پہلا اور آخری میچ
فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی دوسری ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ 15ملین ڈالر سے خریدی گئی تھی
پی ایس ایل کی سستی ترین ٹیمیں فائنل میں پہنچ گئی ہیں۔ ٹورنامنٹ کی سب سے مہنگی ٹیم کراچی کنگز 26ملین ڈالر سے خریدی گئی۔ سب سے بری پرفارمنس والی لاہور قلندر 25ملین ڈالر کے ٹیگ کے ساتھ شریک ہوئی۔سب سے کم قیمت والی ٹیم کوئٹہ گلیڈیئیٹرز 11 ملین ڈالر مالیت سے ٹورنامنٹ کا حصہ بنی اور سب سے پہلے فائنل میں پہنچ گئی۔
فائنل تک رسائی حاصل کرنے والی دوسری ٹیم اسلام آباد یونائیٹڈ 15ملین ڈالر سے خریدی گئی تھی۔ تیسرے پلے آف میں آؤٹ ہونے والی پشاور زلمی کی قیمت 16ملین ڈالر تھی۔ کوئٹہ کی ٹیم آج فائنل میں بطور فیورٹ ٹیم میدان میں اترے گی لیکن اسلام آباد یونائیٹڈ نے ابتدائی شکستوں کے بعد جس طرح کم بیک کیا اور جیسی اس کی فارم ہے وہ پہلا پی ایس ایل ٹائٹل اپنے نام کرنے میں کامیاب ہو گئی تو کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔
پلے آف سے پہلے پشاور زلمی ٹاپ پوزیشن پر تھی اور کوئٹہ گلیڈیئیٹرز کا دوسرا نمبر تھا۔ پہلے پلے آف میں ایک سخت مقابلے کے بعد کوئٹہ نے پشاور کو صرف ایک رن سے ہرایا اور فائنل میں پہنچ گئی۔دوسرے پلے آف میں اسلام آباد یونائیٹڈ نے کراچی کنگز کا جھٹکا کیا اور پری فائنل یعنی تیسرے پلے آف کے لیے کوالیفائی کر گئی۔ پری فائنل میچ میں اس نے پشاور زلمی کا بھی جھٹکا ہی کیا اور آج کوئٹہ گلیڈیئیٹرز کے مقابلے پر ہے۔
لکھنے بیٹھا ہوں تو سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دلچسپ پیغام موصول ہوا ہے۔ کہتے ہیں ''1947ء کے بعد اسلام آباد کو پہلی بار کوئٹہ کو سنجیدگی سے لینا پڑے گا''۔ ہمارا المیہ یہ رہا ہے کہ سیاست کو ہمیشہ کھیل سمجھا گیا اور کھیل میں سیاست نے اپنے پنجے گاڑے رکھے۔ واپس کھیل کی طرف آتے ہیں۔ اسلام آباد کی ٹیم ابتدا میں خاصی کمزور لگ رہی تھی۔
دبئی کے پہلے راؤنڈ میں یہ تین میں سے ایک میچ کراچی کنگز کے خلاف جیتی اور پھر شارجہ جا کر 4میں سے دو میچ جیتنے کے بعد پلے آف مرحلے تک رسائی کو ممکن بنایا۔ دوسرے اور تیسرے مرحلے پلے آف میں اسلام آباد کی پرفارمنس اتنی شاندار تھی کہ 1992ء کے ورلڈ کپ میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی یاد آ گئی۔ ورلڈ کپ جیتنے والی قومی ٹیم کی حالت بھی کافی پتلی تھی مگر وہ ایک بار ردھم میں آئی تو پھر سب دیکھتے ہی رہ گئے۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ کوئٹہ کو آسانی کے ساتھ ہرا سکتی ہے۔ دونوں ٹیموں کی تازہ کارکردگی کو مد نظر رکھا جائے تو آخری معرکہ کانٹے کا ہونے کا پورا امکان ہے۔کرکٹ البتہ اتفاقات کا کھیل ہے اور اس میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔کہا جاتا ہے جس کا دن ہو وہ ٹیم جیت جاتی ہے۔
فائنل میں پہنچنے والی دونوں ٹیمیں تگڑی ہیں۔ اسلام آباد کے بیٹسمین شرجیل خان پاکستان سپر لیگ میں سنچری بنانے والے پہلے کھلاڑی بن گئے ہیں۔ محمد سمیع بہترین بولنگ کر رہے ہیں۔ آندرے رسل، محمد عرفان اور سیموئل بدری بھی عمدہ پر فارم کر رہے ہیں۔ آخری پلے آف جسے سیمی فائنل کہا جائے تو بہتر ہو گا جس میں اسپنر عمران خالد نے بھی 4کھلاڑی آؤٹ کر دیے۔ کوئٹہ کی ٹیم کا کمبی نیشن بھی شاندار ہے۔ اس کے تمام کھلاڑی اہم ہیں لیکن اسلام آباد نے اگر پہلا پی ایس ایل ٹورنامنٹ جیتنا ہے تو اسے دو بیٹسمین قابو کرنا ہونگے۔ کیون پیٹر سن اور سنگا کارا کو قابو کر لیا تو پھر جیت یقینی ہے۔
یہ دونوں بیٹنگ کے جادوگر ہیں۔ فارم میں ہوں تو دنیا کی بہترین بولنگ لائن بھی ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ مخالفین کی بدقستمی کہ یہ دونوں اس وقت فارم میں ہیں۔ ریٹائرمنٹ سے قبل سنگا کارا اور جے وردھنے جب کریز پر ہوتے تو انھیں کھیلتا دیکھ کر مزہ آ جاتا۔ ان کی پارٹنر شپ توڑنے کے لیے جتنے جتن مخالف کپتان کو کرنا پڑتے تھے اس کی مثال کرکٹ میں کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ کیون پیٹر سن کی اپنی کلاس ہے۔
وہ کریز پر ہوتے ہیں تو لگتا ہے انھیں آؤٹ نہیں کیا جا سکتا۔ گیند کو کھیلنے کے لیے ان کے پاس جتنا وقت ہوتا ہے وہ بہت کم بیٹسمینوں کو نصیب ہوتا ہے۔ کیون پیٹر سن کو کے پی کہا جاتا ہے۔ میں سوچتا ہوں اگر ان کا نام ''کیون پیٹرسن خان'' ہوتا تو انھیں ''کے پی کے'' کہا جاتا یعنی پھر وہ ہمارے پیارے صوبے خیبر پختون خوا کے ہم نام ہو جاتے۔
آغاز میں کوئٹہ اور اسلام آباد کی ٹیموں کو سستی ترین لکھا ہے تو اس کا مطلب ہے یہ دونوں ٹیمیں مالیت کے لحاظ سے سستی ہیں جب کہ ان کی پرفارمنس اس وقت مہنگی ترین ہے۔ گذشتہ کالم کے بعد قارئین نے کچھ تجاویز دی تھیں۔ ان میں سے دو پی سی بی تک پہنچانا ضروری ہے۔ ایک تو یہ تھی کہ پی ایس ایل کے آیندہ ایڈیشن میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی ٹیمیں بھی شامل کی جائیں۔
دوسری تجویز یہ تھی کہ پاکستان کے لیے واحد ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ جیتنے والے کپتان یونس خان کو بطور معزز مہمان دبئی میں کھیلے جانے والے فائنل میں مدعو کیا جائے۔ یونس خان والی تجویز میں نے زبانی بھی پاکستان کرکٹ بورڈکے ایک اہم عہدیدار تک پہنچا دی تھی۔ انھوں نے اس تجویز سے اتفاق کیا تھا لیکن اس کے بعد کیا ہوا اس کا مجھے علم نہیں ہے۔
نجم سیٹھی صاحب نے وزیر اعظم نواز شریف اور چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو دبئی میں فائنل کی دعوت دی تھی مگر بوجوہ یہ دعوت قبول نہیں کی گئی۔ پی ایس ایل ٹورنامنٹ کے دوران فنکاروں کی بڑی تعداد بھی نظر آئی البتہ ایک چیز کی کمی شدت سے محسوس کی گئی ہے کہ سینئر کرکٹر وہاں نظر نہیں آئے۔ سینئر کرکٹر وہاں ہوتے تو زیادہ بہتر امیج بنتا۔ اس پر زیادہ خرچ نہیں ہونا تھا۔ میڈیا کی جتنی بڑی تعداد اس ٹورنامنٹ کی کوریج کے لیے گئی ہے اسے 50فیصد کم کر کے سینئر کرکٹرز کو بلایاجا سکتا تھا۔ ظاہر ہے انھیں اگر یہ کہا جائے کہ وہ بھی دبئی آ جائیں تو وہ نہیں آئیں گے۔
انھیں ہوٹلوں میں بکنگ کے بعد ٹکٹ بھجوائے جاتے تو شاید وہ آ بھی جاتے۔ نواز شریف اور عمران خان کو دعوت پر کچھ لوگوں نے اسے سیاسی اسٹنٹ قرار دیا تھا۔ بعض سابق کرکٹرز نے پی ایس ایل میں جوئے کے الزامات بھی لگائے ہیں۔ میں نے جتنے میچ دیکھے ہیں مجھے تو کوئی ایسی قابل اعتراض چیز نظر نہیں آئی۔ کسی کے پاس ثبوت ہوں تو علیحدہ بات ہے۔ اسلام آباد اور پشاورکے آخری میچ میں شاہد آفریدی کی کپتانی پر سوال ضرور اٹھائے جا سکتے ہیں۔
شرجیل خان فاسٹ بولرز کی دھلائی کر رہے تھے تو اسپنر ز کو موقع دیا جانا چاہیے تھا۔ محمد اصغر کا تو ایک اوور بھی باقی تھا۔ ٹاس جیت کر بعد میں کھیلنے کا فیصلہ بھی غلط تھا۔ جو ٹیم اس سے پہلے والا میچ بعد میں کھیلتے ہوئے صرف ایک رن سے ہاری ہو اسے پہلے کھیل کر بڑا اسکور کرنا چاہیے تھا۔
آج فائنل کے بعد پی ایس ایل اپنے اختتام کو پہنچ جائے گی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجموعی طور پر ٹورنامنٹ کامیاب رہا۔ ہمارے نوجوان کھلاڑیوں کو انٹر نیشنل پلیئرز کے ساتھ کھیل کر سیکھنے کا موقع ملا۔ آج دو ٹیمیں جہاں مد مقابل ہوں گی وہاں ایک اور مقابلہ بھی ہو گا۔ ویوین رچرڈز، معین خان ایک طرف اور ڈین جونز، وسیم اکرم دوسری طرف ہوں گے۔ امید ہے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کی ''ہوم گراؤنڈز''پر یہ پہلا ہی نہیں آخری ٹورنامنٹ بھی ہو گا۔ پاکستان سپر لیگ کا دوسرا ایڈیشن حقیقت میں ہماری ہوم گراؤنڈزپر ہو گا۔
پی ایس ایل کا افتتاحی میچ بھی کوئٹہ گلیڈیئیٹرز اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے درمیان ہوا تھا۔ وہ میچ کوئٹہ نے جیتا تھا اور آج۔۔۔۔۔ تھوڑا انتظار تو کریں!