الوداع برینڈن مک کولم
اب مستقبل میں جب بھی کوئی بلے باز گیند کو میدان سے باہر پھینکے گا، تب تب ہمیں برینڈن مک کولم کی بہت یاد آئے گی۔
یہ کرائسٹ چرچ کا میدان ہے، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے مابین دو ٹیسٹ میچوں کی سیریز کے دوسرے میچ کا پہلا دن ہے۔ نیوزی لینڈ کی ٹیم پہلے ٹیسٹ میں شکست کے سبب دوسرے ٹیسٹ کے ابتداء سے ہی دباو میں تھی اور یہی وجہ تھی کہ مشکلات نے شروع سے ہی گھیر لیا، اور ایسا کہنے کی وجہ یہ ہے کہ صرف 31 رنز پر اُس کے تین کھلاڑی آؤٹ ہوچکے ہیں۔ آسٹریلوی گیند بازوں کے سامنے کیوی بلے باز کس قدر دباو کا شکار تھے، یہ بتانے کے لیے یہی کافی ہے کہ ان فارم بلے باز کین ولیمسن کو 3 رنز بنانے کے لئے 40 گیندوں کا سہارا لینا پڑا۔ ایسے میں پویلین سے اپنے کیریئر کا آخری میچ کھیلنے والے برینڈن مک کولم نمودار ہوتے ہیں۔
جب بڑے دل کا کھلاڑی میدان میں اترتا ہے تو شائقین کھڑے ہوکر اس کا استقبال کرتے ہیں۔ کھیل چھوڑنے والے ہر کھلاڑی کی طرح مک کولم کا بھی دل دکھی اور آنکھیں پُرنم ہونگی۔ اِس موقع پر عظیم کھلاڑی ڈان بریڈمین کی ایک بات یاد آگئی۔ وہ اپنے آخری میچ میں جب جلدی آؤٹ ہوگئے تو اُنہوں نے کہا تھا کہ جب آنکھوں میں آنسو ہوں تو دفاع مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن مک کولم نے بریڈمین کے خیالات کو غلط ثابت کردیا۔ کیونکہ مک کولم جب بھی میدان میں اُترتے تو اُن کے ذہن میں ہمیشہ ایک ہی بات ہوتی ہے کہ کس طرح ہر گیند کو باؤنڈری کے باہر پہنچایا جائے، بس پھر آخری میچ میں بھی وہ گھبرائے نہیں اور وہی حکمت عملی کو اپنایا۔ اب وہی میدان جہاں جہاں چند لمحے پہلے کیوی بلے بازوں کو مشکلات پیش آرہی تھیں، اب آسٹریلوی گیند بازوں کے لئے آزمائش بن گیا۔ میدان میں چوکوں اور چھکوں کی بارش ہونے لگی اور جب 54 گیندوں پر مک کلم نے اپنی سنچری مکمل کی تو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی تیز ترین سنچری کا ریکارڈ بن گیا۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ مشترکہ طور پر مک کولم کے پسندیدہ سر ویون رچرڈز اور مصباح الحق کے پاس تھا۔
برینڈن مک کولم 27 ستمبر 1981 کو نیوزی لینڈ کے شہر ڈونیڈن میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اسٹورٹ مک کولم بھی ایک فرسٹ کلاس کرکٹر تھے۔ اس طرح مک کولم کو کرکٹ سے محبت ورثے میں ملی تھی۔ مک کولم نے کیرئیر کا آغاز بطور وکٹ کیپر بیٹسمین کیا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے خطرناک بلے باز کا روپ دھارلیا۔ مک کولم نے اپنا پہلا ایک روزہ میچ آسٹریلیا کے خلاف 2002ء میں اور پہلا ٹیسٹ جنوبی افریقہ کیخلاف 2004ء میں کھیلا۔ اپنے کیرئیر میں انہوں نے 101 ٹیسٹ، 260 ایک روزہ میچ اور 71 ٹی ٹوئنٹی کھیلے۔
برینڈن مک کولم نیوزی لینڈ کے چند کامیاب کپتانوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے 29 ٹیسٹ، 31 ایک روزہ اور 27 ٹی ٹونٹی میچوں میں کیوی ٹیم کی قیادت کی۔ وہ نیوزی لینڈ کرکٹ کی تاریخ کے واحد کپتان ہیں جن کی زیرِ قیادت ٹیم نے پہلی بار ورلڈ کپ کے فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
برینڈن مک کولم کا شمار کرس گیل، شاہد آفریدی اور ڈی ویلئیر جیسے چند کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جو مختصر وقت میں تن تنہا میچ کا رُخ موڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کریز سے باہر نکل کر گیند کو اسٹینڈ میں اُچھالنا ہو، اسکوئر کٹ، اسکوئر ڈرائیو ہو یا اسکوپ، مک کولم سب میں ممتاز تھے۔ اسکوپ شاٹ کے تو وہ اتنے ماہر تھے کہ اُن کا نام ہی ''مک اسکوپ'' رکھ دیا گیا۔
کرکٹ کی تاریخ کے کئی ریکارڈ رکھنا مک کولم کےعظیم کھلاڑی ہونے کا ثبوت ہیں۔ جن میں سرِ فہرست ٹیسٹ کرکٹ کی تیز ترین سینچری اور سب سے زیادہ چھکے لگانے کا اعزاز شامل ہیں۔ ٹی ٹوئینٹی کے وہ واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنے کیریئر میں دو سنچریاں اسکور کیں۔
ایک عظیم کھلاڑی ہونے کے ساتھ وہ ایک عظیم انسان بھی ہیں۔ کین ولیمسن کا اُن کے بارے میں کہنا ہے کہ مک کولم نے ہمیں انکساری کا سبق دیا اور ہمیں بتایا کہ زندگی میں ہارنے اور جیتنے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ مک کولم مانتا تھا کہ ''رنز'' اور ''وکٹیں'' اہم ہیں لیکن سب سے اہم ایک اچھا انسان ہونا ہے۔
سر ڈان بریڈمین نے کہا تھا کہ کرکٹرز کھیل کے عارضی نگہبان ہوتے ہیں، ان کا کام کھیل کو فروغ دینا اور چھوڑ دینا ہوتا ہے۔ ڈان بریڈ مین کا یہ جملہ مک کولم پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ اُنہوں نے اپنےعروج میں کھیل کو چھوڑ دیا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے چند روز پہلے جب شائقین کرکٹ کی نظریں مک کولم کو دیکھنے کی متمنی تھیں، لیکن جب اُن کو لگا کہ بس اب انہوں نے بہت کھیل لیا تو عین اپنے عروج پر انہوں نے کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے چاہنے والے انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
اب مستقبل میں جب بھی کوئی بلے باز گیند کو میدان سے باہر پھینکے گا، تب تب ہمیں برینڈن مک کولم کی بہت یاد آئے گی۔
جب بڑے دل کا کھلاڑی میدان میں اترتا ہے تو شائقین کھڑے ہوکر اس کا استقبال کرتے ہیں۔ کھیل چھوڑنے والے ہر کھلاڑی کی طرح مک کولم کا بھی دل دکھی اور آنکھیں پُرنم ہونگی۔ اِس موقع پر عظیم کھلاڑی ڈان بریڈمین کی ایک بات یاد آگئی۔ وہ اپنے آخری میچ میں جب جلدی آؤٹ ہوگئے تو اُنہوں نے کہا تھا کہ جب آنکھوں میں آنسو ہوں تو دفاع مشکل ہوجاتا ہے۔ لیکن مک کولم نے بریڈمین کے خیالات کو غلط ثابت کردیا۔ کیونکہ مک کولم جب بھی میدان میں اُترتے تو اُن کے ذہن میں ہمیشہ ایک ہی بات ہوتی ہے کہ کس طرح ہر گیند کو باؤنڈری کے باہر پہنچایا جائے، بس پھر آخری میچ میں بھی وہ گھبرائے نہیں اور وہی حکمت عملی کو اپنایا۔ اب وہی میدان جہاں جہاں چند لمحے پہلے کیوی بلے بازوں کو مشکلات پیش آرہی تھیں، اب آسٹریلوی گیند بازوں کے لئے آزمائش بن گیا۔ میدان میں چوکوں اور چھکوں کی بارش ہونے لگی اور جب 54 گیندوں پر مک کلم نے اپنی سنچری مکمل کی تو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ کی تیز ترین سنچری کا ریکارڈ بن گیا۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ مشترکہ طور پر مک کولم کے پسندیدہ سر ویون رچرڈز اور مصباح الحق کے پاس تھا۔
برینڈن مک کولم 27 ستمبر 1981 کو نیوزی لینڈ کے شہر ڈونیڈن میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد اسٹورٹ مک کولم بھی ایک فرسٹ کلاس کرکٹر تھے۔ اس طرح مک کولم کو کرکٹ سے محبت ورثے میں ملی تھی۔ مک کولم نے کیرئیر کا آغاز بطور وکٹ کیپر بیٹسمین کیا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے خطرناک بلے باز کا روپ دھارلیا۔ مک کولم نے اپنا پہلا ایک روزہ میچ آسٹریلیا کے خلاف 2002ء میں اور پہلا ٹیسٹ جنوبی افریقہ کیخلاف 2004ء میں کھیلا۔ اپنے کیرئیر میں انہوں نے 101 ٹیسٹ، 260 ایک روزہ میچ اور 71 ٹی ٹوئنٹی کھیلے۔
برینڈن مک کولم نیوزی لینڈ کے چند کامیاب کپتانوں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے 29 ٹیسٹ، 31 ایک روزہ اور 27 ٹی ٹونٹی میچوں میں کیوی ٹیم کی قیادت کی۔ وہ نیوزی لینڈ کرکٹ کی تاریخ کے واحد کپتان ہیں جن کی زیرِ قیادت ٹیم نے پہلی بار ورلڈ کپ کے فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا۔
برینڈن مک کولم کا شمار کرس گیل، شاہد آفریدی اور ڈی ویلئیر جیسے چند کھلاڑیوں میں ہوتا تھا جو مختصر وقت میں تن تنہا میچ کا رُخ موڑنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ کریز سے باہر نکل کر گیند کو اسٹینڈ میں اُچھالنا ہو، اسکوئر کٹ، اسکوئر ڈرائیو ہو یا اسکوپ، مک کولم سب میں ممتاز تھے۔ اسکوپ شاٹ کے تو وہ اتنے ماہر تھے کہ اُن کا نام ہی ''مک اسکوپ'' رکھ دیا گیا۔
کرکٹ کی تاریخ کے کئی ریکارڈ رکھنا مک کولم کےعظیم کھلاڑی ہونے کا ثبوت ہیں۔ جن میں سرِ فہرست ٹیسٹ کرکٹ کی تیز ترین سینچری اور سب سے زیادہ چھکے لگانے کا اعزاز شامل ہیں۔ ٹی ٹوئینٹی کے وہ واحد کھلاڑی ہیں جنہوں نے اپنے کیریئر میں دو سنچریاں اسکور کیں۔
ایک عظیم کھلاڑی ہونے کے ساتھ وہ ایک عظیم انسان بھی ہیں۔ کین ولیمسن کا اُن کے بارے میں کہنا ہے کہ مک کولم نے ہمیں انکساری کا سبق دیا اور ہمیں بتایا کہ زندگی میں ہارنے اور جیتنے کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ مک کولم مانتا تھا کہ ''رنز'' اور ''وکٹیں'' اہم ہیں لیکن سب سے اہم ایک اچھا انسان ہونا ہے۔
سر ڈان بریڈمین نے کہا تھا کہ کرکٹرز کھیل کے عارضی نگہبان ہوتے ہیں، ان کا کام کھیل کو فروغ دینا اور چھوڑ دینا ہوتا ہے۔ ڈان بریڈ مین کا یہ جملہ مک کولم پر پوری طرح صادق آتا ہے۔ اُنہوں نے اپنےعروج میں کھیل کو چھوڑ دیا۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ سے چند روز پہلے جب شائقین کرکٹ کی نظریں مک کولم کو دیکھنے کی متمنی تھیں، لیکن جب اُن کو لگا کہ بس اب انہوں نے بہت کھیل لیا تو عین اپنے عروج پر انہوں نے کرکٹ کو خیر باد کہہ دیا، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اُن کے چاہنے والے انہیں ہمیشہ یاد رکھیں گے۔
اب مستقبل میں جب بھی کوئی بلے باز گیند کو میدان سے باہر پھینکے گا، تب تب ہمیں برینڈن مک کولم کی بہت یاد آئے گی۔
[poll id="975"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔