والد شفیق رہنما
باپ سے خاص طور پر بیٹیاں بہت نزدیک ہوا کرتی ہیں، والد کی محبت دل میں ہر وقت موجزن رہتی ہے
لاہور:
ذہنی تربیت ہو یا تالیفِ قلب، شخصیت کی تکمیل ہو یا کردار کی تدوین، والد کے بغیر ممکن نہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
''والد کی طرف سے اولاد کو سب سے بہتر عطیہ اس کی اچھی تربیت ہے''۔
بچے کے لیے ماں کی اہمیت کتنی بھی اہم کیوں نہ ہو، اس حقیقت سے کوئی ماں بھی انکار نہیں کرسکتی کہ بچے کی زندگی میں جتنی اہمیت ماں کی ہے، باپ کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جس کی جگہ کوئی اور رشتہ کبھی لے ہی نہیں سکتا۔
بچے اپنے والدین بالخصوص والد کی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں، ان کی جانب سے دیے جانے والے چھوٹے چھوٹے تحائف کے ساتھ تھوڑی سی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں، ان کی طرف سے دیے جانے والے تحائف کے ساتھ تھوڑی سی توجہ بھی بچے کے لیے سرمایہ افتخار ہوتی ہے۔ وہ والد کو کم عمری سے ہی ''مثالی کردار'' کی حیثیت دیتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بچے اپنے والد کا اٹھنا بیٹھنا، بات کرنے کا طریقہ، لوگوں سے حسن سلوک، کام کرنے کا انداز اور چال ڈھال بغور دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے مثالی کردار ہی کی طرح نظر آنا چاہتے ہیں، ایسے میں وہ بعض اوقات مذاق کا نشانہ بھی بنتے ہیں، تاہم انھیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ بالکل اپنے والد ہی کی طرح نظر آئیں، ہر جگہ ہر مقام پر ایک سمجھ دار والد اپنے بچے کو ساتھ رکھتا ہے تاکہ کم عمری سے زمانے کی اونچ نیچ اور زندگی گزارنے کے طریقے سے اسے آگاہ کرتے رہیں۔
بچے کی تعلیم و تربیت اور شخصیت کے نکھار میں ماں کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔ مگر والد اکثر بچوں کے آئیڈیل ہوا کرتے ہیں۔ باپ بچوں کی تربیت میں شفقت کے ساتھ ساتھ بعض مرتبہ سختی سے بھی کام لیتے ہیں تاکہ انھیں اچھائی اور برائی کی تمیز ہوسکے جب کہ ماں کے دل میں بچوں کے لیے پیار ہوتا ہے وہ بچے کو کسی پل بھی اداس نہیں دیکھ سکتی، ماں کی ممتا بچے پر سختی کرنے سے باز رہتی ہے، جس کی وجہ سے بچہ ماں سے محبت تو کرتا ہے مگر اپنی ہر بات بھی منوا لیتا ہے۔
بعض اوقات بچے اس لیے بھی اپنی منزل سے بھٹک جاتے ہیں کیونکہ اس گھر میں والد کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اس میں والدہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے، بچے سے جب کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو والد سے بچانے کے لیے ماں کی طرف لپکتا ہے اور بعض مائیں بچے کے تمام عیوب چھپا کر باپ کو ہی قصور وار ٹھہراتی ہیں اور بچے کے سامنے ہی اس کے وقار کو خراب کرنے لگتی ہیں، جس سے بچے کو شہ ملتی ہے اور وہ مزید غلطیاں کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔
بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ماں کا رتبہ بلند ہے مگر ماں کے سینے میں محبت کا ایک سمندر موجزن ہے جب کہ باپ اپنی اولاد کو دنیا میں اعلیٰ مقام پر دیکھنے کے لیے جستجو کرتا ہے اور عملی طور پر بچے کی تربیت میں بھرپور حصہ لیتا ہے، بچے بھی باپ کے ہر عمل پر غور کرتے ہیں اور باپ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''باپ کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔'' دنیا کا کوئی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا بے ادب اور بدتمیز ہو، نالائق، کاہل، بداخلاق ہو۔ ہر باپ یہ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا خوش اخلاق ہو، لائق ہو، بڑوں کا ادب کرنا جانتا ہو، محنت سے تعلیم حاصل کرے، استاد کا احترام کرے، گھر کے کام کاج میں مدد دے۔
والد کا تعلق اولاد سے تو اسی وقت گہرا ہوجاتا ہے جس روز وہ باپ بنتا ہے، اس وقت اس کی سوچ کا دھارا اپنی اولاد کی جانب مڑ جاتا ہے جو کچھ پہلے تک اپنے اور صرف اپنے متعلق سوچا کرتا تھا اب اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتا ہے، اس کی تعلیم و تربیت، کھانا پینا اور صحت کے متعلق ہر وقت جستجو میں لگا رہتا ہے۔
باپ سے خاص طور پر بیٹیاں بہت نزدیک ہوا کرتی ہیں، والد کی محبت دل میں ہر وقت موجزن رہتی ہے۔ ایک پرشفقت باپ اپنے بچوں کے لیے حفاظتی دیوار کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے لیے سب سے اہم اور بچوں کو معاشی و نفسیاتی اور جذباتی تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے اسی لیے وہ اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لیے تگ و دو کرتا رہتا ہے۔
عموماً مائیں بچوں کو سخت الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں اس میں ان کا مقصد کسی قسم کے غصے کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ بچے سے وابستہ محبت اور ممتا ہی ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے، ماں بہ نسبت والد عموماً بچے کی نفسیات کو فوقیت دیتے ہیں، وہ جب بھی ان سے ہم کلام ہوتے ہیں تو پہلے ان کی بات سنتے ہیں اور پھر اسی پیرائے میں اپنی بات کو نرمی اور حلاوت سے اس کے گوش گزار کرتے ہیں، اسی وجہ سے اکثر بچے اپنی ماؤں سے زیادہ والد کے قریب ہوتے ہیں۔
کیونکہ ان کی خواہشات کی تکمیل اور بات سمجھانے کا انداز انھیں پسند ہوتا ہے۔ والد بچوں کی تعلیم کے متعلق خاصے سخت ہوتے ہیں، یہ واحد شعبہ ہے جس میں وہ کسی قسم کی کمی برداشت نہیں کرسکتے چونکہ ان کے پیش نظر بچے کا محفوظ مستقبل ہی ہوتا ہے، چاہے کوئی بھی کھیل یا مسئلہ ہو، بچہ باپ کو ہی اپنے تمام مسائل کے حل کے طور پر اہم جانتا ہے جو کم عمری میں ان کے ہر اچھے کام اور کامیابی کے پیچھے کارفرما رہ کر مستقل حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ عمل ہر بچے کو مضبوط کردار، باحوصلہ اور متوازن شخصیت سے ہمکنار کرتا ہے۔
سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ والد کی محبت اور شفقت دماغ کے سائز، ذہنی و جسمانی صلاحیتوں اور سوچنے کی گہرائی میں وسعت پیدا کرتی ہے، والد کے زیر سایہ پرشفقت ماحول میں پرورش پانے والے بچے اوسط ذہانت کے حامل ہونے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کرنے پر مکمل قدرت رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ میرے والد کو جنت الفردوس میں جگہ دے (آمین)۔ جن کا 25 جنوری کو انتقال ہوگیا تھا۔ ہم بچے ان کی سکھائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔
ذہنی تربیت ہو یا تالیفِ قلب، شخصیت کی تکمیل ہو یا کردار کی تدوین، والد کے بغیر ممکن نہیں۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:
''والد کی طرف سے اولاد کو سب سے بہتر عطیہ اس کی اچھی تربیت ہے''۔
بچے کے لیے ماں کی اہمیت کتنی بھی اہم کیوں نہ ہو، اس حقیقت سے کوئی ماں بھی انکار نہیں کرسکتی کہ بچے کی زندگی میں جتنی اہمیت ماں کی ہے، باپ کی بھی اتنی ہی اہمیت ہے جس کی جگہ کوئی اور رشتہ کبھی لے ہی نہیں سکتا۔
بچے اپنے والدین بالخصوص والد کی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں، ان کی جانب سے دیے جانے والے چھوٹے چھوٹے تحائف کے ساتھ تھوڑی سی توجہ کے طلبگار ہوتے ہیں، ان کی طرف سے دیے جانے والے تحائف کے ساتھ تھوڑی سی توجہ بھی بچے کے لیے سرمایہ افتخار ہوتی ہے۔ وہ والد کو کم عمری سے ہی ''مثالی کردار'' کی حیثیت دیتے ہیں۔
شاید یہی وجہ ہے کہ اس عمر میں بچے اپنے والد کا اٹھنا بیٹھنا، بات کرنے کا طریقہ، لوگوں سے حسن سلوک، کام کرنے کا انداز اور چال ڈھال بغور دیکھتے ہیں۔ وہ اپنے مثالی کردار ہی کی طرح نظر آنا چاہتے ہیں، ایسے میں وہ بعض اوقات مذاق کا نشانہ بھی بنتے ہیں، تاہم انھیں اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا۔ وہ چاہتے ہیں کہ بالکل اپنے والد ہی کی طرح نظر آئیں، ہر جگہ ہر مقام پر ایک سمجھ دار والد اپنے بچے کو ساتھ رکھتا ہے تاکہ کم عمری سے زمانے کی اونچ نیچ اور زندگی گزارنے کے طریقے سے اسے آگاہ کرتے رہیں۔
بچے کی تعلیم و تربیت اور شخصیت کے نکھار میں ماں کو کوئی فراموش نہیں کرسکتا۔ مگر والد اکثر بچوں کے آئیڈیل ہوا کرتے ہیں۔ باپ بچوں کی تربیت میں شفقت کے ساتھ ساتھ بعض مرتبہ سختی سے بھی کام لیتے ہیں تاکہ انھیں اچھائی اور برائی کی تمیز ہوسکے جب کہ ماں کے دل میں بچوں کے لیے پیار ہوتا ہے وہ بچے کو کسی پل بھی اداس نہیں دیکھ سکتی، ماں کی ممتا بچے پر سختی کرنے سے باز رہتی ہے، جس کی وجہ سے بچہ ماں سے محبت تو کرتا ہے مگر اپنی ہر بات بھی منوا لیتا ہے۔
بعض اوقات بچے اس لیے بھی اپنی منزل سے بھٹک جاتے ہیں کیونکہ اس گھر میں والد کی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا، اس میں والدہ کا بہت بڑا ہاتھ ہے، بچے سے جب کوئی غلطی سرزد ہوجاتی ہے تو وہ اپنے آپ کو والد سے بچانے کے لیے ماں کی طرف لپکتا ہے اور بعض مائیں بچے کے تمام عیوب چھپا کر باپ کو ہی قصور وار ٹھہراتی ہیں اور بچے کے سامنے ہی اس کے وقار کو خراب کرنے لگتی ہیں، جس سے بچے کو شہ ملتی ہے اور وہ مزید غلطیاں کرنے کا عادی ہوجاتا ہے۔
بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک ماں کا رتبہ بلند ہے مگر ماں کے سینے میں محبت کا ایک سمندر موجزن ہے جب کہ باپ اپنی اولاد کو دنیا میں اعلیٰ مقام پر دیکھنے کے لیے جستجو کرتا ہے اور عملی طور پر بچے کی تربیت میں بھرپور حصہ لیتا ہے، بچے بھی باپ کے ہر عمل پر غور کرتے ہیں اور باپ کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ''باپ کی خوشی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہے۔'' دنیا کا کوئی باپ یہ نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا بے ادب اور بدتمیز ہو، نالائق، کاہل، بداخلاق ہو۔ ہر باپ یہ چاہتا ہے کہ اس کا بیٹا خوش اخلاق ہو، لائق ہو، بڑوں کا ادب کرنا جانتا ہو، محنت سے تعلیم حاصل کرے، استاد کا احترام کرے، گھر کے کام کاج میں مدد دے۔
والد کا تعلق اولاد سے تو اسی وقت گہرا ہوجاتا ہے جس روز وہ باپ بنتا ہے، اس وقت اس کی سوچ کا دھارا اپنی اولاد کی جانب مڑ جاتا ہے جو کچھ پہلے تک اپنے اور صرف اپنے متعلق سوچا کرتا تھا اب اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند دکھائی دیتا ہے، اس کی تعلیم و تربیت، کھانا پینا اور صحت کے متعلق ہر وقت جستجو میں لگا رہتا ہے۔
باپ سے خاص طور پر بیٹیاں بہت نزدیک ہوا کرتی ہیں، والد کی محبت دل میں ہر وقت موجزن رہتی ہے۔ ایک پرشفقت باپ اپنے بچوں کے لیے حفاظتی دیوار کی حیثیت رکھتا ہے، اس کے لیے سب سے اہم اور بچوں کو معاشی و نفسیاتی اور جذباتی تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے اسی لیے وہ اپنے بچے کے بہتر مستقبل کے لیے تگ و دو کرتا رہتا ہے۔
عموماً مائیں بچوں کو سخت الفاظ میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہیں اس میں ان کا مقصد کسی قسم کے غصے کا اظہار نہیں ہوتا بلکہ بچے سے وابستہ محبت اور ممتا ہی ایسا کرنے پر مجبور کرتی ہے، ماں بہ نسبت والد عموماً بچے کی نفسیات کو فوقیت دیتے ہیں، وہ جب بھی ان سے ہم کلام ہوتے ہیں تو پہلے ان کی بات سنتے ہیں اور پھر اسی پیرائے میں اپنی بات کو نرمی اور حلاوت سے اس کے گوش گزار کرتے ہیں، اسی وجہ سے اکثر بچے اپنی ماؤں سے زیادہ والد کے قریب ہوتے ہیں۔
کیونکہ ان کی خواہشات کی تکمیل اور بات سمجھانے کا انداز انھیں پسند ہوتا ہے۔ والد بچوں کی تعلیم کے متعلق خاصے سخت ہوتے ہیں، یہ واحد شعبہ ہے جس میں وہ کسی قسم کی کمی برداشت نہیں کرسکتے چونکہ ان کے پیش نظر بچے کا محفوظ مستقبل ہی ہوتا ہے، چاہے کوئی بھی کھیل یا مسئلہ ہو، بچہ باپ کو ہی اپنے تمام مسائل کے حل کے طور پر اہم جانتا ہے جو کم عمری میں ان کے ہر اچھے کام اور کامیابی کے پیچھے کارفرما رہ کر مستقل حوصلہ بڑھاتے رہتے ہیں۔ ان کا یہ عمل ہر بچے کو مضبوط کردار، باحوصلہ اور متوازن شخصیت سے ہمکنار کرتا ہے۔
سائنسی ماہرین کا کہنا ہے کہ والد کی محبت اور شفقت دماغ کے سائز، ذہنی و جسمانی صلاحیتوں اور سوچنے کی گہرائی میں وسعت پیدا کرتی ہے، والد کے زیر سایہ پرشفقت ماحول میں پرورش پانے والے بچے اوسط ذہانت کے حامل ہونے کے باوجود اپنی صلاحیتوں کو بہتر طور پر استعمال کرنے پر مکمل قدرت رکھتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ میرے والد کو جنت الفردوس میں جگہ دے (آمین)۔ جن کا 25 جنوری کو انتقال ہوگیا تھا۔ ہم بچے ان کی سکھائی ہوئی باتوں پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔