پاکستانی فلم انڈسٹری کا نیا جنم‘ مگر فلمی موسیقی کہاں کھو گئی

ہمارے فلم میکر کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اچھا میوزک فلم کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیتا ہے

ہمارے فلم میکر کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اچھا میوزک فلم کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیتا ہے:فوٹو : فائل

وہ کیا دور تھا جب پاکستانی فلموں کے گیت ہر اس شخص کے لبوں پر ہوتے تھے جو موسیقی سے ذرا سا بھی شغف رکھتا تھا، فلمیں تو بعد میں نمائش کے لیے پیش کی جاتی تھیں لیکن اس فلم کے گیت پہلے ہی سپر ہٹ ہوجاتے تھے۔فلموں کے گانے ہٹ ہوتے ہی شائقین فلم ریلیز ہونے کا بے چینی سے انتظار کرتے تھے۔

ماضی پر اگر ہم نظر ڈالیں تو قیام پاکستان سے قبل اور بعد فلمی موسیقی نے پوری دنیا میں زبردست پذیرائی حاصل اس کی وجہ اس دور کے وہ لیجنڈ تھے جنہوں نے لگن اور سچائی سے اپنے شعبہ میں محنت کی، ان کا نقطہ نظر یہ ہوتا تھا وہ جو کام کررہے ہیں وہ لوگوں کی توجہ حاصل کرلے، پاکستانی موسیقی کی ان نامور شخصیات کو جب موسیقی ترتیب دینے کی ذمہ داری دی جاتی تھی تو وہ کئی کئی ماہ تک اس پر ریسرچ کرتے تھے ،شاعر اور ڈائریکٹر کو اپنے ساتھ بٹھاکر ان کے مشورے سے اسے پایہ تکمیل تک پہنچاتے تھے۔



موسیقی کسی بھی فلم کی کامیابی میں سب سے اہم سمجھی جاتی تھی، ایک گیت کمپوز کرنے میں کئی کئی ماہ لگ جاتے تھے وہ اس وقت تک اسے فائنل نہیں کرتے تھے جب تک وہ خود مطمئن نہ ہوں۔ اس حوالے سے ان پر پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی طرف سے کوئی پریشر نہیں ہوتا تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ فلم کا میوزک مکمل ہوتے ہی اسے ریلیز کردیا جاتا ،اس وقت صرف ریڈیو ہی کسی بھی فلم کے گانوں کو مقبول بنانے کا واحد ذریعہ تھا ۔لوگ ریڈیو پر ان گانوں کو سن کر ہی فلم دیکھنے یا نہ دیکھنے کا فیصلہ کرتے تھے ۔ہر کوئی فلم کی ریلیز سے قبل اس کے گانوں کو ریڈیو پر آن ائیر کرنے کی کوشش کرتا ، کیونکہ اس طرح اسے پبلسٹی ملتی جو فلم کے بزنس کے حوالے سے مثبت کردار ادا کرتی تھی۔

ٹی وی تو بہت بعد میں وجود میں آیا،اب اگر ہم ان لیجنڈ کا تذکرہ نہ کریں جنہوں نے پاکستانی موسیقی کو بام عروج پر پہنچایا تو فلمی میوزک کی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی اس دور میں بہترین کمپوزر اور ارینجر میں فیروز نظامی، خواجہ خورشید انور، رشید عطرے، نثار بزمی، ماسٹر عنایت حسین، اے حمید، دیبو بھٹہ چارجی، ایم اشرف، روبن گھوش، سہیل رانا، خلیل احمد،نہال عبداﷲ،نیاز احمد اورپنڈت غلام قادر جیسے نام ہیں ۔ موسیقی کا میدان ان کی خدمات سے بھرا پڑا ہے انہوں نے ایسے سدا بہار اور خوبصورت گیت تخلیق کئے جو آج بھی اگر سنیں تو سننے والا اس کے سحر میں کھو جاتا ہے۔

ان نامور میوزک ڈائریکٹرز نے فلم انڈسٹری کو بہترین کمپوزیشنز اور گانوں کی وجہ سے ایسی شہرت دلائی کہ اس کی مثال نہیں ملتی ۔ان کے بے شمار ایسے خوبصورت گیت ہیں جو ہمسایہ ملک بھارت میں کاپی کئے گئے ، یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے ۔اب اگر ان موسیقاروں کی ترتیب دی ہوئی دھنوں میں گائے جانے والے گیتوں اور ان گلوکاروں کا تذکرہ کریں تو یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے ان لیجنڈ گلوکاروںنے بھی اپنی خوبصورت آواز میں گا کر اپنا حق ادا کیا ،انہوں نے اپنے لیجنڈ موسیقاروں کی موسیقی کو ایک نئی زندگی دی اگر یہ کہا جائے کہ خوبصورت آواز ہی کسی موسیقی کو کامیاب بنانے میں اہم ہوتی ہے تو غلط نہ ہوگا۔

موسیقار اور گلوکار ایک دوسرے کے ساتھ لازم ملزوم رہے ہیں، کوئی بھی موسیقار کو ئی گیت کمپوز کرتا تھا ، تو سب سے پہلے اس گانے کے لئے اس گلوکار کا انتخاب کرتا جو اس کمپوزیشن کے مطابق اسے نبھا سکے ۔ہماری یہ بھی خوش قسمتی رہی کہ بہترین موسیقاروں کے ساتھ بہترین گلوکاروں کی بھی ایک کھیپ موجود تھی جو ہرموڈ کے گانے کو گاسکتے تھے ۔


ان خوبصورت دھنوں میں گیت گانے والوں میں شنہشاہ غزل مہدی حسن، ملکہ ترنم نورجہاں، مالا، نسیم بیگم، نیرہ نور، مجیب عالم، رونا لیلی، تصور خانم، احمد رشدی، مسعود رانا، منیر حسین، سلیم شہزاد، فردوسی بیگم،آئرین پروین، غلام عباس، ناہید اختر،حمیرا چنہ،شرافت علی، ایس بی جان، شوکت علی،عالمگیر،غلام علی،شازیہ منظور، بلقیس خانم،رجب علی، انور رفیع ، وارث بیگ، اے نیئر،فریحہ پرویز،طاہرہ سید، اور ایسی ہی بے شمار عمدہ آوازیںآج بھی پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اہم مقام رکھتی ہیں ۔

یہ وہ آوازیں ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں گی، موسیقی کی جب بھی بات کی جائے گی تو ہمارے لیجنڈ موسیقار اور خوبصورت گائیک لوگوں کے دلوں میں موجود رہیں گے ، فلم انڈسٹری کا سنہری دور کیا ختم ہوا فلمی موسیقی بھی کہیں گم ہوگئی، ایسے تخلیق کاروں اور عمدہ کمپوزرز کو ہم کہاں تلاش کریں، جو پاکستانی موسیقی کو ایک بار پھر شہرت کی بلندی پر پہنچا دیںاور وہ دور واپس لاسکیں، لیکن اب یہ ممکن نہیں کیونکہ اس تیز رفتار زندگی میں کسی کے پاس بھی اتنا وقت نہیں کہ وہ موسیقی کے بارے میں اس طرح سوچ سکے، جیسا کے ماضی میں ہوتا رہا ہے، اتنی محنت کون کرے اور اسے تخلیق کیسے کرے، بقول ہمارے سینئر گلوکاروں کے کہ اب نئے آنے والے لوگوں کو تو موسیقی سے کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے وہ اس شعبہ کو فراموش کرچکے ہیں انہیں تو ان بہترین موسیقاروں ، ان لیجنڈ گلوکاروں کا شاید نام بھی یاد نہ ہو۔

یہ ایک المیہ ہے،جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے کم ہے،آج جب ایک طویل عرصہ کے بعد ہماری فلم انڈسٹری نے نیا جنم لیا، فلم بین بھی نئے دور کی فلمیں بنانے والوں سے بھی متاثر نظر آتے ہیں۔یہ بھی ایک اچھی خوش آئند بات ہے کہ انہوں نے فلم انڈسٹری کے مردہ جسم میں جان ڈال دی ، ورنہ تو لوگ سمجھنے لگے تھے کہ شایدہی وہ اپنی فلمیں دیکھ سکیں ۔نئے لوگ فلمیں تو اچھی بنا رہے ہیں مگر میوزک کو یکسر نظر انداز کر رہے ہیں ۔ابھی تک جتنی بھی فلمیں بنیں یا بن رہی ہیں۔



ان میں موسیقی تو برائے نام ہی شامل ہے ۔ نمائش ہونے والی فلموں میں سے کسی کا ایک بھی گانا عوام میں مقبول ہوا یا کسی کو کنگناتے سنا ؟ تو اس کا جواب نہ میں ہی ہوگا کیوں۔۔۔۔۔۔؟ راحت فتح علی خان جو بولی وڈ کے کامیاب ترین سنگرز میں سے ہیں ، ان کا گانا فلم کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے مگر یہاں پر ابھی تک ان کا کوئی فلمی گیت مقبولیت حاصل ہی نہیں کرسکا ۔کیا ہمارے نوجوان ڈائریکٹر موسیقی کو اہم نہیں سمجھتے؟

یا اس کی ضروت محسوس نہیں کرتے تو یہ پاکستانی موسیقی اور ان لیجنڈ موسیقاروں کے ساتھ ہی زیادتی نہیں بلکہ فلم بینوں کے ساتھ بھی ہے جو پچھلے کئی سالوں سے اچھا فلمی میوزک سننے سے محروم ہیں ۔ آئٹم سانگز کے نام پر بھی جو گانے شامل کئے گئے وہ اپنی کمزور شاعری اور کمپوزیشن کے باعث ناکام ہوئے ۔

ہمارے فلم میکر کو یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیئے کہ اچھا میوزک فلم کی مقبولیت کو چار چاند لگا دیتا ہے، ہمارے پاس بہترین کمپوزر ، شاعر اور گلوکار موجود ہیںجو ہر قسم کا گانا گانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر موسیقی اتنی اہم نہ ہوتی تو پھر بولی وڈ فلموں میں میوزک کو شامل ہی نہ کیا جائے ۔ مانا وہاں بھی اب سچویشنل اور میلوڈی گانوں کی بجائے مصالحہ گانے ہی بنائے جارہے ہیں مگر یہ بات تو واضح ہے کہ گانوں کے بغیر فلم بنانا ممکن نہیں۔ہمیں بھی دوسرے شعبوں کی طرح میوزک پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ یہ ہمارا اثاثہ ہے۔فلم انڈسٹری تو بحال ہوگئی لیکن موسیقی کہیں کھو گئی ہے اسے بھی تلاش کرنے کی کوشش کریں ، شاید فلمی موسیقی کے شعبہ میں بہتری میں آپ کا بھی نام شامل ہوجائے۔
Load Next Story