یارب زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے

پاکستان میں موجود جانوروں کی بہت سی انواع معدوم ہونے کا خطرہ

تلور اور باز بھی شامل ہیں، کئی انواع غائب ہوگئیں، بچانے کے لیے قوانین پر عمل درآمد ضروری ہے ۔ فوٹو : فائل

GAZA:
حالیہ دنوں میں تلور کے حوالے سے عدالتی فیصلے کے بعد جو بحث جاری ہے اسے ماحولیاتی حلقوں میں تشویش کی نظر سے دیکھا جارہا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ اس بحث سے تلور کی نسل کو کوئی فائدہ ہو نہ ہو بقا کے خطرے سے دوچار دیگر حیاتی انواع کی جانب سے توجہ ہٹنے سے ان کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

ماہرین کے مطابق ہر برس30 سے40 ہزار تلور موسم سرما کے آغاز میں پاکستان پہنچتے ہیں۔ پاکستانی وزارت خارجہ عرب ممالک سے آنے والوں کو ایک خاص ضابطۂ اخلاق کے تحت اجازت نامہ جاری کرتی ہے جس کے مطابق محدود تعداد میں تلور کا شکار کیا جاسکتا ہے اور یہ تعداد اتنی ہوتی ہے کہ تلور کی نسل خطرے سے دوچار نہ ہو۔

قومی اور بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک شکار سیشن میں سو سے زاید تلور نہیں مارے جاسکتے، شکار اسلحے سے نہیں بل کہ صرف باز سے کیا جاسکتا ہے اور یہ شکار نیشنل پارکس اور جنگلی حیاتیات کی مخصوص پناہ گاہوں میں نہیں کیا جاسکتا۔ قوانین کے تحت شکار کی نگرانی اور گنتی بھی لازمی ہے، لیکن عملاً ان قوانین اور اخلاقی ضابطوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے؟ اس کی مثال گذشتہ موسم سرما میں ایک آفیسر کی مرتب کردہ رپورٹ ہے، جس کے مطابق،''تین ہفتوں کے دوران 21 سو سے زاید تلور ہلاک کیے گئے اور یہ شکار اس علاقے میں ہوا جو جنگلی حیات کے لیے محفوظ قرار دیا گیا ہے۔''

تلور کے حوالے سے بحث کا خلاصہ صرف اتنا ہے کہ شکار کی اجازت دینی چاہیے یا نہیں؟

لیکن بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ یہ پرندہ آئی یو سی این کی بقا کے خطرے سے دوچار جان داروں کی بین الاقوامی سرخ فہرست(Red list) کی درجہ بندی میں vulnerable یعنی خطرے سے دوچار انواع میں آتا ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ تلور کا شکار صرف باز کے ذریعے کیا جانا چاہیے۔ اہم بات یہ ہے کہ باز بھی تحفظ یافتہ پرندوں میں شامل ہے۔

تلور کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے، لیکن جس پرندے باز کے ذریعے تلور کا شکار کیا جاتا ہے کیا وہ پرندہ خطرے سے باہر ہے۔ آئیے اس حوالے سے ایک جائزہ لیتے ہیں۔

تلور کی طرح باز (Falcon) بھی ایک تحفظ یافتہ پرندہ ہے۔ اس کا تعلق براہ راست تلور کے شکار سے ہے، کیوںکہ عموماً تلور کا شکار اس کے ذریعے ہی ہوتا ہے۔ پاکستان کے قوانین کے تحت باز ایک تحفظ یافتہ پرندہ ہے۔ محفوظ پرندوں کا شکار، انھیں پکڑنا اور ان کی تجارت غیرقانونی ہے اور جرم ہے۔ اس کے باوجود باز کو زندہ پکڑنے اور اس کی غیرقانونی تجارت عام ہے۔

سندھ میں ہمارے ساحلی شہروں ٹھٹھہ اور بدین کے علاوہ ضلع دادو کی پہاڑیوں کے درمیانی میدانی علاقے، پنجاب میں رحیم یار خان، ڈیرہ غازی خان، ملتان، بہاول پور اور بہاول نگر یعنی چولستان کے صحرا اس کے شکار کے مرکز سمجھے جاتے ہیں۔ تحفظِ ماحول کی عالمی تنظیم کے ماحولیاتی جریدے کے مطابق باز کو شاہی پرندہ تصور کیا جاتا ہے۔

یورپ میں قبل از جمہوریت اور دور شہنشاہی میں باز کی مختلف اقسام اس کے رکھنے والے کے سماجی مرتبے کی علامت تھیں۔ مثال کے طور پر یورپ میں ''سیکر باز '' صرف وہی رکھ سکتا تھا جسے نائٹ کا خطاب حاصل ہو۔ ''پیری گرائین باز'' صرف ڈیوک کے لیے مخصوص تھا، جب کہ پیری گرائین باز کی مادہ پالنے کی اجازت صرف شہزادیوں کو تھی۔ شہنشاہوں کے پالنے اور ان کے شکار کے لیے '' گولڈن ایگل'' مخصوص تھا۔

باز کا تعلق گوشت خور شکاری پرندوں کے خاندان سے ہے۔ اس کی دنیا میں بہت سی اقسام پائی جاتی ہیں۔ یہ مقامی پرندہ نہیں ہے ، یہ سرد موسم میں وسطی ایشیا کے ممالک سے نقل مکانی کرکے گرم موسم اور خوراک کی تلاش میں یہاں آتا ہے۔ پاکستان میں اس کی آمد کا موسم ستمبر سے مارچ تک ہے۔ موسم کے معتدل ہوتے ہی یہ لوٹ جاتا ہے۔

شکار کے لیے باز کی تربیت کا سلسلہ کب شروع ہوا؟ اس کا تعین ممکن نہیں۔ البتہ مورخین کے مطابق اس کا آغاز مشرق بعید کے ممالک سے ہوا اور پھر یہاں سے یہ سلسلہ دوسرے ممالک تک پھیلا۔

پاکستان میں باز کی صرف دو اقسام سیکر فیلکن اور پیری گرائین فیلکن تلور کے شکار میں استعمال ہوتی ہیں۔ موسم سرما کے اوائل ہی میں عرب امرا کی شکار کے لیے آمد شروع کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ عرب مہمان باز کے ذریعے تلور کا شکار کرتے ہیں۔ پاکستان میں قانونی طور پر باز پکڑنے کے لیے سرکاری اجازت نامہ جاری کیا جاتا ہے۔ باز کی دونوں اقسام کے ایک طویل عرصے سے جاری قانونی وغیرقانونی استحصال کے باعث سیکر اور بحری بازوں کی تعداد میں مسلسل اور نمایاں کمی واقع ہورہی ہے اور ان کی نسل کو بقا کے خطرات لاحق ہیں۔

آئی یو سی این کی تیارکردہ سرخ فہرست (Red list) جس میں تلور اور باز دونوں شامل ہیں، نباتاتی اور حیواناتی انواع کے بارے میں ان کی نگہداشت اور تحفظ کے عالم گیر رحجان کی سب سے زیادہ تفصیلی، مکمل اور قابل اعتبار دستاویز ہے۔ اس کی تیاری میں ہزاروں نباتاتی اور حیواناتی انواع کو لاحق متعدد خدشات کا جائزہ مختلف پہلوؤں اور اصولوں کے تحت لیا جاتا ہے۔ ان اصولوں کو دنیا بھر میں یکساں طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ آئی یو سی این کی یہ فہرست اپنی مضبوط سائنسی اور علمی بنیاد کی وجہ سے حیاتیاتی تبدیلیوں کے سلسلے میں ایک انتہائی اہم اور مستند دستاویز مانی جاتی ہے۔


عالمی سطح پر سرخ فہرست کی پزیرائی کے بعد ایک اہم قدم کے طور پر آئی یو سی این پاکستان ریڈ لسٹ یونٹ اور ایشیا کے علاقائی دفتر کی مدد سے پاکستان میں معدومی کے خطرات سے دوچار اقسام کی فہرست تیار کر نے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کام یاب کاوش کے نتیجے میں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر حیاتیاتی تنوع کے تحفظ اور تحقیق کی نئی راہیں کھلیں گی۔

اگرچہ تلخ سہی، لیکن یہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں موجود حیاتی تنوع سے متعلق مکمل اعداد و شمار کی دست یابی، معلومات کا حصول، جانچ پڑتال اور اعدادوشمار کو قابل عمل صورت میں پھیلانے کا کوئی منظم طریقہ موجود نہیں ہے۔ بڑی تعداد میں مختلف ادارے اگرچہ مخصوص حیاتیاتی تنوع کے موضوع پر کام کر رہے ہیں، تاہم ان معلومات کو جمع کر نے اور ان کی تصدیق، معلومات کی نشان دہی اور حیاتیاتی تنوع کے رجحان کے تجزیے کے لیے کوئی کوشش نہیں کی گئی ہے۔ اس تناظر میں پاکستان کی ریڈ لسٹ (معدومی کے خطرے کا شکار حیاتیات کی فہرست) ملکی حدود میں جان داروں کو لاحق خطرات کے بارے میں اہم معلومات کے حصول کا ذریعہ بن سکتی ہے۔

آئی یو سی این ریڈ لسٹ ہمیں حیاتیاتی تنوع کے خاتمے کے خطرے کی پیمائش کا آلہ یا طریقۂ کار فراہم کرتی ہے جو ایک خاص وقت میں زمین پر زندگی کا معیار حاصل کرنے میں زندگی کے بیرومیٹر کی طرح کام کرتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ بھی علم ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ معیار کیسے تبدیل ہوتا ہے، مختلف ممالک میں ممالیہ اور پرندوں کے لیے یہ بہتر ہے یا انہیں خطرے کی جانب دھکیل رہا ہے اور پودوں کے لیے بھی بہتر ہے یا نہیں۔ حیاتیاتی تنوع پر دباؤ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ چناںچہ زندگی کے بیرومیٹر پر سوئی مسلسل حرکت میں ہے۔

وقت گزرنے کے ساتھ ماہرین نے تسلیم کیا کہ خطرے کا معیار جانچنے کے لیے ایک حقیقی اور مزید سائنسی نظام کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا نظام جس میں تحفظ اور سائنس کی یکجائی کے ساتھ ساتھ ایک منظم طریقۂ کار بھی موجود ہو۔ قومی اور علاقائی سطح پر درست نظام کے بغیر بھی یہ کام ممکن نہ تھا۔ آئی یو سی این کی ابتدائی ریڈ لسٹ ایس ایس سی کے 8سو سے زاید ارکان کے ٹیسٹ اور سائنس کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں سے خصوصی مشاورت سے چار سال کے عرصے میں تیار کی گئی۔ 1994میں مزید ترمیم واضافے کے بعد ریڈ لسٹ کیٹیگری اپنائی گئی۔

1988میں پرندوں کی تمام اقسام کی قدروقیمت کا تعین کیاگیا اور1996میں آئی یو سی این کی خطروں کا شکار جانوروں کی ریڈ فہرست میں دنیا بھر سے ممالیہ کی اقسام کی پہلی مرتبہ تشخیص کی گئی۔ یہ تحفظ کے سلسلے میں بڑے اور اہم سنگ میل تھے، کیوںکہ یہ نہ صرف ممالیہ جانوروں اور پرندوں کا پہلا مجموعی تجزیہ تھا بل کہ اس سے ایک بنیادی لکیر (حد) بھی قائم ہوئی جس سے مستقبل کے رویے کو مانیٹر کیا جاسکتا تھا۔ 1996 کی فہرست کے لیے 5 ہزار 205اقسام نشان زد کی گئیں، جس کے نتیجے میں خطرے کا شکار% 25 تمام ممالیہ اور %11 تمام پرندوں کی فہرست تیار ہوئی۔2011 میں 61 ہزار اقسام کے جانور اس فہرست میں شامل تھے اور تمام ممالیہ، پرندوں، جل تھلیے، شارک اور گھونگھوں کا تعین اور اندازہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں دستاویز کی تیاری میں اعلیٰ ترین معیار کو یقینی بنانے، معلومات کے نظام، تربیت اور سائنسی ساکھ کے اعلیٰ ترین معیارات کو یقینی بنایا گیا۔

٭علاقائی اور قومی سرخ فہرست کی ضرورت:

کسی بھی ملک کے حیاتیاتی وسائل ہی اس کے حال اور مستقبل کا تعین کرتے ہیں۔ وسائل کے حوالے سے درست اعدادوشمار پر ہی قومی حکمت عملی اور ترقیاتی منصوبوں کا انحصار ہوتا ہے۔ عالمی سرخ فہرست اگرچہ حیاتیاتی تنوع کے حوالے سے اشاریے تو پیش کرتی ہے، لیکن واضح طور پر ملک کی سطح پر مخصوص اقسام کی حیثیت کی وضاحت نہیں کرسکتی۔ لہذا ضروری ہے کہ ممالک اپنے طور پر اپنے وسائل کے مکمل اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے سرخ فہرست مرتب کریں۔

٭پاکستان کا حیاتیاتی تنوع:

پاکستان کی سرزمین سنہری ساحلوں سے برفانی پہاڑی چوٹیوں تک حیات کی رنگارنگی اور دل کش مناظر سے آراستہ ہے۔ اپنے انتہائی متنوع جغرافیے اور موسمی حالات کی بنا پر پاکستان11 جغرافیائی، 10زرعی ماحولیاتی اور9بڑے ماحولیاتی زونوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

پاکستان حیاتیاتی تنوع سے مالا مال ہے۔ اس میں موجود گوناگوں ایکو سسٹم یا ماحولیاتی نظام جان داروں کی وسیع انواع کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں۔ یہاں ممالیہ کی 174انواع موجود ہیں، جن میں دریائے سندھ کی ڈولفن، برفانی چیتا، بلوچستانی ریچھ، مارکو پولو بھیڑ، اُڑنے والی اونی گلہری، فن وہیل اور مار خور شامل ہیں، جب کہ 668 اقسام کے مقامی اور نقل مکانی کرنے والے پرندے اس کی فضا میں چہچہاتے ہیں۔ 177رینگنے والی (خزندے) اقسام ، جن میں 88 چھپکلیاں، 72سانپ،10 کچھوے (2سمندری)، ایک مگر مچھ اور ایک گھڑیال اور جل تھلیوں کی22ایسی اقسام شامل ہیں جو پانی اور خشکی دونوں پر چلتی ہیں۔ پاکستان مختلف النوع مقامی فصلوں کے ساتھ ساتھ ایک اندازے کے مطابق کاشت کیے گئے پودوں کے 3ہزار اقسام سے مالا مال ہے۔

یہاں کاشت کی جانے والی فصلوں کے 5 سو متعلقین (رشتہ دار) بھی ہیں، جن میں زیادہ تر پاکستان کے شمالی علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت بھینس کی 2نسلیں، گائے کی 8، یاک کی ایک، بکری کی 25، بھیڑ کی 28، گھوڑے کی ایک، اونٹ کی 4 اور مقامی مرغی کی 3نسلیں یا اقسام بھی موجود ہیں۔ پاکستان میں آج ماحیاتیاتی تنوع کو لاحق خطرات کے حوالے سے سب سے بڑی تشویش حیاتیاتی تنوع کا مسلسل نقصان، خستہ حالی اور حیاتیاتی تنوع کی تنزلی اور اس کے قدرتی ٹھکانوں کی تباہی ہے۔

جنگلات، چرا گاہیں، میٹھے پانی کے وسائل، دریائی اور سمندری ماحولیاتی نظام ان میں پائی جانے والی انواع غرض یہ کہ ہر شے تنزلی کا شکار ہے۔ اس کے علاوہ ایسی ہی تشویش جانوروں اور پودوں کی آبائی اقسام میں مسلسل کمی کے بارے میں ہے۔ کچھ اقسام پہلے ہی معدوم ہوچکی ہیں، کچھ بین الاقوامی خطرے کا شکار ہیں اور کئی انواع قومی سطح پر خطرات سے دوچار ہیں۔ پاکستان کے لیے حیاتیاتی تنوع کا ایکشن پلان اقسام کے نقصان کی ایک اچھی مثال پیش کرتا ہے۔

گذشتہ چار سو سال میں پاکستان کے علاقے سے کم سے کم 4ممالیہ اقسام کے بارے میں معلوم ہے کہ وہ غائب ہوگئی ہیں۔ ان میں ٹائیگر (پنتھرو ٹائیگر) دلدلی ہرن، شیر اور بھارت کا ایک سینگ والا گینڈا شامل ہیں۔ مزید دو اقسام حالیہ عشروں میں ممکنہ طور پر معدوم ہورہی ہیں۔ ایشیاٹک چیتا، کالی بطخ اور مختلف جانوروں کے نر کو مقامی طور پر ختم ہوجانے والی اقسام کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے، جب کہ ایشیا ٹک جنگلی گدھے کے پاکستان میں معدوم ہوجانے کا خطرہ موجود ہے۔
Load Next Story