بے گناہ شہری پولیس کی کمائی کا ذریعہ بن گئے
شہریوں کوجھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دے کر رقوم کی وصولی، اعلی حکام خاموش
شہر میں دہشت گردی اور جرائم کے خاتمے کے لیے کراچی آپریشن اور قومی ایکشن پلان کو پولیس میں موجود کالی بھیڑوں نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے۔
سادہ لباس میں ملبوس اہلکار تھانوں کی سطح پر از خود غیر قانونی ٹیمیں بنا کر شہریوں کو ہراساں کر رہے ہیں اور انہیں مبینہ طور پر پکڑنے کے بعد جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دے کر بھاری رشوت وصول کرنے میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وفاقی کابینہ کی منظوری سے شہر میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف 5 ستمبر 2013ء سے شروع کیے جانے والے آپریشن سے رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کئی اہم کامیابیاں حاصل ہوئیں اور نتیجتاً جرائم کی وارداتوں میں نمایاں کمی بھی واقع ہوئی۔
بعدازاں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد جنوری 2015ء میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بننے والے قومی ایکشن پلان پر کراچی میں بھی عملدرآمد کرایا گیا، تاہم پولیس میں موجود کالی بھیڑوں نے آپریشن اور قومی ایکشن پلان کو بھی نہیں بخشا اور اس کی آڑ میں شہریوں کو بلاجواز تنگ کرتے ہوئے انہیں پکڑنے کے بعد سنگین جرائم میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دے کر مبینہ طور پر بھاری رشوت وصول کی جانے لگی۔
یہ پولیس کی کالی بھیڑیں سادہ لباس اہلکاروں کا روپ دھار کر شہریوں کے لیے خوف کی علامت بن گئے ہیں، سادہ لباس اہلکار بغیر نمبر پلیٹ کی پولیس موبائلوں میں سوار ہوتے ہیں اور آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کی واضح ہدایت کے باوجود بغیر وردی رات کی تاریکی میں کسی بھی گھر یا مقام پر چھاپہ مار کر شہریوں کو مبینہ طور پر بلاجواز حراست میں لیے جانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
گزشتہ ماہ جنوری میں پاکستان بازار تھانے کے معطل اے ایس آئی اکرم خان نے اپنے پرائیوٹ 6 ساتھیوں کے ہمراہ شہری جمشید کو اورنگی ٹاؤن سے اٹھایا اور اس کی رہائی کے عوض مبینہ طور پر رقم طلب کی۔ اس دوران جمشید کے بھائی کوثر نے رینجرز کو مذکورہ واقعہ کے حوالے سے درخواست دی، جس پر رینجرز نے 11 جنوری کو غریب آباد کے قریب سے ایک لاکھ روپے وصول کرنے آنے والے اے ایس آئی اکرم خان، اس کے ساتھیوں ایاز، کامران، فیاض عالم، شاہد، عامر اورخالد اختر کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا، جس کا مقدمہ 09/16 نیوٹاؤن تھانے میں درج کیا گیا جبکہ گرفتار ملزمان سے پاکستان تھانے کی موبائل اور 4 سرکاری ایس ایم جیز بھی برآمد ہوئیں، جو کیس پراپرٹی بنائی گئی ہیں۔
گرفتار ملزم اے ایس آئی نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ اسے مبینہ طور پر ویسٹ زون کے اعلیٰ افسران نے معطل ہونے کے باوجود اسپیشل پارٹی کا انچارج بنایا تھا اور شہر کے کسی بھی علاقے سے کسی کو بھی اٹھا کر لاتے تھے، جنہیں بعدازاں پاکستان بازار تھانے سے متصل پولیس لائن میں بنائے گئے ٹارچر سیل میں غیر قانونی طور پر حبس بیجا میں رکھتے اور انھیں تشدد کا نشانہ بھی بناتے تھے، بعدازاں ان شہریوں کے اہلخانہ سے رابطہ کراکر ان سے رقم وصول کرتے تھے۔
رینجرز کے ہاتھوں معطل اے ایس آئی اکرم خان کی گرفتاری پر آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے فوری طور پر تحقیقاتی کمیٹی ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ کی سربراہی میں تشکیل دیتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ 3 دن میں طلب کی تاہم انھوں نے تقریباً ڈیڑھ ہفتے بعد تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ اعلیٰ افسران کو ارسال کی، جس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوسکا اور تمام منصوبہ بندی کا مرکزی کردار ایس ایچ او پاکستان بازار ظہیر مہیسر کو معطل کرنے کے سوا اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
مذکورہ کیس کے دیگر کرداروں کو نیو ٹاؤن تھانے کے تفتیشی افسران نے مبینہ طور پر بھاری رشوت کے عوض گرفتار کرنا تو دور کی بات، ان سے پوچھ گچھ بھی نہیں کی۔ رپورٹ ملنے کے بعد آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے دوبارہ اس کیس پر نظر ڈالی نہ پولیس کو مزید کوئی ایسے احکامات جاری کیے جس میں انھیں اختیارات کے ناجائز استعمال سے روکا جا سکے۔
ابھی اس واقعہ کی بازگشت ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ رواں ماہ 10 فروری کو ایسا ہی دوسرا واقعہ ایسٹ زون میں منظر عام پر آیا جس میں سابق ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن نے ظفر عباس نے اپنے ساتھی منظور شاہ سمیت دیگر ساتھیوں کی ملی بھگت سے ٹرانسپورٹر عبدالرحیم داد مینگل اور اس کے شراکت دار محمد یاسین کو اٹھا لیا اور رہائی کے عوض اہلخانہ سے 68 لاکھ 50 ہزار روپے وصول کرنے کے بعد رہا کر دیا۔
بعدازاں مذکورہ مغویوں نے ملیر سٹی تھانے میں سابق ایس ایچ اوظفر عباس اور اس کے ساتھیوں کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرایا جس کے بعد ملیر سٹی انویسٹی گیشن پولیس نے سابق ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن سب انسپکٹر ظفر عباس اور اس کے ساتھی منظور شاہ کو گرفتار کر کے ادا کی گئی رقم میں سے 10لاکھ روپے برآمد کرلیے جبکہ دیگر 2 پولیس اہلکار تاحال گرفتار نہیں ہوسکے۔ گرفتار کیے جانے والے سابق ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن ظفر عباس نے تفتیشی افسران کو بتایا کہ اس کی مبینہ ٹاؤن تھانے میں تعیناتی سے قبل تھانے میں اسپیشل پارٹٰی کام کر رہی تھی جبکہ اس واردات میں 2 پولیس اہلکار، 3 پرائیوٹ افراد جو مخبر خاص بتائے جاتے ہے تاحال گرفتار نہیں کیے جا سکے۔
اس حوالے سے انویسٹی گیشن پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے متعدد مقامات پر چھاپے مارے گئے تاہم کوئی اہم کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ سابق ایس ایچ او نے دوران تفتیش انکشاف کیا تھا کہ ناجائز حراست میں لئے گئے افراد کو 3 روز تک قید میں رکھا تھا، جس میں 2 تو مبینہ ٹاؤن تھانے کے عقب میں بنے ہوئے کمروں اور ایک دن کے لیے سچل تھانے کے لاک اپ میں رکھے گئے۔
محکمہ پولیس کے ایک لیگل افسر کا کہنا ہے کہ جب سابق ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن ظفر عباس نے مغویوں کو سچل تھانے کے لاک اپ میں رکھا تو اس وقت کے ایس ایچ او، ڈیوٹی افسر اور ہیڈ محر ر کے خلاف بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جانا چاہیے تاہم اس کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔ مذکورہ کیس منظر عام پر آنے کے ایک روز کے بعد ڈسٹرکٹ سینٹرل میں واقع نیوکراچی تھانے کی پولیس نے بھی ایسا ہی کارنامہ سرانجام دے دیا، جہاں اے ایس آئی منظور بلوچ اور پولیس کانسٹیبلز صغیر اور غفار نے 2 شہریوں کو اٹھا کر مبینہ طور پر 2 لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔
بعدازاں دونوں شہری11 فروری کو ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ کے دفتر پہنچ گئے اور انھیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا جس پر انھوں نے تحقیقات کے بعد مذکورہ اے ایس آئی منظور بلوچ اور کانسٹیبلز صغیر اور غفار کو معطل کر کے 14 دن کے لیے کوارٹر گارڈ کر دیا جبکہ ایس ایچ او نیو کراچی نعیم خان تنولی کو معطل کر کے ایک درجے تنزلی کر دی بعدازاں ایس ایس پی سینٹرل کے ایک چہیتے افسر پولیس اہلکاروں کو بچانے میں سرگرم ہوگئے اور انھوں نے پولیس اہلکاروں کی شکایت کرنے والے شہریوں پر اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی درخواست واپس لینے پر مجبور ہوگئے۔ پولیس میں موجود کالی بھیڑیں محکمہ پولیس کے لیے بدنما داغ ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ان کالی بھیڑوں کا عملی طور پر خاتمہ کب اور کون کرے گا؟
سادہ لباس میں ملبوس اہلکار تھانوں کی سطح پر از خود غیر قانونی ٹیمیں بنا کر شہریوں کو ہراساں کر رہے ہیں اور انہیں مبینہ طور پر پکڑنے کے بعد جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دے کر بھاری رشوت وصول کرنے میں مصروف ہیں۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وفاقی کابینہ کی منظوری سے شہر میں دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں، اغوا برائے تاوان اور دیگر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف 5 ستمبر 2013ء سے شروع کیے جانے والے آپریشن سے رینجرز، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کئی اہم کامیابیاں حاصل ہوئیں اور نتیجتاً جرائم کی وارداتوں میں نمایاں کمی بھی واقع ہوئی۔
بعدازاں سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد جنوری 2015ء میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بننے والے قومی ایکشن پلان پر کراچی میں بھی عملدرآمد کرایا گیا، تاہم پولیس میں موجود کالی بھیڑوں نے آپریشن اور قومی ایکشن پلان کو بھی نہیں بخشا اور اس کی آڑ میں شہریوں کو بلاجواز تنگ کرتے ہوئے انہیں پکڑنے کے بعد سنگین جرائم میں ملوث کرنے کی دھمکیاں دے کر مبینہ طور پر بھاری رشوت وصول کی جانے لگی۔
یہ پولیس کی کالی بھیڑیں سادہ لباس اہلکاروں کا روپ دھار کر شہریوں کے لیے خوف کی علامت بن گئے ہیں، سادہ لباس اہلکار بغیر نمبر پلیٹ کی پولیس موبائلوں میں سوار ہوتے ہیں اور آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی کی واضح ہدایت کے باوجود بغیر وردی رات کی تاریکی میں کسی بھی گھر یا مقام پر چھاپہ مار کر شہریوں کو مبینہ طور پر بلاجواز حراست میں لیے جانے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔
گزشتہ ماہ جنوری میں پاکستان بازار تھانے کے معطل اے ایس آئی اکرم خان نے اپنے پرائیوٹ 6 ساتھیوں کے ہمراہ شہری جمشید کو اورنگی ٹاؤن سے اٹھایا اور اس کی رہائی کے عوض مبینہ طور پر رقم طلب کی۔ اس دوران جمشید کے بھائی کوثر نے رینجرز کو مذکورہ واقعہ کے حوالے سے درخواست دی، جس پر رینجرز نے 11 جنوری کو غریب آباد کے قریب سے ایک لاکھ روپے وصول کرنے آنے والے اے ایس آئی اکرم خان، اس کے ساتھیوں ایاز، کامران، فیاض عالم، شاہد، عامر اورخالد اختر کو رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا، جس کا مقدمہ 09/16 نیوٹاؤن تھانے میں درج کیا گیا جبکہ گرفتار ملزمان سے پاکستان تھانے کی موبائل اور 4 سرکاری ایس ایم جیز بھی برآمد ہوئیں، جو کیس پراپرٹی بنائی گئی ہیں۔
گرفتار ملزم اے ایس آئی نے دوران تفتیش انکشاف کیا کہ اسے مبینہ طور پر ویسٹ زون کے اعلیٰ افسران نے معطل ہونے کے باوجود اسپیشل پارٹی کا انچارج بنایا تھا اور شہر کے کسی بھی علاقے سے کسی کو بھی اٹھا کر لاتے تھے، جنہیں بعدازاں پاکستان بازار تھانے سے متصل پولیس لائن میں بنائے گئے ٹارچر سیل میں غیر قانونی طور پر حبس بیجا میں رکھتے اور انھیں تشدد کا نشانہ بھی بناتے تھے، بعدازاں ان شہریوں کے اہلخانہ سے رابطہ کراکر ان سے رقم وصول کرتے تھے۔
رینجرز کے ہاتھوں معطل اے ایس آئی اکرم خان کی گرفتاری پر آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے فوری طور پر تحقیقاتی کمیٹی ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ کی سربراہی میں تشکیل دیتے ہوئے واقعہ کی رپورٹ 3 دن میں طلب کی تاہم انھوں نے تقریباً ڈیڑھ ہفتے بعد تحقیقات مکمل کرنے کے بعد رپورٹ اعلیٰ افسران کو ارسال کی، جس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہوسکا اور تمام منصوبہ بندی کا مرکزی کردار ایس ایچ او پاکستان بازار ظہیر مہیسر کو معطل کرنے کے سوا اس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔
مذکورہ کیس کے دیگر کرداروں کو نیو ٹاؤن تھانے کے تفتیشی افسران نے مبینہ طور پر بھاری رشوت کے عوض گرفتار کرنا تو دور کی بات، ان سے پوچھ گچھ بھی نہیں کی۔ رپورٹ ملنے کے بعد آئی جی سندھ غلام حیدر جمالی نے دوبارہ اس کیس پر نظر ڈالی نہ پولیس کو مزید کوئی ایسے احکامات جاری کیے جس میں انھیں اختیارات کے ناجائز استعمال سے روکا جا سکے۔
ابھی اس واقعہ کی بازگشت ختم ہی نہیں ہوئی تھی کہ رواں ماہ 10 فروری کو ایسا ہی دوسرا واقعہ ایسٹ زون میں منظر عام پر آیا جس میں سابق ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن نے ظفر عباس نے اپنے ساتھی منظور شاہ سمیت دیگر ساتھیوں کی ملی بھگت سے ٹرانسپورٹر عبدالرحیم داد مینگل اور اس کے شراکت دار محمد یاسین کو اٹھا لیا اور رہائی کے عوض اہلخانہ سے 68 لاکھ 50 ہزار روپے وصول کرنے کے بعد رہا کر دیا۔
بعدازاں مذکورہ مغویوں نے ملیر سٹی تھانے میں سابق ایس ایچ اوظفر عباس اور اس کے ساتھیوں کے خلاف اغوا کا مقدمہ درج کرایا جس کے بعد ملیر سٹی انویسٹی گیشن پولیس نے سابق ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن سب انسپکٹر ظفر عباس اور اس کے ساتھی منظور شاہ کو گرفتار کر کے ادا کی گئی رقم میں سے 10لاکھ روپے برآمد کرلیے جبکہ دیگر 2 پولیس اہلکار تاحال گرفتار نہیں ہوسکے۔ گرفتار کیے جانے والے سابق ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن ظفر عباس نے تفتیشی افسران کو بتایا کہ اس کی مبینہ ٹاؤن تھانے میں تعیناتی سے قبل تھانے میں اسپیشل پارٹٰی کام کر رہی تھی جبکہ اس واردات میں 2 پولیس اہلکار، 3 پرائیوٹ افراد جو مخبر خاص بتائے جاتے ہے تاحال گرفتار نہیں کیے جا سکے۔
اس حوالے سے انویسٹی گیشن پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ان ملزمان کی گرفتاری کے لیے متعدد مقامات پر چھاپے مارے گئے تاہم کوئی اہم کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ سابق ایس ایچ او نے دوران تفتیش انکشاف کیا تھا کہ ناجائز حراست میں لئے گئے افراد کو 3 روز تک قید میں رکھا تھا، جس میں 2 تو مبینہ ٹاؤن تھانے کے عقب میں بنے ہوئے کمروں اور ایک دن کے لیے سچل تھانے کے لاک اپ میں رکھے گئے۔
محکمہ پولیس کے ایک لیگل افسر کا کہنا ہے کہ جب سابق ایس ایچ او مبینہ ٹاؤن ظفر عباس نے مغویوں کو سچل تھانے کے لاک اپ میں رکھا تو اس وقت کے ایس ایچ او، ڈیوٹی افسر اور ہیڈ محر ر کے خلاف بھی قانونی کارروائی عمل میں لائی جانا چاہیے تاہم اس کیس میں ایسا نہیں کیا گیا۔ مذکورہ کیس منظر عام پر آنے کے ایک روز کے بعد ڈسٹرکٹ سینٹرل میں واقع نیوکراچی تھانے کی پولیس نے بھی ایسا ہی کارنامہ سرانجام دے دیا، جہاں اے ایس آئی منظور بلوچ اور پولیس کانسٹیبلز صغیر اور غفار نے 2 شہریوں کو اٹھا کر مبینہ طور پر 2 لاکھ روپے وصول کرنے کے بعد چھوڑ دیا۔
بعدازاں دونوں شہری11 فروری کو ڈی آئی جی ویسٹ فیروز شاہ کے دفتر پہنچ گئے اور انھیں تمام صورتحال سے آگاہ کیا جس پر انھوں نے تحقیقات کے بعد مذکورہ اے ایس آئی منظور بلوچ اور کانسٹیبلز صغیر اور غفار کو معطل کر کے 14 دن کے لیے کوارٹر گارڈ کر دیا جبکہ ایس ایچ او نیو کراچی نعیم خان تنولی کو معطل کر کے ایک درجے تنزلی کر دی بعدازاں ایس ایس پی سینٹرل کے ایک چہیتے افسر پولیس اہلکاروں کو بچانے میں سرگرم ہوگئے اور انھوں نے پولیس اہلکاروں کی شکایت کرنے والے شہریوں پر اتنا دباؤ ڈالا کہ وہ اپنی درخواست واپس لینے پر مجبور ہوگئے۔ پولیس میں موجود کالی بھیڑیں محکمہ پولیس کے لیے بدنما داغ ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ ان کالی بھیڑوں کا عملی طور پر خاتمہ کب اور کون کرے گا؟