آزاد کشمیر کے انتخابات نئے ڈھنگ سے ہونے کا امکان
آزاد کشمیرکے انتخابات میں بے قاعدگی مقبوضہ کشمیر میں مصروف عمل لوگوں کیلئے مایوسی کا سبب بنے گی، لہذا اس سے بچنا چاہیے
آزاد کشمیر منفرد جغرافیہ کی بنیاد پر خصوصی اہمیت رکھتا ہے۔ عمومی طور پر قومی منظر نامے پر جگہ حاصل کرنے میں ناکام رہنے والا یہ خطہ انتخابات کے قریبی زمانوں میں قومی اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی توجہ کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ تحریک آزادی کشمیر کے لئے جاری جدوجہد میں آزاد کشمیر کے لوگ عموماً لاتعلق ہی رہتے ہیں۔ اجتماعات اور جلسے جلوسوں کی حد تک ردعمل تو شاید ظاہر کیا جاتا ہے لیکن دالانوں اور چوپالوں میں بیٹھ کر گفتگو کرتے لوگوں کا موضوع کبھی نہیں رہا ہے۔
حالانکہ آزاد کشمیر کے لوگوں کا مرغوب ترین مشغلہ چائے کے کپ تھام کر گھنٹوں گفتگو کرنا ہے۔ اس گفتگو میں امریکہ اور اسرائیل سے لیکر عرب ایران چپقلش تک کے تمام موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ البتہ پاکستان کے ساتھ محبت اور بھارت کے ساتھ نفرت ہر سطح پر پائی جاتی ہے۔ قیادت کا واضح فقدان نظر آتا ہے اور فی زمانہ کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں ہے جس کے متعلق معروف رائے ہو کہ وہ کشمیریوں کی نمائندگی کرسکتا ہے۔ اس قحط الرجال کی بھی ایک تاریخ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے آزاد کشمیر میں سیاسی لحاظ سے بے جا پابندیاں عائد ہیں، چند مخصوص لوگوں کو اقتدار سونپ کر یہ تصور کیا جارہا ہے کہ ایک پوری قوم کا اعتماد و اطمینان حاصل کرلیا گیا ہے، لوگ وزیراعظم آزاد کشمیر کو بے بس خیال کرتے ہیں۔ بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ تو اس سارے ماحول سے بیزار معلوم ہوتا ہے۔
کشمیر سے متعلق بنیادی معلومات سے اکثریت نابلد ہے۔ مطالعہ پاکستان اور تاریخ کی درسی کتب کو ہی کل کائنات تصور کیا جاتا ہے، لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں معلومات کے تبادلے پر بھلا قدغن کب لگائی جا سکتی ہے؟ کہتے ہیں کہ آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ لوگوں کی آدھے سچ کے ساتھ مخصوص انداز میں ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ یوم مقبول بٹ کے موقع پر یوم سیاہ کا انعقاد اور اس کی ماضی کی نسبت زیادہ پذیرائی ایک غور طلب لمحہ ہے۔ آزاد کشمیر میں سیاسی آزادی کو بحال کرنے کے لئے جس قدر تاخیر کی جائے گی اس کا براہ راست فائدہ قوم پرست جماعتوں کو حاصل ہوگا۔ ایکٹ 1974 کا نفاذ پہلے کبھی موضوع بحث نہیں رہا ہے لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں اس پر تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔ قوم پرست جماعتوں میں سیکولر طبقہ ہی نمائندگی کرتا نظر آیا ہے جس کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ عمومی تاثر لادین اور دہریے کہلائے جانے کا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ریاست میں اگر سیاسی آزادیوں کو لمبے عرصے تک محدود رکھنے کی کوشش کی گئی تو ان جماعتوں کے حجم میں اضافہ ہوگا، ان کی موجودہ شکل تبدیل ہوجائے گی.
میرا آج کا یہ مضمون کچھ ہی دنوں میں منعقد ہونے والے انتخابات کی بدلتی صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کے طور پر ہے۔ جلد اپنے موضوع کی جانب لوٹتا ہوں۔ آزاد کشمیر میں انتخابات اس سے قبل تین مستقل نعروں کی بنیاد پر منعقد ہوا کرتے تھے۔ مسلم کانفرنس 'کشمیر بنے گا پاکستان'، پیپلز پارٹی 'اب راج کرے گی خلق خدا' اور جماعت اسلامی 'رب کی دھرتی رب کا نظام' کے تحت میدان میں اترتی تھی۔ نظریاتی تحلیل کے اس دور میں ان تینوں نعروں میں دلکشی باقی نہیں رہی. اس کے علاوہ عملی میدان میں کوئی بھی جماعت ان نعروں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکی۔ لہذا آئندہ انتخابات مکمل طور پر نئے ڈھنگ میں منعقد ہونے کی توقع ہے۔ متوقع طور پر یہ انتخابات مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوتا دکھائی دے رہا۔ مسلم لیگ ن 'ترقی کے ایجنڈے'، تحریک انصاف 'تبدیلی' اور پیپلزپارٹی 'ریاست کے حقوق' کا نعرہ بلند کرتی میدان میں جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور برادری ازم حتمی کھیل سمجھے جاتے ہیں، لیکن مجھے اُمید ہے کہ یہ گندہ کھیل بھی ماضی کا حصہ ہی کہلائے گا۔
مسلم لیگ ن کو مرکز میں حکومت ہونے کی وجہ سے پسندیدہ خیال کیا جاسکتا ہے۔ فاروق حیدر خان کی شخصیت اور ان کی وزارت عظمٰی کا مختصر مگر معنی خیز دور بھی دلکشی کی ایک صورت ہوسکتا ہے۔ سردار عبدالقیوم خان اور سردار ابراہیم خان کی عدم موجودگی میں راجہ فاروق حیدر اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نمائندگی کے دعویدار کہلائے جاسکتے ہیں اور ان کا ماضی اس جانب اشارہ بھی کرتا ہے۔ پھر ایکٹ 1974 پر وزارت عظمٰی کے دوران ردعمل راجہ فاروق حیدر خان کو ریاستی سطح پر نمایاں کرنے میں مدد گار ثابت ہوا۔ مالی بدعنوانی کی ذیل میں بھی راجہ فاروق حیدر خان کے ہاتھ بہت حد تک صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ان خواص کی موجودگی میں انہیں آسانی کے ساتھ بلیک میل نہیں کیا جاسکتا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری بیرونی دنیا بالخصوص مغربی ممالک میں کشمیر کی نمائندگی کرتے نظر آتے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں ان کو سفیر کی حیثیت حاصل رہی ہے، لیکن کیا یہ سب اتنا آسان ہوگا؟ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مشتاق مہناس آزاد کشمیر کے ایک ہونہار اور معروف ترین نوجوان ہیں۔ انہوں اپنی محنت لگن اور جرات کی بدولت پاکستان بھر میں خطے کا نام روشن کیا اور اپنی ساکھ بنائی ہے۔ صحافت کے میدان میں وہ ایک منفرد نام ہیں وہ محض ٹی وی اینکر ہی نہیں ہیں بلکہ ہمہ وقت متحرک صحافی اور صحافیوں کی نمائندگی کرتے شخص ہیں۔ کڑے سے کڑے وقتوں میں بھی مشتاق مہناس نے اصولوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ آئندہ آزاد کشمیر کی سیاست میں ان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ راجہ فاروق حیدر خان اور ان کے باہمی تعلقات مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی کارکردگی پر براہ راست اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
عمران خان نے تبدیلی کے کپڑے وقت سے پہلے ڈی چوک میں دھونے کی جو کوشش کی ہے اُس کے سیاسی نتائج سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ ان کا بے احتیاطی سے کلام جہاں ایک حلقے کے مطابق بے باکی ہے وہیں اس کے مضر اثرات بھی نکلتے ہیں۔ تقسیم کشمیر پر دیا گیا حالیہ بیان اسی بے احتیاطی کا نتیجہ ہے۔ اس پر تحریک انصاف آزاد کشمیر کی قیادت کو وضاحتیں جاری کرنا پڑیں گی۔ سیاسی طور پر اس کو اچھالا جاسکتا ہے، حالانکہ جن حلقوں کی ترجمانی انہوں نے کی ہے وہاں سب کے پر جلتے ہیں لیکن سیاسی منفعت اس وقت سب سے عزیز مشغلہ ہے۔ پیپلز پارٹی پرانے چہروں سے جان چھڑا کر بلاول بھٹو کی قیادت میں نیا روپ اختیار کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے اور بلاشبہ بلاول بھٹو نوجوانوں کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حکومت کا بوجھ کس حد تک پیپلزپارٹی پر بھاری ثابت ہوگا اس کا اندازہ انتخابات کے قریب جاکر واضح ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے بیشتر امیدواروں کے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں۔ حکومت جاتی دیکھ کر کئی پنچھی پنجرہ بدل سکتے ہیں۔ مسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی کا انحصار انتخابی اتحاد کے لئے مناسب جماعت کی جانب سے رضا مندی پر ہے۔
امن و امان کی مجموعی صورتحال ریاست بھر میں پاکستان کے دیگر خطوں کی نسبت مثالی رہتی ہے۔ رواداری کا یہ ماحول برقرار رکھنا تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ کوٹلی واقعہ کا شعوری جائزہ نہ لیا گیا تو یہ آنے والے دنوں میں غیر یقینی کی فضا کو جنم دے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر متنازعہ انتخابات کا عمل یقینی بنایا جائے۔ رینجرز اور فوج کی نگرانی میں انتخابات تو شاید صاف شفاف ہوجاتے ہیں، لیکن سول ادارے عوامی اعتماد کھوجاتے ہیں۔ لہذا بہتر نظام تشکیل دینے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بے قاعدگی مقبوضہ کشمیر میں مصروفِ عمل لوگوں کے لئے مایوسی کا باعث بنے گی۔
حالانکہ آزاد کشمیر کے لوگوں کا مرغوب ترین مشغلہ چائے کے کپ تھام کر گھنٹوں گفتگو کرنا ہے۔ اس گفتگو میں امریکہ اور اسرائیل سے لیکر عرب ایران چپقلش تک کے تمام موضوعات زیر بحث آتے ہیں۔ البتہ پاکستان کے ساتھ محبت اور بھارت کے ساتھ نفرت ہر سطح پر پائی جاتی ہے۔ قیادت کا واضح فقدان نظر آتا ہے اور فی زمانہ کوئی بھی لیڈر ایسا نہیں ہے جس کے متعلق معروف رائے ہو کہ وہ کشمیریوں کی نمائندگی کرسکتا ہے۔ اس قحط الرجال کی بھی ایک تاریخ ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے آزاد کشمیر میں سیاسی لحاظ سے بے جا پابندیاں عائد ہیں، چند مخصوص لوگوں کو اقتدار سونپ کر یہ تصور کیا جارہا ہے کہ ایک پوری قوم کا اعتماد و اطمینان حاصل کرلیا گیا ہے، لوگ وزیراعظم آزاد کشمیر کو بے بس خیال کرتے ہیں۔ بالخصوص تعلیم یافتہ طبقہ تو اس سارے ماحول سے بیزار معلوم ہوتا ہے۔
کشمیر سے متعلق بنیادی معلومات سے اکثریت نابلد ہے۔ مطالعہ پاکستان اور تاریخ کی درسی کتب کو ہی کل کائنات تصور کیا جاتا ہے، لیکن سوشل میڈیا کے اس دور میں معلومات کے تبادلے پر بھلا قدغن کب لگائی جا سکتی ہے؟ کہتے ہیں کہ آدھا سچ پورے جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ لوگوں کی آدھے سچ کے ساتھ مخصوص انداز میں ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ یوم مقبول بٹ کے موقع پر یوم سیاہ کا انعقاد اور اس کی ماضی کی نسبت زیادہ پذیرائی ایک غور طلب لمحہ ہے۔ آزاد کشمیر میں سیاسی آزادی کو بحال کرنے کے لئے جس قدر تاخیر کی جائے گی اس کا براہ راست فائدہ قوم پرست جماعتوں کو حاصل ہوگا۔ ایکٹ 1974 کا نفاذ پہلے کبھی موضوع بحث نہیں رہا ہے لیکن گزشتہ کچھ سالوں میں اس پر تحفظات میں اضافہ ہوا ہے۔ قوم پرست جماعتوں میں سیکولر طبقہ ہی نمائندگی کرتا نظر آیا ہے جس کو عوامی پذیرائی حاصل نہیں ہوسکی۔ عمومی تاثر لادین اور دہریے کہلائے جانے کا ہے۔ مجھے خدشہ ہے کہ ریاست میں اگر سیاسی آزادیوں کو لمبے عرصے تک محدود رکھنے کی کوشش کی گئی تو ان جماعتوں کے حجم میں اضافہ ہوگا، ان کی موجودہ شکل تبدیل ہوجائے گی.
میرا آج کا یہ مضمون کچھ ہی دنوں میں منعقد ہونے والے انتخابات کی بدلتی صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کے طور پر ہے۔ جلد اپنے موضوع کی جانب لوٹتا ہوں۔ آزاد کشمیر میں انتخابات اس سے قبل تین مستقل نعروں کی بنیاد پر منعقد ہوا کرتے تھے۔ مسلم کانفرنس 'کشمیر بنے گا پاکستان'، پیپلز پارٹی 'اب راج کرے گی خلق خدا' اور جماعت اسلامی 'رب کی دھرتی رب کا نظام' کے تحت میدان میں اترتی تھی۔ نظریاتی تحلیل کے اس دور میں ان تینوں نعروں میں دلکشی باقی نہیں رہی. اس کے علاوہ عملی میدان میں کوئی بھی جماعت ان نعروں کے ساتھ انصاف نہیں کرسکی۔ لہذا آئندہ انتخابات مکمل طور پر نئے ڈھنگ میں منعقد ہونے کی توقع ہے۔ متوقع طور پر یہ انتخابات مسلم لیگ ن، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے درمیان ہوتا دکھائی دے رہا۔ مسلم لیگ ن 'ترقی کے ایجنڈے'، تحریک انصاف 'تبدیلی' اور پیپلزپارٹی 'ریاست کے حقوق' کا نعرہ بلند کرتی میدان میں جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں خفیہ اداروں کی مداخلت اور برادری ازم حتمی کھیل سمجھے جاتے ہیں، لیکن مجھے اُمید ہے کہ یہ گندہ کھیل بھی ماضی کا حصہ ہی کہلائے گا۔
مسلم لیگ ن کو مرکز میں حکومت ہونے کی وجہ سے پسندیدہ خیال کیا جاسکتا ہے۔ فاروق حیدر خان کی شخصیت اور ان کی وزارت عظمٰی کا مختصر مگر معنی خیز دور بھی دلکشی کی ایک صورت ہوسکتا ہے۔ سردار عبدالقیوم خان اور سردار ابراہیم خان کی عدم موجودگی میں راجہ فاروق حیدر اور بیرسٹر سلطان محمود چوہدری نمائندگی کے دعویدار کہلائے جاسکتے ہیں اور ان کا ماضی اس جانب اشارہ بھی کرتا ہے۔ پھر ایکٹ 1974 پر وزارت عظمٰی کے دوران ردعمل راجہ فاروق حیدر خان کو ریاستی سطح پر نمایاں کرنے میں مدد گار ثابت ہوا۔ مالی بدعنوانی کی ذیل میں بھی راجہ فاروق حیدر خان کے ہاتھ بہت حد تک صاف دکھائی دے رہے ہیں۔ ان خواص کی موجودگی میں انہیں آسانی کے ساتھ بلیک میل نہیں کیا جاسکتا۔ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری بیرونی دنیا بالخصوص مغربی ممالک میں کشمیر کی نمائندگی کرتے نظر آتے رہے ہیں۔ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے میں ان کو سفیر کی حیثیت حاصل رہی ہے، لیکن کیا یہ سب اتنا آسان ہوگا؟ کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
مشتاق مہناس آزاد کشمیر کے ایک ہونہار اور معروف ترین نوجوان ہیں۔ انہوں اپنی محنت لگن اور جرات کی بدولت پاکستان بھر میں خطے کا نام روشن کیا اور اپنی ساکھ بنائی ہے۔ صحافت کے میدان میں وہ ایک منفرد نام ہیں وہ محض ٹی وی اینکر ہی نہیں ہیں بلکہ ہمہ وقت متحرک صحافی اور صحافیوں کی نمائندگی کرتے شخص ہیں۔ کڑے سے کڑے وقتوں میں بھی مشتاق مہناس نے اصولوں کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا ہے۔ میاں نواز شریف کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں۔ آئندہ آزاد کشمیر کی سیاست میں ان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ راجہ فاروق حیدر خان اور ان کے باہمی تعلقات مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کی کارکردگی پر براہ راست اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
عمران خان نے تبدیلی کے کپڑے وقت سے پہلے ڈی چوک میں دھونے کی جو کوشش کی ہے اُس کے سیاسی نتائج سامنے آنا شروع ہوچکے ہیں۔ ان کا بے احتیاطی سے کلام جہاں ایک حلقے کے مطابق بے باکی ہے وہیں اس کے مضر اثرات بھی نکلتے ہیں۔ تقسیم کشمیر پر دیا گیا حالیہ بیان اسی بے احتیاطی کا نتیجہ ہے۔ اس پر تحریک انصاف آزاد کشمیر کی قیادت کو وضاحتیں جاری کرنا پڑیں گی۔ سیاسی طور پر اس کو اچھالا جاسکتا ہے، حالانکہ جن حلقوں کی ترجمانی انہوں نے کی ہے وہاں سب کے پر جلتے ہیں لیکن سیاسی منفعت اس وقت سب سے عزیز مشغلہ ہے۔ پیپلز پارٹی پرانے چہروں سے جان چھڑا کر بلاول بھٹو کی قیادت میں نیا روپ اختیار کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتی ہے اور بلاشبہ بلاول بھٹو نوجوانوں کو متحرک کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
حکومت کا بوجھ کس حد تک پیپلزپارٹی پر بھاری ثابت ہوگا اس کا اندازہ انتخابات کے قریب جاکر واضح ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ پیپلزپارٹی کے بیشتر امیدواروں کے بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں۔ حکومت جاتی دیکھ کر کئی پنچھی پنجرہ بدل سکتے ہیں۔ مسلم کانفرنس اور جماعت اسلامی کا انحصار انتخابی اتحاد کے لئے مناسب جماعت کی جانب سے رضا مندی پر ہے۔
امن و امان کی مجموعی صورتحال ریاست بھر میں پاکستان کے دیگر خطوں کی نسبت مثالی رہتی ہے۔ رواداری کا یہ ماحول برقرار رکھنا تمام جماعتوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ کوٹلی واقعہ کا شعوری جائزہ نہ لیا گیا تو یہ آنے والے دنوں میں غیر یقینی کی فضا کو جنم دے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ غیر متنازعہ انتخابات کا عمل یقینی بنایا جائے۔ رینجرز اور فوج کی نگرانی میں انتخابات تو شاید صاف شفاف ہوجاتے ہیں، لیکن سول ادارے عوامی اعتماد کھوجاتے ہیں۔ لہذا بہتر نظام تشکیل دینے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ آزاد کشمیر کے انتخابات میں بے قاعدگی مقبوضہ کشمیر میں مصروفِ عمل لوگوں کے لئے مایوسی کا باعث بنے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔