سرمایہ دارانہ نظام کی بربریت
یہ لاہور جیسے شہر کا حال ہے تو پھر اندازہ لگائیں کہ باقی پنجاب کے شہروں دیہاتوں کا کیا حال ہو گا۔
قارئین کی اکثریت کو اس بات کا گلہ ہے کہ میں زیادہ عالمی امور پر لکھتا ہوں عوامی مسائل پر بہت کم لکھتا ہوں۔ ان کا گلہ جائز ہے۔ میرا خیال کہ ہمارے ساتھی ان مسائل پر قلم اٹھاتے رہتے ہیں' ان کے لکھے سے کچھ فرق نہیں پڑا تو میرے لکھے سے کیا ہو گا۔ اگر حکومت اور حکمرانوں کے کان پر جوں نہ رینگے تو ہم لوگ کیا کر سکتے ہیں۔ بے چارے عوام یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا لکھا ہوا حکمران بڑے غور سے پڑھتے ہیں اور اس کا ان پر اثر بھی ہوتا ہے۔
حالانکہ حقیقی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات اور مصروفیات دوسری ہیں جس میں سے بیشتر کا تعلق ان کی ذاتی، خاندانی دوست اور عزیز و اقربا کی ترقی سے ہے۔ پڑھنے کی زحمت وہ خود نہیں کرتے بلکہ ان کے سیکریٹری حضرات کچھ منتخب تحریر ان کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں جس میں ان کی تعریف ہوتی ہے۔ اگر غلطی سے کوئی ایسی تحریر پیش کر دی جائے جس میں ان پر تنقید کی گئی ہو تو پھر سیکریٹری حضرات بھی آزمائشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ اصل حقائق پیش کر کے حکمرانوں کی ناراضی مول لے۔جس ملک میں ہر روز چار ہزار افراد جگر کے سرطان سے مر رہے ہوں وہاں اورنج ٹرین چلانے کی تیاریاں ہیں۔
صرف اس ایک مرض میں مرنے والوں کی تعداد مہینے میں سوا لاکھ اور سال میں چودہ لاکھ سے زائد بنتی ہے اس مرض کا بڑا سبب نا صاف پانی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے بجٹ کے بڑا حصہ اور دوسرے شہروں کے لیے مختص فنڈ صرف ایک شہر لاہور پر خرچ ہو رہے ہیں اور خود لاہور شہر کا یہ حال ہے کہ اس کے کچھ حصوں اور سڑکوں کو چھوڑ کر باقی پورے لاہور کا حال کا ابتر ہے۔ سڑکیں اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ گٹر ابل رہے ہیں۔
یہ لاہور جیسے شہر کا حال ہے تو پھر اندازہ لگائیں کہ باقی پنجاب کے شہروں دیہاتوں کا کیا حال ہو گا۔ غیر ملکی وی آئی پی حضرات کو لاہور کی جن سڑکوں اور علاقوں سے گزارا جاتا ہے وہ سمجھتے ہوں گے کہ باقی لاہور بھی ویسا ہی ہو گا۔ عوامی مخالفت کے باوجود اورنج ٹرین پر کام جاری ہے حتی کہ اقوام متحدہ کے ثقافتی تاریخی ورثے کے محکمے نے بھی اس پر شدید اعتراضات کیے ہیں کہ اس ٹرین کی وجہ سے تاریخی مقامات کو نقصان نہ پہنچے۔ مثال انڈیا کی دی جاتی ہے وہاں بھی ایسی ہی ٹرین بنائی گئی لیکن وہاں پر جتنے تاریخی مقامات تھے جو مسلم مغل دور سے تعلق رکھتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے ٹرین کے روٹ کو ان سے دور لے جایا گیا۔
عوامی رہائشی علاقوں کی حفاظت اس طرح کی گئی کہ ٹرین کو زیرزمین گزارا گیا۔ ایک طرف میٹرو بس چل رہی ہے تو دوسری طرف بالکل اس کے ساتھ ویگنوں اور کوچوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ افراد بھیڑ بکریوں کی طرح سوار ہوتے ہیں۔ جن میں بیشتر تعداد اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء اور طالبات کی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں آئے دن گھروں کے نونہال جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ میٹرو بس سے کہیں کم خرچا کر کے موجودہ ٹرانسپورٹ کو بہتر بنا لیا جاتا۔
پاکستان کی دس کروڑ آبادی خط غربت سے نیچے ہے جن کو بمشکل ایک وقت کی روٹی میسر ہے۔ تازہ ترین بین الاقوامی ادارے کے مطابق پاکستان کی پچیس سے چالیس فیصد آبادی کم خوراکی کا شکار ہے جس کا نتیجہ ٹی بی ہیپاٹائٹس اور دل کے امراض کی شکل میں نکل رہا ہے اور اس کا نشانہ کم آمدنی والے ملازمین بن رہے ہیں جن کے کثیر تعداد میں ٹیلیفون آتے رہتے ہیں۔ ان میں چپڑاسی گارڈ اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین شامل ہیں۔
ان کی تنخواہیں چھ سے آٹھ ہزار کے درمیان ہیں۔ اس تنخواہ میں ان سے دس گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ دس سے بارہ ہزار ان خوش قسمت ملازمین کو ملتے ہیں جو چودہ گھنٹے کام کرنے پر راضی ہوں۔ اب اس محدود تنخواہ میں ایک وقت کی روٹی بھی مل جائے تو بڑی بات ہے۔ اب ان حالات میں بیمار پڑ جائیں تو اللہ ہی ان کا مالک ہے۔ غربت کے ہاتھوں کم عمری میں ہی موت کے گھاٹ اترنا ان کا مقدر ہے۔
بظاہر انسان ہیں لیکن بھوک ان کو جانور کی سطح پر گرا دیتی ہے۔ اس دور میں بندہ مزدور کے اوقات جتنے تلخ ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔ عورتوں اور لڑکیوں سے فیکٹریوں میں ہفتے میں سات دن کام لیا جاتا ہے جنہوں نے گھر بھی سنبھالنا ہوتا ہے اور اگر وہ چھٹی کر لیں تو نوکری سے فارغ۔ یہ ظلم کہیں اور نہیں لاہور میں ہو رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بربریت اپنے عروج پر ہے اور کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ پوچھے گا کون سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔
غریب اور مڈل کلاس طبقہ بہت برے حالات سے گزر رہا ہے۔ جس کی تنخواہ بیس ہزار ہے اپنا گھر نہیں بجلی گیس کے بل اور تعلیمی اخراجات بیماری' ان لوگوں کو بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے۔ نئے کپڑے سیر و تفریح ان کے لیے خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیمی اخراجات نے غریبوں کا کچومر نکال دیا ہے میٹرک اور اس سے اوپر والدین کو تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے زیور جائیداد فروخت کرنی پڑ جاتی ہے۔ تعلیم اور صحت یہ دو شعبے ایسے ہیں جہاں نہتے عوام ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں اور حکومت خاموش تماشائی ہے۔ کم از کم تنخواہ تیس ہزار ہو تو دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے۔ ورنہ جیسی مہنگائی اور دوسرے اخراجات ہیں ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار ہونی چاہیے۔
طالبان سے مذاکرات مارچ' اپریل میں دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔
سیل فون:۔ 0346-4527997
حالانکہ حقیقی بات یہ ہے کہ حکمرانوں کی ترجیحات اور مصروفیات دوسری ہیں جس میں سے بیشتر کا تعلق ان کی ذاتی، خاندانی دوست اور عزیز و اقربا کی ترقی سے ہے۔ پڑھنے کی زحمت وہ خود نہیں کرتے بلکہ ان کے سیکریٹری حضرات کچھ منتخب تحریر ان کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں جس میں ان کی تعریف ہوتی ہے۔ اگر غلطی سے کوئی ایسی تحریر پیش کر دی جائے جس میں ان پر تنقید کی گئی ہو تو پھر سیکریٹری حضرات بھی آزمائشوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کوئی بھی نہیں چاہتا کہ وہ اصل حقائق پیش کر کے حکمرانوں کی ناراضی مول لے۔جس ملک میں ہر روز چار ہزار افراد جگر کے سرطان سے مر رہے ہوں وہاں اورنج ٹرین چلانے کی تیاریاں ہیں۔
صرف اس ایک مرض میں مرنے والوں کی تعداد مہینے میں سوا لاکھ اور سال میں چودہ لاکھ سے زائد بنتی ہے اس مرض کا بڑا سبب نا صاف پانی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کی 80 فیصد آبادی کو صاف پانی میسر نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کے بجٹ کے بڑا حصہ اور دوسرے شہروں کے لیے مختص فنڈ صرف ایک شہر لاہور پر خرچ ہو رہے ہیں اور خود لاہور شہر کا یہ حال ہے کہ اس کے کچھ حصوں اور سڑکوں کو چھوڑ کر باقی پورے لاہور کا حال کا ابتر ہے۔ سڑکیں اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ گٹر ابل رہے ہیں۔
یہ لاہور جیسے شہر کا حال ہے تو پھر اندازہ لگائیں کہ باقی پنجاب کے شہروں دیہاتوں کا کیا حال ہو گا۔ غیر ملکی وی آئی پی حضرات کو لاہور کی جن سڑکوں اور علاقوں سے گزارا جاتا ہے وہ سمجھتے ہوں گے کہ باقی لاہور بھی ویسا ہی ہو گا۔ عوامی مخالفت کے باوجود اورنج ٹرین پر کام جاری ہے حتی کہ اقوام متحدہ کے ثقافتی تاریخی ورثے کے محکمے نے بھی اس پر شدید اعتراضات کیے ہیں کہ اس ٹرین کی وجہ سے تاریخی مقامات کو نقصان نہ پہنچے۔ مثال انڈیا کی دی جاتی ہے وہاں بھی ایسی ہی ٹرین بنائی گئی لیکن وہاں پر جتنے تاریخی مقامات تھے جو مسلم مغل دور سے تعلق رکھتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے ٹرین کے روٹ کو ان سے دور لے جایا گیا۔
عوامی رہائشی علاقوں کی حفاظت اس طرح کی گئی کہ ٹرین کو زیرزمین گزارا گیا۔ ایک طرف میٹرو بس چل رہی ہے تو دوسری طرف بالکل اس کے ساتھ ویگنوں اور کوچوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ افراد بھیڑ بکریوں کی طرح سوار ہوتے ہیں۔ جن میں بیشتر تعداد اسکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلباء اور طالبات کی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں آئے دن گھروں کے نونہال جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہیں ہوتا کہ میٹرو بس سے کہیں کم خرچا کر کے موجودہ ٹرانسپورٹ کو بہتر بنا لیا جاتا۔
پاکستان کی دس کروڑ آبادی خط غربت سے نیچے ہے جن کو بمشکل ایک وقت کی روٹی میسر ہے۔ تازہ ترین بین الاقوامی ادارے کے مطابق پاکستان کی پچیس سے چالیس فیصد آبادی کم خوراکی کا شکار ہے جس کا نتیجہ ٹی بی ہیپاٹائٹس اور دل کے امراض کی شکل میں نکل رہا ہے اور اس کا نشانہ کم آمدنی والے ملازمین بن رہے ہیں جن کے کثیر تعداد میں ٹیلیفون آتے رہتے ہیں۔ ان میں چپڑاسی گارڈ اور فیکٹریوں میں کام کرنے والے ملازمین شامل ہیں۔
ان کی تنخواہیں چھ سے آٹھ ہزار کے درمیان ہیں۔ اس تنخواہ میں ان سے دس گھنٹے کام لیا جاتا ہے۔ دس سے بارہ ہزار ان خوش قسمت ملازمین کو ملتے ہیں جو چودہ گھنٹے کام کرنے پر راضی ہوں۔ اب اس محدود تنخواہ میں ایک وقت کی روٹی بھی مل جائے تو بڑی بات ہے۔ اب ان حالات میں بیمار پڑ جائیں تو اللہ ہی ان کا مالک ہے۔ غربت کے ہاتھوں کم عمری میں ہی موت کے گھاٹ اترنا ان کا مقدر ہے۔
بظاہر انسان ہیں لیکن بھوک ان کو جانور کی سطح پر گرا دیتی ہے۔ اس دور میں بندہ مزدور کے اوقات جتنے تلخ ہیں پہلے کبھی نہ تھے۔ عورتوں اور لڑکیوں سے فیکٹریوں میں ہفتے میں سات دن کام لیا جاتا ہے جنہوں نے گھر بھی سنبھالنا ہوتا ہے اور اگر وہ چھٹی کر لیں تو نوکری سے فارغ۔ یہ ظلم کہیں اور نہیں لاہور میں ہو رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بربریت اپنے عروج پر ہے اور کوئی انھیں پوچھنے والا نہیں۔ پوچھے گا کون سرمایہ داروں کی حکومت ہے۔
غریب اور مڈل کلاس طبقہ بہت برے حالات سے گزر رہا ہے۔ جس کی تنخواہ بیس ہزار ہے اپنا گھر نہیں بجلی گیس کے بل اور تعلیمی اخراجات بیماری' ان لوگوں کو بڑی مشکل سے دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے۔ نئے کپڑے سیر و تفریح ان کے لیے خواب کی حیثیت رکھتی ہے۔ تعلیمی اخراجات نے غریبوں کا کچومر نکال دیا ہے میٹرک اور اس سے اوپر والدین کو تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لیے زیور جائیداد فروخت کرنی پڑ جاتی ہے۔ تعلیم اور صحت یہ دو شعبے ایسے ہیں جہاں نہتے عوام ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر ہیں اور حکومت خاموش تماشائی ہے۔ کم از کم تنخواہ تیس ہزار ہو تو دو وقت کی روٹی میسر آتی ہے۔ ورنہ جیسی مہنگائی اور دوسرے اخراجات ہیں ماہانہ تنخواہ پچاس ہزار ہونی چاہیے۔
طالبان سے مذاکرات مارچ' اپریل میں دوبارہ شروع ہو سکتے ہیں۔
سیل فون:۔ 0346-4527997