تم قتل کرو ہو کہ کرامات
یہ وہ دن تھا جسے نواز شریف صاحب سمیت اُن کا پورا خاندان کبھی نہیں بھول سکتا
یہ وہ دن تھا جسے نواز شریف صاحب سمیت اُن کا پورا خاندان کبھی نہیں بھول سکتا ۔ اُن کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ 13نومبر 1994کا دن قیامت بن کر اُن پر ٹوٹ پڑے گا ۔کراچی کے حالات انتہائی خراب تھے ۔ جب کہ نواز شریف صاحب اور حزب اختلاف نے پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو مشکل وقت دیا ہوا تھا ۔
ایسے میں میاں محمد نواز شریف کے والد اور اتفاق گروپ کے چیئرمین میاں محمد شریف صاحب لاہور میں اپنے دفتری کاموں میں مصروف تھے ۔ ایک دم کمانڈوز نے اُن کے آفس کو گھیرے میں لے لیا ۔ ملازمین کا خیال تھا کہ یہ معمول کی بات ہے۔اس وقت اکثر حکومت تنگ کرنے کے لیے ایسی کارروائی کرتی ہے ۔ لیکن پھر بھی فوری طور پر میاں محمد شریف صاحب کو اندر اطلاع دی گئی ۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ لوگ اندر آنے کی بجائے باہر سے چلے جائیں گے اور اس کارروائی کا مقصد صرف اور صرف خوف پیدا کرنا ہے ۔
لیکن ان لوگوں کے ارادے اس سے آگے کے تھے ۔ کمانڈوز آفس میں داخل ہو گئے ۔ انھوں نے ہر جگہ پر پوزیشن لینا شروع کر دی ۔ اب بھی سب کا گمان یہ تھا کہ یہ لوگ تلاشی لینگے ۔ کچھ کاغذات پر قبضہ کرینگے اور پھر چلے جائینگے ۔ خوف کا عالم تھا ۔ مگر ایک دم وہاں موجود سارا عملہ سکتے میں آگیا جب انھوں نے نواز شریف صاحب کے والد کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی ۔ وہاں موجود لوگ درمیان میں آئے انھیں پیچھے دھکیل دیا گیا ۔
میاں محمد شریف صاحب نے پولیس کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا ۔ ان کی عمر کا خیال کیے بغیر انھیں زبردستی ساتھ لے کر چلے گئے ۔ یہ تمام کارروائی اس قدر تیزی کے ساتھ کی گئی کہ پورا آپریشن 30 منٹ میں مکمل کر لیا گیا ۔ یہ کارروائی لاہور میں ہوئی تھی۔ اور اُس وقت کے وزیر اعلی وٹو صاحب تھے ۔
جس طرح سب کچھ جانتے ہوئے آج کل ہمارے یہاں کے وزراء اعلیٰ بے خبر ہوتے ہیں بالکل اسی طرح وٹو صاحب نے اپنا دامن جھاڑتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے ۔ اور نہ ہی مجھے مقدمات کا معلوم ہے ۔ وٹو صاحب نے البتہ یہ ضرور بتا دیا کہ انھیں ایف آئی اے نے گرفتار کیا ہے ۔ یہ وہ ہی ایف آئی اے جس کا ذکر آج کل پیپلز پارٹی والے بھی کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ وہ صوبائی معاملات میں کود رہی ہے ۔
ویسے حیرت کی بات ہے کہ وفاقی ادارے نے صوبائی ادارے یعنی پولیس کی مدد لی میاں صاحب کو گرفتار کیا اور وزیر اعلیٰ کو معلوم تک نہیں تھا۔ ہاں البتہ وٹو صاحب کو یہ ضرور معلوم تھا کہ نواز شریف صاحب کو گرفتار نہیںکیا جارہا ۔ اسی لیے اُس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر میدان میں آ گئے اوراپنے خیالات سے آگاہ کرتے ہوئے صحافیوں پر یہ انکشاف کیا کہ میاں صاحب کی گرفتاری مکمل ثبوت ملنے کے بعد کی گئی ہے ۔ جس کی شکایت انکم ٹیکس آفیسر نے کی تھی ۔ بابر صاحب کہتے ہوئے رکتے کبھی نہیں تھے اس لیے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ کہہ دیا کہ نواز شریف اور اُن کے بھائیوں کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے پر غور کیا جارہا ہے ۔
نواز شریف صاحب نے کہا کہ حکومت ذاتی مخاصمت پر اتر آئی ہے ۔ 16 نومبر کو سیاست دانوں ، صنعت کاروں اور مسلم لیگ کے کارکنوں نے لاہور کی سڑکوں پر مظاہرے کیے ۔ لکشمی چوک پر پولیس اور مسلم لیگ کے کارکنوں کا آمنا سامنا ہوا ۔ جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے، خواتین سمیت درجنوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ۔
اُسی دن اخبارات میں اراکین ِ اتفاق کمپنیز کی طرف سے ایک بڑا اشتہار چھپوایا گیا ۔ جس میں لکھا گیا تھا کہ اس گرفتاری کی وجہ یہ ہے کہ اتفاق کی کمپنیاں سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کے ٹیکس اور ڈیوٹی دیتی ہیں۔ صرف اتفاق خاندان 8کروڑ روپے کا ٹیکس دیتا ہے بس اس جرم میں میاں شریف صاحب کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد اچانک اسی رات کو میاں صاحب کو پیرول پر رہا کر کے اسلام آباد سے لاہور منتقل کر دیا گیا ۔ اب آئیے کہانی کی دوسری طرف ۔
میاں صاحب کی گرفتاری 13 نومبر کو ہوئی اور 14نومبر کو نئے پارلیمانی سال کے شروع ہونے پر اُس وقت کے صدر فاروق لغاری کو پارلیمنٹ سے خطاب کرنا تھا ۔ تاریخ کی بدترین ہنگامہ آرائی اُس دن دیکھی گئی۔ گالم گلوچ ، ہاتھا پائی اور حملے کیے گئے۔ صدر کے گرد اہلکاروں کا ہجوم تھا جس نے اپوزیشن کو روکا ہوا تھا ۔
مگر پھر بھی تہمینہ دولتانہ صاحبہ صدر کی طرف لپکی اور اپنا دوپٹہ اتار کر اُن کی طرف پھینک دیا ۔ بے نظیر بھٹو کے گرد زنانہ پولیس کا عملہ حصار بنا کر کھڑا تھا ۔ اراکین اسمبلی نے ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیا ۔ حیرت انگیز بات یہ تھی اپوزیشن کے ایک رکن نے سب کے سامنے حکومتی رکن کو تھپڑ مار دیے ۔ مگر تماشہ یہ تھا کہ مسلم لیگ کے ساتھ اپوزیشن اتحاد میں ANP ، جماعت اسلامی ، JUI(F) وغیرہ بھی تھی ۔ سوائے مسلم لیگ کے تمام جماعتوں کے لوگ خاموشی سے بیٹھے رہے ۔ یعنی عین موقعہ پر اپوزیشن بکھری ہوئی نظر آئی ۔
اب آئیے اصل سوالات پر ۔ وہ کون لوگ تھے جنھوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ میاں نواز شریف صاحب کے والد کو گرفتار کر لیا جائے ۔ وہ کون سے ذہین لوگ تھے جنھوں نے یہ بتایا کہ اسمبلی کے اجلاس سے ایک دن پہلے اس گرفتاری کا ''فائدہ '' ہو گا۔ میں اپنی طرف سے یہ بات تھوڑی تھوڑی جانتا ہوں کہ کس طرح مسلم لیگ پارلیمنٹ میں اکیلی رہ گئی تھی ۔ اب آپ غور کیجیے کہ ایسے کئی حکومتی فیصلے اُس زمانے میں ہوئے جو سیاسی پختگی کا اظہار نہیں کر رہے تھے ۔
مگر کیا وہ لوگ اور چہرے اپنے عمل سے بدل گئے ہیں ؟ نہیں بلکہ میں اُس عقل مند شخص کو داد دینا چاہتا ہوں جو بنتے ہوئے معاملات کو بگاڑ دینے کا ہنر جانتا ہے ۔ اور وہ اس سفاکی سے کارروائی کرتا ہے کہ اکثر دل خود سے کہہ بیٹھتا ہے کہ'' تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو'' ۔کبھی رک کر دو منٹ کے لیے سوچا ہے؟ کہ وہ کون سی طاقت ہوتی ہے جو اچھے خاصے انسان سے اس کے سوچنے کی صلاحیت ختم کر دیتی ہے ۔ جن پر تکیہ ہوتا ہے وہ ہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔کچھ لوگوں کو کیسے بھنک مل جاتی ہے کہ اب وقت آچکا ہے کہ اپنی چال چل لی جائے ۔
میں تو چھوٹا سا آدمی ہوں، یہ بڑے بڑے کیوں اس وقت سوچ رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب کے نیب سے متعلق بیان کے فوری بعد سیف الرحمان صاحب ایک دم کیسے نمودار ہوگئے ۔ جس بات کا الزام لینے کے لیے مسلم لیگ (ن) تیار نہیں تھی۔ اُس کو اپنے سر لینے کے لیے یہ صاحب کیوں آگئے۔ یہ آمد حکومت کے لیے رحمت ہو گی یا پھر زحمت میں اضافہ کرے گی یا پھر یہ ایک بیلنس کرنے کا بھونڈا طریقہ ہے ۔ نیب پر وزیر اعظم کے بیان کے بعد دونوں جماعتوں کی قربت ایک بار پھر خطرے میں کون ڈال رہا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کو سمجھتے ہیں اور یہ وہ ہی عمل نام بدل کر کر رہے ہیں جو 90 کی دہائی میں کیا تھا ۔ ذہن وہ ہی ہے ۔ بس طریقے مختلف ہیں۔ اس لیے سب ہوشیار ہو جائیں ۔ ابھی ہوا تیز چلے گی۔
ایسے میں میاں محمد نواز شریف کے والد اور اتفاق گروپ کے چیئرمین میاں محمد شریف صاحب لاہور میں اپنے دفتری کاموں میں مصروف تھے ۔ ایک دم کمانڈوز نے اُن کے آفس کو گھیرے میں لے لیا ۔ ملازمین کا خیال تھا کہ یہ معمول کی بات ہے۔اس وقت اکثر حکومت تنگ کرنے کے لیے ایسی کارروائی کرتی ہے ۔ لیکن پھر بھی فوری طور پر میاں محمد شریف صاحب کو اندر اطلاع دی گئی ۔ اُن کا خیال تھا کہ یہ لوگ اندر آنے کی بجائے باہر سے چلے جائیں گے اور اس کارروائی کا مقصد صرف اور صرف خوف پیدا کرنا ہے ۔
لیکن ان لوگوں کے ارادے اس سے آگے کے تھے ۔ کمانڈوز آفس میں داخل ہو گئے ۔ انھوں نے ہر جگہ پر پوزیشن لینا شروع کر دی ۔ اب بھی سب کا گمان یہ تھا کہ یہ لوگ تلاشی لینگے ۔ کچھ کاغذات پر قبضہ کرینگے اور پھر چلے جائینگے ۔ خوف کا عالم تھا ۔ مگر ایک دم وہاں موجود سارا عملہ سکتے میں آگیا جب انھوں نے نواز شریف صاحب کے والد کو اپنے ساتھ لے جانے کی کوشش کی ۔ وہاں موجود لوگ درمیان میں آئے انھیں پیچھے دھکیل دیا گیا ۔
میاں محمد شریف صاحب نے پولیس کے ساتھ چلنے سے انکار کر دیا ۔ ان کی عمر کا خیال کیے بغیر انھیں زبردستی ساتھ لے کر چلے گئے ۔ یہ تمام کارروائی اس قدر تیزی کے ساتھ کی گئی کہ پورا آپریشن 30 منٹ میں مکمل کر لیا گیا ۔ یہ کارروائی لاہور میں ہوئی تھی۔ اور اُس وقت کے وزیر اعلی وٹو صاحب تھے ۔
جس طرح سب کچھ جانتے ہوئے آج کل ہمارے یہاں کے وزراء اعلیٰ بے خبر ہوتے ہیں بالکل اسی طرح وٹو صاحب نے اپنا دامن جھاڑتے ہوئے کہا کہ مجھے نہیں معلوم کہ انھیں کیوں گرفتار کیا گیا ہے ۔ اور نہ ہی مجھے مقدمات کا معلوم ہے ۔ وٹو صاحب نے البتہ یہ ضرور بتا دیا کہ انھیں ایف آئی اے نے گرفتار کیا ہے ۔ یہ وہ ہی ایف آئی اے جس کا ذکر آج کل پیپلز پارٹی والے بھی کرتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ وہ صوبائی معاملات میں کود رہی ہے ۔
ویسے حیرت کی بات ہے کہ وفاقی ادارے نے صوبائی ادارے یعنی پولیس کی مدد لی میاں صاحب کو گرفتار کیا اور وزیر اعلیٰ کو معلوم تک نہیں تھا۔ ہاں البتہ وٹو صاحب کو یہ ضرور معلوم تھا کہ نواز شریف صاحب کو گرفتار نہیںکیا جارہا ۔ اسی لیے اُس وقت کے وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر میدان میں آ گئے اوراپنے خیالات سے آگاہ کرتے ہوئے صحافیوں پر یہ انکشاف کیا کہ میاں صاحب کی گرفتاری مکمل ثبوت ملنے کے بعد کی گئی ہے ۔ جس کی شکایت انکم ٹیکس آفیسر نے کی تھی ۔ بابر صاحب کہتے ہوئے رکتے کبھی نہیں تھے اس لیے ساتھ ساتھ انھوں نے یہ کہہ دیا کہ نواز شریف اور اُن کے بھائیوں کے خلاف بھی ریفرنس دائر کرنے پر غور کیا جارہا ہے ۔
نواز شریف صاحب نے کہا کہ حکومت ذاتی مخاصمت پر اتر آئی ہے ۔ 16 نومبر کو سیاست دانوں ، صنعت کاروں اور مسلم لیگ کے کارکنوں نے لاہور کی سڑکوں پر مظاہرے کیے ۔ لکشمی چوک پر پولیس اور مسلم لیگ کے کارکنوں کا آمنا سامنا ہوا ۔ جس میں کئی لوگ زخمی ہوئے، خواتین سمیت درجنوں لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا ۔
اُسی دن اخبارات میں اراکین ِ اتفاق کمپنیز کی طرف سے ایک بڑا اشتہار چھپوایا گیا ۔ جس میں لکھا گیا تھا کہ اس گرفتاری کی وجہ یہ ہے کہ اتفاق کی کمپنیاں سالانہ ڈیڑھ ارب روپے کے ٹیکس اور ڈیوٹی دیتی ہیں۔ صرف اتفاق خاندان 8کروڑ روپے کا ٹیکس دیتا ہے بس اس جرم میں میاں شریف صاحب کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ اتنا سب کچھ ہونے کے بعد اچانک اسی رات کو میاں صاحب کو پیرول پر رہا کر کے اسلام آباد سے لاہور منتقل کر دیا گیا ۔ اب آئیے کہانی کی دوسری طرف ۔
میاں صاحب کی گرفتاری 13 نومبر کو ہوئی اور 14نومبر کو نئے پارلیمانی سال کے شروع ہونے پر اُس وقت کے صدر فاروق لغاری کو پارلیمنٹ سے خطاب کرنا تھا ۔ تاریخ کی بدترین ہنگامہ آرائی اُس دن دیکھی گئی۔ گالم گلوچ ، ہاتھا پائی اور حملے کیے گئے۔ صدر کے گرد اہلکاروں کا ہجوم تھا جس نے اپوزیشن کو روکا ہوا تھا ۔
مگر پھر بھی تہمینہ دولتانہ صاحبہ صدر کی طرف لپکی اور اپنا دوپٹہ اتار کر اُن کی طرف پھینک دیا ۔ بے نظیر بھٹو کے گرد زنانہ پولیس کا عملہ حصار بنا کر کھڑا تھا ۔ اراکین اسمبلی نے ایک دوسرے کو مارنا شروع کر دیا ۔ حیرت انگیز بات یہ تھی اپوزیشن کے ایک رکن نے سب کے سامنے حکومتی رکن کو تھپڑ مار دیے ۔ مگر تماشہ یہ تھا کہ مسلم لیگ کے ساتھ اپوزیشن اتحاد میں ANP ، جماعت اسلامی ، JUI(F) وغیرہ بھی تھی ۔ سوائے مسلم لیگ کے تمام جماعتوں کے لوگ خاموشی سے بیٹھے رہے ۔ یعنی عین موقعہ پر اپوزیشن بکھری ہوئی نظر آئی ۔
اب آئیے اصل سوالات پر ۔ وہ کون لوگ تھے جنھوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت کو یہ مشورہ دیا کہ میاں نواز شریف صاحب کے والد کو گرفتار کر لیا جائے ۔ وہ کون سے ذہین لوگ تھے جنھوں نے یہ بتایا کہ اسمبلی کے اجلاس سے ایک دن پہلے اس گرفتاری کا ''فائدہ '' ہو گا۔ میں اپنی طرف سے یہ بات تھوڑی تھوڑی جانتا ہوں کہ کس طرح مسلم لیگ پارلیمنٹ میں اکیلی رہ گئی تھی ۔ اب آپ غور کیجیے کہ ایسے کئی حکومتی فیصلے اُس زمانے میں ہوئے جو سیاسی پختگی کا اظہار نہیں کر رہے تھے ۔
مگر کیا وہ لوگ اور چہرے اپنے عمل سے بدل گئے ہیں ؟ نہیں بلکہ میں اُس عقل مند شخص کو داد دینا چاہتا ہوں جو بنتے ہوئے معاملات کو بگاڑ دینے کا ہنر جانتا ہے ۔ اور وہ اس سفاکی سے کارروائی کرتا ہے کہ اکثر دل خود سے کہہ بیٹھتا ہے کہ'' تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو'' ۔کبھی رک کر دو منٹ کے لیے سوچا ہے؟ کہ وہ کون سی طاقت ہوتی ہے جو اچھے خاصے انسان سے اس کے سوچنے کی صلاحیت ختم کر دیتی ہے ۔ جن پر تکیہ ہوتا ہے وہ ہی پتے ہوا دینے لگتے ہیں۔کچھ لوگوں کو کیسے بھنک مل جاتی ہے کہ اب وقت آچکا ہے کہ اپنی چال چل لی جائے ۔
میں تو چھوٹا سا آدمی ہوں، یہ بڑے بڑے کیوں اس وقت سوچ رہے ہیں کہ نواز شریف صاحب کے نیب سے متعلق بیان کے فوری بعد سیف الرحمان صاحب ایک دم کیسے نمودار ہوگئے ۔ جس بات کا الزام لینے کے لیے مسلم لیگ (ن) تیار نہیں تھی۔ اُس کو اپنے سر لینے کے لیے یہ صاحب کیوں آگئے۔ یہ آمد حکومت کے لیے رحمت ہو گی یا پھر زحمت میں اضافہ کرے گی یا پھر یہ ایک بیلنس کرنے کا بھونڈا طریقہ ہے ۔ نیب پر وزیر اعظم کے بیان کے بعد دونوں جماعتوں کی قربت ایک بار پھر خطرے میں کون ڈال رہا ہے؟ یہ کون لوگ ہیں جو تقسیم کرو اور حکومت کرو کی پالیسی کو سمجھتے ہیں اور یہ وہ ہی عمل نام بدل کر کر رہے ہیں جو 90 کی دہائی میں کیا تھا ۔ ذہن وہ ہی ہے ۔ بس طریقے مختلف ہیں۔ اس لیے سب ہوشیار ہو جائیں ۔ ابھی ہوا تیز چلے گی۔