شفاف مردم شماری کے لیے

یہی وجہ ہے کہ جدید ممالک میں مردم شماری باقاعدہ منعقد ہوتی ہے


Dr Tauseef Ahmed Khan February 24, 2016
[email protected]

مردم شماری کی نگرانی کے ادارے میں سندھ کی نمایندگی نہیں ہے' بلوچستان میں افغان باشندوں کو مردم شماری میں شامل کرنے سے بلوچ اقلیت کا شکار ہوجائیں گے' مارچ میں متوقع مردم شماری کے آغاز سے قبل وفاق کو چھوٹے صوبوں کے خدشات دور کرنے ہوں گے' جدید ریاست میں مردم شماری کے نتائج سے حقیقی منصوبہ بندی ہوتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ جدید ممالک میں مردم شماری باقاعدہ منعقد ہوتی ہے' متحدہ ہندوستان میں برطانوی ہند حکومت نے 1881میں پہلی مرتبہ مردم شماری کرائی تھی اور پھر ہر دس سال بعد مردم شماری ہونے لگی' پاکستان کے قیام کے بعد مردم شماری 1951میں ہوئی' 1961میں یہ ایکسرسائزہوئی ' 1971میں مردم شماری ہونی تھی' مگر مشرقی پاکستان میں ہونے والے فوجی آپریشن کی بنا پر ملتوی کردی گئی۔

1981میں مردم شماری ہوئی' پھر مختلف وجوہات کی بنا پر یہ معاملہ التوا کا شکار ہوتا رہا' آخرکار مردم شماری 1998میں ہوئی' پی پی کے چوتھے دور حکومت میں 2011 میں مردم شماری سے پہلے خانہ شماری کرائی تھی' مگر خانہ شماری کے اعداد وشمار جب کمپیوٹر کے نظام کے ذریعے تجزیے کے عمل سے گزارے تو عملے کی نا اہلی اور غیرسنجیدگی کی بنا پر یہ اعداد و شمار مشکوک ہوگئے' جس کے باعث وفاقی حکومت نے خانہ شماری کو ختم کردیا اور مردم شماری بھی منسوخ ہوگئی۔

اقتصادی ماہرین کے بار بار اعتراض پر وفاقی حکومت نے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس کے ایجنڈے میں مردم شماری کا معاملہ رکھا' خاصے عرصے تک کونسل کا اجلاس نہیں ہوا ' کونسل نے مارچ 2016 میں مردم شماری کرانے کا فیصلہ کیا'کونسل نے فیصلہ کیا کہ چاروں صوبوں میں 14اعشاریہ 2 ارب روپے فراہم کریں گے' کونسل نے یہ بھی فیصلہ کیا کہ فوج کے جوانوں کو مردم شماری کرنے والے عملے کی سیکیورٹی کے لیے طلب کیا جائے گا' اب اخبارات میں یہ خبریں آرہی ہیں کہ فوج شمالی وزیر ستان اور قبائلی علاقوں میں آپریشن میں مصروف ہونے کی بنا پر اپنے جوانوں کو مردم شماری کے عملے کے تحفظ کے لیے مہیا نہیں کرسکتی۔

مردم شماری سندھ اور بلوچستان میں خاصہ سنجیدہ معاملہ ہے' سندھ میں شہری اور دیہی علاقوں کے درمیان خلیج خاصی گہری ہے' سندھ میں مختلف قومتیں آباد ہیں' جنہیں اپنے تشخص کا شدید احساس ہے' صوبوں کی آبادی کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں نشستوں کا تعین ہونا ہے' 18ویں ترمیم کے بعد قومی مالیتی کمیشن ایوارڈ کے فارمولے میں آبادی شامل ہے' ان نتائج کی بنیاد پر صوبوں کو ملنے والی گرانٹ میں اضافہ ہوگا' مردم شماری کے نتائج کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں اور بلدیاتی اراکین کے حلقوں کا تعین بھی ہوتا ہے۔

اسی وجہ سے آبادی کے اعدادوشمار میں تبدیلی کی بنیادپرانتخابی نمایندگی میں تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔ 1981کی مردم شماری کے نتائج کو کراچی کی منتخب قیادت نے ماننے سے انکار کردیا تھا ' اس وقت سیاسی جماعتوں پر پابندی تھی' قومی اسمبلی سینیٹ اور صوبائی اسمبلیاں وجود نہیں رکھتی تھیں' مگر کراچی میونسپل کارپوریشن کے میئر عبدالستار افغانی تھے جن کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا 'افغانی صاحب جنرل ضیاء الحق کی حکومت کے حامیوں میں شامل تھے' مگر جب اُس وقت کی کراچی کی آبادی کے نتائج ظاہر ہوئے تھے میئر افغانی سمیت کراچی کی نمایندگی کرنے والے رہنماؤں نے الزام لگایا تھا کہ کراچی کی آبادی کو کم ظاہر کیا گیا ہے' اور اسلام آباد کی فیصلہ ساز اتھارٹی کراچی کو اس کے ہجم سے کم ترقیاتی فنڈز دینا چاہتی ہے۔

جنرل ضیاء الحق نے جماعت اسلامی کے اعتراضات کو دور کرنے کے لیے محدود پیمانے کی مردم شماری کرائی تھی' مختصر مردم شماری کا تجربہ لوگوں کو مطمئن نہ کرسکا' اس طرح 1998کی مردم شماری کے نتائج کو بھی چیلنج کیا گیا' بہت سے لوگوں کا کہنا تھا کہ مردم شماری کرنے والا عملہ ملک کے اندرونی علاقوں میں نہیں گیا' بعض صحافیوں کا مشاہدہ تھا کہ عملے نے گاؤں میں گھر گھر جاکر فارم پر کرنے کے بجائے گاؤں کے نمبر دار یا وڈیرے کی اوطاق پر بیٹھ پر فارم خود بھر لیے ہیں' آبادی کے ایک بڑے حصے کا اندراج نہیں ہوسکا' شماریات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اعداد وشمار جمع کرنے میں جہاں عملے کی نا اہلی کا معاملہ ہے وہاں رجعت پسندانہ ذہن اعدادوشمار فراہم کرنے میں رکاوٹ بنتا ہے۔

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنے خاندان سے متعلق اعدادوشمار فراہم کرنے کی روایت خاصی کمزور ہے' مرد اپنے بچوں خاص طور پر لڑکیوں کے نام عمر ظاہر نہیں کرتے' عام طور پر لڑکیوں کی صحیح عمریں ظاہر نہیں کی جاتی' اس بناء پر درست اعداد وشمارظاہر نہیں ہوتے' بیورو آف اسٹیٹکس اعدادو شمارجمع کرنے کے لیے اسکول کے اساتذہ کی خدمات حاصل کرتا ہے' عمومی طور پر پرائمری اسکول کے اساتدہ کو گھر گھر جاکر فارم پر کرنے کا کام سونپا جاتا ہے' یہ اساتذہ سروے کے جدید طریقوں سے واقف نہیں ہوتے' ان اساتدہ کو ان کے حقیقی کام سے ہٹا کر زبردستی یہ کام سونپا جاتا ہے۔

پھر ان کو ملنے والا معاوضہ بھی بہت زیادہ نہیں ہوتا' کراچی شہر اور اندرون سندھ رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ منتخب اراکین اور سیاسی جماعتیں عملے کو آزادی سے کام کرنے میں رکاوٹیں پیدا کرتی ہیں' اور یہ اساتدہ امتحانی عملے کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں' مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کا تعین ہوتا ہے' اس بنا پر منتخب اراکین عملے سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں' اساتذہ کا تقرر اور ان کی تعیناتی میں یہ با اثر نمایندے کردار ادا کرتے ہیں' یوں اساتذہ اس صورتحال سے متاثر ہوتے ہیں' پھر دہشت گردی کی جنگ میں عملے کی سیکیورٹی کا معاملہ انتہائی اہم ہوگیا ہے'کراچی سمیت کے پی کے ' بلوچستان میں صورتحال زیادہ تشویش ناک ہے' کالعدم تنظیموں نے مختلف علاقوں میں کمین گاہیں قائم کی ہوئی ہیں۔

ان تنظیموں کے کارکنوں کو رینجرز پولیس' خفیہ ایجنسی کے اہلکاروں اور سرکاری ملازمین کی اپنے علاقے میں خطرے کی گھنٹی محسوس ہوتی ہے' پولیو کے قطرے پلانے والے کارکن اس صورتحال کا شکار ہیں' اب مردم شماری کرنے والا عملہ بھی ایسی ہی صورتحال میں مبتلا ہوجائے گا' اور یہی وجہ ہے کہ رینجرز اور پولیس کی نگرانی کے بغیر یہ عمل ممکن نہیں ہوسکے گا' سندھ میں سیاسی جماعتوں نے مردم شماری کی اہمیت کے پیش نظر رائے عامہ کو ہموار کرنا شروع کردیا ہے' پی پی اور قوم پرست تنظیمیں شہر شہر اجلاس منعقد کررہی ہیں اور گھر گھر جاکر عوام سے رابطے کی مہم شروع کی جارہی ہے۔

سندھ اسمبلی کی اس صورتحال پر غور کرنے اور مردم شماری کی نگرانی کرنے والے اعلیٰ افسروں کو اسمبلی کے اراکین کے لیے ان کیمرہ بریفنگ کے لیے مدعو کرنے کا فیصلہ کیا ہے'سندھ حکومت کے تحت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں مسلم لیگ ن سمیت تمام جماعتوں نے حصہ لیا ہے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے مردم شماری کو صوبوں کے لیے زندگی موت کا مسئلہ قرار دیا ہے تمام رہنماؤں کو مردم شماری کے ادارے کی نگرانی کے لیے قائم کی جانے والی کونسل کی تنظیم نو پر اعتراض ہے ۔

سیاسی جماعتوں کی اس معاملے پر دلچسپی ایک مثبت علامت ہے' مگر سیاسی جماعتوں کو اس امر کو یقینی بنا ہوگا کہ اعدادو شمار میں کسی قسم کی ملاوٹ نہ کی جائے' 2011میں خانہ شماری کے نتائج اس الزام کی بنیاد پر ملتوی ہوئے تھے کہ ایک سیاسی جماعت نے کراچی میں اپنے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کی کوشش تھی جس کی بنا پر 120گز کے مکان پر 100سے زائد افراد کے قیام دکھایا گیا تھا ' کمپیوٹر کے جدید سوفٹ ویئر نے ایسے مکان کی نشاندہی کردی تھی' ایسا اندرون سندھ میں بھی ہوا' یہ تجربہ دوبارہ دہرایا گیا تو پورا معاملہ مشکوک ہوجائے گا' مردم شماری کا ایک معاملہ بلوچستان کا ہے ۔

بلوچستان کے رہنماؤں میر حاصل بزنجو اور اختر مینگل کی یہ بات درست ہے کہ غیر ملکی باشندوں کو مردم شماری کے دائرے میں شامل نہیں ہونا چاہیے' اگر افغان مہاجرین نے حقائق کو مسخ کرکے شناختی کارڈ بنوائے ہیں تو یہ شناختی کارڈ منسوخ ہونے چاہئیں تاکہ بلوچوں کی اکثریت بننے کا معاملہ حل ہوجائے' پھر بیورو آف اسٹیٹکس کی نگرانی کے ادارے کی تشکیل نو ضروری ہے' اس ادارے میں چاروں صوبوں کے ماہرین کو شامل ہونا چاہیے تاکہ سارا عمل شفاف طریقے سے مکمل ہوجائے' مردم شماری ترقی کے لیے لازمی ہے' وفاقی حکومت کو مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلا کر چھوٹے صوبوں کے اعتراضات دور کرنے چاہیے، مردم شماری کے شفاف نتائج سے بہتر منصوبہ بندی ہوگی یہ سب کے مفاد میں ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں