مچھلی پرندے اور چوپائے برابر انسان
چار سا ل سے ستر سال تک کے انسان میری آنکھوں کے سامنے تھے
چار سا ل سے ستر سال تک کے انسان میری آنکھوں کے سامنے تھے۔ میں اپنی سائیکل کے قریب فٹ پاتھ پر بیٹھا سمندر کی لہروں اور ان پر پرواز کرتے پرندوں کو دیکھ رہا تھا۔ پارکنگ لاٹ تقریباً خالی تھا، تین چار گاڑیاں ہی کھڑی تھیں۔ چھٹی کے دن کی خوشگوار صبح اور پرسکون سمندر تھا۔ وقفے وقفے سے چھوٹی بڑی گاڑیاں آتیں، کچھ دیر ٹھہرتیں اور چلی جاتیں، جن میں زیادہ تر میں نوجوان لڑکے، کچھ میں لڑکے لڑکیوں کے جوڑے اور کچھ میں فیملیاں بچوں کے ساتھ ہوتیں۔
مختلف عمر، تعلیمی و مالی بیک گراؤنڈ اور پیشوں سے تعلق رکھنے والے۔ ان آنے والوں میں سے اکثریت نوجوانوں کی تھی، وہ گاڑیوں سے اترتے، ہنسی مذاق کرتے، کچھ دیر ٹھہرتے اور چلے جاتے۔ نوجوان لڑکوں کی زیادہ تر ٹولیوں میں سے کم از کم کسی ایک نے ضرور گالیوں میں پی ایچ ڈی کی ہوتی۔ کچھ کے ہاتھ میں سگریٹ اور کچھ لڑکیوں کی طرح سیلفیاں بناتے رہتے۔ گاڑیوں میں سے نکلتی پندرہ بیس سالہ نوجوان لڑکیوں میں سے کچھ اپنی ظاہری خوبصورتی اور کچھ امریکن ایکسینٹ میں انگریزی بولنے پر نازاں دکھائی دیتیں۔
نوجوانوں کے گروپ میں سے ایک لڑکا تقریباً نیچے گرتی جینز کمر کے آخری سرے پر لٹکائے گاڑی میں بجتے میوزک پر دوران گفتگو وقفے وقفے سے اچانک ناچنے لگتا۔ ایک اور گروپ میں موجود نوجوان کی speaking power اچھی تھی سو وہ اس صلاحیت کا نازیبا گفتگو کے لیے بھرپور استعمال کر رہا تھا۔ ایک گاڑی سے ایک پچیس تیس سالہ باڈی بلڈر نوجوان سینہ پھلائے نکلا، اس کے لیے یہی کافی تھا کہ وہ طاقت ور تھا، اس کے چہرے کے تاثرات اور باڈی لینگویج ہی بتا رہے تھے کہ اس نے دنیا فتح کر لی تھی۔ پینتالیس پچاس سالہ ایک صاحبِ ثروت جوڑا اپنے گارڈز اور دو صحت مند گھوڑوں سمیت وہاں پہنچا اور گھڑ سواری کے تمام لوازمات زیب تن کیے سنجیدگی سے اپنے گھوڑوں پر سوار آہستگی سے سمندر کی لہروں کی جانب جا نکلا۔ ان کے یہ گھوڑے ان کی شان تھے۔
اس روز کنارے پر میر ے ایک طرف یہ سب لوگ اور دوسری جانب سمندر، اس پر اڑتے پرندے اور دوڑتے گھوڑے تھے۔ لیکن مجھے ان انسانوں اور چرند پرند میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہو رہا تھا، دونوں ایک برابر محسوس ہو رہے تھے کیونکہ وہ لوگ بھی پرندوں، مچھلیوں، گھوڑوں کی طرح اپنی فطری خواہشات و ضروریات تک ہی محدود تھے۔
اسی فطرت جس نے مچھلی کو تیرنا، پرندے کو اڑنا، گھوڑے کو دوڑنا سکھایا تھا ان انسانوں کو بھی بنیادی چیزیں سکھا دی تھیں۔ جس طرح چرند پرند ساری عمر فطرت کی سکھائی اسی تربیت پر گزار دینے والے تھے، مچھلی اسی طرح تیرتے، پرندے اسی ایک انداز میں اڑتے ہوئے زندگی گزار دینے والے تھے میرے گرد موجود وہ لوگ بھی فطرت کے ان ہی بنیادی تقاضوں یعنی کھانے، سونے، شادی کرنے جیسی روٹین زندگی بسر کرنے والے ہی دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں شاذ و نادر ہی کوئی خواب دیکھنے والا تھا۔
ان میں زیادہ تر ورثے یا قدرت کی طرف سے ملی نعمتوں کے نشے میں ڈوبے، غفلت کا شکار تھے۔ ان کی گفتگو مقصد و گہرائی اور آنکھیں سوچ اور سوال کی چمک سے خالی تھیں۔ خواہ وہ والدین تھے یا نوجوان ان کی باڈی لینگویج اور زبان سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ان کی زندگی میں کمانے اور تفریح کے سوا اور کچھ نہ تھا۔
وہ بس اپنی زندگی بسر کر رہے تھے، کسی مقصد یا خواب کی جستجو کے بغیر۔ جب کہ اشرف المخلوقات ہونے کے ناتے انھیں ارتقا، عقل اور مشاہدات جیسی صلاحیتوں سے نوازا گیا تھا، ان میں خواب دیکھنے اور اسے حقیقت بنانے کی بھرپور قابلیت رکھی گئی تھی مگر پھر بھی وہ ان سب باتوں سے لاتعلق ایک محدود سے دائرے میں چکر کاٹ رہے تھے۔ انھیں اس کا شعور نہ تھا کہ خدا نے ان کی ذات کے اندر ایک خاص صلاحیت کا خزانہ پوشیدہ رکھا تھا، جسے ان کو دریافت کر کے پانے کی جستجو کرنی چاہیے تھی، کیونکہ وہیں سے اصل اور دلچسپ زندگی کا آغاز ہوتا ہے، اسی خزانے کے ذریعے ہی انسان دنیا میں contribute کر سکتا ہے۔
واصف علی واصف نے بھی اپنی کتاب ''گفتگو'' میں اسی اہم نکتے کی جانب اشارہ کیا ہے، فرماتے ہیں ''یہ راز کی بات ہے کوئی خواہش (خواب، رجحان) اپنے اندر locate، دریافت کر لو۔ اپنے اندر خواہش آپ کی، locate بھی آپ ہی نے کیا۔ اگر اللہ اسے پوری فرما دے تو سکون قلب مل جائے گا۔ اگر پوری نہ بھی ہو تو بھی سکون قلب مل جائے گا۔ جب تک وہ 'خواہش' آپ نے دریافت نہ کی، جتنی مرضی خواہشات پوری کرتے رہو، سکونِ قلب نہیں ملے گا۔ سکون قلب ہے اس ایک واحد خواہش کا دریافت کرنا، جس پر باقی تمام خواہشات قربان ہو جائیں۔''
اسی واحد خواہش کو دریافت کر کے اسی میں excel کرنا ہی انسان کی زندگی کا مصرف، مقصد اور اصل کامیابی ہے۔ جو لوگ اپنے اندر اس خواہش کو identify نہیں کر پاتے یا دریافت تو کر لیتے ہیں مگر اسے پوری کرنے کی قیمت نہیں چکا پاتے، زندگی کی مشکلات سے ہار کر اس سے کنارہ کر لیتے ہیں، وہ دولت و آسائش حاصل کرنے کے باوجود ساری عمر ناخوش اور غیر مطمئن رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ نہ صرف خود کو بلکہ معاشرے کو بھی ان کے حصے کے نکھار و ترقی سے محروم کر دیتے ہیں۔
مثلاً نصرت فتح علی خان نے اپنی اصل 'خواہش' قوالی گائیکی کی صلاحیت کو locate کر لیا اور پھر اس پر مستقل مزاجی، صبر اور محنت سے ریاضت کرتے ہوئے excel کر گئے، لہٰذا ایک وقت آیا کہ پوری دنیا میں ان کی گائیکی کا ڈنکا بجنے لگا، مگر بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ ان کے کیریئر کے آغاز میں ایسے نازک، دل شکستہ لمحات بھی آئے جب وہ رو پڑتے، وہ مزاروں پر گاتے اور لوگ ان کی جسامت کا مذاق اڑاتے، ان کا دل ٹوٹ جاتا، انھوں نے تنگدستی بھی جھیلی، مگر اپنے خواب پر ثابت قدم رہے۔ اگر وہ مشکلات سے دل برداشتہ ہو کر گائیکی ترک کر دیتے تو آج دنیا ایک عظیم روحانی آواز اور ان کے گائے پُرتاثیر صوفیانہ کلام سے محروم رہ جاتی۔
اسی طرح عبدالستار ایدھی اگر نوجوانی میں لوگوں کی مدد کرنے کے بجائے آسان راستہ اختیار کر کے کوئی نوکری یا اپنا کاروبار شروع کر لیتے جس سے مالی طور پر خوشحال بھی ہو سکتے تو دنیا آج ایک عظیم شخصیت سے محروم ہوتی۔