سُونا جنگل رات اندھیری
اگر چمنیوں سے دھواں اُٹھ رہاہوتوکسی کو قائل کرنے کے لیے دلیل لانے کی ضرورت نہیں
MUMBAI:
اگر چمنیوں سے دھواں اُٹھ رہاہوتوکسی کو قائل کرنے کے لیے دلیل لانے کی ضرورت نہیں کہ آتشدان میں گیلی لکڑیاں سلگ رہی ہیں ۔اگر چہرے گردآلود اور پیشانیاں غبار پوش ہورہی ہوں توکسی کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ گلی کوچوں میں آندھیاں دندنارہی ہیں۔اگر بنیاد پر رعشہ، دیوارپر لرزہ،بام پر تھرتھراہٹ اور دروازے پر کپکپاہٹ دستکیں دے رہی ہوتو زلزلے کی آمد سے باخبر ہونے کے لیے کسی ریڈیو یا ٹی وی نیوز چینل کا سوئچ آن کر نے کی حاجت نہیںہوتی اور اگر کسی اعلیٰ حکومتی عہدیدار کی طرف سے ''نیب'' کے بارے میں تحفظات سے آگاہ کیا جا رہا ہو تو اس حوالے سے کسی اخبار کا اداریہ پڑھنے کی ضرورت نہیں کہ احتساب کس کا شروع ہونے والا ہے۔
2013ء میں جب وزیر اعظم اور قائدحزب اختلاف خورشید شاہ نے عوام کو یہ نوید سنائی تھی کہ قمر زمان چوہدری کو نیب کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے تو اس وقت کسی کو یہ خبر نہیں تھی کہ آج فروری 2016ء میں حالات کیسے ہوں گے اور بندہ ناچیز گزشتہ ماہ اپنے ایک کالم میں اس بات کا ذکر کر چکا ہے کہ ہمارے حکمرانوں میں ایسی کونسی ''برائی''ہے کہ اداروں میں ان کے اپنے لگائے ہوئے سربراہان جب ان سے ''حساب'' مانگنے لگتے ہیں تو یہ ان کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ اور جب کوئی ادارہ ٹھیک کام کرنے لگتا ہے تو یہ لوگ ''میثاق جمہوریت '' جیسی بے سود دستاویزات کو درمیان میں لا کر ایک دوسرے کو یاد کراتے ہیں کہ یاد کرو مک مکا کے حوالے سے کیا معاہدہ ہوا تھا۔؟
یہاں عجیب ماحول بن چکا ہے جب کسی ملک میں مقتدر طبقات لوٹ کھسوٹ کلچر کو اسٹیٹس سمبل کا نام دیں ،جب حکمران اپنے نام ملین ڈالرز کلب اور بلین ڈالرزکلب کے اراکین کی فہرست میں پڑھ کراظہارِ مسرت کریں، جب سول اور ملٹری بیوروکریسی کے ریٹائرڈ خواتین وحضرات اپنا ناجائز پیسہ امریکی ریاستوں اور یورپی ملکوں میں منتقل کردیں تو عام آدمی کو دھوکا دہی ،چوری کرنے، ڈاکا ، فراڈ کرنے، غبن،خوردبردکرنے، رشوت لینے، کمیشن لینے، مک مکا کرنے سے کون روک سکے گا؟ سچ کہا تھا شاعر نے:
گلشن کی شاخ شاخ کو ویراں کیا گیا
یوں بھی علاج تنگی داماں کیا گیا
یہ سچ ہے کہ حکمرانوں اور آمروں نے اپنے اپنے مقاصد کے لیے احتسابی ادارے قائم کیے اور مخالفین کو مختلف کیسوں کے ذریعے دباؤ میں رکھا۔ 1997ء میں نواز شریف وزیراعظم تھے ، اس دور میں احتساب کا ادارہ قائم کیا گیا جسے بعد ازاں پرویز مشرف نے 1999ء میں ''نیب'' میں تبدیل کر دیا اور اسے آگہی اور قانون پر عملدرآمد کے ذریعے ملک بھر سے بدعنوانی کے خاتمے کی ذمے داری سونپی گئی۔ نیب قومی احتساب آرڈیننس 1999ء کے تحت کام کر رہا ہے۔
گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت پورا پاکستان اس کے دائرۂ کار میں آتا ہے۔ نیب اپنے قیام سے آج تک سیکڑوںکھرب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف کر چکی ہے اور اس نے لوٹی جانے والی بھاری رقوم کی ریکوری بھی کی ہے تاہم یہ اتنی نہیں ہوئی جتنی ہونی چاہیے تھی۔ پاکستان میں سات ارب روزانہ کرپشن تسلیم کی گئی تھی۔حقیقت میں نیب کے طریق کار میں بعض خامیاں بھی ہیں جنھیں دور کرکے اس ادارے کو مزید فعال بنایا جاسکتا ۔
حقیقت یہ ہے کہ 1999ء سے لے کر 2015ء تک کے اور بھی سیکڑوں میگا کرپشن کے کیسز ہیں جو سالہا سال کے بعد بھی انکوائری کے مراحل میں ہیں جو کبھی تفتیش اور ریفرنسز کی اسٹیج پر لائے ہی نہیں گئے۔ نیب میں لاتعداد مقدمات ایسے بھی ہیں جن میں پلی بارگین کی اسٹیج پر ملزمان سے مک مکا کر کے مقدمات ختم کر دیے گئے اور کئی کیسز میں شواہد اور حقائق کو کمزور کر کے عدالتوں میں پیش کیا گیا جس سے وہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے جو ہونے چاہئیںتھے' اس وجہ سے ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔
افسوسناک بات تو یہ ہے کہ آج ایک بار پھر چور چور وں کو تحفظ دینے کے لیے پارلیمنٹ کی بازگشت سنا رہا ہے اور پارلیمنٹ چوروں کو تحفظ دینے اور نیب پر دباؤ بڑھانے کے لیے ایک ایسا بل لا رہی ہے جس سے نیب براہ راست کارروائی کرنے کی مجاز نہیں ہوگی۔ اسی اثناء میں آج اگر کوئی صحافی احتساب کے حوالے سے قلم اُٹھاتا ہے تو اس کے ہاتھ باندھ دیے جاتے ہیں ، کوئی ادارہ ٹھیک ہونے یا اپنے آپ کو ٹھیک کرنے کی پوزیشن میں ہوتا ہے تو اس پر پابندیاں لگانے اور اس کے پر کاٹنے کی باتیں عروج پر ہوتی ہیں۔ ان حالات میں جب کہ سناٹا اس حد تک غالب ہے کہ سانس لینا بھی سزا کے مترادف ہیں تو بلاشبہ میں ناقابل تردید دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ:
تائب تھے احتساب سے جب سار بادہ کش
مجھ کو یہ افتخار کہ میں میکدے میں تھا
یہاں چور بازاری نے آج ملک کو اس تباہی کی جانب دھکیل دیا ہے جہاں سے واپسی کے لیے بھی کئی سالوں کی محنت اور حقیقی لیڈر شپ درکا ر ہے، ان باریاں لینے والے سیاستدانوں نے آج ایک بار پھر پارلیمنٹ میں اکٹھے ہونے کی ٹھان لی ہے جب ان پر کڑا احتساب شروع ہونے جا رہا ہے اور چڑیاں طوطے یہ بتا رہے ہیں کہ یہ احتساب ان کے خاندان کے افراد سے ہی شروع ہونے والا ہے۔
نہ جانے ایسا کیوں ہے کہ جب کسی دوسرے کا احتساب ہو تو آپ خوش اور اگر آپ کی اپنی باری آئے تو آپ گریبان تک جانے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ عوام اس کرپشن کی دنیا سے نکل کر نہ جانے کب خوشحالی کے دن دیکھے گی ابھی تو ایسے ہی لگتا ہے کہ ہم چوروں کی رکھوالی میں زندگی گزار رہے ہیں جو ہمیں تحفظ دینے کے بجائے ہماری ہی جڑیں کھوکھلی کرنے کے درپے ہیں بقول شاعر
سونا جنگل، رات اندھیری،چھائی بدلی کالی ہے
سونے والو! جاگتے رہیو، چوروں کی رکھوالی ہے