ٹریفک وارڈنز کو بھی ’’وردی‘‘ کا نشہ چڑھنے لگا

بے جا چالان کے ساتھ ڈرائیور کی ’’مرمت‘‘ سے بھی گریز نہیں کیا جاتا

بے جا چالان کے ساتھ ڈرائیور کی ’’مرمت‘‘ سے بھی گریز نہیں کیا جاتا ۔ فوٹو : فائل

وردی اور اختیار کا نشہ ہاتھ میں چالان بک رکھنے والے پڑھے لکھے اور سلجھے نوجوانوں کے ذہنوں میں بھی بسااوقات خمار پیدا کردیتا ہے، ایسے میں دل چاہے تو وہ لوگوں کو بیچ چوراہے منت سماجت پر مجبور کردیں، سبق سکھانے پر آئیں تو بے گناہ کو قانون شکن بنا کر گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں، پھر بھی تسلی نہ ہوپائے تو ''دستی مرمت''پربھی اترآئیں۔

فیصل آبادکی سڑکوں پر آج کل ٹریفک وارڈنزکے کھیل تماشے معمول بن چکے ہیں۔ یہاں کے باسی بھی جان چکے ہیں کہ کوئی غلطی ہونہ ہوٹریفک وارڈن جب طے کرلیں کہ چالان کرنا ہے تو وہ کرکے ہی دم لیں گے، ایسے میں قانون سے ٹکرلینے کا کیا فائدہ؟ عام شہریوں کی نسبت یہاں کے رکشہ ڈرائیور ایسی صورتحال میں رد عمل سے گریز نہیں کرتے۔ وارڈن سینہ زوری سے باز نہ آئے تو وہ خود بھی سینہ تان کر کھڑے ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجہ میں کبھی روڈ بلاک ہوتا ہے تو کبھی رکشہ ہی نذر آتش کر دیا جاتا ہے۔ کئی ڈرائیور تو اتنے جنونی ہوتے ہیںکہ خود بھی جل مرنے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں۔

سٹی ٹریفک پولیس فیصل آباد کی جانب سے موٹر سائیکل رکشاؤں کو شہری حدود سے باہر رکھنے کے لئے چند روز قبل خصوصی مہم کا آغاز کیا گیا تو روزی روٹی خطرے میں پڑنے پر رکشہ ڈرائیوروں کی جانب سے نہ صرف انتظامی افسران کے دفاترکے باہر احتجاجی دھرنے دیئے گئے بلکہ اہم شاہراہیں بلاک کرکے گھنٹوں ٹریفک بھی جام رکھی گئی۔

ایسے میں گرفتاریوں کی دھمکیاں دینے والے افسران کو ضلعی پولیس کی عملی مدد حاصل نہ ہونے کے سبب رکشہ ڈرائیوروں اور ان کے لیڈروں کو مذاکرات پر آمادہ کرنے کے لئے کئی جتن کرنا پڑے۔ مذاکرات میں خاطر خواہ پیش رفت نہ ہونے کے سبب ٹریفک وارڈنز کی جانب سے رکشہ ڈرائیوروں کے خلاف چالان کارروائیوں اور شرح جرمانہ میں اضافہ کیا گیا تو رکشہ والے ایک بار پھر سراپا احتجاج بن گئے۔

یہ کھینچاتانی ابھی بند نہ ہوئی تھی کہ لاری اڈہ ٹریفک سیکٹر انچارج کی جانب سے ایک رکشہ ڈرائیورکوقانون کا سبق دے کر حوالات کی سیر کرائی گئی تو کچھ دیر بعد میڈیا کی موجودگی میں اس کے سگے بھائی کی درگت بناکر''قانون کی عمل داری'' ثابت کردی گئی۔ ٹریفک پولیس کی بدانتظامی اور رکشہ ڈرائیوروں کی ہٹ دھرمی کے سبب کسی بھی جگہ ہنگامہ آرائی اور ٹریفک جام کی کیفیت پیداہوجاتی ہے، جس سے خوار، بیچارے شہری اور طلبہ ہوتے ہیں۔ دیکھا جائے توٹریفک وارڈنز ایسے ہر گز نہ تھے، محکمہ کی جانب سے انہیں شہریوں کے مدد گار کی حیثیت سے ڈیوٹی کی انجام دہی کا پابند بنایا گیا تھا۔


انہیںسڑکوں پر اپنی موجودگی کا احساس کرانے کے لئے ٹریفک کی منظم روانی اور قانون کی عمل داری بھی احسن انداز میں سرانجام دینے کادرس دیاگیا ''پہلے سلام پھر کلام''بھی اسی سلسلے کی کڑی بنا، جسے شہری حلقوں کی جانب سے بھی سراہا جاتا رہا، لیکن... محکمہ کی جانب سے ٹریفک وارڈنز کی ترقی کے لئے مناسب لائحہ عمل طے نہ کیا گیا، جس سے افسری کی امیدیں لے کر آنے والوں میںگزرتے وقت کے ساتھ مایوسی بڑھنے لگی، پیشہ ور ڈرائیوروں سے بحث وتکرار کے واقعات عام شہریوں سے ڈیلنگ پر بھی اثرانداز ہونے لگے، جس پر شہریوں کے مددگاروں کا ابتدائی سلوگن تبدیل ہوکر''پہلے چالان پھرکلام ''میں بدل گیا۔

سٹی ٹریفک پولیس کے وارڈنز جولائی 2015ء سے اب تک کروڑوں روپے کے چالان ٹکٹ جاری کرنے کے علاوہ ردعمل ظاہرکرنے والے 456 ڈرائیوروں پر خطرناک ڈرائیونگ کے الزام میں مقدمات کااندراج بھی کروا چکے ہیں۔ ٹریفک وارڈنز کی اپنی فرض شناسی کا عالم یہ ہے کہ ٹریفک جام کی صورتحال میں بھی چوراہوں پر گپ شپ میں مصروف پائے جاتے ہیں، بے جا چالان اور بھاری جرمانے جہاں وارڈنزاور عوام میںدوری کا سبب بنے ہوئے ہیں۔

وہاں رکشہ ڈرائیوروں کے آئے روز کے احتجاج اور روڈ بلاک بھی معمول بن چکا ہے۔ شہری حلقے اس حوالے سے ٹریفک پولیس کو حق بجانب قراردیتے ہیں کہ نوعمر لڑکوں یا غیر لائسنس یافتہ افراد کی ڈرائیونگ واقعی غیر قانونی اور حادثات کاسبب ہے، جس کی حوصلہ شکنی کے لئے کارروائی ضرور ہونی چاہیے، تاہم موٹر سائیکل رکشہ کو شہر سے نکال باہر کرنے سے قبل حکام کو شہری آمدورفت یقینی بنانے کے لئے متبادل ٹرانسپورٹ کا انتظام بھی کرنا ہو گا۔

کہتے ہیں پولیس جاگ رہی ہو تو جرم سو جاتا ہے، پولیس سو رہی ہو تو جرم جاگ جاتا ہے، مگر فیصل آباد پنجاب کاایسا ضلع ہے، جہاں پولیس مقابلے اور سٹریٹ کرائمز ایک ساتھ جاری رہتے ہیں۔ پولیس کی جانب سے ہرماہ خطرناک ڈاکو،راہزن کیفرکردار کو پہنچانے اور کئی گروہ قابو کئے جانے کے دعوے کئے جاتے ہیں،کارہائے نمایاں انجام دینے پر افسروں اور اہلکاروں کومحکمانہ انعامات سے نوازا بھی جاتا ہے لیکن جرائم ہیں کہ ان کا گراف نیچے آنے کو تیار ہی نہیں، ایسے میں گمان ہوتاہے کہ انجام کو پہنچائے جانے والے ہی اگر ایسے جرائم میں سرگرم تھے تواس نوعیت کی جاری وارداتیں انجام دینے والے کوئی اور ہی ہیں۔

یہ امر قابل ذکر ہے کہ فیصل آباد میں قبل ازیں ڈاکو،راہزن ہی دردسر بنے ہوئے تھے کچھ عرصہ سے سراٹھانے والا بھتہ مافیا یہاں کے کاروباری طبقہ کے لئے بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔ گمنام فون کالز پر ہرکوئی پولیس سے شکایت کی جرات نہیں کرتا، کئی ایک کاروباری پارٹیاں جانیں بچانے کے لئے خاموشی سے بھتہ کی ادائیگی پر مجبورہوجاتے ہیں۔

ایسی ہی ڈیمانڈز پر فیصل آباد کے دوجیولرز اور رئیل اسٹیٹ کاکاروبارکرنے والی پارٹی کی جانب سے گزشتہ دنوں مقدمات درج کرائے گئے۔ بھتہ سے انکار پر سرکلر روڈ کے تاجر کو ہراساں کرنے کے لئے بند دکان کے شٹر پرگولیاں برسائی گئیں، قانونی کارروائی کے دوران کالرز کے فون نمبرزبھی فراہم کئے گئے لیکن کال ڈیٹاکے حصول اور جیوفینسنگ کی سہولت کے باوجود پولیس شہریوں کے لئے دہشت کی علامت بننے والے ایسے عناصرکوٹریس کرنے میں کامیاب نہیںہوپائی۔
Load Next Story