کیا… زندگی نام ہے مرمر کے جیے جانے کا
کسی سے بھی ملیے اور حال چال پوچھیے تو ہر شخص پریشان اور فرسٹریشن کا شکار ملے گا
کسی سے بھی ملیے اور حال چال پوچھیے تو ہر شخص پریشان اور فرسٹریشن کا شکار ملے گا۔ اسی فرسٹریشن، اداسی اور ایک ناقابل یقین صورتحال سے پاکستان کا ہر شخص دوچار ہے۔ خوشیاں تو جیسے ختم ہو گئی ہیں۔ کوئی ساتھی کے جانے سے ڈپریشن اور مایوسی کا شکار ہے۔ کوئی اولاد اور پوتا پوتی ہونے کے باوجود اکیلا ہے۔ تنہائی کا زہر نس نس میں اتر رہا ہے۔ کوئی بھرے گھر میں اکیلا ہے۔ کوئی بیروزگاری، مہنگائی اور مفلسی کی وجہ سے ڈپریشن کا شکار ہے۔
حساس لوگ جلد اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملک کی جو صورتحال ہے وہ ہر کسی کو مایوسی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ آخر انسان کیونکر ڈپریشن میں مبتلا نہ ہو، دواؤں کی قیمتیں حکمرانوں اور دوائیں بنانیوالی کمپنیوں کی ملی بھگت سے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ علامہ اقبال بھی قوم کی حالت دیکھ کر شدید مایوسی کا شکار ہو گئے تھے۔
عطیہ فیضی کو لکھے گئے ایک خط میں انھوں نے اس کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ قوم کی دگرگوں حالت اور بے حسی دیکھ کر ان کا جی چاہتا ہے کہ وہ جنگل کی طرف نکل جائیں۔ تب عطیہ بیگم نے ان کا حوصلہ بڑھایا تھا اور کہا تھا کہ اگر وہ بھی شدید مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو گئے تو قوم کو اس حالت سے کون نکالے گا۔ اس مثبت مشورے اور انداز فکر نے انھیں نیا حوصلہ دیا اور پھر سب نے دیکھا کہ اقبال کی شاعری نے قوم میں جوش اور ولولہ پیدا کر دیا۔
لیکن آج صورتحال بہت زیادہ گمبھیر ہے۔ ڈپریشن کو بیماری کے طور پر نہیں لیا جا رہا۔ اپنے حالات اور آس پاس کے حالات سے انسان غیر محسوس طریقے سے مایوسی اور ناامیدی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ یہ کیفیت جب بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو انسان مسلسل روتا رہتا ہے، بات بات پہ آنسو نکل پڑتے ہیں۔ یہ صورتحال ان لوگوں کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے جو تنہا ہوتے ہیں۔ پھر یہ کیفیت جب زیادہ شدت اختیار کر لیتی ہے تو انسان خودکشی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
اس کا زندہ رہنے کو جی نہیں چاہتا۔ خاص کر وہ لوگ جو اپنوں کے دیے ہوئے دکھوں کا شکار ہوں۔ خدا جانے لوگ کیوں اور کس طرح کسی کے دل پہ وار کر کے خوش ہوتے ہیں اور اسے اپنی فتح سمجھتے ہیں۔ بس یہی وقت ہوتا ہے جب انسان کو کسی ماہر نفسیات یا اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ ڈپریشن ایک ایسی خطرناک بیماری ہے کہ اس میں معالج اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک مریض تعاون نہ کرے اور اپنے مرض کو مرض نہ سمجھے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ماہر نفسیات، سائیکاٹرسٹ یا کسی ذہنی امراض کے ماہرین سے مدد لینا یا مشورہ کرنا پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ اور یہیں سے اصل خرابی شروع ہوتی ہے۔
لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جب نزلہ، زکام، بخار، ٹی بی، کینسر اور دیگر امراض کے علاج کے لیے طبیب کے پاس جانا ضروری ہے تو ڈپریشن اور ہسٹریا کو سنگین بیماری کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ ہارمون کی خرابی سے ہسٹریا کے دورے پڑتے ہیں۔ انسان کا چہرہ بدل جاتا ہے، وہ چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتا ہے، آواز بدل جاتی ہے، تذکیر و تانیث کا فرق نہیں رہتا اور ہمارے لوگ اسے آسیب یا جنات کی کارستانی سمجھتے ہوئے جعلی عاملوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں، قریبی سسرالی عزیزوں پہ الزام تراشی شروع کر کے پرانے بدلے چکاتے ہیں، لیکن نہ کسی گائناکولوجسٹ سے مشورہ کرتے ہیں نہ ہی کسی اور ڈاکٹر سے۔ نتیجہ یہ کہ بیماری بڑھتی رہتی ہے۔
ڈپریشن آج کے دور کی ایسی بیماری ہے جس سے کوئی محفوظ نہیں۔ اسی لیے ڈپریشن دور کرنے والی دوائیں موجود ہیں۔ مایوسی اور منفی انداز فکر جب موت کی خواہش پیدا کر دے تو ایسے لوگوں کو فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ اب انھیں اچھے معالج کے مشورے سے ایسی دواؤں کا استعمال باقاعدگی سے شروع کر دینا چاہیے جو انھیں خودکشی کی طرف لے جانے والی کیفیت سے باہر نکالنے میں مدد دیں، لیکن ان دواؤں کو مسلسل صرف اتنی ہی مدت کے لیے استعمال کرنا چاہیے جتنا ڈاکٹر کہے۔ اپنی مرضی سے دواؤں کا انتخاب اور اس کی مقدار لینا مناسب نہیں ہے۔
سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ انسان خود اس بات سے آگاہ ہو کہ وہ کس صدمے یا کس وجہ سے ڈپریشن میں جا رہا ہے۔ جب وہ وجہ سامنے آ جائے تو اس کیفیت سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور توجہ کسی دوسری طرف لگا لینی چاہیے، لیکن بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ بعض کرم فرماؤں کی مہربانی کی وجہ سے انسان مسلسل ڈپریشن اور مایوسی کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کسی کی وفات ہو گئی ہے تو تعزیت کے لیے آنیوالے بجائے اس کے کہ تنہا رہ جانے والے کی دل جوئی کریں، اس سے کچھ دوسرے موضوعات پر بات کریں تا کہ وہ اس کرب سے نکلے اور صدمے کو بھولنے میں مدد ملے۔
مسلسل کہانی کو نئے سرے سے سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ کیا ہوا تھا؟ کیا پہلے سے بیمار تھے؟ کتنے دن اسپتال میں رہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ پھر خود تو چند منٹ کے لیے گلے لگ کر رو کر چلے جاتے ہیں کہ رسم دنیا یہی ہے، لیکن جس پر قیامت گزر چکی ہے، اس قیامت خیز دن کی تفصیلات یاد دلا کر مسلسل ''کوما'' میں دھکیل دیتے ہیں۔ تعزیت کرنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ زخموں کے منہ بہت جلد کھل جاتے ہیں لیکن مندمل بڑی مشکل سے ہوتے ہیں۔ جس پر صدمے کی قیامت گزرتی ہے وہ کسی سے کہہ بھی نہیں سکتا کہ آپ ہر بار کہانی دہرانے کی فرمائش نہ کریں کہ یہ بدتہذیبی شمار ہو گی۔
میری ایک عادت یا کمزوری ہے کہ رسمی تعزیت کسی سے نہیں کر سکتی۔ نومبر 2015 میں ایک قریبی دوست کے شوہر کا انتقال ہوا۔ انتقال والے دن کے بعد میں نے مسلسل اس سے فون پہ رابطہ رکھا، لیکن شوہر کی وفات کے سلسلے میں کبھی کوئی بات نہیں کی پھر پندرہ بیس دن بعد ایک اور دوست اور کولیگ کے ہمراہ وہاں پہنچے، لیکن اپنی ساتھی کو منع کر دیا کہ زخموں کو نہ کریدنا پھر ملاقات کے وقت ہم مختلف موضوعات پہ باتیں کرتے رہے۔
خاتون کے بچے، بہو اور بہن بھی موجود تھیں۔ وہ بھی گفتگو میں شامل ہو گئیں، گفتگو ترکی ڈراموں سے لے کر موجودہ ناگفتہ بہ سیاسی حالات تک آ گئی۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے وہ خاتون بھی برابر شریک گفتگو رہیں۔ ہم سب نے چائے پی اور رخصت کی اجازت لی۔ اگلے دن ان خاتون کی بہن اور نند کا فون آیا اور انھوں نے باقاعدہ ہمارا شکریہ ادا کیا۔ وجہ معلوم کی تو بولیں کہ ''کل سے بھابی بہت بہتر ہیں انھوں نے آپ کے جانے کے بعد کپڑوں کی الماری صاف کی، پھر کچھ پکایا بھی اور طبیعت میں بھی بشاشت پائی گئی۔ اور یہ سب اس لیے ہوا کہ واحد آپ لوگ تھے جنھوں نے بھابی کو گلے لگا کر رونا نہیں شروع کیا اور گزرے صدمے کی تفصیلات نہیں سنیں۔''
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو بعض اوقات زبردستی ڈپریشن میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ رسمی تعزیت کرنا لوگ بہت ضروری خیال کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ بار بار کی تکرار اور ایک ہی بات مسلسل دہرانے سے انسان کس اذیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ صدمے کو بھولنا بھی چاہے تو لوگ اسے بھولنے نہیں دیتے۔
لیکن پھر بھی سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ڈپریشن کا مریض اپنے مرض کو سمجھے اور معالج سے ضرور مشورہ کرے۔ اپنی مصروفیات پیدا کیجیے لوگوں سے ملیے جلیے، کتابیں پڑھیے۔ اس بات کی شعوری کوشش کیجیے کہ کسی طرح اس حادثے کو بھول سکیں۔ کوئی اور آپ کو صدمے سے باہر نہیں لا سکتا۔ دنیا تو غموں کا گھر ہے، ہر ایک کا سینہ چھلنی ہے۔ اپنی اپنی صلیب خود ہی اٹھانی ہے اور یہ یاد رکھنا ہے کہ خدا کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
اپنوں کے دیے ہوئے زخم انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں، لیکن زندگی مر مر کے جیے جانے کا نام نہیں ہے۔ جتنے دکھ اور جتنی سانسیں ہم لے کر آئے ہیں انھیں سہنا ہے، لیکن اپنا علاج بھی ڈھونڈنا ہے۔ بس یہ دعا کرتی ہوں کہ خدا انسانوں کو توفیق دے کہ وہ کسی کا کلیجہ اپنے رویوں سے چھلنی نہ کریں۔
حساس لوگ جلد اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ملک کی جو صورتحال ہے وہ ہر کسی کو مایوسی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ آخر انسان کیونکر ڈپریشن میں مبتلا نہ ہو، دواؤں کی قیمتیں حکمرانوں اور دوائیں بنانیوالی کمپنیوں کی ملی بھگت سے مسلسل بڑھ رہی ہیں۔ علامہ اقبال بھی قوم کی حالت دیکھ کر شدید مایوسی کا شکار ہو گئے تھے۔
عطیہ فیضی کو لکھے گئے ایک خط میں انھوں نے اس کیفیت کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا کہ قوم کی دگرگوں حالت اور بے حسی دیکھ کر ان کا جی چاہتا ہے کہ وہ جنگل کی طرف نکل جائیں۔ تب عطیہ بیگم نے ان کا حوصلہ بڑھایا تھا اور کہا تھا کہ اگر وہ بھی شدید مایوسی اور ناامیدی کا شکار ہو گئے تو قوم کو اس حالت سے کون نکالے گا۔ اس مثبت مشورے اور انداز فکر نے انھیں نیا حوصلہ دیا اور پھر سب نے دیکھا کہ اقبال کی شاعری نے قوم میں جوش اور ولولہ پیدا کر دیا۔
لیکن آج صورتحال بہت زیادہ گمبھیر ہے۔ ڈپریشن کو بیماری کے طور پر نہیں لیا جا رہا۔ اپنے حالات اور آس پاس کے حالات سے انسان غیر محسوس طریقے سے مایوسی اور ناامیدی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا ہے۔ یہ کیفیت جب بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے تو انسان مسلسل روتا رہتا ہے، بات بات پہ آنسو نکل پڑتے ہیں۔ یہ صورتحال ان لوگوں کے ساتھ زیادہ ہوتی ہے جو تنہا ہوتے ہیں۔ پھر یہ کیفیت جب زیادہ شدت اختیار کر لیتی ہے تو انسان خودکشی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
اس کا زندہ رہنے کو جی نہیں چاہتا۔ خاص کر وہ لوگ جو اپنوں کے دیے ہوئے دکھوں کا شکار ہوں۔ خدا جانے لوگ کیوں اور کس طرح کسی کے دل پہ وار کر کے خوش ہوتے ہیں اور اسے اپنی فتح سمجھتے ہیں۔ بس یہی وقت ہوتا ہے جب انسان کو کسی ماہر نفسیات یا اپنے ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے، کیونکہ ڈپریشن ایک ایسی خطرناک بیماری ہے کہ اس میں معالج اس وقت تک کچھ نہیں کر سکتا جب تک مریض تعاون نہ کرے اور اپنے مرض کو مرض نہ سمجھے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ماہر نفسیات، سائیکاٹرسٹ یا کسی ذہنی امراض کے ماہرین سے مدد لینا یا مشورہ کرنا پسندیدہ نہیں سمجھا جاتا۔ اور یہیں سے اصل خرابی شروع ہوتی ہے۔
لوگ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ جب نزلہ، زکام، بخار، ٹی بی، کینسر اور دیگر امراض کے علاج کے لیے طبیب کے پاس جانا ضروری ہے تو ڈپریشن اور ہسٹریا کو سنگین بیماری کیوں نہیں سمجھا جاتا۔ ہارمون کی خرابی سے ہسٹریا کے دورے پڑتے ہیں۔ انسان کا چہرہ بدل جاتا ہے، وہ چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکتا ہے، آواز بدل جاتی ہے، تذکیر و تانیث کا فرق نہیں رہتا اور ہمارے لوگ اسے آسیب یا جنات کی کارستانی سمجھتے ہوئے جعلی عاملوں کے پاس پہنچ جاتے ہیں، قریبی سسرالی عزیزوں پہ الزام تراشی شروع کر کے پرانے بدلے چکاتے ہیں، لیکن نہ کسی گائناکولوجسٹ سے مشورہ کرتے ہیں نہ ہی کسی اور ڈاکٹر سے۔ نتیجہ یہ کہ بیماری بڑھتی رہتی ہے۔
ڈپریشن آج کے دور کی ایسی بیماری ہے جس سے کوئی محفوظ نہیں۔ اسی لیے ڈپریشن دور کرنے والی دوائیں موجود ہیں۔ مایوسی اور منفی انداز فکر جب موت کی خواہش پیدا کر دے تو ایسے لوگوں کو فوراً سمجھ لینا چاہیے کہ اب انھیں اچھے معالج کے مشورے سے ایسی دواؤں کا استعمال باقاعدگی سے شروع کر دینا چاہیے جو انھیں خودکشی کی طرف لے جانے والی کیفیت سے باہر نکالنے میں مدد دیں، لیکن ان دواؤں کو مسلسل صرف اتنی ہی مدت کے لیے استعمال کرنا چاہیے جتنا ڈاکٹر کہے۔ اپنی مرضی سے دواؤں کا انتخاب اور اس کی مقدار لینا مناسب نہیں ہے۔
سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ انسان خود اس بات سے آگاہ ہو کہ وہ کس صدمے یا کس وجہ سے ڈپریشن میں جا رہا ہے۔ جب وہ وجہ سامنے آ جائے تو اس کیفیت سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہیے اور توجہ کسی دوسری طرف لگا لینی چاہیے، لیکن بعض اوقات ہوتا یہ ہے کہ بعض کرم فرماؤں کی مہربانی کی وجہ سے انسان مسلسل ڈپریشن اور مایوسی کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ اگر کسی کی وفات ہو گئی ہے تو تعزیت کے لیے آنیوالے بجائے اس کے کہ تنہا رہ جانے والے کی دل جوئی کریں، اس سے کچھ دوسرے موضوعات پر بات کریں تا کہ وہ اس کرب سے نکلے اور صدمے کو بھولنے میں مدد ملے۔
مسلسل کہانی کو نئے سرے سے سنانے کی فرمائش کرتے ہیں۔ کیا ہوا تھا؟ کیا پہلے سے بیمار تھے؟ کتنے دن اسپتال میں رہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ پھر خود تو چند منٹ کے لیے گلے لگ کر رو کر چلے جاتے ہیں کہ رسم دنیا یہی ہے، لیکن جس پر قیامت گزر چکی ہے، اس قیامت خیز دن کی تفصیلات یاد دلا کر مسلسل ''کوما'' میں دھکیل دیتے ہیں۔ تعزیت کرنے والوں کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ زخموں کے منہ بہت جلد کھل جاتے ہیں لیکن مندمل بڑی مشکل سے ہوتے ہیں۔ جس پر صدمے کی قیامت گزرتی ہے وہ کسی سے کہہ بھی نہیں سکتا کہ آپ ہر بار کہانی دہرانے کی فرمائش نہ کریں کہ یہ بدتہذیبی شمار ہو گی۔
میری ایک عادت یا کمزوری ہے کہ رسمی تعزیت کسی سے نہیں کر سکتی۔ نومبر 2015 میں ایک قریبی دوست کے شوہر کا انتقال ہوا۔ انتقال والے دن کے بعد میں نے مسلسل اس سے فون پہ رابطہ رکھا، لیکن شوہر کی وفات کے سلسلے میں کبھی کوئی بات نہیں کی پھر پندرہ بیس دن بعد ایک اور دوست اور کولیگ کے ہمراہ وہاں پہنچے، لیکن اپنی ساتھی کو منع کر دیا کہ زخموں کو نہ کریدنا پھر ملاقات کے وقت ہم مختلف موضوعات پہ باتیں کرتے رہے۔
خاتون کے بچے، بہو اور بہن بھی موجود تھیں۔ وہ بھی گفتگو میں شامل ہو گئیں، گفتگو ترکی ڈراموں سے لے کر موجودہ ناگفتہ بہ سیاسی حالات تک آ گئی۔ تقریباً دو ڈھائی گھنٹے وہ خاتون بھی برابر شریک گفتگو رہیں۔ ہم سب نے چائے پی اور رخصت کی اجازت لی۔ اگلے دن ان خاتون کی بہن اور نند کا فون آیا اور انھوں نے باقاعدہ ہمارا شکریہ ادا کیا۔ وجہ معلوم کی تو بولیں کہ ''کل سے بھابی بہت بہتر ہیں انھوں نے آپ کے جانے کے بعد کپڑوں کی الماری صاف کی، پھر کچھ پکایا بھی اور طبیعت میں بھی بشاشت پائی گئی۔ اور یہ سب اس لیے ہوا کہ واحد آپ لوگ تھے جنھوں نے بھابی کو گلے لگا کر رونا نہیں شروع کیا اور گزرے صدمے کی تفصیلات نہیں سنیں۔''
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو بعض اوقات زبردستی ڈپریشن میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ رسمی تعزیت کرنا لوگ بہت ضروری خیال کرتے ہیں لیکن یہ نہیں سمجھتے کہ بار بار کی تکرار اور ایک ہی بات مسلسل دہرانے سے انسان کس اذیت کا شکار ہو جاتا ہے۔ وہ صدمے کو بھولنا بھی چاہے تو لوگ اسے بھولنے نہیں دیتے۔
لیکن پھر بھی سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ڈپریشن کا مریض اپنے مرض کو سمجھے اور معالج سے ضرور مشورہ کرے۔ اپنی مصروفیات پیدا کیجیے لوگوں سے ملیے جلیے، کتابیں پڑھیے۔ اس بات کی شعوری کوشش کیجیے کہ کسی طرح اس حادثے کو بھول سکیں۔ کوئی اور آپ کو صدمے سے باہر نہیں لا سکتا۔ دنیا تو غموں کا گھر ہے، ہر ایک کا سینہ چھلنی ہے۔ اپنی اپنی صلیب خود ہی اٹھانی ہے اور یہ یاد رکھنا ہے کہ خدا کی ذات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔
اپنوں کے دیے ہوئے زخم انسان کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں، لیکن زندگی مر مر کے جیے جانے کا نام نہیں ہے۔ جتنے دکھ اور جتنی سانسیں ہم لے کر آئے ہیں انھیں سہنا ہے، لیکن اپنا علاج بھی ڈھونڈنا ہے۔ بس یہ دعا کرتی ہوں کہ خدا انسانوں کو توفیق دے کہ وہ کسی کا کلیجہ اپنے رویوں سے چھلنی نہ کریں۔