انتقامی کارروائیوں کا آغاز
ایک حصہ مزدوروں یا ملازمین کا ہوتا ہے جسے محکوم بنا کر رکھا جاتا ہے
SUKKUR:
پی آئی اے کے ملازمین کی سوفیصد جائز ہڑتال کو دھونس دھاندلی ریاستی طاقت کے استعمال سے ناکام بنانے کے بعد اب انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے، درجنوں ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے اور سرگرم کارکنوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی تیاری جاری ہے یہ حربے نئے نہیں ہیں نہ حیرت انگیز۔ جس وحشی نظام میں عوام سانس لے رہے ہیں۔ اس نظام کی فطرت میں ہی ناانصافی ظلم وجبر شامل ہے، اس بدبختانہ نظام میں عوام کو دوحصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔
ایک حصہ مزدوروں یا ملازمین کا ہوتا ہے جسے محکوم بنا کر رکھا جاتا ہے، دوسرا حصہ انتظامیہ کا ہوتا ہے۔ اس چھوٹی سی اقلیت کو حاکم بنا کر رکھا جاتا ہے، اسے یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ ملازمین کی قسمت کے فیصلے کرے۔ ان دونوں حصوں کا تعلق اگرچہ ادارے کے ملازمین ہی سے ہوتا ہے لیکن اس کا اکثریتی حصہ یعنی ملازمین بے اختیار ہوتے ہیں اور اس کا دوسرا حصہ یعنی انتظامیہ مکمل طور پر بااختیار ہوتی ہے ان کی مدد کے لیے قانون ہوتا ہے ریاستی مشنری ہوتی ہیں اور انصاف کا وہ نظام ہوتا ہے جو قانون اور آئین کا پابند ہوتا ہے اور قانون اور آئین میں ہڑتالوں، مظاہروں، دھرنوں جیسے اقدامات غیر قانونی ہوتے ہیں۔
پی آئی اے کے ملازمین انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے کہ پی آئی اے کی نجکاری کردی جائے، یعنی پی آئی اے جیسے اہم قومی ادارے کو پرائیوٹائز کردیا جائے۔ اس سرمایہ دارانہ سازش کا جال کچھ اس طرح بنا جاتا ہے کہ بہ ظاہر قومی اداروں کی فروخت منصفانہ نظر آتی ہے۔ سب سے پہلے بالادست طبقات اپنے مفادات اپنی مرضی کے مطابق ہزاروں لوگوں کو قومی اداروں میں ملازمتیں دلا دیتے ہیں ۔ انھیں اس بات کی ذرہ برابر چنتا نہیں ہوتی کہ ان کے سفارشی ملازمین ادارے کی ضرورت سے زیادہ ہوں گے۔
اس کے بعد انتظامیہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نوکریاں بیچنے کا کام کرتی ہے جس کے ذریعے کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں اور بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے عوام قرض لے کر بیوی بچیوں کے زیور بیچ کر حتیٰ کہ بعض وقت اپنے گھر بیچ کر نوکریاں خریدتے ہیں۔ اس طرح قومی اداروں میں فاضل ملازمین جمع ہوجاتے ہیں اور اپنے پیدا کردہ فاضل ملازمین کو نجکاری کا ایک بڑا جواز بنادیا جاتا ہے۔ نجکاری کا دوسرا جواز نقصان ہوتا ہے یعنی قومی ادارے منافع دینے کے بجائے نقصان میں جانے لگتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملازمین اور مزدوروں کی سخت محنت کے باوجود ادارے نقصان میں کیوں آجاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قومی اداروں میں حکمران طبقات اپنے چہیتوں کو عملاً مالک بنا دیتے ہیں اور انھیں بے لگام لوٹ مار کے کھلے مواقعے فراہم کردیے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافع بخش ادارے بھاری نقصان میں آجاتے ہیں یہ نقصان حکمرانوں کا پیدا کردہ ہوتا ہے جس کی سزا ملازمین کو بھگتنی پڑتی ہے۔ پی آئی اے ایک ایسا ادارہ ہے یا تھا ۔
جس میں انتظامی عہدیداروں کو لاکھوں روپوں میں تنخواہیں ملتی تھیں بے شمار مراعات حاصل تھیں۔ حکومت اور اپوزیشن کا شاید ہی کوئی ایسا فرشتہ ہو جس کے بھائی بند دوست احباب افسر نہ لگے ہوں۔ پی آئی اے میں افسری کا مطلب چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوتا ہے یوں ادارے نقصان میں چلے جاتے ہیں اور ایلیٹ کو یہ جواز مل جاتا ہے کہ اب اس نقصان زدہ ادارے کی نجکاری کی جائے۔ ان جرائم کا ارتکاب غیر ملازمین نہیں کرتے لیکن ان ناکردہ گناہوں کی سزا ملازمین کو بھگتنی پڑتی ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ جب کوئی قومی ادارہ سرمایہ کاروں کو بیچ دیا جاتا ہے تو ادارے کو خریدنے والا سب سے پہلے فاضل ملازمین کو نکالتا ہے یوں بے روزگاروں کی ایک فوج تیار ہوتی جاتی ہے جو ملک اور معاشرے پر ایک بوجھ بن جاتی ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟ پی آئی اے کی انتظامیہ اور حکومتی اکابرین ہڑتال کے دوران ملازمین کو یہ یقین دلاتے رہے کہ انھیں نجکاری کے بعد ملازمتوں سے نہیں نکالا جائے گا لیکن نجکاری سے پہلے ہی انھیں تھوک کے حساب سے ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے تاکہ نجکاری کے بعد پی آئی اے کے پراسرار خریدار پر ملازمین کی چھانٹی کا الزام نہ لگے یہ ایسی تکنیک ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں ہر جگہ ہر ملک میں اپلائی کی جاتی ہے جس کا سارا نقصان غریب ملازمین کو اٹھانا پڑتا ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین کی ہڑتال کے دوران جو جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنائی گئی تھی ،اس میں ملک کے اہم قومی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے نمایندے شامل تھے۔ ریلوے، اسٹیل ملز، واپڈا جیسے اہم اداروں کے نمایندوں پر مشتمل اس جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ہڑتال کو کامیاب بنانے کی اپنی سی کوشش کی، ہڑتال اس وقت موثر ہوگئی جب اس میں پالپا کے پائلٹوں نے شمولیت اختیار کی، پائلٹس کی ہڑتال میں شمولیت کی وجہ سے فضائی آپریشن بند ہوگیا اور انتظامیہ اور ان کی سرپرست طاقتوں کو فکر لاحق ہوگئی کہ اگر انتظامیہ کو ہڑتالیوں کے آگے سر جھکانا پڑا تو پی آئی اے کی نجکاری کھٹائی میں پڑ جائے گی اور پی آئی اے کو خریدنے کی تیاری کرنے والے پراسرار لوگوں کے منصوبوں پر مٹی پڑ جائے گی۔
اس خوف کی وجہ پرامن ہڑتال کو تشدد کی طرف دھکیل دیا گیا۔ تین ملازمین جاں بحق ہوگئے اور چار زخمی ہوگئے حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک ان قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا جنھوں نے تین بے گناہ ملازمین کو قتل اور چار کو زخمی کیا۔
پی آئی اے کی اس ہڑتال میں ریلوے یونین کے فعال رہنما منظور رضی شامل تھے ریلوے اور اسٹیل ملز سمیت ابھی پچاسوں قومی اداروں کی نجکاری ہونی ہے اور یہ لازمی ہوگی کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے غریب ملکوں کے عالمی مائی باپ آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے اور ''اللہ کے فضل سے'' آئی ایم ایف پسماندہ ملکوں کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے غریب ملکوں کو قرض کے نام پر کڑی شرطوں کے ساتھ جو سرمایہ فراہم کرتے ہیں وہ عالمی سامراج کے پروردہ ان سرمایہ داروں کا ہوتا ہے جو قرض لینے والوں کے شانوں سے گوشت کاٹ لیتے ہیں۔
وقتی طور پر پی آئی اے کی نجکاری کو ملتوی کردیا گیا ہے لیکن مستقبل قریب میں پی آئی اے سمیت ان تمام اداروں کو فروخت کردیا جائے گا جس کا وعدہ آئی ایم ایف سے کیا گیا ہے۔ ہم نے اس وقت سمجھ لیا تھا کہ ہڑتال ناکام ہوجائے گی جب قصر سلطانی سے یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ ''ہم ہڑتالی مزدوروں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے۔'' اس پس منظر میں ہڑتالوں سے اب کام نہیں چلے گا اب اس پورے ظالمانہ نظام کو بدلنا ہوگا۔
پی آئی اے کے ملازمین کی سوفیصد جائز ہڑتال کو دھونس دھاندلی ریاستی طاقت کے استعمال سے ناکام بنانے کے بعد اب انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا ہے، درجنوں ملازمین کو نوکریوں سے نکال دیا گیا ہے اور سرگرم کارکنوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی تیاری جاری ہے یہ حربے نئے نہیں ہیں نہ حیرت انگیز۔ جس وحشی نظام میں عوام سانس لے رہے ہیں۔ اس نظام کی فطرت میں ہی ناانصافی ظلم وجبر شامل ہے، اس بدبختانہ نظام میں عوام کو دوحصوں میں بانٹ دیا جاتا ہے۔
ایک حصہ مزدوروں یا ملازمین کا ہوتا ہے جسے محکوم بنا کر رکھا جاتا ہے، دوسرا حصہ انتظامیہ کا ہوتا ہے۔ اس چھوٹی سی اقلیت کو حاکم بنا کر رکھا جاتا ہے، اسے یہ اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ ملازمین کی قسمت کے فیصلے کرے۔ ان دونوں حصوں کا تعلق اگرچہ ادارے کے ملازمین ہی سے ہوتا ہے لیکن اس کا اکثریتی حصہ یعنی ملازمین بے اختیار ہوتے ہیں اور اس کا دوسرا حصہ یعنی انتظامیہ مکمل طور پر بااختیار ہوتی ہے ان کی مدد کے لیے قانون ہوتا ہے ریاستی مشنری ہوتی ہیں اور انصاف کا وہ نظام ہوتا ہے جو قانون اور آئین کا پابند ہوتا ہے اور قانون اور آئین میں ہڑتالوں، مظاہروں، دھرنوں جیسے اقدامات غیر قانونی ہوتے ہیں۔
پی آئی اے کے ملازمین انتظامیہ کے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کر رہے تھے کہ پی آئی اے کی نجکاری کردی جائے، یعنی پی آئی اے جیسے اہم قومی ادارے کو پرائیوٹائز کردیا جائے۔ اس سرمایہ دارانہ سازش کا جال کچھ اس طرح بنا جاتا ہے کہ بہ ظاہر قومی اداروں کی فروخت منصفانہ نظر آتی ہے۔ سب سے پہلے بالادست طبقات اپنے مفادات اپنی مرضی کے مطابق ہزاروں لوگوں کو قومی اداروں میں ملازمتیں دلا دیتے ہیں ۔ انھیں اس بات کی ذرہ برابر چنتا نہیں ہوتی کہ ان کے سفارشی ملازمین ادارے کی ضرورت سے زیادہ ہوں گے۔
اس کے بعد انتظامیہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے نوکریاں بیچنے کا کام کرتی ہے جس کے ذریعے کروڑوں روپے کمائے جاتے ہیں اور بے روزگاری سے تنگ آئے ہوئے عوام قرض لے کر بیوی بچیوں کے زیور بیچ کر حتیٰ کہ بعض وقت اپنے گھر بیچ کر نوکریاں خریدتے ہیں۔ اس طرح قومی اداروں میں فاضل ملازمین جمع ہوجاتے ہیں اور اپنے پیدا کردہ فاضل ملازمین کو نجکاری کا ایک بڑا جواز بنادیا جاتا ہے۔ نجکاری کا دوسرا جواز نقصان ہوتا ہے یعنی قومی ادارے منافع دینے کے بجائے نقصان میں جانے لگتے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملازمین اور مزدوروں کی سخت محنت کے باوجود ادارے نقصان میں کیوں آجاتے ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ قومی اداروں میں حکمران طبقات اپنے چہیتوں کو عملاً مالک بنا دیتے ہیں اور انھیں بے لگام لوٹ مار کے کھلے مواقعے فراہم کردیے جاتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ منافع بخش ادارے بھاری نقصان میں آجاتے ہیں یہ نقصان حکمرانوں کا پیدا کردہ ہوتا ہے جس کی سزا ملازمین کو بھگتنی پڑتی ہے۔ پی آئی اے ایک ایسا ادارہ ہے یا تھا ۔
جس میں انتظامی عہدیداروں کو لاکھوں روپوں میں تنخواہیں ملتی تھیں بے شمار مراعات حاصل تھیں۔ حکومت اور اپوزیشن کا شاید ہی کوئی ایسا فرشتہ ہو جس کے بھائی بند دوست احباب افسر نہ لگے ہوں۔ پی آئی اے میں افسری کا مطلب چاروں انگلیاں گھی میں اور سر کڑھائی میں ہوتا ہے یوں ادارے نقصان میں چلے جاتے ہیں اور ایلیٹ کو یہ جواز مل جاتا ہے کہ اب اس نقصان زدہ ادارے کی نجکاری کی جائے۔ ان جرائم کا ارتکاب غیر ملازمین نہیں کرتے لیکن ان ناکردہ گناہوں کی سزا ملازمین کو بھگتنی پڑتی ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ جب کوئی قومی ادارہ سرمایہ کاروں کو بیچ دیا جاتا ہے تو ادارے کو خریدنے والا سب سے پہلے فاضل ملازمین کو نکالتا ہے یوں بے روزگاروں کی ایک فوج تیار ہوتی جاتی ہے جو ملک اور معاشرے پر ایک بوجھ بن جاتی ہے اس کا ذمے دار کون ہے؟ پی آئی اے کی انتظامیہ اور حکومتی اکابرین ہڑتال کے دوران ملازمین کو یہ یقین دلاتے رہے کہ انھیں نجکاری کے بعد ملازمتوں سے نہیں نکالا جائے گا لیکن نجکاری سے پہلے ہی انھیں تھوک کے حساب سے ملازمتوں سے نکالا جا رہا ہے تاکہ نجکاری کے بعد پی آئی اے کے پراسرار خریدار پر ملازمین کی چھانٹی کا الزام نہ لگے یہ ایسی تکنیک ہے جو سرمایہ دارانہ نظام میں ہر جگہ ہر ملک میں اپلائی کی جاتی ہے جس کا سارا نقصان غریب ملازمین کو اٹھانا پڑتا ہے۔
پی آئی اے کے ملازمین کی ہڑتال کے دوران جو جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنائی گئی تھی ،اس میں ملک کے اہم قومی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کے نمایندے شامل تھے۔ ریلوے، اسٹیل ملز، واپڈا جیسے اہم اداروں کے نمایندوں پر مشتمل اس جوائنٹ ایکشن کمیٹی نے ہڑتال کو کامیاب بنانے کی اپنی سی کوشش کی، ہڑتال اس وقت موثر ہوگئی جب اس میں پالپا کے پائلٹوں نے شمولیت اختیار کی، پائلٹس کی ہڑتال میں شمولیت کی وجہ سے فضائی آپریشن بند ہوگیا اور انتظامیہ اور ان کی سرپرست طاقتوں کو فکر لاحق ہوگئی کہ اگر انتظامیہ کو ہڑتالیوں کے آگے سر جھکانا پڑا تو پی آئی اے کی نجکاری کھٹائی میں پڑ جائے گی اور پی آئی اے کو خریدنے کی تیاری کرنے والے پراسرار لوگوں کے منصوبوں پر مٹی پڑ جائے گی۔
اس خوف کی وجہ پرامن ہڑتال کو تشدد کی طرف دھکیل دیا گیا۔ تین ملازمین جاں بحق ہوگئے اور چار زخمی ہوگئے حیرت کی بات یہ ہے کہ اب تک ان قاتلوں کا سراغ نہیں مل سکا جنھوں نے تین بے گناہ ملازمین کو قتل اور چار کو زخمی کیا۔
پی آئی اے کی اس ہڑتال میں ریلوے یونین کے فعال رہنما منظور رضی شامل تھے ریلوے اور اسٹیل ملز سمیت ابھی پچاسوں قومی اداروں کی نجکاری ہونی ہے اور یہ لازمی ہوگی کیونکہ ہمارے حکمرانوں نے غریب ملکوں کے عالمی مائی باپ آئی ایم ایف سے وعدہ کیا ہے اور ''اللہ کے فضل سے'' آئی ایم ایف پسماندہ ملکوں کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیتا ہے کیونکہ عالمی مالیاتی ادارے غریب ملکوں کو قرض کے نام پر کڑی شرطوں کے ساتھ جو سرمایہ فراہم کرتے ہیں وہ عالمی سامراج کے پروردہ ان سرمایہ داروں کا ہوتا ہے جو قرض لینے والوں کے شانوں سے گوشت کاٹ لیتے ہیں۔
وقتی طور پر پی آئی اے کی نجکاری کو ملتوی کردیا گیا ہے لیکن مستقبل قریب میں پی آئی اے سمیت ان تمام اداروں کو فروخت کردیا جائے گا جس کا وعدہ آئی ایم ایف سے کیا گیا ہے۔ ہم نے اس وقت سمجھ لیا تھا کہ ہڑتال ناکام ہوجائے گی جب قصر سلطانی سے یہ آواز بلند ہوئی تھی کہ ''ہم ہڑتالی مزدوروں کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے۔'' اس پس منظر میں ہڑتالوں سے اب کام نہیں چلے گا اب اس پورے ظالمانہ نظام کو بدلنا ہوگا۔