روبن گھو ش اپنے پیچھے موسیقی کا ایک خزانہ چھوڑ گئے ہیں

فلم اسٹارندیم کا مایہ ناز موسیقار اور اپنے دیرینہ دوست کے حوالے سے مکالم


آفتاب خان February 21, 2016
فلم اسٹارندیم کا مایہ ناز موسیقار اور اپنے دیرینہ دوست کے حوالے سے مکالم ۔ فوٹو : فائل

تیرہ جنوری کی صبح بنگلادیش سے آنے والی ایک افسوس ناک اطلاع نے پاکستان میں نہ صرف موسیقی بل کہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے حلقوں کو بھی سوگوار کردیا، جب معروف موسیقار روبن گھوش کے حوالے سے پتا چلا کہ وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے۔

روبن گھوش کا نام جب بھی ذہن میں ابھرتا ہے تو فلم آئینہ، بندش، آہٹ، احساس اور چکوری سمیت بے شمار فلموں کے ان گنت گانے سماعتوں میں گونجنے لگتے ہیں۔ روبن گھوش کے انتقال پر یوں تو فلمی صنعت کے انتہائی معروف اداکاروں کے تعزیتی پیغام سماعتوں کا حصہ بنے مگر ان سب میں ایک ایسے ہیں جن کی موسیقار روبن گھوش کے ساتھ ایک خاص قربت کا معاملہ رہا ہے۔ ہم بات کررہے ہیں پاکستانی فلموں کے سپراسٹار مرزانذیر بیگ المعروف ندیم صاحب کی۔

آج سے چا ر سال پہلے جب روبن گھوش اپنی بیگم شبنم کے ساتھ پاکستان کے دورے پر کراچی پہنچے تھے۔ تو فلم اسٹار ندیم اپنے تمام مصروفیات کو بالائے طاق رکھ کر آرٹس کونسل سے لے کر پانچ ستاروں والے ہوٹل تک ہر جگہ روبن گھوش کے ساتھ دکھائی دیے۔ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ گوناگوں مصروفیات کے باوجود ندیم نے میزبانی کا حق ادا کر دیا تھا۔ ہر تقریب میں بیگ صاحب کی موجودگی ان کی اور روبن گھوش کے دیرینہ تعلقات اور قربت کی دلیل تھی۔

گوکہ ندیم صاحب کی ناسازی طبع اور ریکارڈنگ میں مصروفیات کی بنا پر ان سے ملنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے مگر ہمارے انتہائی قریبی رفیق زکریا پولانی بھائی کی کاوشوں سے ہم ندیم صاحب سے ملنے میں کام یاب رہے۔ اس ملاقات میں ندیم صاحب سے ہونے والی گفتگو کا موضوع ان کے دیرینہ دوست موسیقار روبن گھوش ہی رہے:

سوال: بیگ صاحب! آپ کا اور روبن گھوش کا تعلق چار دہائیوں پر محیط ہے۔ آج جب وہ اس دنیا میں نہیں رہے تو ایک قریبی رفیق کی جدائی پر آپ کے کیا احساسات ہیں؟

ندیم: میری ذات کے حوالے سے یہ نہایت دکھ کی بات ہے اور یہ کہتے ہوئے انتہائی تکلیف ہورہی ہے کہ روبن گھوش اب اس دنیا میں نہیں رہے۔ روبن گھو ش اپنے پیچھے موسیقی کا ایک خزانہ چھوڑ گئے ہیں، جوا ن کی یاد ہمیشہ لوگوں کو دلاتا رہے گا۔ ان کی دُھنیں لوگوں کے ذہنوں اور دلوں میں گونجتی رہیں گی۔ جہاں تک روبن گھوش کے ساتھ میرے تعلق کا معاملہ ہے تو وہ ابتدا میں تو یقیناً فلم کے حوالے سے تھا، مگر گزرتے وقت کے ساتھ ان سے قربت بڑھتی رہی۔ وہ ذاتی زندگی میں ایک انتہائی نفیس اور خوش لباس انسان تھے۔ کس موقع پر یا کس نشست میں کس وقت کیا بات کرنی چاہیے، اس کا مکمل ادراک رکھنے والے انسان تھے۔ دوسروں کا خیال رکھنے کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ میرے لیے وہ گھر کے ایک فرد جیسے تھے۔

دونوں ملکوں کی تقسیم کے بعد گویا آپ کہہ سکتے ہیں کہ جسمانی طور پر دوریاں ضرور پیدا ہوئیں مگر ذہنی طور پر ہم روبن گھوش اور ان کی فیملی سے وابستہ رہے۔ اکثروبیشتر کسی خاص موقع پریا پھر بغیر کسی ضرورت کے بھی ان سے بنگلادیش میں رابطہ رہتا تھا۔ یہ احساس اب تاحیات مجھے رہے گا کہ میں ایک بے لوث دوست ایک ہم درد شخصیت سے محروم ہوگیا ہوں۔

سوال: آپ کے اور روبن گھو ش کے درمیان جو تعلق تھا آپ سمجھتے ہیں کہ دکھ کی اس گھڑی میںآپ کو ان کے اہل خانہ کا غم بانٹنے کے لیے ان کے درمیان ہونا چاہیے تھا؟

اس گھڑی میں ان سے دور ہوں اس احساس کو یقیناً لفظوں میں نہیں باندھا جاسکتا، مگر یہ بھی دراصل حقیقت ہے کہ میرا وہاں آناًفاناً پہنچنا بھی ممکن نہیں ہے۔ میں ڈھاکا نہیں جاسکتا۔ کاش میں وہاں ہوتا تو میں ضرور ان کے گھر جاتا اور ا ن کے گھر والوں کا دکھ بانٹنے کی کوشش کرتا۔ میر ی فون پر شبنم اور ان کے بیٹے رونی سے بات ہوئی ہے، میں نے ان کا دکھ بانٹنے کی کوشش کی ہے۔ گوکہ ان رابطوں کے دوران فون پر بار بار رابطہ منقطع ہوجاتا تھا، تاہم میری دعا ہے کہ اللہ پاک شبنم اور ان کے بیٹے رونی کو اس غم کو برداشت کرنے کی طاقت دیں۔

کہتے ہیں کہ روبن گھوش آپ کے فنی کیریر کی ابتدا میں آپ کے لیے کافی معاون ثابت ہوئے تھے، کچھ اس کے حوالے سے بتائیے؟

ندیم: میں نے اپنی پہلی فلم چکوری بھی روبن گھوش کے ساتھ کی تھی، بل کہ چکوری سے پہلے بھی روبن گھوش سے تعلق رہا۔ روبن کے ساتھ میں پہلی بار مشرقی پاکستان کے نام ور فلم ڈائریکٹر احتشام سے ملا تھا۔ اس ملاقات کے علاوہ بھی میں اکثروبیشتر روبن گھوش کے ساتھ رہتا تھا۔ اس دور میں میرا فلم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

چوںکہ اس دور میں مجھے گانا گانے کا شوق تھا اور روبن دھنیں بنایا کرتے تھے، تو اکثر ان کے ساتھ نشست رہتی تھی۔ فلم چکوری میں جب میں نے گانا ''کہاں ہو تم کو ڈھونڈرہی ہیں'' گایا تو اس وقت بھی میں گانا گانے نہیں بل کہ سننے گیا تھا، مگر اتفاق کی بات ہے کہ پھر حالات کچھ ایسے ہوگئے کہ میں نے وہ گانا گایا۔ میرے کیریر کو جلا بخشنے میں روبن گھوش کا بہت عمل دخل تھا۔ فلم میں بھی میرا اتفاق سے آنا ہوا، ورنہ اس فلم چکوری میں میری جگہ مستفیض تھے۔ یہ وہ ساری باتیں ہیں جو بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ نہ صرف میرے ابتدائی کیریر بل کہ بعد میں ریلیز ہونے والی فلموں میں روبن گھوش کی معاونت اور ان کے خلوص کا بہت بڑا کردار رہا ہے۔

سوال: پاکستانی فلمی موسیقی میں آپ روبن گوش کی فنی خدمات یا پھر ان کی ترتیب دی گئی دھنوں کی کتنی کنٹری بیوشن سمجھتے ہیں؟

ندیم: بے پناہ میلوڈی تھی روبن گھوش کی دھنوں میں اور پاکستانی فلمی موسیقی میں ان کا ایک بہت بڑا کنٹری بیوشن ہے۔ چاہے اس فلم میں، میں ہوں یا پھر کوئی اور ہیرو، وہ گانے کسی بھی اداکار پر پکچرائز کرانے میں بے انتہا خوشی ہوتی تھی۔ ہمیں ان کے ترتیب دی ہوئی موسیقی سے بہت زیادہ مدد ملتی تھی۔ ان کی دُھنوں سے ہر ایک کردار کو چار چاند لگ جاتے تھے۔ آج روبن گھوش ہم میں نہیں ہیں یہ کہتے ہوئے بہت دکھ ہورہا ہے، کیوںکہ ایک لمبا عرصہ روبن گھوش کے ساتھ بیتا۔ یہ زندگی کا سفر ہے اور جانا تو سب کو ہے مگر کچھ لو گ ایسے ہوتے ہیں کہ جو چلے تو جاتے ہیں مگر ان کی یادیں دل ودماغ میں تاحیات رہتی ہیں۔

سوال: کیا روبن گھوش کے انتقال سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ کبھی پر ہوسکے گا؟

ندیم: دیکھیے! دنیا میں جب کوئی خل اپیدا ہوتا ہے تو وہ پر تو ہوجاتا ہے وہ ہمیشہ خالی نہیں رہتا مگر اتنی آسانی سے پُر نہیں ہوتا۔ کوئی نہ کوئی آتا ہے وہ جیسے میر تقی میر کا ایک شعر اس سوال کی مناسبت سے سنانا چاہوں گا کہ

مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں

تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

تو روبن گھوش جیسے لوگ نکلتے تو ہیں مگر مشکل سے نکلتے ہیں۔ صدیوں میں، برسوں میں کہیں ایسے لوگ نکلتے ہیں جو اپنی مثال آپ ہوتے ہیں، جو اپنے منفرد کام کی وجہ سے پہلے ہی دن سے لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروالیتے ہیں اور جن کو اﷲ تعالیٰ نے بے انتہا خداداد صلاحیتوں سے نوازا ہوتا ہے، تو یہ خلا پُر تو ضرور ہوگا مگر مشکل سے ہوگا اور یہ وقت بتائے گا۔

سوال: اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ پاکستانی فلموں کی کام یابی روبن گھوش کی موسیقی کی مرہون منت تھی۔ اس تاثر کو آپ کس طرح سے دیکھتے ہیں؟

ندیم: فلم کی کام یابی میں ایسا نہیں ہوتا کہ کسی ایک آدمی سے تمام کام یابی کو جوڑ دیا جائے، کیوںکہ یہ ایک ٹیم ورک ہوتا ہے۔ فلم کے لیے ضرور ی ہے کہ اگر موسیقی اچھی ہے تو آوازیں، شاعری بھی ویسی ہی اچھی ہو۔ اداکار اور ہدایت کار بھی اچھا ہوتو کسی ایک فرد کے سر پر کام یابی کا سہرا نہیں باندھا جاسکتا۔ تاہم یہ ضرور ہے کہ فلم کو کام یاب بنانے میں موسیقی کا بھی بہت دخل ہوتا ہے اور پھر اگر شاعری، موسیقی، اداکاری، عکاسی سمیت تمام اچھے شعبوں کو روبن گھوش جیسا موسیقار میسر آجائے تو پھر بات کہاں سے کہاں نکل جاتی ہے اور یہ کہیں تو بے جا نہ ہوگا کہ کام یابی کے کئی مزید جھنڈے اس فلم یا پھر اس سبجیکٹ کا مقدر بن جاتا ہے۔

سوال: آپ کولگتا ہے کہ پاکستان کی موجودہ موسیقی میں کہیں روبن گھوش جیسا کوئی بن کر ابھرے گا؟

ندیم: معذرت کے ساتھ کہوں گا کہ ویسی موسیقی اب سننے کو نہیں ملتی۔ آج کل کی موسیقی میں وہ میلوڈی، وہ شاعری اور آوازیں ناپید ہیں۔ یا تو میں اُس دور کا ہوں جو آج کی موسیقی سے میل نہیں کھاتا، مگر نئے لوگوں میں مجھے وہ گانے وہ دھنیں سننے کو نہیں ملتیں۔ اس کے مقابلے میں آج بھی جب پرانی دھنیں کانوں میں گونجتی ہیں تو ہمیں نہ جانے کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں اور یادوں کی ایک دنیا میں ہمیں کھینچ لیتی ہے۔

وہ دھنیں ایسی ہیں کہ بھلانا چاہو تو بھی نہیں بھلا سکتے۔ نہ صرف روبن گھوش بل کہ جتنے بھی دیگر موسیقاروں نے ہماری فلموں کی موسیقی ترتیب دی وہ اب مجھے کم سنائی دیتی ہے۔ تاہم امید ہے کہ آئندہ چل کر موسیقی کا شعبہ اپنا کھویا ہوا مقام پالے گا۔ اچھی دھنیں، اچھی آوازیں آئیں گی۔ مجھے امید ہے کہ ایسا ہوگا کیوںکہ اچھی فلمیں بننی شروع ہوئی ہیں اور لوگ مسلسل کوشش کررہے ہیں کہ اچھی فلمیں بنائیں۔ ان فلموں کو رسپانس بھی مل رہا ہے۔ عرصۂ دراز کے بعد سنیماگھروں پر لوگوں کا جم غفیر دیکھنے کو مل رہا ہے۔ تو اسی طرح موسیقی میں بھی بہتری آئے گی اور آج نہیں توکل، کل نہیں تو پرسوں ایک اور روبن گھوش ضرور پیدا ہوگا، کیوں کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں