ڈھائی لاکھ فوج کی فوری دستیابی مشکلمردم شماری موخرہونے کاامکان
آرمی مغربی اورمشرقی سرحدپرمصروف ہے،مارچ میں عملے کی تربیت بھی نہیں ہوسکتی
ملک میں آئندہ ماہ مارچ میں ہونیوالی مردم شماری کیلیے بلوچستان اورپختونخواکی طرف سے فوج کی مکمل سیکیورٹی مانگے جانیکے بعد حکومت کیلئے کم وقت میں مردم شماری کا پراسس کرانا محال ہوگیا۔
سیکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ آئندہ ماہ مارچ میں ہونیوالی مردم شماری کیلیے مختلف مراحل میں ہی مکمل سیکیورٹی فراہم کی جا سکتی ہے جبکہ ابھی تک مردم شماری کے عملے کو مکمل تربیت بھی فراہم نہیں کی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ مارچ کے آخری ہفتے می مردم شماری کیلیے شماریات ڈویژن نے ایک لاکھ66 ہزار فوج مانگی ہے جبکہ مردم شماری کیلیے بنائے گئے66 ہزار 800بلاکس کیلیے فوجی افسران بھی مانگے گئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اگرہر بلاک کیلیے فوجی جوان فراہم کیے جائیں تواس سارے پراسس کیلیے ڈھائی لاکھ سے زائد فوج درکار ہوگی جوکہ موجودہ صورتحال میں ممکن نہیں ۔ آپریشن ضرب عضب کے باعث تقریباً پونے دو لاکھ فوج مغربی اور اتنی ہی مشرقی بارڈ پر تعینات ہے، اس صورتحال میں ایک ہی وقت میں مرودم شماری کیلئے اتنی تعداد میں فوج فراہم نہیں کی جا سکتی۔ذ رائع نے بتایا کہ اگر حکومت نے مردم شماری مخلتف مراحل میں کرائی تو صوبہ وار فوجی جوان سیکیورٹی کیلیے تعینات کیے جائیں گے، یہ بھی تب ممکن ہو گا جہاں جہٓاں فوجی فارمشن موجود ہوگی وہاں کا پلان پہلے فراہم کیا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے تاحال سیکیورٹی اداروں کو مردم شماری کے حوالے سے مکمل پلان بھی نہیں دیا گیا ۔ ذرائع نے بتایا کہ رواں ماہ کے آخر میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری مارچ میں کرانے کے فیصلے میں نظر ثانی متوقع ہے جس کے بعد مردم شماری مر حلہ وار ہی ہو سکے گی ۔
دوسری طرف ذرائع کے مطابق شماریات ڈویژن ملک میں مردم شماری کے حوالے سے نادراکے پاس دستیاب ملک بھرکے تمام خاندانوں کے ڈیٹاسے بھی استفادہ کرسکتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نادراکے ڈیٹابینک میں ملک میں بسنے والے پاکستانی شہریوںکے خاندان کے تمام افرادکے مکمل کوائف پرمبنی جامع ڈیٹاموجودہے تاہم دہشت گردی کیخلاف جنگ اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقل مکانی کی وجہ سے نئی رجسٹریشن متاثر ہوئی ہے ۔ وزارت داخلہ کے ایک افسرکے مطابق گھر گھر جاکرعملی طورپررجسٹریشن کیے بغیرمردم شماری مکمل نہیں ہوپائے گی۔
سیکیورٹی ذرائع نے انکشاف کیاہے کہ آئندہ ماہ مارچ میں ہونیوالی مردم شماری کیلیے مختلف مراحل میں ہی مکمل سیکیورٹی فراہم کی جا سکتی ہے جبکہ ابھی تک مردم شماری کے عملے کو مکمل تربیت بھی فراہم نہیں کی گئی ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ مارچ کے آخری ہفتے می مردم شماری کیلیے شماریات ڈویژن نے ایک لاکھ66 ہزار فوج مانگی ہے جبکہ مردم شماری کیلیے بنائے گئے66 ہزار 800بلاکس کیلیے فوجی افسران بھی مانگے گئے ہیں۔
ذرائع نے بتایا کہ اگرہر بلاک کیلیے فوجی جوان فراہم کیے جائیں تواس سارے پراسس کیلیے ڈھائی لاکھ سے زائد فوج درکار ہوگی جوکہ موجودہ صورتحال میں ممکن نہیں ۔ آپریشن ضرب عضب کے باعث تقریباً پونے دو لاکھ فوج مغربی اور اتنی ہی مشرقی بارڈ پر تعینات ہے، اس صورتحال میں ایک ہی وقت میں مرودم شماری کیلئے اتنی تعداد میں فوج فراہم نہیں کی جا سکتی۔ذ رائع نے بتایا کہ اگر حکومت نے مردم شماری مخلتف مراحل میں کرائی تو صوبہ وار فوجی جوان سیکیورٹی کیلیے تعینات کیے جائیں گے، یہ بھی تب ممکن ہو گا جہاں جہٓاں فوجی فارمشن موجود ہوگی وہاں کا پلان پہلے فراہم کیا جائے۔
ذرائع نے بتایا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے تاحال سیکیورٹی اداروں کو مردم شماری کے حوالے سے مکمل پلان بھی نہیں دیا گیا ۔ ذرائع نے بتایا کہ رواں ماہ کے آخر میں مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری مارچ میں کرانے کے فیصلے میں نظر ثانی متوقع ہے جس کے بعد مردم شماری مر حلہ وار ہی ہو سکے گی ۔
دوسری طرف ذرائع کے مطابق شماریات ڈویژن ملک میں مردم شماری کے حوالے سے نادراکے پاس دستیاب ملک بھرکے تمام خاندانوں کے ڈیٹاسے بھی استفادہ کرسکتی ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ نادراکے ڈیٹابینک میں ملک میں بسنے والے پاکستانی شہریوںکے خاندان کے تمام افرادکے مکمل کوائف پرمبنی جامع ڈیٹاموجودہے تاہم دہشت گردی کیخلاف جنگ اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقل مکانی کی وجہ سے نئی رجسٹریشن متاثر ہوئی ہے ۔ وزارت داخلہ کے ایک افسرکے مطابق گھر گھر جاکرعملی طورپررجسٹریشن کیے بغیرمردم شماری مکمل نہیں ہوپائے گی۔