یہ مٹی بڑی زرخیز ہے
پاکستانی سرزمین کے بارے میں شاعر مشرق کا وہ خیال کبھی نہیں بھولتا اور رہ رہ کر خیال آتا ہے
پاکستانی سرزمین کے بارے میں شاعر مشرق کا وہ خیال کبھی نہیں بھولتا اور رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔ ڈاکٹر علامہ اقبال نے ایک ایک حرف کمال درست کہا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اس سرزمین پر خواہ وہ زمین سے روٹیاں چننے والے ہوں یا متوسط طبقے کے بچے... انھیں صرف مناسب ماحول اور زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔
اس قوم میں بہت صلاحیت ہے اور اس بات کا پتہ ہر دور میں آنے والی نسل کی صورت میں ہمیں ملتا ہے۔ اس سرزمین کی مٹی کبھی نرگس ماول والا، تو کبھی عمران خان اور کبھی سمیر خان کی صورت میں مہکتی ہے اور اپنی زرخیزی کا پتہ دیتی ہے۔ صرف ایک ماہ میں اس زرخیز مٹی کے خوشگوار جھونکے ایسے محسوس ہوئے جیسے تپتے صحرا میں بارش کی بوندیں۔ سب سے پہلے ذکر صحت اور طب کے میدان میں ایک حیرت انگیز ایجاد کا، جس کا سہرا ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر سمیر خان کے سر جاتا ہے۔
امریکی ٹیکساس یونیورسٹی کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سمیر اقبال نے طب کی تاریخ میں حیرت انگیز اور انقلابی کارنامہ انجام دیا ہے۔ پاکستانی سائنسدان نے کینسر کو ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرنے والا آلہ بنایا ہے۔ ڈاکٹر سمیر خان کی ایجاد کینسر کو جسم میں پھیلنے سے قبل ہی اسے نشانہ بنائے گی۔
کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کے بعد امریکا سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ گریجویشن کرنے والے سمیر خان نے انسانی جسم میں کینسر کو ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص کرنے کا جدید آلہ ایک حیاتیاتی دیوار کی صورت میں ایجاد کیا ہے۔ اپنی اس حیرت انگیز ایجاد کو ڈاکٹر سمیر نے حال ہی میں نیچر سائنٹیفک رپورٹ پیپر میں پیش کیا جس کا عنوان، تنہا ناسوری خلیہ پر برقی نینو ٹیگزچر پروفائل کا اثر اور مائیکرو فلوئیڈ چینل میں خون سے کینسر کی تشخیص تھا۔
ان کا ایجاد کردہ آلہ دراصل ایک نینو ٹیکزچرڈ یعنی ایک مخصوص کیمیاوی جز کی پستہ ترین ساخت سے بنی دیوار ہے، جو انسانی جسم میں موجود خون کو بے وقوف بنا کر اس سے کینسر کے جائے پیدائش کا مقام پوچھ لیتی ہے۔ کینسر کے خلیے کے وجود میں آنے والے خونی نمونے اس نینو ٹیگزچر دیوار سے ٹکرا کر ایک قسم کا رقص کرنے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر سمیر کہتے ہیں کہ ان رقص کرنے والے خونی نمونوں سے کینسر کو اس کی پیدائش سے قبل ہی پکڑا جاسکتا ہے۔
کائنات میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کا اعلان کر کے پاکستانی خاتون سائنسدان نرگس ماول والا بھی آئن اسٹائن جیسے سائنس دانوں کی صف میں کھڑی ہوگئیں۔ ہماری کائنات کی خلائی لچک اور وسعت پر اولین نظریہ پیش کرنے والے سائنسدان آئن اسٹائن تھے اور ان کی تھیوری پر اس وقت سے آج تک تحقیق کا کام جاری تھا، جس کی حال ہی میں مزید تصدیق ہوئی ہے۔
اسپیس ٹائم میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کی تصدیق 11 فروری 2016 کو کی گئی اور اس کے پیچھے دنیا بھر کے جہاں ممتاز دماغوں نے کام کیا، وہیں اس میں کراچی میں پیدا ہونے والی آسٹروفزسٹ اور میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبہ طبیعیات کی ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ نرگس ماول والا بھی شامل ہیں، جنھوں نے خلاء میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کی تصدیق کا اعلان کیا۔ دنیا بھر کے چوٹی کے دماغوں سے جڑے اس منصوبے کا نام لیگو سائنسی شراکت داری تھا۔ گزشتہ 20 سال سے اس شعبے سے وابستہ ماول والا 2002 سے ایم آئی ٹی سے منسلک ہیں۔
میساچوسیٹس سے پی ایچ ڈی کرنے والے نرگس مال والا نے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پوسٹ ڈاکٹورل ایسوسی ایٹ اور ریسرچ سائنسدان کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کی ابتدائی تحقیق انٹرفیرو میٹرک کشش ثقل کی لہروں کی دریافت کے لیے آلات بنانے سے متعلق تھی۔ انھیں 2010 میں میک آرتھر فاؤنڈیشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
جیسے ہی مذکورہ بالا تحقیق کی تصدیق کی بازگشت دنیا بھر کے میڈیا میں گونجی اس کے ساتھ ہی ایک اور پاکستانی سائنسدان عمران خان کا بھی نام سنا گیا۔ پسماندہ سمجھے جانے والے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے اس باصلاحیت نوجوان عمران خان نے پی ایچ ڈی سمیت دیگر اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ کے ملک اٹلی کے گران ساسو سائنس انسٹی ٹیوٹ کا انتخاب کیا تھا۔
عمران خان کئی برسوں سے اٹلی میں تعلیم کے سلسلے میں رہائش پذیر ہیں اور لیگو جیسے منصوبے کے تحت وہ بھی کائنات کی خلائی لچک اور کشش ثقل کی وسعت پر تحقیق اور تصدیق میں شامل رہے۔ نرگس ماول والا کے بعد وہ دوسرے پاکستانی سائنسدان ہیں جو آئن اسٹائن جیسے سائنسدانوں کی پیش کردہ دنیا کی اہم ترین تھیوری پر تحقیق میں مصروف رہے۔
گزشتہ سال پاکستانی سائنسدان، ڈاکٹر حمزہ خان نے جنیوا یونیورسٹی، اٹلی کے پروجیکٹ کے تحت، ہائیڈرولک کی مدد سے چلنے والا 'چار ٹانگوں والا چھوٹا روبوٹ' تیار کیا جسے غیر فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ امریکی بڑی کمپنیاں اپنے دفاعی اداروں کے تعاون اور فنڈ سے جنگی مقاصد کے لیے استعمال میں قابل کار ہائیڈرولک روبوٹس بنا چکی ہیں تاہم وہ ٹیکنالوجی انتہائی سست اور وزنی ہونے کے باعث اب بھی تحقیقی مراحل میں ہے جب کہ ڈاکٹر حمزہ خان نے بتایا کہ ان کے ڈیزائن کردہ روبوٹس بہت چھوٹے ہیں اور چابک دستی سے اپنا کام کرتے ہیں، اور انھیں ریسکیو مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر حمزہ خان نے روبوٹکس میں ہی پی ایچ ڈی کی ہے۔ دراصل یہ پروجیکٹ ان کی ڈاکٹوریٹ کا ہی حصہ تھا۔ تاہم، اس سے پہلے انھوں نے وارسا یونیورسٹی پولینڈ اور جنیوا یونیورسٹی اٹلی سے ماسٹرز کی ڈگری بھی لی تھی۔ ڈاکٹر حمزہ خان پاکستان کے علاقے میانوالی میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی سے بھی ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی تمام تعلیم اسکالرشپ سے مکمل کی اور ریسرچ میں بھی انھیں یورپی یونیورسٹیز کی اسکالر شپ حاصل رہی۔
پاکستان کے 30 نامور سائنسدان اس وقت امریکا، برطانیہ، جاپان، اٹلی، فرانس اور سوئٹزر لینڈ کے ساتھ ماحولیات، بائیو ڈائیورسٹی ، پلانٹس، اینیمل، راکس، معدنیات اور فوسلزکے میدان میں تحقیق کررہے ہیں۔
پاکستانی نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا موقع ملتا ہے تو طب ہو یا کائنات یا کوئی اور میدان، ہر جگہ انقلاب برپا کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اگر ملک میں موجود ایسے مزید قابل جوہروں کو بھی مواقع دیے جائیں تو سوچئے کیا ان کی ترقی سے ملک کی کایا نہیں پلٹ سکتی؟
مستقبل کے ایسے معماروں کی تیاری کے لیے سب سے بڑا اور فیصلہ کن کردار بچوں کی تعلیم اور تربیت میں باپ کے فیصلے، اس کا کردار، احساس کرنے کی صلاحیت ادا کرتی ہے۔ بچے کے ابتدائی تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار کے ساتھ ساتھ ماحول پر بھی اس بات کا انحصار ہوتا ہے کہ کسی بچے کی پرورش پر کیسے اثرات چھوڑتا ہے۔
رشتے دار، احباب، دوستوں کی صحبت پر نظر رکھنا والدین بالخصوص باپ کی اہم ترین ذمے داری ہوتی ہے کیونکہ اس کے بچے کو اپنی ابتدائی عمر میں ان ہی لوگوں کی صحبتوں سے واسطہ پڑتا ہے، لہٰذا اس معاملے پر کسی بھی قسم کی مفاہمت آیندہ آنے والے وقت میں اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کیا باپ کو اپنے بچے کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ کیریئر کی صورت میں فخر کرنے کا موقع ملے گا یا وہ ناکام ہوکر معاشرے کے ان ناکام باپ میں شامل ہوجائے گا جن کے بچے بڑے ہو کر محض مزدور یا نوکر کی حیثیت سے پیسہ کمانے والی مشین بنیں گے۔
اس قوم میں بہت صلاحیت ہے اور اس بات کا پتہ ہر دور میں آنے والی نسل کی صورت میں ہمیں ملتا ہے۔ اس سرزمین کی مٹی کبھی نرگس ماول والا، تو کبھی عمران خان اور کبھی سمیر خان کی صورت میں مہکتی ہے اور اپنی زرخیزی کا پتہ دیتی ہے۔ صرف ایک ماہ میں اس زرخیز مٹی کے خوشگوار جھونکے ایسے محسوس ہوئے جیسے تپتے صحرا میں بارش کی بوندیں۔ سب سے پہلے ذکر صحت اور طب کے میدان میں ایک حیرت انگیز ایجاد کا، جس کا سہرا ایک پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر سمیر خان کے سر جاتا ہے۔
امریکی ٹیکساس یونیورسٹی کے شعبہ الیکٹریکل انجینئرنگ میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر سمیر اقبال نے طب کی تاریخ میں حیرت انگیز اور انقلابی کارنامہ انجام دیا ہے۔ پاکستانی سائنسدان نے کینسر کو ابتدائی مرحلے میں تشخیص کرنے والا آلہ بنایا ہے۔ ڈاکٹر سمیر خان کی ایجاد کینسر کو جسم میں پھیلنے سے قبل ہی اسے نشانہ بنائے گی۔
کراچی کی این ای ڈی یونیورسٹی کے بعد امریکا سے پی ایچ ڈی اور پوسٹ گریجویشن کرنے والے سمیر خان نے انسانی جسم میں کینسر کو ابتدائی مرحلے میں ہی تشخیص کرنے کا جدید آلہ ایک حیاتیاتی دیوار کی صورت میں ایجاد کیا ہے۔ اپنی اس حیرت انگیز ایجاد کو ڈاکٹر سمیر نے حال ہی میں نیچر سائنٹیفک رپورٹ پیپر میں پیش کیا جس کا عنوان، تنہا ناسوری خلیہ پر برقی نینو ٹیگزچر پروفائل کا اثر اور مائیکرو فلوئیڈ چینل میں خون سے کینسر کی تشخیص تھا۔
ان کا ایجاد کردہ آلہ دراصل ایک نینو ٹیکزچرڈ یعنی ایک مخصوص کیمیاوی جز کی پستہ ترین ساخت سے بنی دیوار ہے، جو انسانی جسم میں موجود خون کو بے وقوف بنا کر اس سے کینسر کے جائے پیدائش کا مقام پوچھ لیتی ہے۔ کینسر کے خلیے کے وجود میں آنے والے خونی نمونے اس نینو ٹیگزچر دیوار سے ٹکرا کر ایک قسم کا رقص کرنے لگتے ہیں۔ ڈاکٹر سمیر کہتے ہیں کہ ان رقص کرنے والے خونی نمونوں سے کینسر کو اس کی پیدائش سے قبل ہی پکڑا جاسکتا ہے۔
کائنات میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کا اعلان کر کے پاکستانی خاتون سائنسدان نرگس ماول والا بھی آئن اسٹائن جیسے سائنس دانوں کی صف میں کھڑی ہوگئیں۔ ہماری کائنات کی خلائی لچک اور وسعت پر اولین نظریہ پیش کرنے والے سائنسدان آئن اسٹائن تھے اور ان کی تھیوری پر اس وقت سے آج تک تحقیق کا کام جاری تھا، جس کی حال ہی میں مزید تصدیق ہوئی ہے۔
اسپیس ٹائم میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کی تصدیق 11 فروری 2016 کو کی گئی اور اس کے پیچھے دنیا بھر کے جہاں ممتاز دماغوں نے کام کیا، وہیں اس میں کراچی میں پیدا ہونے والی آسٹروفزسٹ اور میساچوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے شعبہ طبیعیات کی ایسوسی ایٹ ڈپارٹمنٹ ہیڈ نرگس ماول والا بھی شامل ہیں، جنھوں نے خلاء میں کشش ثقل کی لہروں کی موجودگی کی تصدیق کا اعلان کیا۔ دنیا بھر کے چوٹی کے دماغوں سے جڑے اس منصوبے کا نام لیگو سائنسی شراکت داری تھا۔ گزشتہ 20 سال سے اس شعبے سے وابستہ ماول والا 2002 سے ایم آئی ٹی سے منسلک ہیں۔
میساچوسیٹس سے پی ایچ ڈی کرنے والے نرگس مال والا نے کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں پوسٹ ڈاکٹورل ایسوسی ایٹ اور ریسرچ سائنسدان کی حیثیت سے کام کیا۔ ان کی ابتدائی تحقیق انٹرفیرو میٹرک کشش ثقل کی لہروں کی دریافت کے لیے آلات بنانے سے متعلق تھی۔ انھیں 2010 میں میک آرتھر فاؤنڈیشن ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔
جیسے ہی مذکورہ بالا تحقیق کی تصدیق کی بازگشت دنیا بھر کے میڈیا میں گونجی اس کے ساتھ ہی ایک اور پاکستانی سائنسدان عمران خان کا بھی نام سنا گیا۔ پسماندہ سمجھے جانے والے صوبے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے اس باصلاحیت نوجوان عمران خان نے پی ایچ ڈی سمیت دیگر اعلیٰ تعلیم کے لیے یورپ کے ملک اٹلی کے گران ساسو سائنس انسٹی ٹیوٹ کا انتخاب کیا تھا۔
عمران خان کئی برسوں سے اٹلی میں تعلیم کے سلسلے میں رہائش پذیر ہیں اور لیگو جیسے منصوبے کے تحت وہ بھی کائنات کی خلائی لچک اور کشش ثقل کی وسعت پر تحقیق اور تصدیق میں شامل رہے۔ نرگس ماول والا کے بعد وہ دوسرے پاکستانی سائنسدان ہیں جو آئن اسٹائن جیسے سائنسدانوں کی پیش کردہ دنیا کی اہم ترین تھیوری پر تحقیق میں مصروف رہے۔
گزشتہ سال پاکستانی سائنسدان، ڈاکٹر حمزہ خان نے جنیوا یونیورسٹی، اٹلی کے پروجیکٹ کے تحت، ہائیڈرولک کی مدد سے چلنے والا 'چار ٹانگوں والا چھوٹا روبوٹ' تیار کیا جسے غیر فوجی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے گا۔ یہاں یہ بتاتا چلوں کہ امریکی بڑی کمپنیاں اپنے دفاعی اداروں کے تعاون اور فنڈ سے جنگی مقاصد کے لیے استعمال میں قابل کار ہائیڈرولک روبوٹس بنا چکی ہیں تاہم وہ ٹیکنالوجی انتہائی سست اور وزنی ہونے کے باعث اب بھی تحقیقی مراحل میں ہے جب کہ ڈاکٹر حمزہ خان نے بتایا کہ ان کے ڈیزائن کردہ روبوٹس بہت چھوٹے ہیں اور چابک دستی سے اپنا کام کرتے ہیں، اور انھیں ریسکیو مقاصد کے لیے استعمال میں لایا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر حمزہ خان نے روبوٹکس میں ہی پی ایچ ڈی کی ہے۔ دراصل یہ پروجیکٹ ان کی ڈاکٹوریٹ کا ہی حصہ تھا۔ تاہم، اس سے پہلے انھوں نے وارسا یونیورسٹی پولینڈ اور جنیوا یونیورسٹی اٹلی سے ماسٹرز کی ڈگری بھی لی تھی۔ ڈاکٹر حمزہ خان پاکستان کے علاقے میانوالی میں پیدا ہوئے اور انھوں نے اسلام آباد کی ایئر یونیورسٹی سے بھی ماسٹرزکی ڈگری حاصل کی۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے اپنی تمام تعلیم اسکالرشپ سے مکمل کی اور ریسرچ میں بھی انھیں یورپی یونیورسٹیز کی اسکالر شپ حاصل رہی۔
پاکستان کے 30 نامور سائنسدان اس وقت امریکا، برطانیہ، جاپان، اٹلی، فرانس اور سوئٹزر لینڈ کے ساتھ ماحولیات، بائیو ڈائیورسٹی ، پلانٹس، اینیمل، راکس، معدنیات اور فوسلزکے میدان میں تحقیق کررہے ہیں۔
پاکستانی نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کا موقع ملتا ہے تو طب ہو یا کائنات یا کوئی اور میدان، ہر جگہ انقلاب برپا کرنے کی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں۔ اگر ملک میں موجود ایسے مزید قابل جوہروں کو بھی مواقع دیے جائیں تو سوچئے کیا ان کی ترقی سے ملک کی کایا نہیں پلٹ سکتی؟
مستقبل کے ایسے معماروں کی تیاری کے لیے سب سے بڑا اور فیصلہ کن کردار بچوں کی تعلیم اور تربیت میں باپ کے فیصلے، اس کا کردار، احساس کرنے کی صلاحیت ادا کرتی ہے۔ بچے کے ابتدائی تعلیمی اداروں کے تعلیمی معیار کے ساتھ ساتھ ماحول پر بھی اس بات کا انحصار ہوتا ہے کہ کسی بچے کی پرورش پر کیسے اثرات چھوڑتا ہے۔
رشتے دار، احباب، دوستوں کی صحبت پر نظر رکھنا والدین بالخصوص باپ کی اہم ترین ذمے داری ہوتی ہے کیونکہ اس کے بچے کو اپنی ابتدائی عمر میں ان ہی لوگوں کی صحبتوں سے واسطہ پڑتا ہے، لہٰذا اس معاملے پر کسی بھی قسم کی مفاہمت آیندہ آنے والے وقت میں اس بات کا فیصلہ کرتی ہے کہ کیا باپ کو اپنے بچے کے تعلیمی اور پیشہ ورانہ کیریئر کی صورت میں فخر کرنے کا موقع ملے گا یا وہ ناکام ہوکر معاشرے کے ان ناکام باپ میں شامل ہوجائے گا جن کے بچے بڑے ہو کر محض مزدور یا نوکر کی حیثیت سے پیسہ کمانے والی مشین بنیں گے۔