جوش ملیح آبادی کی یاد میں

اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو یہ 1966 کا زمانہ تھا جب پاکستان کی فلم انڈسٹری اپنے کمال کی آخری حدود کو چھو رہی تھی۔


ایم اسلم کھوکھر February 23, 2016

اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو یہ 1966 کا زمانہ تھا جب پاکستان کی فلم انڈسٹری اپنے کمال کی آخری حدود کو چھو رہی تھی۔ اس زمانے میں ایک فلم بنانے کی منصوبہ بندی ہوتی ہے اور فلم کا نام تجویز ہوتا ہے ''آگ کا دریا'' مگر ''آگ کا دریا'' کے فلمساز ہمایوں مرزا کی یہ شدید خواہش ہے کہ وہ اپنی فلم میں ایک ایسا ملی نغمہ پیش کریں جوکہ جذبہ حب الوطنی سے بھرپور ہو اور مدتوں یاد رکھا جائے۔ طویل بحث و مباحثہ ہوتا ہے کہ آخر ایسا ملی نغمہ کس سے لکھوایا جائے اور بالآخر طے یہ ہوتا ہے کہ یہ ملی نغمہ محترم جوش ملیح آبادی سے لکھوایا جائے۔

چنانچہ فلم ''آگ کا دریا'' کا فلمساز جوش ملیح آبادی کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے اور ان سے درخواست کی جاتی ہے کہ فلم کی سچویشن کے مطابق ایک ملی نغمہ تحریر فرما دیں۔ اصول پرست و صاف گو جوش ملیح آبادی ارشاد فرماتے ہیں کہ اتنی رقم ادا کردو اور کل صبح آکر ملی نغمہ لے جانا۔ فلم ''آگ کا دریا'' کا فلم ساز مطلوبہ رقم ادا کرتا ہے اور جوش ملیح آبادی سے اجازت پاکر تشریف لے جاتا ہے اور اگلے روز جوش ملیح آبادی کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے۔

جوش حسب وعدہ اپنا کلام اس فلمساز کے حوالے کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ کلام میں نے طویل لکھ دیا ہے، حسب منشا رکھ لینا۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور موسیقی و گائیکی کے تمام مراحل سے گزر کر یہ ملی نغمہ جب وطن کی فضاؤں میں مسعود رانا صاحب کی آواز میں گونجتا ہے تو سننے والے جذبہ حب الوطنی سے سرشار جھوم جھوم جاتے ہیں فلم ''آگ کا دریا'' کے اس ملی نغمے کے بول تھے:

اے وطن ہم ہیں تیری شمع کے پروانوں میں

زندگی ہوش میں جوش ہے ایمانوں میں

یہ ملی نغمہ آج بھی اپنی تخلیق کے 50 برس پورے کرنے کے باوجود جب 23 مارچ و 14 اگست کے مخصوص مواقع پہ بجتا ہے تو اہل وطن کا لہو خوب گرماتا ہے، یہ ملی نغمہ جوش ملیح آبادی کی جانب سے گویا ان لوگوں کو بھی ایک جواب تھا جو لوگ یہ پروپیگنڈا شب و روز کرتے تھے کہ دیکھو جوش صاحب نے یہ بیان دیا ہے چنانچہ وہ محب وطن نہیں رہے اور یہ دیکھو جوش صاحب نے بھارت کی سرزمین پہ یہ بیان دیا ہے لہٰذا اب تو وہ بالکل بھی محب وطن نہیں رہے۔

جب کہ حقیقت تو یہ تھی کہ جوش ملیح آبادی کسی بھی محب وطن پاکستانی سے بڑھ کر محب وطن پاکستانی تھے البتہ وہ حکمرانوں کی غلط روش سے درگزر کرنے کے حق میں نہ تھے، اس باعث وہ ہر دور کے حکمرانوں کی نگاہوں میں کانٹے کی طرح خوب کھٹکتے تھے۔ غلطی تو وہ کسی کی گفتگو کے دوران تلفظ کی بھی درگزر کرنے کے حق میں نہ تھے، چنانچہ ایک مشاعرے کے دوران بھارتی فلموں کے نامور نغمہ نگار و انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی نے اپنا کلام سامعین کو سناتے وقت تلفظ کی غلطی کی تو جوش ملیح آبادی نے مشاعرے کے دوران ہی ساحر لدھیانوی کو ڈانٹ پلادی۔ ذکر اگر جوش صاحب کی شاعری کا کیا جائے تو ان کا یہ کلام کہ:

شاعری کیوں نہ راس آئے مجھے

یہ میرا فن خاندانی ہے

مندرجہ بالا شعر انھوں نے فقط 9 برس کی عمر میں پڑھا تھا جب کہ ان کا پہلا مجموعہ کلام روح ادب 1920 میں شایع ہوا اور اس وقت جوش کی عمر عزیز تھی 22 برس۔ جوش ملیح آبادی کا اصل نام شبیر حسن خان اور ان کے والد کا نام بشیر احمد خان تھا، ان کی تاریخ پیدائش 5 دسمبر 1898 ملیح آباد تھی۔ اور اگر ذکر کیا جائے جوش کی تعلیمی قابلیت تو انھوں نے دنیا کے عظیم ترین ادیب و فلسفی رابندر ناتھ ٹیگور کے قائم کردہ ادارے شانتی نکیتن سے بھی تعلیم حاصل کی جب کہ ابتدائی تعلیم لکھنؤ آگرہ و علی گڑھ سے حاصل کی۔ انھوں نے ادبیات و سائنس میں مغربی مفکرین کا مطالعہ کرنے کے ساتھ ساتھ مرزا محمد ہادی رسوا سے بھی کسب فیض کیا۔ انھیں شاعر انقلاب کے ساتھ ساتھ شاعر شباب و شاعر فطرت جیسے القابات سے بھی نوازا گیا۔

ان کی طویل ترین نظم حرف آخر ہے، جس میں چالیس ہزار اشعار تھے۔ شاعری کے ساتھ ساتھ ان کی نثری تصانیف بھی لاجواب ہیں جن میں ان کے خطوط، ان کی خاکہ نگاری، یادوں کی بارات، آج کل اور کلیم کی ادارت اردو لغت دار الترجمہ و دارالتصنیف اردو ادب میں نمایاں مقام رکھنے والی تحریریں ہیں جب کہ یہ بھی جوش کی شخصیت کا سحر ہے کہ آج تک ان کی شخصیت فن و ادبی خدمات پر اخبارات و جرائد خصوصی نمبرز نکالتے ہیں جب کہ ان کے فن و ادبی تحریروں پر کتابیں و مقالات لکھے گئے اور لکھے جا رہے ہیں، جب کہ جوش کی آواز بھی ان کے نام کی مناسبت سے نہایت گرجدار تھی۔

ان کا خاص شیوہ تھا کہ وہ اپنے چاہنے والوں کے ساتھ ساتھ اپنے دوست و احباب و خاندان کے افراد کے ساتھ حسن سلوک و اخلاق کے ساتھ پیش آتے تھے۔ البتہ اپنے اصولوں پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہ کرنے کے قائل تھے اور اپنے اصولوں پر دم آخر تک قائم رہے، جب کہ حق گوئی انسان دوستی و ادب شناسی جوش کے خون میں شامل اوصاف تھے۔

اپنے ان ہی اوصاف کے باعث جب 22 فروری 1982 کو جوش صاحب نے اس دنیا فانی کو الوداع کہا تو لاکھوں کیا کروڑوں ان کے چاہنے والے غمزدہ ہوگئے۔ یوں بھی جوش کی تحریریں پڑھنے والے فقط اردو ادب پڑھنے والے نہ تھے بلکہ پاکستان میں بولی جانے والی تقریباً تمام زبانوں میں ان کی تحریروں کے ترجمے ہوئے تھے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ تمام پاکستانی جن کو ادب سے لگاؤ ہے وہ جوش کی تحریریں پڑھتے تھے اور پڑھتے ہیں۔

تمام عمر اپنے تحریر و بیاں سے جبر کے خلاف جہاد کرنے والے جوش ملیح آبادی کو بعداز وفات حکومت پاکستان نے ان کی ادبی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ہلال امتیاز سے نوازا۔ وہ بھی ان کی وفات کے پورے 30 برس بعد، یعنی 2012 میں۔ گویا یہ سچائی ثابت ہوگئی کہ جوش ایسے لوگوں میں سے تھے جنھیں مرنے کے بعد ہی حکومتی ایوانوں میں یاد کیا جاتا ہے۔

نامور ترین انقلابی شاعر فیض احمد فیض نے جوش کو ان الفاظ میں خراج عقیدت پیش کیا تھا کہ جوش نے کذب دریا جہل و پست ہمتی کے خلاف اپنے قلم کا علم بلند کیا اور پھر لشکر اعلا کے خلاف اس علم کے جلو میں الفاظ و تراکیب، اصوات و نغمات و افکار و تخیلات کا ایسا لشکر جرار میدان میں اتارا کہ ان کے معرکہ ہائے حرب و ضرب کی جھنکار ابد تک سنائی دیتی رہے گی۔ آج ہم 22 فروری 2016 کو جوش ملیح آبادی کو ان کی 34 ویں برسی کے موقع پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں