صدر اوباما کی جیت ٹارزن کی واپسی

پاکستان کے ساتھ اوباما انتظامیہ کے گزشتہ تعلقات کے تلخ وشیریں نشیب وفراز بھی حکمرانوں کے پیش نظر رہنے چاہئیں.


Editorial November 07, 2012
اوباما کی واپسی بلاشبہ اعصاب شکن، صبر آزما اور طویل انتخابی مہم کا تہلکہ خیز ڈراپ سین تھا. فوٹو: اے ایف پی

باراک اوباما کو امریکی عوام نے ایک بار پھراپنا صدر چن لیا۔ان کے مخالف ریپبلکن امیدوار میٹ رومنی نے اپنی ہار مان لی۔اوباما کو یہ اعزاز حاصل ہوگیا ہے کہ وہ دوسرے ڈیموکریٹ صدر ہیں جو جنگ عظیم دوم کے بعد 4سالہ دوسری فل ٹائم ٹرم کے لیے منتخب ہوئے۔

عالمی مبصرین اور امریکی انتخابی پنڈتوں کے مطابق اوباما کی واپسی بلاشبہ اعصاب شکن، صبر آزما اور طویل انتخابی مہم کا تہلکہ خیز ڈراپ سین تھا ۔اسے بعض حلقے ٹارزن کی واپسی بھی کہہ رہے ہیں۔ یہ مہنگی ترین انتخابی مہم بھی قرار پائی جس میں ایک تخمینہ کے مطابق 6 ارب ڈالر سے زائد رقم خرچ کی گئی ۔باراک اوباما کو 303 ووٹ ملے جب کہ ان کے ریپبلکن حریف رومنی نے 206 ووٹ حاصل کیے۔ایک اندازہ کے مطابق رومنی نے مقابلہ تو دل ناتواںکے مصداق خوب کیا تاہم اوباما کانٹے کا مقابلہ کے شور میں بڑے مارجن سے جیت کر یہ تاثر مرتب کرنے میں بھی کامیاب رہے کہ امریکی عوام نے انھیں کمزور معیشت ، بیروزگاری، صحت ، امیگریشن ، داخلی سلامتی ، عراق ، افغانستان اور پاکستان کی صورتحال ،اور دیگرسماجی، اقتصادی اور عالمی مسائل اور بحرانوں کے باوجود منتخب کرکے انھیں تبدیلی کے ایجنڈے کو جاری رکھنے کی دعوت دی ہے۔باراک اوباما نے الیکشن والے دن رومنی کو ان کی پر جوش انتخابی مہم پر مبارکباد دی اگرچہ ان کے مابین 3انتہائی سخت اور دلچسپ ٹی وی مباحثے بھی ہوئے۔

یہی وہ اسپورٹس مین اسپرٹ ہے جسکی جمہوریت میں بنیادی اہمیت ہوتی ہے اور اسی جذبہ کو دیکھتے ہوئے ہمارے حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کو آیندہ الیکشن میں اپنی انتخابی مہم اور منشور پر ووٹ مانگنے کی روایت کو مستحکم کرنا چاہیے۔ صدر اوباما نے اپنی کامیابی کا اعلان فیس بک اور ٹوئیٹر پر کیا اور سوشل ویب سائٹ پر اپنے22 ملین ووٹرز اور مداحوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ سب آپ کی وجہ سے ممکن ہوا۔رومنی نے شکست تسلیم کرنے کے بعد صدر اوباما کو ٹیلی فون پر جیت کی مبارک باد دی۔کئی امریکی ریاستوں میں جشن کا سماں ہے جب کہ دنیا بھر میں امریکا کے اتحادیوں سمیت مختلف ترقی یافتہ اور ترقی پزیر ممالک کی نظریں امریکی پالیسی، ڈپلومیسی، عسکری،اقتصادی،سیاسی اور سماجی شعبوں سے متعلق امداد اوردہشت گرد تنظیموں کے خلاف حکمت عملی اور اسٹرٹیجک پلانز کے نئے دورانیے پر مرکوز رہیں گی۔ امریکی صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ مکمل ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی جاری تھی تو قیاس آرائیوں اور تجزیوں کا سلسلہ بھی جاری تھا۔

بلاشبہ الیکشن میں موجودہ صدر باراک اوباما اور ریپبلکن کے امیدوار میٹ رومنی میں کانٹے کا مقابلہ ہوا۔ امریکا میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ کا عمل رات گئے تک جاری رہا ۔ روایتی طور پر گرینچ کے معیاری وقت کے مطابق صبح تین بجے سے سات بجے تک کے درمیان مجموعی طور پر نتائج آ جاتے ہیں تاہم انتخابی معرکہ کے سخت ہونے پر ان میں تاخیر بھی ہونے کا امکان ظاہر کیا گیا۔ ادھرسینڈی طوفان سے متاثرہ ریاستوں میں خصوصی رعایتوں کا اعلان کیا گیا، نیویارک میں متاثرین کوکسی بھی پولنگ اسٹیشن پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دی گئی تھی ، نیویارک کے بعض علاقوں میں ووٹروں نے سخت سردی اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے اندھیرے میں ووٹ کاسٹ کیے۔ امریکا میں تقریباً بارہ کروڑ ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا ،34 ریاستوں میں تین کروڑ ووٹرز انتخابی مہم ختم ہونے سے پہلے ہی اپنا ووٹ ڈال چکے تھے ۔

بی بی سی نے اسے امریکا کی تاریخ کا ممکنہ طور پر سخت ترین اور سب سے مہنگا صدارتی انتخاب بتایا ہے۔واضح رہے الیکشن میں صدارتی امیدوار کو پاپولر ووٹ حاصل نہیں کرنے ہوتے بلکہ 538 ارکان کے الیکٹورل کالج میں سے کامیابی کے لیے270 ووٹ درکار ہوتے ہیں۔ جو صدارتی امیدوار ریاست میں جیت جاتا ہے اس کو اس ریاست کے تمام الیکٹورل ووٹ مل جاتے ہیں۔ صدر اوباما نے وعدہ کیا تھا کہ منتخب ہوا تو ہر بات پر پورا اترونگا۔ امریکا میں صدارتی انتخابات کے ساتھ ساتھ سینیٹ کی 33 نشستوں کے لیے بھی مقابلہ ہو رہا ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کو اس وقت سینیٹ میں 47 کے مقابلے پر 53نشستوں سے برتری حاصل ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ریپبلکن پارٹی کو سینیٹ پر غلبہ پانے کے لیے صرف چار مزید نشستوں کی ضرورت ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق ان انتخابات میں امریکی سینیٹ کے لیے سخت رسہ کشی ہو گی۔ ڈیموکریٹ اپنی اکثریت کھو سکتے ہیں یا کم از کم ان کی اکثریت میں کمی واقع ہو جائے گی۔امریکی انتخابات کا ایک دلچسپ پہلوماہرین اور دونوںامیدواروں کے مشیروں سمیت میڈیا کے اندازے،تجزیے،اور پیش گوئیاں بھی تھیں۔ایک مبصر کا کہنا تھا کہ اگر دوسری ٹرم میں اوباما ہار گئے تو اس کا الزام ایک شخص کے سر جائے گا اور وہ ہیں ٹام بریڈلی۔اس عوامی سیاست دان کا انتقال 1998میں ہوا ،یہ لاس اینجلز کے 5 بار میئر رہے،پھر شکست و فتح کی عجیب تاریخ رقم کرگئے چنانچہ اس حوالے سے ''بریڈلی ایفیکٹ'' کو امریکی انتخابی مہم میں سیاہ و سفید فام ووٹرز کی نسلی پسند وناپسندکا حیران کن اور ناقابل اعتبار نتائج دینے والا پیمانہ سمجھا جاتا ہے۔مگر اوباما کی جیت نے امکانی نسلی تفاخر کے کسی بھی اندیشہ یا خطرہ کو جیت میں رکاوٹ نہیں بننے دیا ۔

پاکستان کے ساتھ اوباما انتظامیہ کے گزشتہ تعلقات کے تلخ وشیریں نشیب وفراز بھی حکمرانوں کے پیش نظر رہنے چاہئیں۔ جیسا کہ ہمارے بعض سابق اور موجودہ سینئر سفارت کار ،تجزیہ نگار اور دانشور حضرات امریکا کے سامراجی اور استعماری مقاصد میں تبدیلی کا کوئی عندیہ نہیں دیتے اسی طرح پاک امریکا دوستی اور نان نیٹو اسٹیٹس کو مد نظر رکھتے ہوئے اوباماکی آیندہ کی طرف سے دی جانے والی ''ہمہ جہتی اور کثیر المقاصد ''امداد کو اس کی تزویراتی، عسکری،ڈپلومیٹک اور خطے میں افغان پالیسی کے تناظر میں پرکھنا ہوگا۔امریکا کے گریٹ گیم سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے جب کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کے فرنٹ لائن کردار کو نظر انداز کرنے کی جو قیمت اہل وطن نے چکائی ہے اس کا اب کوئی ری پلے نہیں ہونا چاہیے۔ڈرون حملوں میں رعایت نہ دینے کا اوباما کا اصرار چشم کشا ہے جب کہ پاکستان بھی انتخابات کے اعصاب شکن تجربے سے گزرنے والا ہے اس لیے پاک امریکا تعلقات کی حرکیات کا اوباما کی فتح اور اس کی نئی انتظامیہ کے مجموعی عزائم کی روشنی میں از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ارباب اختیار امریکا پر ایک بار پھر واضح کردیں کہ پاکستان کی خود مختاری، سالمیت ،جغرافیائی وحدت، وقار اور سیاسی و اقتصادی مفادات پرکوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں