ایجادات کے بین الاقوامی مقابلے میں پاکستانی طلبہ کی پہلی اور دوسری پوزیشن

مقابلے میں پوری دنیا سے 200 افراد شریک تھے لیکن ’’فاسٹ این یو سی ای ایس‘‘ کے ہونہار طلبا و طالبات سرِ فہرست رہے۔

مقابلے میں پوری دنیا سے 200 افراد شریک تھے لیکن ’’فاسٹ این یو سی ای ایس‘‘ کے ہونہار طلبا و طالبات سرِ فہرست رہے۔ تصویر بشکریہ فیس بک فاسٹ یونیورسٹی

KARACHI:
پاکستان کے ہونہار طلبا و طالبات نے ڈیزائننگ اور اختراع کے بین الاقوامی مقابلے میں اول اور دوم پوزیشن حاصل کرکے ملک کا نام روشن کردیا۔

لاہور میں فاسٹ نیشنل یونیورسٹی آف نیو اینڈ ایمرجنگ سائنسز FAST-NUCES میں سالِ آخر کے طالب علموں نے ''ڈو اٹ یورسیلف'' یعنی خود سے بنائے جانے والے 2 پروجیکٹ تیار کیے جو عالمی مقابلے میں پیش کیے گئے جس میں 200 کے قریب پروجیکٹ، ڈیزائن اور اختراعات شامل تھیں تاہم پاکستانی طالب علموں کو ان کی شاندار کاوشوں اور محنت کے نتیجے میں بالترتیب پہلے اور دوسرے انعام دے نوازا گیا۔

طالب علموں کا پہلا پروجیکٹ ایکو سینس، وائرلیس سینسر اور ایکچوایٹر نیٹ ورک ہے جسے پہلا انعام دیا گیا جب کہ دوسرا انعام 'بال بوٹ' کو ملا جس میں ایک چھوٹا روبوٹ از خود انداز میں گیند کے اوپر توازن برقرار رکھتا ہے۔

ایکوسینس:

اس پروجیکٹ کو عثمان مقصود، عامر سلمان اور ریبا رضا نے تیار کیا ہے، یہ ماحول اور اطراف کو نوٹ کرنے والا ایک نظام ہے جو نمی، روشنی، درجہ حرارت نوٹ کرتا ہے جو ریڈیو فریکوئنسی (آر ایف) پر مبنی وائرلیس نظام کے تحت کام کرتا ہے۔ یہ نظام مختلف نوڈز سے حقیقی وقت میں نمی اور درجہ حرارت کا ڈیٹا لے کر ان کا ڈیٹا بیس تیار کرتا ہے جسے سیل فون پر بھی دیکھا جاسکتا ہے اس میں ایک الگورتھم بھی ہے جو ازخود منظم ہوتا ہے جب کہ اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ بہ یک وقت اسے کئی اہم کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔




کسی بڑی عمارت اور جگہ پر بہت سے سینسر لگا کر ایک ہی جگہ اس کا ڈیٹا حاصل کیا جاسکتا ہے اور یہ چوری، نقب، آلودگی اور آگ لگنے سے بھی آگاہ کرسکتا ہے جو اس کی اہم خوبی ہے۔ اس کا ڈیٹا آن لائن بھی رکھا جاسکتا ہے جب کہ 6 نوڈز ( یعنی 6 سینسرز) نظام کی قیمت صرف 20 ہزار روپے ہے۔

بال بوٹ:

اسے اسامہ بن طارق، عزیر علی خان اور انیق منظر نے مشترکہ طور پر تیار کیا ہے۔ یہ اصل میں ایک روبوٹک فیڈ بیک سسٹم ہے، یہ روبوٹ نما آلہ ایک باسکٹ بال کے اوپر خود کو متوازن رکھتا ہے اور گرنے نہیں دیتا اور کسی بھی سمت مڑ سکتا ہے جب کہ اسے صنعتوں اور دیگر کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔



اس موقع پر اسامہ طارق نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ اس پروجیکٹ میں گیند ایک گول پہیے کی طرح کام کرتی ہے اور روبوٹ کو کسی بھی سمت بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ اس پروجیکٹ کو مزید بہتر بناکر روبوٹ کی حرکت کے مجموعی نظام کو بہتر بناکر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں پروجیکٹس کو انسٹی ٹیوٹ آف الیکٹرکل اینڈ الیکٹرانکس انجینئر کی عالمی تظیم کے مقابلے میں فروری کے پہلے ہفتے میں انعامات دیئے گئے ہیں۔



 
Load Next Story