ابا جی

جہاں ہم سب کا بھی انتظار ہو رہا ہے کہ موت کا ذائقہ ہر ذی روح کو بہرحال چکھنا ہے


Amjad Islam Amjad February 25, 2016
[email protected]

KARACHI: ''ہے'' کو ''تھا'' لکھنا کتنا مشکل اور جاں گسل ہوتا ہے اس کا سب سے زیادہ احساس قریبی خونی رشتوں کے بچھڑنے پر ہوتا ہے، میرے والد صاحب جنھیں میرے سمیت تمام بہن بھائی ''ابا جی'' کہہ کر بلاتے تھے اس دار فانی میں مہ وسال کی مروجہ گنتی کے حوالے سے 95 برس گزار کر وجود کے اس منطقے میں داخل ہو گئے ہیں ۔

جہاں ہم سب کا بھی انتظار ہو رہا ہے کہ موت کا ذائقہ ہر ذی روح کو بہرحال چکھنا ہے، آخری دو ماہ سے قطع نظر ابا جی نے ہر اعتبار سے ایک صحت مند زندگی گزاری، زندگی بھر کی محنت اور جوانی میں اسپورٹس سے تعلق کے باعث وہ آخری عمر میں بھی اپنے سب کام خود کرتے تھے اور میرے بار بار کہنے کے باوجود انھوں نے اپنی رہائش گھر کی دوسری منزل کے ایک کمرے میں رکھی جہاں سے دن میں چار پانچ مرتبہ وہ سیڑھیاں چڑھتے اترتے تھے اپنے کھانے' پڑھنے اور عبادات کے اوقات کی بہت سختی سے پابندی کرتے تھے، ان کی جیون ساتھی یعنی میری والدہ 16 برس قبل ہم سے جدا ہو گئی تھیں دونوں کی رفاقت کا عرصہ57 برس پر محیط تھا۔

ان کے بعد وہ اندر سے بہت تنہا ہو گئے تھے مگر اس غم کو انھوں نے ہمیشہ اپنے تک محدود رکھا، اپنی وفات کے وقت وہ میرے دادا مرحوم الحاج حاجی قطب دین کی اولاد کے آخری فرد تھے جو قیام پاکستان سے کوئی پندرہ برس قبل سیالکوٹ سے لاہور منتقل ہوئے تھے، وہ ایک دست کار تھے اور لکڑی کے کام میں مہارت رکھتے تھے، میرے والد اور ان کے دو بڑے بھائی بھی اسکول کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر ان کے ساتھ کام کرنے لگے۔ ریلوے روڈ لاہور پر واقع اس کارخانے کی جگہ اب بھی ہمارے خاندان ہی کے پاس ہے البتہ آگے چل کر سب لوگ برانڈرتھ روڈ پر ہارڈ ویئر کے کام سے منسلک ہوتے چلے گئے جہاں سیالکوٹ ہارڈ ویئر، کراؤن ٹولز اور حاجی سنز کے نام سے تین ادارے اب بھی کام کر رہے ہیں۔

ابا جی اپنے چھوٹے بھائیوں کی نسبت قدرے تاخیر سے اس بزنس میں آئے اس حوالے سے ہمارا بچپن ایک طرح کی تنگدستی ہی میں گزرا لیکن اس زمانے میں ''اشیا'' ابھی اپنی جگہ پر تھیں اور ان کا درجہ اخلاق' کردار اور شرافت سے بالاتر نہیں ہوا تھا، میں نے کبھی ان کو کام سے جی چراتے یا اس کی وجہ سے کسی کامپلکس کا شکار ہوتے نہیں دیکھا اور یہ ان کی وہ سب سے بڑی وراثت ہے جو مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو ملی ہے اور جس کے لیے ہم سب ان کے بے حد شکر گزار ہیں۔ دادا جان اور ان کے چھ شادی شدہ بچے اپنے بچوں کے ساتھ 44 فلیمنگ روڈ لاہور پر واقع براری منزل نامی ایک کٹری میں رہتے تھے، یہ سڑک اب آقا بیدار بخت روڈ کہلاتی ہے جو اس کٹری میں ہمارے ہم دیوار ہمسائے تھے۔

ابا جی کو ناول پڑھنے کا بہت شوق تھا جنھیں موچی دروازے میں واقع الفاروق لائبریری سے لانے لے جانے کی ذمے داری بہت چھوٹی عمر میں میرے سپرد کر دی گئی تھی جس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ میں ابن صفی کا سو سوا سو صفحات پر مشتمل ناول آدھ پون گھنٹے میں اور بعض اوقات سڑک پر چلتے چلتے ختم کر لیتا تھا جس نے آگے چل کر میری مطالعے کی عادت اور شوق کو بہت تقویت دی۔ کبھی کبھی وہ مجھے کسی بات پر بطور انعام اپنی سائیکل پر بٹھا کر فلم دکھانے بھی لے جایا کرتے تھے۔ ساتویں جماعت میں پاس ہونے پر انھوں نے جو somebody up there likes meنامی فلم دکھائی تھی، اس نے آگے چل کر زندگی کے کئی امتحانوں سے گزرنے کی جو ہمت اور شعور مجھے دیے ان کا میں کئی بار ذکرکر چکا ہوں۔

جوش صاحب نے کہا تھا

جہاں سے جھٹپٹے کے وقت اک تابوت اٹھا ہو

قسم اس شب کی جو پہلے پہل اس گھر میں آتی ہے

والدہ کی وفات کے وقت میں امریکا میں تھا اور تدفین کے گزشتہ روز پہنچ سکا تھا سو اس شعر کا صحیح مطلب ابا جی کی رحلت کے بعد ہی سمجھ میں آیا ہے کہ آپ عمر کے کسی بھی حصے میں ہوں والدین کی رحلت آپ کو ایک ایسی کیفیت سے متعارف کراتی ہے جسے صرف محسوس کیا جا سکتا ہے کہ اس کا بیان الفاظ میں شائد ممکن ہی نہیں۔

میں ان کا بڑا بیٹا تھا لیکن انھوں نے ہمیشہ مجھے باپ کی شفقت کے ساتھ ساتھ ایک دوست کی طرح رکھا تعلیم'ملازمت' شادی' کیرئیر اور گھریلو امور ہر موقع پر میری رائے کو اہمیت دی اور مجھے اپنے فیصلے خود کرنے دیے اور اپنے محدود وسائل کے باوجود میرے لیے ہر ممکن آسانی فراہم کرنے کی کوشش کی ان کی حس مزاح بھی بہت عمدہ تھی، مجھے یاد ہے بی اے کے دنوں میں دوستوں کے کسی پروگرام میں شرکت کے لیے مجھے بیس روپوںکی ضرورت تھی جب کہ اپنے حصے کا جیب خرچ میں ٹھکانے لگا چکا تھا اس سے پہلے بھی دو تین بار ایسی ہی ضرورت کے موقعوں پر میں ان سے برٹش ہسٹری کی کتاب (جو 19 روپے میں ملتی تھی) خریدنے کا بہانہ کر چکا تھا، اس کو موثر جان کر میں نے پھر اسی داؤ کو آزمایا کہ مجھے متعلقہ کتاب خریدنے کے لیے 20 روپوں کی ضرورت ہے، ان دنوں وہ کراؤن ٹولز والی دکان چلایا کرتے تھے انھوں نے بڑی توجہ سے میری بات سنی اور کیش بکس سے دس دس کے دو نوٹ نکال کر میری ہتھیلی پر رکھ دیے میں دل ہی دل میں اپنی چالاکی کی کامیابی پر خوش رہا تھا کہ انھوں نے بڑا پکا سا منہ بنا کر کہا

''یار...اب کتاب کا نام بدل لو''

ان کی یہ خوش مزاجی اور میانہ روی زندگی بھر ان کے ساتھ رہی، آخر عمر میں اپنے بچوں کی کامیابیوں پر خوش ہونا اور ان کے لیے دعا کرنا ان کا سب سے محبوب مشغلہ تھا، وہ ہم تینوں بھائیوں (امجد۔ محسن۔ احسن) کے گھر باری باری قیام کرتے تھے لیکن میری خوش بختی کہ گزشتہ کچھ برسوں سے وہ مستقل میرے ساتھ رہ رہے تھے۔

کچھ عرصہ قبل میں نے اپنے پوتے ابراہیم علی ذی شان کے حوالے سے ایک نظم لکھی جس میں اس بات کا ذکر تھا کہ ہماری چار نسلیں ایک وقت میں ایک ہی چھت تلے سانس لے رہی ہیں اور یہ رب کریم کا ایک ایسا احسان ہے جس کا جتنا بھی شکر کیا جائے کم ہے۔ انھیں یہ نظم بہت پسند تھی سو آخر میں اس کا ایک اقتباس اس یقین کے ساتھ درج کر رہا ہوں کہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ ان تک ضرور پہنچ جائے گی اور وہ اسی مسکراہٹ کے ساتھ اسے سنیں گے جو ان کا مخصوص انداز تھا۔

ایک ہی چھت کے تلے سانس لیا کرتے ہیں

میرے والد' مرا بیٹا' مرا پوتا اور میں

کتنا خوش بخت ہوں میں

کیسا خوش رنگ و سکوں پرور ہے

مرے گھر کا منظر۔

مستقل لطف و عنایات و کرم کی بارش

مرے ماں باپ پہ' مجھ پر' میری اولاد پہ ہے

کوئی نادیدہ سی برکت ہے مرے چاروں طرف

مشکلیں لاکھ ہوں رکتا نہیں رستہ میرا

جیسے اک ہاتھ مسلسل مری امداد پہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔