بے توقیر ہوتے ریاستی ادارے
حیران کن بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا کوئی وزیر، مشیر یا رکن اسمبلی اس قسم کا بیان دیتا، تو بات دیگر ہوتی۔
ISLAMABAD:
گزشتہ منگل کو بہاولپور میں نومنتخب بلدیاتی نمایندگان اور پارٹی کارکنوں سے خطاب کے دوران وزیراعظم اچانک قومی احتساب بیورو (NAB) پر برس پڑے۔ انھوں نے الزام عائد کیا کہ نیب معصوم لوگوں کی عزتیں اچھال رہا ہے۔ یہ گفتگو کرتے ہوئے ان کی بدن بولی اور چہرے کے تاثرات اندرونی خلفشار کو واضح کر رہے تھے۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ اپنے اس تیسرے دور میں ردعمل ظاہر کرنے میں وہ خاصے محتاط ہو چکے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھیں جو کچھ ہوتا نظر آ رہا ہے یا وہ محسوس کر رہے ہیں، اس نے برہمی پر مجبور کر دیا۔ لیکن ان کا یہ جملہ خاصا معنی خیز تھا کہ عوام ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں اور حکومت کوئی اور توڑ دیتا ہے۔ اس جملہ کو سمجھنے کے لیے کسی لغت یا کسی انسائیکلوپیڈیا کی ضرورت نہیں کہ ان کا اشارہ کس جانب تھا۔
ابھی وزیران، مشیران اور اراکین اسمبلی ان کے بیانات کی مختلف چینلوں پر وضاحتوں سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے پنجاب اسمبلی کے باہر دعویٰ کیا کہ پنجاب میں نیب کو کارروائی نہیں کرنے دیں گے؟ ایسا انداز اگر کسی چھوٹے صوبے کے کسی وزیر ، وزیراعلیٰ یا کسی سیاستدان نے دکھایا ہوتا تو ہر طرف شور مچ جاتا۔ لہٰذا یہ طے ہے کہ بڑے صوبے کا وزیر بھی چھوٹے صوبے سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم سے بڑا ہوتا ہے۔
ان دونوں بیانات نے یہ واضح کر دیا کہ تمام جرائم پیشہ افراد صرف چھوٹے صوبوں میں پائے جاتے ہیں۔ ساری کرپشن، بدعنوانی بھی انھی صوبوں میں پائی جاتی ہے۔ صرف ایک صوبے میں پاک و پوتر لوگ بستے ہیں۔ ان بیانات سے یہ بھی ثابت ہوا کہ پاکستان ایک فیڈریشن نہیں، بلکہ پنجاب کی نوآبادی ہے۔ چونکہ نوآبادی میں شہری نہیں رعیت ہوتی ہے، اس لیے پورے ملک میں پایا جانے والا یہ تاثر غلط نہیں ہے کہ صرف ایک صوبے کے عوام شہری ہیں، جب کہ باقی صوبوں کے باسی اس ملک کے شہری نہیں رعیت ہیں۔ یہی کچھ روش بنگالی عوام کے ساتھ روا رکھی گئی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) کا کوئی وزیر، مشیر یا رکن اسمبلی اس قسم کا بیان دیتا، تو بات دیگر ہوتی۔ مگر یہ جملے ملک کا چیف ایگزیکٹو کہہ رہا ہے، جو ملک کا انتظامی سربراہ ہے۔ ان کے اس بیان سے کئی مطالب نکل رہے ہیں۔ اول، وہ مشکلات میں گھرا ہوا ہے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات درست نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بہتر تعلقات اور ایک صفحہ پر ہونے کی جو کہانیاں سنائی جاتی رہی ہیں، وہ محض داستانیں تھیں۔ جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس کے علاوہ NAB پر تنقید محض اشارتاً ہے۔ کیونکہ یہ جملہ کہ ''عوام ووٹ دے کر منتخب کرتے ہیں، حکومت کوئی اور توڑ دیتا ہے'' ان کے اندر اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کو ظاہر کرتا ہے۔
دوئم، میاں نواز شریف ابھی تک خود کو پورے ملک کے بجائے پنجاب سے تعلق رکھنے والا وزیراعظم سمجھتے ہیں۔ اس تصور میں کتنی حقیقت ہے، اس کا اندازہ ان کے تینوں ادوار اقتدار میں کیے گئے اقدامات سے لگایا جا سکتا ہے۔ اگر وہ پورے ملک کے وزیراعظم ہوتے، تو اس وقت بولتے جب ایم کیو ایم کے قائد پر مقدمات قائم کیے جا رہے تھے۔ اس وقت بولتے جب ڈاکٹر عاصم کی تذلیل کی جا رہی تھی اور پیپلز پارٹی کا میڈیا ٹرائل کیا جا رہا تھا۔ مگر آج جب پنجاب سے تعلق رکھنے والے بعض افراد کے گرد گھیرا تنگ ہونے کا خدشہ پیدا ہوا ہے، تو ان کی زبان پر صدائے احتجاج آ گئی ہے۔
ہمارا مقصد کسی بھی طور پر نہ تو ان کے شکوک و شبہات پر انگشت نمائی ہے اور نہ ہی NAB کے ڈھانچہ اور اس کی کارکردگی پر ان کے تحفظات کو رد کرنا ہے۔ کیونکہ جو کچھ انھوں نے کہا اس میں بہرحال وزن ہے۔ اس کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ پاکستان کی 68 برس کی تاریخ اس قسم کے ایڈونچر سے بھری ہوئی ہے۔ لیکن معاملہ صرف NAB تک محدود نہیں ہے، بلکہ ریاست کے تمام اہم قومی ادارے فرسودگی کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں۔ جن میں تطہیر و اصلاحات وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ NAB کو کسی کمیشن کے ذریعہ کنٹرول کرنے کے بجائے اس کی کارکردگی میں بہتری لانے کے اقدامات کیے جائیں۔ یہ کام کسی حکومت یا ایک یا دو جماعتوں کی خواہش پر نہیں کیا جا سکتا۔
اس مقصد کے لیے پارلیمان کو فیصلہ کرنا ہو گا کہ NAB، الیکشن کمیشن اور NADRA جیسے قومی نوعیت کے اہم اداروں کو کس طرح آزاد، خودمختار اور غیرجانبدار بنایا جا سکتا ہے اور ان کی بااختیار حیثیت کو کس طرح تحفظ دیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ان اداروں کے سربراہوں اور کونسل اراکین کا انتخاب بھی پارلیمان ہی کو کرنا چاہیے، کیونکہ اب تک کے تجربات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ملک میں کسی حکومت (منتخب اور غیرمنتخب دونوں) میں وہ دور اندیشی اور بصیرت نہیں ہے، جو اس قسم کے اداروں کی تشکیل کے لیے درکار ہوتی ہے۔
متعلقہ حکومتوں اور سیاسی جماعتوں کی کوتاہ بینی کا یہ ثبوت کیا کم ہے کہ آج تک کسی کو یہ بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ انتخابی اصلاحات اور الیکشن کمیشن کی تشکیل نو کے لیے ڈیڑھ برس قبل قائم ہونے والا 31 رکنی کمیشن کہاں غرق کر دیا گیا ہے۔ ایک اور جانب آئیے۔ سپریم کورٹ کے مسلسل دباؤ کے بعد جس انداز میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور جس طرح ان اداروں کو اختیارات تفویض کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا جا رہا ہے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پھر جس انداز میں تعلیم اور صحت جیسے معاملات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان منصوبوں پر اربوں کھربوں کی رقم صرف کی جا رہی ہے، جن سے بھاری کک بیکس ملتے ہیں اور جو دنیا کو نظر آتے ہیں۔
ایسی صورت میں عوام میاں صاحبان کے جائز خدشات کو بھی نظر انداز کرتے ہوئے ان قوتوں کا ساتھ دیں گے جو انھیں اس پریشانی سے نجات دلائے۔ اگر ہماری سیاسی جماعتوں نے ریل سے جیل تک کے سفر کی صعوبتوں سے سبق سیکھ لیا ہوتا اور ان میں دانشمندی کی معمولی سی رمق بھی آ گئی ہوتی، تو ان کی اولین ترجیح عوامی مفادات کے اقدامات ہوتے۔ مگر کہیں فیوڈل Mindset، تو کہیں شہنشاہیت کی سوچ انھیں اختیارات کی عدم مرکزیت کی طرف راغب ہی نہیں ہونے دیتی۔ ایسے میں ان کے ساتھ اگر زیادتی بھی ہوتی ہے، تو عوام شکرانہ ادا کرتے ہیں۔ خواہ آٹھ دس برس بعد انھیں جمہوریت کی بحالی کے نام پر ایک بار پھر سڑکوں پر ہی کیوں نہ نکلنا پڑے۔
لہٰذا پاکستانی شہری یہ گزارش کرنے میں حق بجانب ہیں کہ خدارا ایسے اقدامات سے گریز کیا جائے جو عوام کی زندگیاں اجیرن کرنے کا باعث ہیں۔ اس کے علاوہ سیاسی مفادات کے حصول کے لیے انتقامی کارروائیوں کے ذریعے اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش سے گریز کیا جائے۔ کیونکہ ریاست کے مستقل ادارے اگر بے توقیر ہو جائیں تو پھر ان کا وقار اور اعتماد بحال ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بھی خیال رکھا جائے کہ پاکستان ایک وفاق ہے اور یہاں لسانی، قومیتی اور مسلکی تقسیم خود حکومتوں کی غلط پالیسیوں کے سبب گہری ہو چکی ہے۔ اس لیے جو فیصلے ہوں، وہ تمام صوبوں کے لیے یکساں ہوں، ورنہ امتیازی طرز عمل اس خلیج کو مزید گہرا کرے گا۔