وفاقی حکومت کا اوآئی سی کومتحرک کرنے کیلیے رابطوں کا فیصلہ
تمام اسلامی ممالک سے رابطوں کیلیے وزیراعظم کی منظوری سے اعلیٰ سطح کا وفد دورے کریگا
وفاقی حکومت نے امت مسلمہ کو درپیش چیلنجز کے حل اور مسائل سے نمٹنے کے لیے اسلامی سربراہی کانفرنس (او آئی سی) کو متحرک کرنے کے لیے تمام اسلامی ممالک سے رابطے کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ۔
اس ضمن میں وزیراعظم کی منظوری کے بعد مشیر خارجہ اور اعلیٰ سطح کا وفد اسلامی ممالک کے دورے کرے گا اور آو آئی سی کو فعال کرنے کے حوالے سے مشترکہ پالیسی طے کرانے کی کوشش جائے گی ۔وفاقی حکومت کے اہم ترین ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ حکومتی حلقوں میں کی گئی مشاورت میں عالمی سطح پرہونے والی تبدیلیوں خصوصا مختلف اسلامی ممالک کے درمیان تنازعات اور دیگر مسائل کی تفصیلی غور کیا گیا ہے۔
اس مشاورت میں سعودی عرب کی جانب سے قائم کیے جانے34 ملکی اتحاد میں پاکستان کے آئندہ کردارکا بھی جائزہ لیا گیا ہے ۔اس اتحاد کے حوالے سے فی الحال پاکستان نے اس حکمت عملی کو اختیارکیاگیا ہے کہ ''پاکستان اس اتحاد میں کا حصہ تو بنے گا لیکن اس اتحاد کی جانب سے کسی بھی ملک کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائی کا باضابطہ حصہ نہیں لے گا ''۔اس اتحاد میں شامل ہوکر بھی پاکستان کی پالیسی ہوگی مسائل کو بات چیت سے طے کیا جائے۔
اس اتحاد میں پاکستان کی باضابطہ شمولیت کے اعلان سے قبل حکومت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے سکتی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا نکتہ''مذاکرات '' ہی ہوگا ۔اس پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کے درمیان باہمی اتحاد واتفاق پیدا کرانے اور تنازعات ومسائل کوحل کرانے کیلیے اپنا سفارتی کردارادا کرتا رہے گا ۔حکومتی حلقوں میں کی گئی مشاورت طے کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے تمام اسلامی ممالک سے رابطے کرکے پیغام دے گا کہ او آئی سی کو فعال کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی طے کی جائے اور پاکستان کی جانب سے تجویز دی جائے گی کہ اوآئی سی کا اجلاس ہرماہ یا تین ماہ میں طلب کیاجائے ۔
اس میں شامل ممالک تمام مسائل کا جائزہ لیں اوران کے حل کے لیے لائحہ عمل مشترکہ طور پر طے کریں ۔پاکستان کی کوشش ہوگی کہ دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں خصوصا داعش کے خطرات سے نمٹنے اور ان تنظیموں کے نیٹ ورک کی روک تھام کے لیے بھی تمام اسلامی ممالک مشترکہ حکمت عملی کریں ۔پاکستان کی کوشش ہوگی اگر مختلف اسلامی ممالک کے درمیان کوئی تنازع ہے تو اس کو ڈائیلاگ پالیسی سے حل کیا جائے ۔پاکستان کی اس حوالے سے حتمی پالیسی کی منظوری وزیراعظم دیں گے ۔اس پالیسی کی منظوری کے بعد پاکستانی حکام اسلامی ممالک سے رابطے شروع کرسکتے ہیں۔
اس ضمن میں وزیراعظم کی منظوری کے بعد مشیر خارجہ اور اعلیٰ سطح کا وفد اسلامی ممالک کے دورے کرے گا اور آو آئی سی کو فعال کرنے کے حوالے سے مشترکہ پالیسی طے کرانے کی کوشش جائے گی ۔وفاقی حکومت کے اہم ترین ذرائع نے ایکسپریس کو بتایا ہے کہ حکومتی حلقوں میں کی گئی مشاورت میں عالمی سطح پرہونے والی تبدیلیوں خصوصا مختلف اسلامی ممالک کے درمیان تنازعات اور دیگر مسائل کی تفصیلی غور کیا گیا ہے۔
اس مشاورت میں سعودی عرب کی جانب سے قائم کیے جانے34 ملکی اتحاد میں پاکستان کے آئندہ کردارکا بھی جائزہ لیا گیا ہے ۔اس اتحاد کے حوالے سے فی الحال پاکستان نے اس حکمت عملی کو اختیارکیاگیا ہے کہ ''پاکستان اس اتحاد میں کا حصہ تو بنے گا لیکن اس اتحاد کی جانب سے کسی بھی ملک کے خلاف کی جانے والی فوجی کارروائی کا باضابطہ حصہ نہیں لے گا ''۔اس اتحاد میں شامل ہوکر بھی پاکستان کی پالیسی ہوگی مسائل کو بات چیت سے طے کیا جائے۔
اس اتحاد میں پاکستان کی باضابطہ شمولیت کے اعلان سے قبل حکومت پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے سکتی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے پاکستان کی خارجہ پالیسی کا نکتہ''مذاکرات '' ہی ہوگا ۔اس پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان اسلامی ممالک کے درمیان باہمی اتحاد واتفاق پیدا کرانے اور تنازعات ومسائل کوحل کرانے کیلیے اپنا سفارتی کردارادا کرتا رہے گا ۔حکومتی حلقوں میں کی گئی مشاورت طے کیا گیا ہے کہ وفاقی حکومت امت مسلمہ کے مسائل کے حل کے لیے تمام اسلامی ممالک سے رابطے کرکے پیغام دے گا کہ او آئی سی کو فعال کرنے کے لیے مربوط حکمت عملی طے کی جائے اور پاکستان کی جانب سے تجویز دی جائے گی کہ اوآئی سی کا اجلاس ہرماہ یا تین ماہ میں طلب کیاجائے ۔
اس میں شامل ممالک تمام مسائل کا جائزہ لیں اوران کے حل کے لیے لائحہ عمل مشترکہ طور پر طے کریں ۔پاکستان کی کوشش ہوگی کہ دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں خصوصا داعش کے خطرات سے نمٹنے اور ان تنظیموں کے نیٹ ورک کی روک تھام کے لیے بھی تمام اسلامی ممالک مشترکہ حکمت عملی کریں ۔پاکستان کی کوشش ہوگی اگر مختلف اسلامی ممالک کے درمیان کوئی تنازع ہے تو اس کو ڈائیلاگ پالیسی سے حل کیا جائے ۔پاکستان کی اس حوالے سے حتمی پالیسی کی منظوری وزیراعظم دیں گے ۔اس پالیسی کی منظوری کے بعد پاکستانی حکام اسلامی ممالک سے رابطے شروع کرسکتے ہیں۔