ہے اس قوم پر جو کئی گروہوں میں تقسیم ہوچکی ہے اور ہر گروہ اپنے آپ کو ایک قوم سمجھ رہا ہے اور دوسرے گروہ کو غدار اور وطن دشمنوں جیسے القاب دیے جاتے ہیں۔
دکھ ہوتا ہے اس قوم پر جس کے سب سے زیادہ نکمے لوگ سب سے زیادہ باعزت کہلائیں۔ جس قوم میں کرپشن اور بدعنوانی سے نفرت نہ کی جاتی ہو بلکہ ترقی اور اعلیٰ مقام حاصل کرنے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہو۔ ہم اپنی قومی زندگی کے 68 سال مکمل کرچکے ہیں اور 69 ویں سال میں داخل ہوتے وقت کیا یہ اب بھی نہیں سوچ سکتے کہ ہمارے رویے ایسے کیوں ہیں؟ ہمیں اور کتنا وقت چاہیے کہ ہم ایک ایسی قوم بن سکیں جسے اپنے ان رویوں پر شرمسار نہ ہونا پڑے۔
وائے افسوس جس ملک میں آئین کا بار بار مرڈر کردیا جاتا ہو، ملک دونیم کر دیا جاتا ہو، پتنگ کی ڈور سے گلوٹین کا کام لیا جاتا ہو، مرگ انبوہ پر جشن منایا جاتا ہو، اس معاشرے کے ضمیر پر عوام الناس کی اموات کا کیا اثر ہوگا۔