یقین جانیے انسانیت کو ’انسانوں‘ کی اشد ضرورت ہے
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اچھا انسان بننے کا تہیہ کرلیں۔ کوئی ایسا ادارہ ہو جہاں انسان بنائے جائیں اورمخلوق خدا کی تربیت ہو
انسانی خواہشات کبھی تکمیل تک نہیں پہنچتیں، ہر ایک کی کوئی نہ کوئی تمنا ہے جس کی تکمیل باقی ہے، کوئی چاہتا ہے کہ وہ 20 کلوگرام وزن کم کر دے تو کسی کو شادی کی تمنا، کسی کو بزنس کا جنون تو کسی کو نوکری کی تلاش۔ ایک سے بڑھ کر ایک مفروضے، نَت نئی کہاوتیں، عجیب و غریب امثال اور ذہین و فطین افکار۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ایک اچھا انسان بننے کا بھی تہیہ کرلیں۔ کوئی ایسا ادارہ بھی ہو جہاں انسان بنائے جائیں اور مخلوقِ خدا کی تربیت پر کام ہو۔ کتنی سیدھی اور سادہ تمنا ہے۔
عقل، غصہ اور شہوت (جنس) وہ تین جبلتیں ہیں جو جانداروں میں پائی جاتی ہیں۔ نباتات اور پودوں میں جنس ہوتی ہے مگر عقل اور غصہ نہیں۔ جانوروں میں غصّہ ہوتا ہے اور شہوت بھی مگر عقل نہیں۔ فرشتوں میں عقل ہوتی ہے مگر غصہ اور شہوت نہیں۔ انسان و جن میں عقل، غصہ اور شہوت تینوں ہوتی ہیں۔ ان تینوں کو اعتدال پر رکھنے کا نام انسانیت ہے۔
یہ اعتدال یوں تو آسان لگتا ہے، ہر آدمی دعویٰ کرتا ہے کہ جناب غصہ تو آتا ہی نہیں ہے، جنس پر مکمل کنڑول ہے اور عقل بھی دیکھ کے استعمال کرتے ہیں مگر حقیقت میں اِن کی آفتوں سے بچنا نامکمن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اگر کوئی شخص زندگی بھر کام کرتا رہے اور مرتے دم تک اِسی فکرمیں لگا رہے تو شاید کچھ بہتری کی اُمید ہو۔ جس نے سمجھ لیا کہ وہ اِس اعتدال میں کامیاب ہوگیا ہے تو درحقیقت وہ غلط ہے۔
عقل کی خرمستیاں تو منہ چڑھ کر بولتی ہیں۔ بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ جب دلیل اور بندہ آمنے سامنے ہوں تو دلیل مار دو بندہ بچالو۔ آج اِسی عقل اور دلیلوں کو لوگوں کی گردنیں اُتارنے پر استعمال کرتے ہیں۔ کوئی آپ سے چبھتا ہوا سوال پوچھ لے، کوئی سوشل میڈیا پر کوئی بحث چھیڑ دے، کوئی بڑا یا اُستاد کوئی ایسی بات کر بیٹھے جو آپ جناب کے مزاج سے موافق نہ ہو، کوئی ساتھ کام کرنے والا آپ سے آگے بڑھ جائے، کسی رشتےدار کے بچے آپ کے بچوں پر فوقیت لے جائیں، یا کوئی پڑوسی آپ سے اچھا مکان بنالے یا گاڑی لے آئے، پھر دیکھیں اس عقل کے کرشمے۔
جب تک کمائے ہوئے مال کو حرام، کئے گئے اعمال کو کفر، اور پائی گئی شہرت کو ذلت میں ثابت نہ کردے یہ عقل خاموش نہیں ہوپاتی۔ کسی شخص کی ترقی و کامیابی کو نہ ماننا بھی تکبر کی نشانی ہے اور تکبر عقل پر پلتا ہے۔ آپ دماغ چلانا بند کردیں تو یہ بھوکا مرجائے کہ اِسکو غذا کی شکل میں معلومات ہی نہ ملے۔
غصّے کو اعتدال پر رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آدمی کو خلافِ مزاج بات پر غصّہ آتا ہی ہے۔ کوئی ظلم دیکھے، ناانصافی کا سامنا ہو، کوئی لوٹ لے، چوری ہوجائے۔ کوشش کرنی چاہئیے کہ اِس آگ کو اچھے کاموں میں لگائے۔ غصّے سے سینک لے اور نیک کام کرے۔ اپنے بیوی بچوں، اہلِ وعیال کے معاملے میں تو ہر کوئی در گزر سے کام لیتا ہی ہے، پتہ تو اُس وقت چلتا ہے جب نوکر کا بچہ گلاس توڑ دے۔ سرعام کوئی گالیاں دینا شروع کردے اور کوئی بغیر کسی وجہ کے آپ کی بےعزتی پر تُل جائے۔ ہمارے ملک میں فرسٹریشن اِتنی زیادہ ہے کہ ہر شخص کو تختہِ مشق چاہئیے ہوتا ہے، اپنا غصہ نکالنے کے لئے۔
جنس ایک بے لگام گھوڑا ہے۔ اسے سدھانا بہت مشکل ہے۔ یہ موت تک زور لگاتا رہتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ کائنات میں جنس کے سوا کچھ نہیں دکھتا، باقی تمام گناہ چھوٹے لگنے لگتے ہیں۔ جنس کا ذہانت کے ساتھ بھی کوئی تعلق ضرور ہے جتنا آدمی ذہنی طور پر طاقتور ہوتا ہے اتنا ہی جنسی رجحان اس میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ کڑا امتحان ہوتا ہے کہ حسن اپنے آپ کو پیش کرے، گانوں، فلموں، اِشتہاروں، اور روڈ بِل بورڈز کی شکل میں آپکے سامنے جلوہ گر ہو اور آپ اپنے آپ پر قابو رکھیں اور نظریں جھکالیں۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ یاداشت بڑھانی ہو تو آنکھوں کی حفاظت کرنی چاہئیے کہ علم کبھی گندے برتن میں نہیں آتا۔
قدرت نے جو جائز طریقے بتائے ہیں آدمی اس پر چلے۔ ان سے بھی کنارہ کشی کرے گا تو تباہ ہوجائے گا۔ جو بندہ قدرت سے ٹکرایا، قدرت نے اُسے پچھاڑ دیا۔ جب بندہ اِن تینوں پر قابو پا لیتا ہے تب ہی وہ سلیم الفطرت بنتا ہے، تب ہی اُسے حق ہے کہ انسان کہلایا جائے اور کسی اُستاد کے بغیر یہ مقام ملنا بہت مشکل ہے۔ آئیے مل کر کوشش کریں کہ انسانیت کو انسانوں کی ضرورت ہے۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم ایک اچھا انسان بننے کا بھی تہیہ کرلیں۔ کوئی ایسا ادارہ بھی ہو جہاں انسان بنائے جائیں اور مخلوقِ خدا کی تربیت پر کام ہو۔ کتنی سیدھی اور سادہ تمنا ہے۔
عقل، غصہ اور شہوت (جنس) وہ تین جبلتیں ہیں جو جانداروں میں پائی جاتی ہیں۔ نباتات اور پودوں میں جنس ہوتی ہے مگر عقل اور غصہ نہیں۔ جانوروں میں غصّہ ہوتا ہے اور شہوت بھی مگر عقل نہیں۔ فرشتوں میں عقل ہوتی ہے مگر غصہ اور شہوت نہیں۔ انسان و جن میں عقل، غصہ اور شہوت تینوں ہوتی ہیں۔ ان تینوں کو اعتدال پر رکھنے کا نام انسانیت ہے۔
یہ اعتدال یوں تو آسان لگتا ہے، ہر آدمی دعویٰ کرتا ہے کہ جناب غصہ تو آتا ہی نہیں ہے، جنس پر مکمل کنڑول ہے اور عقل بھی دیکھ کے استعمال کرتے ہیں مگر حقیقت میں اِن کی آفتوں سے بچنا نامکمن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ اگر کوئی شخص زندگی بھر کام کرتا رہے اور مرتے دم تک اِسی فکرمیں لگا رہے تو شاید کچھ بہتری کی اُمید ہو۔ جس نے سمجھ لیا کہ وہ اِس اعتدال میں کامیاب ہوگیا ہے تو درحقیقت وہ غلط ہے۔
عقل کی خرمستیاں تو منہ چڑھ کر بولتی ہیں۔ بڑے بوڑھے کہتے تھے کہ جب دلیل اور بندہ آمنے سامنے ہوں تو دلیل مار دو بندہ بچالو۔ آج اِسی عقل اور دلیلوں کو لوگوں کی گردنیں اُتارنے پر استعمال کرتے ہیں۔ کوئی آپ سے چبھتا ہوا سوال پوچھ لے، کوئی سوشل میڈیا پر کوئی بحث چھیڑ دے، کوئی بڑا یا اُستاد کوئی ایسی بات کر بیٹھے جو آپ جناب کے مزاج سے موافق نہ ہو، کوئی ساتھ کام کرنے والا آپ سے آگے بڑھ جائے، کسی رشتےدار کے بچے آپ کے بچوں پر فوقیت لے جائیں، یا کوئی پڑوسی آپ سے اچھا مکان بنالے یا گاڑی لے آئے، پھر دیکھیں اس عقل کے کرشمے۔
جب تک کمائے ہوئے مال کو حرام، کئے گئے اعمال کو کفر، اور پائی گئی شہرت کو ذلت میں ثابت نہ کردے یہ عقل خاموش نہیں ہوپاتی۔ کسی شخص کی ترقی و کامیابی کو نہ ماننا بھی تکبر کی نشانی ہے اور تکبر عقل پر پلتا ہے۔ آپ دماغ چلانا بند کردیں تو یہ بھوکا مرجائے کہ اِسکو غذا کی شکل میں معلومات ہی نہ ملے۔
غصّے کو اعتدال پر رکھنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ آدمی کو خلافِ مزاج بات پر غصّہ آتا ہی ہے۔ کوئی ظلم دیکھے، ناانصافی کا سامنا ہو، کوئی لوٹ لے، چوری ہوجائے۔ کوشش کرنی چاہئیے کہ اِس آگ کو اچھے کاموں میں لگائے۔ غصّے سے سینک لے اور نیک کام کرے۔ اپنے بیوی بچوں، اہلِ وعیال کے معاملے میں تو ہر کوئی در گزر سے کام لیتا ہی ہے، پتہ تو اُس وقت چلتا ہے جب نوکر کا بچہ گلاس توڑ دے۔ سرعام کوئی گالیاں دینا شروع کردے اور کوئی بغیر کسی وجہ کے آپ کی بےعزتی پر تُل جائے۔ ہمارے ملک میں فرسٹریشن اِتنی زیادہ ہے کہ ہر شخص کو تختہِ مشق چاہئیے ہوتا ہے، اپنا غصہ نکالنے کے لئے۔
جنس ایک بے لگام گھوڑا ہے۔ اسے سدھانا بہت مشکل ہے۔ یہ موت تک زور لگاتا رہتا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ کائنات میں جنس کے سوا کچھ نہیں دکھتا، باقی تمام گناہ چھوٹے لگنے لگتے ہیں۔ جنس کا ذہانت کے ساتھ بھی کوئی تعلق ضرور ہے جتنا آدمی ذہنی طور پر طاقتور ہوتا ہے اتنا ہی جنسی رجحان اس میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ کڑا امتحان ہوتا ہے کہ حسن اپنے آپ کو پیش کرے، گانوں، فلموں، اِشتہاروں، اور روڈ بِل بورڈز کی شکل میں آپکے سامنے جلوہ گر ہو اور آپ اپنے آپ پر قابو رکھیں اور نظریں جھکالیں۔ میرے ایک دوست کہتے ہیں کہ یاداشت بڑھانی ہو تو آنکھوں کی حفاظت کرنی چاہئیے کہ علم کبھی گندے برتن میں نہیں آتا۔
قدرت نے جو جائز طریقے بتائے ہیں آدمی اس پر چلے۔ ان سے بھی کنارہ کشی کرے گا تو تباہ ہوجائے گا۔ جو بندہ قدرت سے ٹکرایا، قدرت نے اُسے پچھاڑ دیا۔ جب بندہ اِن تینوں پر قابو پا لیتا ہے تب ہی وہ سلیم الفطرت بنتا ہے، تب ہی اُسے حق ہے کہ انسان کہلایا جائے اور کسی اُستاد کے بغیر یہ مقام ملنا بہت مشکل ہے۔ آئیے مل کر کوشش کریں کہ انسانیت کو انسانوں کی ضرورت ہے۔
[poll id="974"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔