لافانی موسیقار روبن گھوش
عظیم موسیقار روبن گھوش 13 فروری بروز ہفتہ طویل علالت کے بعد ڈھاکا، بنگلہ دیش میں انتقال کرگئے۔
جہان فلم و فن پر ان دنوں ایک چل چلاؤ کی سی کیفیت طاری ہے۔ بقول شاعر:
ساقیا یاں لگ رہا ہے چل چلاؤ
اسلم اظہر، کمال احمد رضوی، ندا فاضلی، محی الدین نواب، انتظار حسین، فاطمہ ثریا بجیا اور روبن گھوش۔ بچھڑے سبھی باری باری! یکے بعد دیگرے باکمال لوگ ملک عدم سدھار رہے ہیں۔ نظیر اکبر آبادی نے کیا خوب کہا ہے:
قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارہ
واقعی موت سے کسی کو بھی مفر نہیں۔ عظیم موسیقار روبن گھوش 13 فروری بروز ہفتہ طویل علالت کے بعد ڈھاکا، بنگلہ دیش میں انتقال کرگئے۔ ان کے سانحہ ارتحال سے پاکستان کی محفل موسیقی بھی سونی ہوگئی۔ ان کے سوگواروں میں صرف ان کی نامور شریک حیات اداکارہ شبنم اور صاحبزادے رونی گھوش ہی نہیں بلکہ ان کے ہزاروں لاکھوں پرستار بھی شامل ہیں۔ اگرچہ ان کا تعلق بنگلہ دیش (سابقہ مشرقی پاکستان) سے تھا مگر ان کا جنم 1937 میں عراق کے دارالخلافہ بغداد میں ہوا تھا۔
وہ ایک عیسائی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد بنگالی تھے جب کہ ان کی والدہ ایک عرب خاتون تھیں۔ موسیقی سے ان کے گھرانے کو بھی ایک خاص لگاؤ تھا جس کی بنا پر یہ کہنا بجا ہوگا کہ میوزک ان کے خون میں شامل تھا۔ ان کے والدین کو گانے بجانے کا بڑا شوق تھا۔ لیکن روبن گھوش نے اپنے والدین کے محبوب و مرغوب مشغلے کو اپنا پیشہ بنالیا۔ ابھی وہ صرف پانچ سال کے ہی تھے کہ ان کی فیملی بغداد سے منتقل ہوکر ڈھاکا میں آکر آباد ہوگئی۔ یوں روبن گھوش نے اپنے شعور کی آنکھ ڈھاکا میں ہی کھولی۔
ابھی وہ بیس سال کے بھی نہ ہوئے تھے کہ انھوں نے موسیقی کو بطور پیشہ اختیار کرلیا۔ ان کا ارادہ گریجویشن کرنے کا تھا لیکن انھوں نے انٹر کامرس پاس کرنے کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا اور موسیقی کی خاطر کلکتہ کا رخ کیا جو موسیقی کا گڑھ کہلاتا تھا۔ موسیقی کی پیاس انھیں مایہ ناز موسیقار سلیل چوہدری کی چوکھٹ پر لے گئی جن کی سنگت میں انھوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم و تربیت حاصل کرنا شروع کی۔ سلیل چوہدری بحیثیت فلم میوزک ڈائریکٹر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے تھے اور ان کا شاگرد ہونا بھی بڑے اعزاز اور فخر کی بات تھی۔
موسیقار سلیل چوہدری کا شمار ہندوستان کے ان عظیم بنگالی موسیقاروں (مثلاً ایس ڈی برمن اور ہیمنت کمار) میں ہوتا ہے جن کی فلمی دھنوں کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا اور جن کی عظمت اور شہرت کے ڈنکے آج بھی بج رہے ہیں۔ پوت کے پاؤں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں والی کہاوت روبن گھوش پر حرف بہ حرف صادق آتی ہے۔
کیونکہ ان کی خداداد صلاحیتوں کے جوہر بہت جلد کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے تھے اور یہ اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہ تھا کہ یہ نوجوان آگے چل کر بڑا نام پیدا کرے گا۔ سلیل چوہدری کے زیر سایہ روبن گھوش نے موسیقی کے بنیادی اسرار و رموز سے آگاہی حاصل کی، جو ان کے بعد کے کیریئر میں ان کے ہمیشہ کام آئی۔
یہ ابتدائی تجربہ ان کے لیے مشعل راہ ثابت ہوا۔ ایک موسیقار اپنی گلوکاری کی صلاحیت سے کس طرح بہتر سے بہتر اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکتا ہے، یہ ہنر روبن گھوش نے سلیل چوہدری ہی کی شاگردی میں رہ کر سیکھا۔ طلعت محمود جیسے منفرد گلوکار کے جوہر کو پرکھنے والے جوہر شناس بھی سلیل چوہدری ہی تھے۔ ہندوستانی فلموں کی یادگار اور لازوال دھنیں ترتیب دینے والے عظیم موسیقاروں کی فہرست میں سلیل چوہدری کا نام ہمیشہ سنہری حروف میں نمایاں رہے گا۔
ڈھاکا واپسی کے بعد روبن گھوش نے معروف موسیقار مصلح الدین کے ساتھ شمولیت اختیار کرلی جس نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ فلم ''ہمسفر'' کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے۔ اس فلم کا شمار مشرقی پاکستان میں بننے والی ابتدائی اردو فلموں میں ہوتا ہے جسے پورے پاکستان میں بہت پسند کیا گیا تھا۔
اس فلم کی موسیقی کے حوالے سے ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس کے دو گانے بھارتی موسیقار و گلوکار ہیمنت کمار اور گلوکارہ سندھیا مکھرجی کی آوازوں میں ریکارڈ کیے گئے تھے۔ یہ فلم 1960 میں ریلیز ہوئی تھی اور اس نے بڑا اچھا بزنس بھی کیا تھا۔ اس کے ایک سال بعد جواں سال روبن گھوش نے مشہور و معروف فلم پروڈیوسر مستفیض کی دو بنگلہ فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی تھی۔ حسن اتفاق سے اسی دوران خوبرو اداکارہ جھرنا اور روبن گھوش کا ملن ہوگیا جو بعد میں روبن گھوش کی شریک حیات بن گئیں اور فلم اسٹار شبنم کے نام سے بے حد مشہور ہوئیں۔
اس کے بعد احتشام اور مستفیض برادران کی یکے بعد دیگرے دو اردو فلمیں ''چندا'' اور ''تلاش'' پردہ سیمیں کی زینت بنیں، جن میں شبنم نے بطور اداکارہ اور روبن گھوش نے بحیثیت موسیقار اپنی اپنی صلاحیتوں کے خوب خوب جوہر دکھائے اور دونوں ہی فلموں کو بڑی زبردست عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔
پھر ایک دور وہ بھی آیا جب اداکارہ شبنم کا طوطی بولنے لگا جب کہ موسیقار روبن گھوش تقریباً فارغ بیٹھے رہے۔ کچھ عرصے بعد انھوں نے تین فلموں کی موسیقی ترتیب دی مگر انھیں کوئی خاص مقبولیت حاصل نہیں ہوسکی۔ اس کے بعد فلم ''چکوری'' اور ''چھوٹے صاحب'' نام کی دو فلمیں 1967 میں ریلیز ہوئیں جنھوں نے بحیثیت موسیقار روبن گھوش کی شہرت اور مقبولیت کے دوبارہ ڈنکے بجا دیے۔ ان دونوں فلموں میں نئے اداکار ندیم اور اداکارہ شبانہ نے اپنی اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔
اس کے بعد روبن گھوش اور شبنم کی میاں بیوی کی جوڑی نے پہلے کراچی کا رخ کیا اور پھر لاہور میں پڑاؤ ڈال دیا جس کے ساتھ ہی ان کے کیریئر کے سنہری دور کا آغاز ہوا جس نے ان کی شہرت اور مقبولیت کو چار چاند لگا دیے۔ کراچی میں ان کی پہلی فلم تھی پرویز ملک کی ''جہاں تم وہاں ہم''۔ 1968 میں روبن گھوش کی شریک حیات کا کیریئر تو عروج کی جانب گامزن ہوگیا لیکن وہ بذات خود سائیڈ لائن پر ہی رکے رہے۔
لیکن 1972 فلم ''احساس'' کے لیے کمپوز کی گئی ان کی دل کو چھو لینے والی دھنوں نے ان کی قسمت کو گویا سوتے سے جگادیا۔ پھر اس کے بعد تقدیر مسلسل 13 سال تک ان کے قدم چومتی ہوئی چلی گئی۔ ''چاہت''، ''شرافت''، ''دو ساتھی''، ''جیو اور جینے دو''، ''امبر''، ''دوریاں'' اور باکس آفس پر سپر ہٹ ہونے والی ''آئینہ'' کی جادو بھری دھنوں نے روبن گھوش کی شہرت کو آسمان پر پہنچادیا۔ ''آئینہ'' کی مقبولیت نے عوامی پذیرائی کے نئے ریکارڈ قائم کردیے اور روبن گھوش کی کامیابی کے جھنڈے گاڑھ دیے۔
فلم میوزک ڈائریکٹر کی کامیابی کا دارومدار بڑی حد تک گلوکاروں کی مقبولیت اور شہرت پر ہوا کرتا ہے، لیکن جس طرح انڈین میوزک ڈائریکٹر اوپی نیر نے لتا منگیشکر کی آواز کا سہارا لیے بغیر اپنی لافانی دھنوں کے بل بوتے پر کامیابی کے نئے نئے ریکارڈ قائم کردیے اسی طرح روبن گھوش نے بھی ملکہ ترنم جیسی مایہ ناز گلوکارہ کی آواز استعمال کیے بنا سدابہار اور لافانی دھنوں سے اپنا نام ہمیشہ کے لیے روشن کردیا۔
آخری دور میں 1988 سے 1995 کا دور روبن گھوش کے لیے دھیما ہی رہا جس کے دوران ان کا نام سینما اسکرین پر صرف تین ہی مرتبہ نمایاں ہوکر سامنے آسکا، لیکن یہ تو نظام قدرت ہے کہ ہر کمال را زوال۔ پھر 1995 میں ایک ٹریجڈی یہ ہوئی کہ روبن کی شریک حیات شبنم کو دل کا دورہ پڑ گیا اور 1999 میں ان کی فیملی پاکستان چھوڑ کر بنگلہ دیش چلی گئی اور نتیجتاً سازگار ماحول کی عدم موجودگی کے باعث وہ فلمی دنیا میں دوبارہ قدم نہ رکھ سکے اور ان کی موسیقی اکا دکا موسیقی کی محفلوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی۔
پاکستان میں روبن کی آخری بار آمد 2012 میں اس وقت ہوئی جب وہ پی ٹی وی کی خصوصی دعوت پر اپنی بیگم شبنم کے ہمراہ ایک پروگرام میں شرکت کے لیے بڑے ذوق و شوق سے آئے تھے۔