جرأت مند اور ذہین بچے

جنہوں نے خود کو اغوا کرنے والوں سے آزاد کرالیا


Mirza Zafar Baig February 21, 2016
جنہوں نے خود کو اغوا کرنے والوں سے آزاد کرالیا ۔ فوٹو : فائل

PESHAWAR: بچوں کو اغوا کرنا اور ان کے بدلے میں تاوان طلب کرنا یا انہیں اغوا کرنے کے بعد دوسرے مذموم مقاصد حاصل کرنا ایک ایسا قبیح فعل ہے جس کی ہر معاشرے میں مذمت کی جاتی ہے۔

عام طور سے ایسی صورت حال میں بچے بہت زیادہ گھبرا جاتے ہیں جس کا فائدہ انہیں اغوا کرنے والے اٹھاتے ہیں اور اپنے مطالبات پورے کرالیتے ہیں۔ ان حالات میں گھبرانا یا پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ذیل میں چند ایسے سچے واقعات پیش کررہے ہیں جن میں کچھ بچے اغوا کیے گئے، مگر وہ ان مشکل اور خوف ناک حالات میں ذرا بھی نہ گھبرائے، بل کہ انہوں نے اپنے حواس قابو میں رکھے اور بڑی بہادری سے ان حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے خود کو اپنے اغوا کاروں سے نہایت آسانی سے آزاد کرالیا۔

٭ ''یوای'' نے کیا کیا تھا؟
یہ واقعہ 24ستمبر2015ء کا ہے۔ اس روز چین کے علاقے ڈیانگ کی گلیوں سے دو آدمیوں نے ایک 13سالہ بچے ''یوای'' کو اغوا کرلیا۔ پھر وہ دونوں اس لڑکے کو ایک سنسان اور غیرآباد گھر میں لے گئے جہاں انہوں پہلے تو اس کے ہاتھ اور پیر رسیوں سے باندھ دیے۔ اس کے بعد اس کے سر پر پلاسٹک کا ایک بیگ چڑھادیا، مگر اس میں ''یوای'' کے منہ کے قریب ایک سوراخ بھی کردیا، تاکہ وہ آسانی سے سانس لے سکے۔

ان سب حالات میں بھی ''یوای'' نہ پریشان ہوا اور نہ گھبرایا، اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ہر طرح کے حالات میں خود کو پرسکون رکھے گا اور اغوا کرنے والوں کی ہر ہدایت پر عمل کرے گا، کیوں کہ اس کے سوا اس کے پاس کوئی دوسرا راستہ بھی تو نہیں تھا۔ پھر اس نے محسوس کیا کہ اغوا کرنے والوں نے اسے ایک کمرے کے فرش پر ڈال دیا ہے۔ ''یوای'' بڑی خاموشی اور سکون سے وہیں پڑا رہا۔ اس نے منہ سے چوں کی آواز بھی نہ نکالی۔

اس کی پوری توجہ اغوا کرنے والوں کے قدموں کی آوازوں پر تھی۔ پہلے تو وہ کمرے میں ادھر ادھر گھومتے رہے، پھر ''یوای'' نے ان کے باہر جاتے قدموں کی آوازیں سنیں تو جلدی سے اپنے قدموں پر کھڑا ہوگیا۔ حالاں کہ اس کے ہاتھ اور پیر بندھے ہوئے تھے، پھر بھی اس نے اچھل اچھل کر چلنا شروع کیا اور کسی نہ کسی طرح اس جگہ سے باہر جانے کا راستہ ڈھونڈ ہی لیا۔ جس وقت ''یوای'' عمارت سے باہر نکلا تو اسے سامنے سے ایک کار جاتی دکھائی دی۔ کار والے نے جب ایک لڑکے کو اس حال میں دیکھا کہ اس کے سر پر پلاسٹک کا بیگ چڑھا ہوا تھا تو اس نے گاڑی روکی اور پولیس کو فون کردیا۔ کچھ ہی دیر میں پولیس وہاں پہنچ گئی۔

٭پھر باربرا نے حملہ کردیا:
یہ واقعہ 16اگست 1978 کا ہے۔ برمنگھم میں باربرا این اسٹیورٹ نامی ایک نو سالہ بچی اپنے بھائی کے ساتھ پیدل اپنے گھر جارہی تھی کہ اس نے ایک نوجوان کو دیکھا جو سڑک کے کنارے اس طرح کھڑا تھا کہ اس نے اپنی گاڑی کی ڈکی کھول رکھی تھی۔ جیسے ہی یہ دونوں بچے اس آدمی کے قریب پہنچے تو اس نے جھپٹ کر باربرا این اسٹیورٹ کو دبوچ لیا۔ باربرا نے اس موقع پر بڑی حاضر دماغی سے کام لیا۔

اس نے چیخ کر اپنے بھائی کو وہاں سے بھاگ جانے کو کہا،تو وہ فوراً بھاگنے لگا اور ذرا سی دیر میں دور چلا گیا۔ کار والا باربرا پر چیخنے لگا۔ پھر اس آدمی نے باربرا کو زبردستی اپنی کار کی ڈکی میں ٹھونسا، گاڑی اسٹارٹ کی اور وہاں سے روانہ ہوگیا۔ تھوڑی دور جاکر باربرا کو اغوا کرنے والے نے کار روکی اور اتر کر ڈکی کھولی تو باربرا نے اس پر اس اوزار سے حملہ کردیا جو اسے ڈکی میں پڑا مل گیا تھا۔

پھر وہ ڈگی سے نکلی اور سڑک کے کنارے لگی ہوئی جھاڑیوں کی آڑ میں بھاگنے لگی۔ کچھ ہی فاصلے پر اسے چند پولیس افسر مل گئے جو اسی کی تلاش میں تھے۔ دراصل باربرا کے بھائی نے گھر پہنچ کر اپنے والدین کو سب بتادیا تھا اور انہوں نے 911 (ایمرجینسی نمبر) پر فون کرکے پولیس کو مطلع کردیا تھا۔ پولیس پہلے ہی سے اغوا کرنے والے کی گھات میں تھی، چناں چہ سامنے آتے ہی وہ پکڑا گیا۔

٭بنجمن بروک وے کی ذہانت:
یہ واقعہ 8جون1994کا ہے اور امریکی ریاست اوہایو کی اوٹاوہ کی پہاڑیوں میں ٹولیڈو نامی مضافاتی علاقے میں پیش آیا تھا۔
اس دن بارہ سالہ بنجمن بروک وے اپنی بائیک پر اوٹاوہ کی پہاڑیوں میں سفر کررہا تھا کہ اس کی بائیک میں کوئی مسئلہ ہوگیا۔ اسی دوران اس کے قریب ایک پک اپ ٹرک آکر رکا جس میں ایک آدمی اور ایک نوعمر لڑکا سوار تھے۔

اس نوعمر لڑکے نے بنجمن بروک وے سے کچھ کہا، پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کے بڑی عمر کے ساتھی نے بنجمن کو دبوچا اور پک اپ میں ڈال دیا۔ کچھ دور جانے کے بعد اغوا کرنے والوں نے سوچا کہ بنجمن بروک وے کو چھوڑ دیا جائے، مگر جب انہیں ایک پولیس کار آتی دکھائی دی تو انہوں نے بنجمن کو چھوڑنے کا ارادہ ملتوی کیا اور اپنا پک اپ ٹرک شمال مغرب کی طرف موڑ دیا، جہاں انہوں نے چند روز پہلے ایک موٹل میں کمرہ بک کرالیا تھا۔ راستے میں بنجمن بروک وے نے ان سے کہا کہ میری فیملی تم لوگوں کو تاوان ادا کردے گی۔

چناں چہ انہوں نے فوری طور پر اس کے والدین کو فون کیا اور پچاس ہزار ڈالر کا مطالبہ کرڈالا۔ تاہم لگ بھگ بیس گھنٹے بعد انہوں نے بنجمن کو قریبی علاقے میں اتار دیا اور کوئی تاوان بھی وصول نہیں کیا۔ آزاد ہوتے ہی بنجمن سیدھا اپنے گھر بھاگا اور پولیس سے رابطہ کیا۔ جب تک وہ اغوا کرنے والوں کے ساتھ رہا، نہ وہ گھبرایا اور نہ چیخا چلایا، بل کہ پرسکون رہا اور ان لوگوں کی حرکات و سکنات کو سمجھتا رہا۔ حالاں کہ انہوں نے اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی تھی، پھر بھی اس نے اس کی جِھریوں سے بہت کچھ دیکھ لیا تھا، اسی لیے اس نے پولیس کو سب کچھ بتادیا کہ وہ لوگ کہاں کہاں گئے اور کہاں کہاں سے گزرے تھے۔

اس نے موٹل کے کمرے کا پورا لے آؤٹ بھی پولیس کو بتادیا تھا۔
اس نے پولیس کو یہ تک بتادیا تھا کہ اسے اغوا کرنے والوں نے فاسٹ فوڈ کہاں سے لیا تھا اور ان کے ریپرز پر کیا چَھپا ہوا تھا۔

اسے یہ بھی یاد تھا کہ اغوا کرنے والوں کی ایک کار میں بچے کی سیٹ پر مینوفیکچرنگ کی کیا تاریخ چھپی ہوئی تھی۔

ان تمام معلومات اور شواہد کی روشنی میں پولیس نے 24سالہ ایڈوراڈو اور 16سالہ آرٹورو کو گرفتار کرلیا۔ جب ایڈوراڈو نے پولیس کو یہ بتایا کہ اس سب کے پیچھے اس کے کم عمر ساتھی آرٹورو کا ہاتھ تھا، کیوں کہ وہی اس کا ماسٹر مائنڈ تھا تو پولیس بھی حیران رہ گئی۔ چناں چہ ایڈروراڈو کو آٹھ سے پچیس سال قید کی سزا ہوئی اور آرٹورو کو کم عمر ہونے کی وجہ سے صرف دو سال کی سزا ہوئی۔

٭ربیکا سواریس کی حاضر دماغی:
یہ 7جنوری1994ء کا واقعہ ہے جب بارہ سالہ ربیکا سواریس اسکول جارہی تھی کہ ایک مسلح آدمی اس کے پاس پہنچا اور اپنا پستول اس کے پہلو سے لگادیا۔ ربیکا نے اس موقع پر کسی گھبراہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا، بل کہ خود کو قابو میں رکھا اور مسلح شخص کی ہدایات پر عمل کرتی رہی۔ مسلح شخص اسے اپنے ٹرک کے پاس لے جارہا تھا تو راستے میں ربیکا نے یہ ظاہر کیا جیسے وہ سانس نہیں لے پارہی ہے۔ بچی کی یہ حالت دیکھ کر اغواکنندہ گھبرایا گیا اور اس نے بچی کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

یہ موقع اس کے لیے کافی تھا اور وہ وہاں سے بھاگ نکلی۔ یہ دیکھ کر مسلح شخص خوف زدہ ہوگیا۔ وہ ربیکا کو چھوڑ کر اپنے ٹرک میں سوار ہوا اور اسے آندھی طوفان کی طرح دوڑانے لگا۔ لیکن اس دوران دو افراد نے اس کی نمبر پلیٹ پر درج نمبر دیکھ لیے تھے جس کی وجہ سے پولیس نے 43 سالہ لوئی لینٹ جونیر کو گرفتار کرلیا۔ اس نے نہ صرف ربیکا کو اغوا کرنے کی کوشش کی تھی، بل کہ وہ بارہ سالہ جمی برنارڈو کے قتل میں بھی پولیس کو مطلوب تھا جسے اس نے 1990میں قتل کیا تھا۔ چناں اسے عمر قید کی سزا سنائی گئی۔

٭ کیلسٹا کورڈووا عین موقع پر حرکت میں آئی:
یہ واقعہ 19جنوری2012کو کولوراڈو اسپرنگ ہومز میں پیش آیا۔ نو سالہ کیلسٹا کورڈووا نامی لڑکی عام طور سے اسکول سے چھٹی کے بعد سیدھی گھر آتی تھی، لیکن اس روز جب وہ اپنے مقررہ وقت پر گھر نہیں پہنچی تو اس کی فیملی کو تشویش ہوئی اور وہ لوگ سمجھ گئے کہ کوئی نہ کوئی گڑبڑ ضرور ہے۔ واقعی اس کے ساتھ گڑبڑ ہوئی تھی۔

اصل میں کیلسٹا کو 29سالہ جوز گارشیا نے سڑک سے اس وقت اغوا کرلیا تھا جب وہ گھر واپس آرہی تھی۔ جوز گارشیا کافی دیر سے اس کا پیچھا کررہا تھا۔ جب کیلسٹا نے یہ دیکھا تو بھاگنے کی کوشش کی، مگر عین موقع پر جوز نے اسے دبوچ کر اپنی کار میں پھینک دیا۔ پہلے تو کیلسٹا نے بہت ہاتھ پیر چلائے، مگر جب اس کی مدافعت دم توڑ گئی تو جوز گارشیا نے تیسری کلاس میں پڑھنے والی اس لڑکی کا پہلے گلا دبوچا اور پھر اس کے منہ پر مسلسل تھپڑ مارنے شروع کردیے۔

وہ ظالم انسان صبح کا سورج طلوع ہونے تک اسے اپنی کار میں گھماتا رہا۔ لیکن اتفاق سے اسی دوران اس کی کار کو حادثہ پیش آگیا۔ وہ تو کسی راہ گیر نے جوز اور کیلسٹا کی کار کو سڑک کے ایک طرف کھڑے دیکھ لیا اور پھر دونوں کو قریبی مارکیٹ تک پہنچادیا۔ جب وہ اسٹور پہنچے تو کیلسٹا حرکت میں آئی، وہ اٹھی اور اس نے اسٹور کے اندر کی طرف دوڑ لگادی۔ اندر پہنچنے کے بعد اس نے وہاں اپنے انکل کو فون کرنے کی اجازت طلب کی۔

اجازت تو مل گئی مگر کیلسٹا نے کسی انکل کو فون کرنے کے بجائے 911 پر فون کردیا۔ جب جوز گارشیا اسے لینے اسٹور کے اندر پہنچا تو اس نے نہ صرف اس کے ساتھ جانے سے انکار کردیا بلکہ زور زور سے چیخنے بھی لگی۔ جب پولیس اسٹور پر پہنچی تو اسے دیکھتے ہی جوز گارشیا وہاں سے بھاگ نکلا، لیکن پولیس اس کے پیچھے تھی اور آخرکار اسٹور سے کوئی 12کلومیٹر دور انہوں نے اسے ایک بس اسٹاپ سے گرفتار کرلیا گیا۔ تب معلوم ہوا کہ وہ ایک ذہنی اور نفسیاتی مریض تھا جس نے اسی روز اپنی سوتیلی بیٹی کو اپنی وحشت کا نشانہ بنایا تھا۔ کیلسٹا کو اسپتال لے جایا گیا اور تھوڑی دیر بعد اسے چھوڑ دیا گیا۔ جوز گارشیا کو اس جرم کی پاداش میں تیس سال قید کی سزا سنائی گئی۔

٭جینیٹ تمایو نے خود کو پرسکون رکھا:
یہ واقعہ 6جون2003 کی سہ پہر کو پیش آیا جب نو سالہ جینیٹ تمایو اپنے اسکول سے گھر پہنچی تو اس نے اپنے گھر کے اندر ایک اجنبی کو پایا۔ اس اجنبی نے لگ بھگ آدھا گھنٹہ جینیٹ کے ساتھ اس گھر میں تنہا گزارا۔ پھر وہ اپنی کار گیراج میں لے آیا اور اندر عقبی حصے میں چلا گیا۔ جب جینیٹ کی ممی اور اس کا پندرہ سالہ بھائی گھر پہنچے تو اس آدمی نے ان پر حملہ کردیا اور پھر جینیٹ کو گیراج میں لے گیا جہاں اس کی کار کھڑی تھی۔

کار کے اندر اس نے جینیٹ کے ہاتھ باندھے اور اسے ایک بکس میں قید کردیا جو پہلے سے پچھلی سیٹ پر رکھا تھا۔ وہ آدمی جینیٹ کو لے کر ایک گھر میں پہنچا جہاں اس نے دوسری منزل پر واقع بیڈروم میں اس کے ہاتھ پھر باندھ دیے۔ اس کے بعد اگلے دو روز تک جینیٹ اس اجنبی کے قبضے میں رہی۔ اسے مار ڈالنے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔

اس کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اسے پوری امید تھی کہ وہ یہاں سے زندہ بچ نکلنے میں ضرور کام یاب ہوجائے گی۔ حالاں کہ جینیٹ خود کو اغوا کرنے والے اس اجنبی کے ظلم کا شکار ہورہی تھی، اس کے باوجود اس نے اجنبی کے ساتھ ہم دردانہ رویہ رکھا، وہ اس اجنبی کا اعتماد حاصل کرنا چاہتی تھی۔ وہ اجنبی سے اپنے گھر والوں کے بارے میں باتیں بھی کرتی تھی ۔ چناں چہ وہ اجنبی جینیٹ پر بھروسا کرنے لگا۔

اس نے جینیٹ کو گھر کے اندر گھومنے پھرنے کی اجازت بھی دے دی اور ٹی وی دیکھنے کی بھی۔ ایک روز ٹی وی دیکھتے ہوئے جینیٹ کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ اس نے اغوا کرنے والے کو بتایا کہ وہ دمے کی مریضہ ہے جس کے لیے علاج کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ وہ مرسکتی ہے۔ پتا نہیں جینیٹ کی اس بات کا اجنبی نے کتنا اثر لیا، بہرحال اغوا کے تین روز بعد اس نے لڑکی کو ایک گلی کی کونے پر اتار دیا۔ آزاد ہوتے ہی جینیٹ نے ایک قریبی اسٹور سے پولیس کو فون کرکے پوری صورت حال بتادی۔پولیس کے پوچھنے پر جینیٹ نے ان تمام سڑکوں اور راستوں کے بارے میں بتادیا جہاں اجنبی نے اسے اغوا کرکے گھمایا تھا۔

جینیٹ کو اجنبی کا سیل نمبر بھی یاد تھا۔ ایک روز جب اجنبی نے پزا کا آرڈر دیا تھا تو جینیٹ نے اسے نمبر ملاتے دیکھ لیا تھا اور صرف انگلیوں کی حرکت سے وہ نمبر یاد کرلیا تھا۔ اس کے بعد حاصل کردہ معلومات کی روشنی میں پولیس نے 26سالہ ڈیوڈ کروز کو عین اس موقع پر گرفتار کرلیا جب وہ فرار ہونے کی تیاری کررہا تھا۔جنوری 2005 میں اس کے جرائم کی پاداش میں عدالت نے اسے 102 برس قید کی سزا سنائی۔

٭ مڈسی سانشے کیسے فرار ہوئی؟
یہ واقعہ 11اگست2000کا ہے اور امریکی ریاست کیلی فورنیا کے علاقےVallejo میں پیش آیا تھا۔ اس روز سات سالہ مڈسی سانشے اور اس کا بھائی اپنے اسکول سے پیدل ہی گھر جارہے تھے۔ لیکن وہ دونوں ساتھ ساتھ نہیں چل رہے تھے، بل کہ مڈسی کا بھائی اس سے کوئی ایک بلاک پیچھے تھا۔ گویا وہ اکیلی سڑک پر چل رہی تھی کہ ایک آدمی نے اسے پکڑا اور اٹھاکر اپنی کار کی فرنٹ سیٹ پر ڈال دیا۔ اس نے مڈسی کے ہاتھ پاؤں بھی باندھ دیے، اور اگلے دو روز تک اسے اپنی کار میں ساتھ لیے گھومتا رہا۔

اس بے درد انسان کی بے دردی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اس دوران مڈسی کے سامنے خود تو کھاتا پیتا رہا، مگر اس نے بڑی مشکل سے مڈسی کو صرف پینے کو ایک آدھ چیز دی۔ اس کے بعد اس نے اپنی کار سانتا کلارا کے صنعتی علاقے میں پارک کردی۔ پھر وہ کار سے نکلا تو چابیاں اس نے اگنیشن ہی میں لگی چھوڑ دیں۔ مڈسی نے فوراً وہ چابیاں نکالیں اور کار کی کھڑکی کھول کر باہر نکل گئی۔

جب اس آدمی نے مڈسی کو بھاگتے دیکھا تو اس کے پیچھے لپکا، لیکن مڈسی ایک ٹرک کے پاس پہنچ گئی جو سگنل پر رکا ہوا تھا۔ ٹرک ڈرائیور نے اس بے بس لڑکی کی مدد کی اور وہ بہ حفاظت اپنے گھر پہنچ گئی۔ اسی ہفتے اس لڑکی کی آٹھویں سالگرہ منائی گئی۔ اس دوران مڈسی اور ٹرک ڈرائیور کی نشان دہی پر پولیس نے 39سالہ کرٹس ڈین اینڈرسن نامی شخص کو گرفتار کرلیا، گرفتار ہونے کے بعد اس نے چھے مزید افراد کو قتل کرنے کا اعتراف کیا۔ عدالت نے اسے 302سال قید کی سزا سنائی، لیکن دسمبر 2009میں وہ مرگیا۔ آج مڈسی گم شدہ بچوں کی وکیل ہے۔

٭چھے سالہ طالبہ ریگستان میں:
یہ واقعہ 10ستمبر 1991ء کو امریکی ریاست ایری زونا کے شہر ٹکسن میں اس وقت پیش آیا جب ایک چھے سالہ نامعلوم طالبہ اپنے اسکول میں وقفے کے دوران اپنی دوسری ساتھیوں کے ساتھ باہر نکلی۔ ایک آدمی نے اس سے کچھ پوچھا اور اس کی مدد چاہی تو وہ اس سے بات کرنے کے لیے رکی اور اس طرح اپنی فرینڈز سے بچھڑ گئی۔ وہ آدمی اس بچی کو اسکول سے کافی فاصلے پر واقع ریگستان کے قریب لے گیا۔

ریگستان میں پہنچ کر اس آدمی نے بچی کو مجبور کیا کہ وہ وہاں گندگی میں ایک گڑھا کھودے۔بچی نے کام شروع کیا۔ جب وہ گڑھا 40سینٹی میٹر (16انچ) گہرا ہوگیا تو اس وحشی نے بچی کے کپڑے اتارے، اس کے ہاتھ پاؤں باندھے، اس کا گلا ایک کپڑے سے باندھ دیا اور اس کے منہ پر ٹیپ چپکادیا۔ پھر اس نے بچی کو زبردستی اس گڑھے میں اس طرح گرادیا کہ اس کا سر گڑھے سے باہر تھا۔

پھر اس نے بچی کے چاروں طرف ریت اور مٹی بھردی اور اس سے کہا:''میرا انتظار کرنا، میں کیمرا لینے جارہا ہوں۔''یہ کہہ کر وہ تو چلا گیا، مگر اس چھوٹی سی بچی نے بڑی ہمت سے کام لیتے ہوئے خود کو نہ صرف اس گڑھے سے باہر نکالا بل کہ اپنے ہاتھ پاؤں بھی کھول لیے اور فرار ہوگئی۔ اتفاق سے ایک نیشنل پارک سروس کے ملازم نے اسے دیکھ لیا، اسے فوری طور پر اسپتال پہنچایا گیا اور اس کے زخموں کی مرہم پٹی کی گئی۔ یہ جرم کس نے کیا، تھا کبھی پتا نہ چل سکا۔

٭ولی میرک
یہ واقعہ 31مارچ2014کا ہے اور امریکی ریاست اٹلانٹا میں پیش آیا تھا۔ ہوا یوں کہ دس سالہ ولی میرک اپنے گھر کے باہر اپنے کتے کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اچانک اسے قریبی درخت کے نیچے کچھ پیسے پڑے دکھائی دیے۔ وہ تیزی سے اس طرف لپکا، اسی دوران ایک آدمی نے اس دبوچا اور اپنی کار میں ڈال لیا۔ کچھ دیر تک تو وہ آدمی ولی میرک کو اپنی کار میں ادھر ادھر گھماتا رہا، پھر اس نے ولی کو دھمکیاں دینی شروع کردیں کہ اگر ذرا بھی گڑبڑ کی یا آواز نکالی تو انجام بہت برا ہوگا۔ ولی میرک اس کی باتیں سن کر خاموش ہوگیا، مگر کچھ دعائیہ گیت گانے لگا۔ یہ دیکھ کر وہ آدمی مشتعل ہوگیا اور ولی کو ریاست جارجیا کے ایسٹ پوائنٹ پر اتار کر چلا گیا۔ لیکن بدقسمتی سے وہ اغوا کرنے والا پکڑا نہ جاسکا، وہ بچ نکلنے میں کام یاب ہوگیا۔

٭ایریکا پراٹ
یہ جولائی 2002کی ایک گرم رات کا قصہ ہے۔ مقام تھا امریکی شہر فلاڈیلفیا۔ اس شہر کے جنوب مغربی حصے میں محنت کش آباد تھے اور اس وقت وہ اپنے گھروں کے باہر بیٹھے آپس میں گپ شپ کررہے تھے۔گھر کے قریب ہی واقع فٹ پاتھ پر دو بہنیں سات سالہ ایریکا پراٹ اور پانچ سالہ نالیا پراٹ چہل قدمی کررہی تھیں کہ ایک سفید کار ان کے قریب پہنچی جس میں دو آدمی سوار تھے۔ ایک آدمی نے ایریکا کا نام لے کر اسے بلایا۔ جب وہ کار کے پاس پہنچی تو انہوں نے اسے پکڑکر کار کے اندر ڈال دیا۔

اس کے بعد وہ لوگ اس بچی کو لگ بھگ بیس کلومیٹر دور فلاڈیلفیا کے شمالی سرے پر لے گئے جہاں ایک گھر کے تہہ خانے میں انہوں نے لڑکی کے ہاتھ پیر باندھے اور آنکھوں پر بھی پٹی باندھ دی۔ اس کے بعد اغوا کرنے والوں نے ایریکا کے گھر فون کیا اور ان سے ڈیڑھ لاکھ ڈالر کا مطالبہ کرڈالا۔ اصل میں انہیں یہ پتا چلا تھا کہ اس فیملی کو حال ہی میں لائف انشورنس پالیسی سے خطیر رقم ملی ہے۔ اس دوران ایریکا پراٹ اپنے ہاتھ آزاد کرانے کے لیے ٹیپ اور رسی کو مسلسل چباتی رہی۔ آخر کار اس کی جدوجہد کامیاب ہوئی اور اس کے ہاتھ کھل گئے، مگر ابھی پیر بندھے ہوئے تھے اور آنکھوں پر بھی پٹی تھی۔

کسی نہ کسی طرح وہ اچھل اچھل کر بندھے ہوئے پیروں سے تہہ خانے کی سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچی تو پتا چلا کہ اس کا دروازہ مقفل تھا۔ جب کچھ سمجھ میں نہ آیا تو ایریکا پراٹ نے لکڑی کے دروازے پر گھونسے برسائے اور اسے توڑ کر اتنی جگہ بنالی جس میں سے سکڑ سمٹ کر وہ باہر نکل گئی۔

اوپر پہنچتے ہی اس نے لکڑی کی کھڑکی توڑی اور اس میں سے سر نکال کر مدد کے لیے چیخنے لگی۔ اتفاق سے دو لڑکوں نے اس کی آواز سن لی اور پولیس کو فون کردیا۔ اس طرح ایریکا پراٹ اپنی ہمت اور جرأت مندی کی وجہ سے اپنے اغوا کے 23گھنٹے بعد ہی بازیاب ہوگئی۔ اسے اغوا کرنے والے دونوں افراد 29سالہ جیمس برنس اور 23سالہ ایڈروڈ جانسن کو گرفتار کرلیا گیا۔ دونوں کو لمبی قید کی سزا سنائی گئی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں