مستحکم پاکستان مقتدر طبقہ اور ڈسٹ بن

تہمت زدہ افراد اور استعماری قوتیں:معروضی ملکی حالات کے پیش نظر محب وطن دانشوران کرام بہت متفکر ہیں


اللہ رکھیو سومرو February 21, 2016

عقل سے پیدل مفلس ونادار طبقہ: ہمارے روشن وتابناک مستقبل میں مستحکم پاکستان کوتاریخ انسانی کے غیر تحریف شدہ اورناقابل تردید ثبوتوں کی بنیاد پراقوام عالم کے سامنے اپنا نظریاتی ایجنڈا پیش کرنے کے عزم، حوصلے اور تاریخی ورثے کو احسن انداز میں سنبھالے رکھنے کا حق اداکرنے کے لیے عالم انسانیت کوتدبرکے ساتھ تحمل، برداشت، رواداری پر مبنی قابل عمل مساوات کی دعوت عام دیے جانے کے ''عقیدے''پر ہنسنے والے ''تحریف کے مارے''بعض ہم وطن جدیداورترقی پسند مسلمانوں کو مغربی قوتوں کے رائج کردہ نظریات اورنظام تمدن نے دنیا کی کھلی حقیقتوں اورنشانیوں کے باوجود عقل سے پیدل کردیا ہواہے ،جن کی نظر میں مغربی جمہوری روایات کے فروغ ہی میں ہمارے تمام ترمسائل کاحل مضمر ہے۔ ہمارے سیاستداں ، صنعت کار واشرافیہ کے افراد پاکستان میں جاگیردار اور سرمایہ دار طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود پا کستانی سرکاری دستاویزات کے مطابق بہت نادارومفلس ہیں ،جب کہ دبئی اورمغربی ممالک میں یہی حضرات بہت مالدار بنے ہوئے ہیں ۔

تاریخی دستاویزات : مغربی اندز جمہوریت کے نتیجے میں منتخب ہونے والے سیاسی جماعتوں کے افراد پر ریاست کی انتظامی ذمے داریاںعائد ہوتی ہیں، اس لیے پاکستان کا حقیقی درد اور معروضی بھیانک صورتحال کو سمجھنے کے لیے کسی لمبی چوڑی تعاویل گھڑنے کے بجائے ہمیں ان منتخب نمایندوں کی ذہنی وعقلی فہم وفراست اوران کے اپنے حلقہ انتخا ب کے حل طلب بنیادی مسائل میں ان کے کردارکو سامنے رکھنا ہی کافی ہوگا اور اگر ان کے اجتماعی کردارکو سمجھنا ہو تو ثابت شدہ وغیر ثابت شدہ الزامات کی بحث میں پڑے بغیر نیب کے اعدادوشمار پر ہی اکتفاء کیا جائے تو شاید ہمیں اس طبقے کی ریشہ دوانیوں کے باعث معاشرے میں ظاہر ہونے والے خطرناک وبھیانک حقایق کو سمجھنے کے لیے کسی دوسرے دستاویزات کی ضرورت ہی نہ رہے۔

تہمت زدہ افراد اور استعماری قوتیں:معروضی ملکی حالات کے پیش نظر محب وطن دانشوران کرام بہت متفکر ہیں اوروہ ان حا لا ت کوکسی بھی کروٹ خوش آیند قرار نہیں دے رہے ہیں ۔ان کے بقول مقتدر حلقے اپنے کاروباری مفادات کے تحت ریاستی ادا ر ے بیچنے میں مصروف ہیں،کر پشن اور اقربا پروری کا دور دورہ ہے،کھربوںروپے کی بجٹس جاری ہو نے کے باوجود صحت ، تعلیم، پولیس اور بلدیاتی بنیادی سہولیات فراہم کرنے والے اداروں سمیت دیگر سول ریاستی محکمے فعال ہونے کی بجائے ریاست پر بوجھ بنتے چلے جا رہے ہیں۔ہماری قومی آمدنی کم اوراخراجات زیادہ ہیں۔

ملکی خزانے کی اندر ہی اندر لوٹ کھسوٹ ،دہشتگرد اور تخریبی کارروائیوں میں ملوث ملزمان سیاسی آشیرباد کے تحت بیرون واندرون ملک بھی بڑے ٹھاٹ سے نہ صرف آزادگھوم پھررہے ہیں بلکہ ان کے د م پر ریاستی محکموں کی کارکردگی پراثر انداز ہونے والے چھوٹے سے چھوٹے عنصر نے بھی اپنے پر پرزے نکالنے شروع کردیے ہیں۔

آمریت اورجمہوریت کی ٹراں ٹراں:بلاشبہ ہمارے مٹھی بھر مقتدرطبقے نے ملک میں تعمیر وترقی کی بجائے کرپشن اورانتشارکی صورت کو فروغ دینے میں اپنا کردارادا کیا ہے، مینڈک کی طرح جس وقت تک وہ اقتدارکے کنویں میں رہتے ہیںتو ''پانی ''کے ممکنہ خوف سے ان کے'' منہ ''بند رہتے آئے ہیں، لیکن جیسے ہی ان کا ایک پاؤں بھی اگر اپنی خشکی پرآجاتا ہے تو وہ ''آمریت اورجمہوریت کی ٹراں ٹراں'' سے آسمان سر پر اٹھاتے آئے ہیں ، چونکہ کراچی رینجرز آپریشن سے سیاسی جماعتوں میں عسکری ونگز کی موجودگی ثابت کی جا چکی ہے۔ اس لیے یہ عناصر اینٹ سے اینٹ بجانے اور بات کے ''بہت دور ''تک جانے کی بڑ ہانکنے میں دیر نہیں کرتے ۔

استبداد اور انتظام معاشرت: پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے کہ جس کے حالات کو سمجھنے کے لیے ہمیں کسی لائبریری کا رخ نہیں کرنا پڑتا اور نہ ہی کسی دستاویزی ثبوتوں اورسخت ذہنی مشقت کے بعد ماد یت پرست تاریخ کے کسی حوالے کی روشنی میں اس کے مسائل کو حل کرنے کی بیماری کا لاحق ہونا ضروری ہے۔

واللہ خیرالماکرین نے پا کستان اوراس کی تہذیبی تاریخ اوراس کے تابندہ مستقبل کے تسلسل کو کچھ اس طرح سے ترتیب دیا ہوا ہے کہ وہ انتشار پسندعناصرکی ریشہ دوانیوں اور سازشوں کے بچھے مضبوط وگہرے جال کو توڑکر دن بدن اپنی نظریاتی اساس کی جانب بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ہماری صدیوں پر مشتمل نظریاتی تاریخ کی بنیادی تعلیمات تو محلے کی مسجد کے ''ملا ''نے خطبات کی صورت میں پڑھ پڑھ کر ہمیں ازبرکرادی ہیں ۔جن میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ فرعون وقت استبداد کے دم پر حکومت کرنا تو جانتے ہیں لیکن قدرتی آفات اوراپنے اعمال کی شامت کا سامناکرتے ہوئے انتظام معاشرت چلانہیں سکتے ۔

جدیدیت پر مبنی عالمی حالات وتاریخی جبر:اپنے نظریاتی ثابت شدہ پیمانوںکی بجائے علت ومعلول Cause And Effectاور بقا للا صلح ServivalOfTheFittest کے قائل حضرات کو بات سمجھنے کے لیے ارفع کریم رندھاوا (مرحوم ومغفور)کی جانب سے موجودہ ترقی یافتہ جدیدیت کے معروف پیمانوں یعنی کمپیوٹر سائنس اورانفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستانی صلاحیتوں کا لوہا منوالینے کی بہترین مثال کو سامنے رکھنا ہوگاکہ جس سے ہم نے اقوام عالم پر واضح کردیا تھا کہ جدید ترقی یافتہ انسانی گروہوں کی تحقیقاتی تجربہ گاہوں میں اپنے بال سفید کرنے والے بزرگوں سے بھی کہیں زیادہ پاکستانی قوم کے بچے بچے میں وہ صلاحیتیں ہیں ، جوخالق کائنات کی جانب سے فلیعبدورب ھٰذاالبیت کی دعوت پرمبنی تہذیب کی وارثی کی علامت ہے۔

یہ ایک الگ بحث ہے کہ ہمارے ہاں محکمہء تعلیم کے قلمدان سنبھالتے رہنے والوں کی اکثریت تو خود سے ایک سوفٹ ویئر بھی انسٹال نہیں کرسکتی۔اس لیے ہمیں راتوں رات سسٹم کے تبدیل ہوجانے اورجدیدیت کے مادہ پرست پیمانوں میں ڈھل جانے کی نہ تو تشویش لاحق ہونی چاہیے اور نہ ہی ہمیںاس ضمن میں کسی جلد بازی کی ضرورت بھی ہے۔

بلکہ جمہوریت کی نام نہاد انتشاری پر پلنے والے ہمارے مقتدرحلقوں کو اپنے بچاؤکی صورت ڈھونڈنے کی جلدی کرنے کی ضرورت ہے ،کیونکہ عالمی حالات یورپ کی طرح ترقی پذیر ممالک کے نام نہاد مغربی جمہوریت کے دعویداروں کو بھی ڈسٹ بن کے حوالے کرنے کے متقاضی ہوتے جارہے ہیں ، جب کہ تاریخی جبر بھی تو ان کے جیسے کرداروں کو اپنے کچرہ دان میں ہی پھینکتا آیا ہے جہاں ان کے اندرکی گندگی معاشرے میں ان کی جانب سے پھیلائی جانے والی گندگی کے ساتھ یکساں ہوجاتی رہی ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں