پی ایس ایل شاندار آغاز کا تاریخی اختتام
پی ایس ایل کی سب سے نمایاں خوبی اسکا پاکستانیت سے مزین ہونا اور ٹیموں میں پاکستان اپنے آفاقی رنگوں میں نظر آنا ہے۔
صحت مند مقابلوں کی بدولت ہی رواداری، برداشت اور مثبت مسابقت کی طرہ ڈلتی ہے۔ دنیا کی ہر تہذیب نے معاشی اور معاشرتی دائروں کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدانوں کو بھی ہمیشہ آباد رکھا ہے۔ اسلام بھی اپنے تہذیبی تشخص کے ساتھ کھیلوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس کی بہترین مثال آپ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کا خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو حبشیوں کا میلہ دکھانا ثابت ہے۔
اسلام آباد یونائیٹڈ فاتح رہی، بہت بہت مبارک! لیکن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بھی اول تا آخر شائقین کی توجہ کا مرکز رہے۔ بڑے پیمانے پر پاکستانیوں کا گلیڈی ایٹرز کا ساتھ دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان آج بھی پاکستانیوں کےدلوں کی دھڑکن ہے اور رہے گا۔ پاکستانی کھلاڑیوں کا بین الاقوامی سطح کے کھلاڑیوں کے ساتھ ایک ہی ٹیم میں کھیلنا ایک شاندار تجربہ ہے، جس کا فائدہ قومی ٹیم کو ایشیاء کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ضرور ہوگا۔ پہلی پاکستان سپر لیگ کا اتنے منظم انداز سے کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچنا یقیناََ پاکستانی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دنیا آج ایک نئے پاکستان سے متعارف ہو رہی ہے، ابھرتا ہوا روشن پاکستان۔
میچ فکسنگ جو آج انڈین سپر لیگ اور کئی دوسری لیگز کی پہچان بن چکی ہے، پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) اپنے پہلے ایونٹ میں اس حاشیہ سے محفوظ رہی۔ سٹہ بازی کی خبریں اپنی جگہ پر لیکن کھلاڑیوں کی خرید و فروخت کا معاملہ کہیں سامنے نہیں آیا۔ ماضی قریب میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ایسے ہی کئی حوالوں کے گرداب میں پھنسا دکھائی دیا تھا، لیکن اب اس داغ کو بھی پی ایس ایل نے دھو دیا ہے۔
آنے والے دنوں میں پی ایس ایل کئی حوالوں سے گفتگو کا موضوع بنی رہے گی، لیکن اہم تر بات یہ ہے کہ پی سی بی آنے والے وقت میں اس اہم مقابلہ کو پاکستان کی سرحدوں میں کیسے ممکن بنائے گا؟ جبکہ اس کا دوسرا حوالہ معاشی سرگرمی سے جڑا ہے۔ قانونی سطح پر سرمایہ کاری باعث خوشحالی ہے لیکن پردے کے پیچھے، زہر قاتل۔
کمرشلائزیشن کا بھوت ''سارا جہاں ہمارا'' کے سلوگن تلے، گلوبل ویلج کا پاسپورٹ جیب میں رکھے ''سب بکتا ہے'' کا بورڈ آویزاں ہر گلی، محلے میں دندناتا پھرتا ہے۔ ایسے ماحول میں کھیل کے میدانوں کو آباد بھی رکھنا اور جعل سازی سے بھی بچائے رکھنا اصل امتحان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی سی بی ایسے مسائل کا مقابلہ کر پاتا ہے کہ نہیں؟
پی ایس ایل کی سب سے نمایاں خوبی اس کا پاکستانیت سے مزین ہونا ہے۔ صوبائی کلچر کی نمائندگی پر مبنی ٹیموں میں پاکستان اپنے آفاقی رنگوں میں نظر آیا۔ پنجابی بلوچ ٹیم میں تھا تو پختون پنجاب کی ٹیم میں، یوں پاکستان اکائی کے گلدستے میں خوشبو کی صورت مہکتا رہا۔ یہاں تک کے کمنٹیٹر بھی پاکستانی دکھائی دیے۔
کرکٹ کا جنون رکھنے والی پاکستانی قوم کا قومی کھیل ہاکی ہے۔ ہاکی کی آخری کامیابی کی ابھی گونج باقی تھی کہ کرکٹ بورڈ نے اپنی انٹری ڈال دی۔ اب ہاکی والے بھی کوئی ایسا ہی کرشمہ کر دکھائیں تو بلے بلے ہوجائے گی۔
پاکستانی یوتھ کو مثبت سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ نئے بلدیاتی نظام میں یوتھ کونسلر کے اضافے کے بعد اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ڈومیسٹک گیمز کو لوکل سطح پر کیسے منظم کیا جاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ لیول پر اگر پہلے سے موجود اسپورٹس کمپلیکس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، نیز تعلیمی اداروں کو بھی لازمی ممبر شپ پلس ٹیکس چھوٹ کی مفید اسکیم لانچ کی جائے تو بہتری کے کافی مواقع موجود ہیں۔
کرپشن، میگا اسکینڈلز، ذاتی مفادات، قتل وغارت اور ایسے ہی دیگر عنوانات کی بھیڑ میں کھیل کے میدان امید کی کرن بنی رہے، یوں ہر پاکستانی کو ایک نئے انداز کی زندگی کا احساس ہوا۔ ایسا احساس جس کی موجودگی آدمی میں اقبال کی خودی اور قائد کی دیانت داری کا جذبہ بیدار کردیتی ہے۔ آئیے اس سرشاری کو تابندہ بنا دیں تاکہ دنیا اصل پاکستان سے روشناس ہوسکے۔ کیوں کہ تم ہی امید ہو میرے آج کی اور آنے والے کل کی۔
اسلام آباد یونائیٹڈ فاتح رہی، بہت بہت مبارک! لیکن کوئٹہ گلیڈی ایٹرز بھی اول تا آخر شائقین کی توجہ کا مرکز رہے۔ بڑے پیمانے پر پاکستانیوں کا گلیڈی ایٹرز کا ساتھ دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بلوچستان آج بھی پاکستانیوں کےدلوں کی دھڑکن ہے اور رہے گا۔ پاکستانی کھلاڑیوں کا بین الاقوامی سطح کے کھلاڑیوں کے ساتھ ایک ہی ٹیم میں کھیلنا ایک شاندار تجربہ ہے، جس کا فائدہ قومی ٹیم کو ایشیاء کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں ضرور ہوگا۔ پہلی پاکستان سپر لیگ کا اتنے منظم انداز سے کامیابی کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچنا یقیناََ پاکستانی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ دنیا آج ایک نئے پاکستان سے متعارف ہو رہی ہے، ابھرتا ہوا روشن پاکستان۔
میچ فکسنگ جو آج انڈین سپر لیگ اور کئی دوسری لیگز کی پہچان بن چکی ہے، پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) اپنے پہلے ایونٹ میں اس حاشیہ سے محفوظ رہی۔ سٹہ بازی کی خبریں اپنی جگہ پر لیکن کھلاڑیوں کی خرید و فروخت کا معاملہ کہیں سامنے نہیں آیا۔ ماضی قریب میں پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) ایسے ہی کئی حوالوں کے گرداب میں پھنسا دکھائی دیا تھا، لیکن اب اس داغ کو بھی پی ایس ایل نے دھو دیا ہے۔
آنے والے دنوں میں پی ایس ایل کئی حوالوں سے گفتگو کا موضوع بنی رہے گی، لیکن اہم تر بات یہ ہے کہ پی سی بی آنے والے وقت میں اس اہم مقابلہ کو پاکستان کی سرحدوں میں کیسے ممکن بنائے گا؟ جبکہ اس کا دوسرا حوالہ معاشی سرگرمی سے جڑا ہے۔ قانونی سطح پر سرمایہ کاری باعث خوشحالی ہے لیکن پردے کے پیچھے، زہر قاتل۔
کمرشلائزیشن کا بھوت ''سارا جہاں ہمارا'' کے سلوگن تلے، گلوبل ویلج کا پاسپورٹ جیب میں رکھے ''سب بکتا ہے'' کا بورڈ آویزاں ہر گلی، محلے میں دندناتا پھرتا ہے۔ ایسے ماحول میں کھیل کے میدانوں کو آباد بھی رکھنا اور جعل سازی سے بھی بچائے رکھنا اصل امتحان ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پی سی بی ایسے مسائل کا مقابلہ کر پاتا ہے کہ نہیں؟
پی ایس ایل کی سب سے نمایاں خوبی اس کا پاکستانیت سے مزین ہونا ہے۔ صوبائی کلچر کی نمائندگی پر مبنی ٹیموں میں پاکستان اپنے آفاقی رنگوں میں نظر آیا۔ پنجابی بلوچ ٹیم میں تھا تو پختون پنجاب کی ٹیم میں، یوں پاکستان اکائی کے گلدستے میں خوشبو کی صورت مہکتا رہا۔ یہاں تک کے کمنٹیٹر بھی پاکستانی دکھائی دیے۔
کرکٹ کا جنون رکھنے والی پاکستانی قوم کا قومی کھیل ہاکی ہے۔ ہاکی کی آخری کامیابی کی ابھی گونج باقی تھی کہ کرکٹ بورڈ نے اپنی انٹری ڈال دی۔ اب ہاکی والے بھی کوئی ایسا ہی کرشمہ کر دکھائیں تو بلے بلے ہوجائے گی۔
پاکستانی یوتھ کو مثبت سرگرمیوں کی ضرورت ہے۔ نئے بلدیاتی نظام میں یوتھ کونسلر کے اضافے کے بعد اب دیکھنا یہ ہوگا کہ ڈومیسٹک گیمز کو لوکل سطح پر کیسے منظم کیا جاتا ہے۔ ڈسٹرکٹ لیول پر اگر پہلے سے موجود اسپورٹس کمپلیکس کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے، نیز تعلیمی اداروں کو بھی لازمی ممبر شپ پلس ٹیکس چھوٹ کی مفید اسکیم لانچ کی جائے تو بہتری کے کافی مواقع موجود ہیں۔
کرپشن، میگا اسکینڈلز، ذاتی مفادات، قتل وغارت اور ایسے ہی دیگر عنوانات کی بھیڑ میں کھیل کے میدان امید کی کرن بنی رہے، یوں ہر پاکستانی کو ایک نئے انداز کی زندگی کا احساس ہوا۔ ایسا احساس جس کی موجودگی آدمی میں اقبال کی خودی اور قائد کی دیانت داری کا جذبہ بیدار کردیتی ہے۔ آئیے اس سرشاری کو تابندہ بنا دیں تاکہ دنیا اصل پاکستان سے روشناس ہوسکے۔ کیوں کہ تم ہی امید ہو میرے آج کی اور آنے والے کل کی۔
[poll id="976"]
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔