سبق سیکھنے کا وقت کب آئے گا
اگر ہمیں پاکستان میں رہنا ہے تو ملک کی سرحدوں کی حفاظت اور دفاع کرنے والوں کی بھی ضرورت رہے گی۔
کیا میڈیا شرارتی ہو گیا ہے؟ کیا میڈیا خصوصاً الیکٹرانک میڈیا کا کام یہی رہ گیا ہے کہ معاشرے اور ذمے دار اداروں کو ہمہ وقت ہیجان میں مبتلا کیے رکھے؟ کیا مغربی ممالک، جو دراصل پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کی تخلیق کا ذمے دار اور بانی ہے، میں ایسی مثالیں موجود ہیں جو آج کل ہمارے ہاں قائم کی اور دکھائی جا رہی ہیں؟
سپہ سالار جنرل پرویز کیانی نے تین روز قبل اپنے افسروں سے خطاب کیا کیا، ایک بھونچال سا آ گیا۔ یہ بھونچال جنابِ جنرل کے خطاب اور اُن کے الفاظ میں ہرگز نہیں تھا بلکہ الیکٹرانک میڈیا نے اپنی پسند کے مطابق اس کی توجیہات کرکے بھونچال پیدا کرنے کی ایک ناتمام کوشش کی ہے۔ فضا یہ بنائی اور دکھائی جا رہی ہے جیسے اِس بدقسمت ملک کے دو اہم ادارے باہم متصادم ہونے کے قریب ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کی کوششیں بروئے کار ہیں لیکن دعا یہ ہے کہ یہ کوششیں خدا نخواستہ سازشیں بن کر پاکستان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔
جنرل صاحب نے تو محض یہ کہا ہے کہ ہم سب سے غلطیاں ہوئی ہیں، اب غلطیوں کی لکیر پیٹنے سے بہتر ہے کہ ہم سب ہاتھوں میں ہاتھ دے کر، کندھے سے کندھا ملا کر، قومی مفاد اور ملکی استحکام کی خاطر آگے بڑھیں مگر اِس سنجیدہ اور فہمیدہ بات کو بتنگڑ بنانے کی ناقابلِ رشک کوششیں کی گئی ہیں۔ جنرل نے تو مفاہمت کے پس منظر میں بات کی ہو گی لیکن یار لوگوں نے اِسے ''ٹارگٹ'' کے معنی پہنا کر ڈھول پیٹنا شروع کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ سپہ سالار پاکستان کو یہ بات کہنے کی ضرورت پیش کیوں آئی؟ بعض لوگوں کا اِس سوال کے جواب میں یہ کہنا ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران افواجِ پاکستان کے پانچ ریٹائرڈ جرنیلوں کے بارے میں (ریلوے اراضی اسکینڈل اور اصغر خان کیس کے فیصلے کے پس منظر میں) جو باتیں ہو رہی ہیں اور فیصلے سامنے آئے ہیں، اِس کا ''شاخسانہ'' ہے کہ جنرل کو بین السطور بولنا پڑا ہے۔ ہم اِس توجیح اور جواب سے متفق نہیں ہیں کہ یہ تو چند افراد کا معاملہ ہے، اِن کے دفاع میں سپہ سالار کو بولنے کی کیا ضرورت ہے؟
فوج کے پورے ادارے کا اِن پانچ افراد کے معاملات سے کیا تعلق؟ ہاں اگر کوئی قابلِ اعتراض بات ہے تو یہ ہو سکتی ہے کہ میڈیا میں بعض عناصر دانستہ اِس فرضی معاملے کو ہوا دے رہے ہیں کہ فوج کے جوانوں اور اعلیٰ ترین افسران کی سوچ میں امتیاز پیدا ہو چکا ہے۔ ہم اِس شرانگیز پروپیگنڈے کی مذمت کرتے ہیں کہ یہ پاکستان اور افواجِ پاکستان کے دشمنوں کا پروپیگنڈہ بھی ہے اور اُن کا ہدف بھی۔ اِس دراڑ کو ہرگز قبول نہیں کیا جا سکتا۔ جنرل کے بیان کا اپنی پسند کے مطابق ترجمہ و تفسیر کرکے بعض لوگ عدلیہ و فوج کو آمنے سامنے لانے کی جس طرح جسارت کر رہے ہیں، یہ نہ تو احسن اقدام ہے اور نہ ہی یہ ملکی مفاد میںہے۔
یہاں یہ بھی واضح ہونا چاہیے کہ جو لوگ، تنظیمیں، گروہ یا ادارے پاکستان کی مسلّح افواج کے بارے میں شکوک و شبہات پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ بحیثیتِ پاکستانی پاکستان کی کسی بھی شکل میں خدمت نہیں کر رہے ہیں۔ ماضی قریب میں جب بعض اطراف و جوانب سے یہ مطالبہ کیا گیا کہ سیکیورٹی فورسز کی تعداد میں کمی کی جائے اور افواجِ پاکستان کا بجٹ کم کیا جائے، ہم سمجھتے ہیں یہ مطالبہ بھی دراصل فوج کے خلاف بالواسطہ ایک منفی پروپیگنڈا ہی تھا۔ یہ مطالبہ کرنے والوں سے جب یہ پوچھا جاتا ہے کہ کیا پاکستان کے کسی ہمسایہ ملک میں بھی عوام کی جانب سے ایسا کوئی مطالبہ کیا گیا اور اس پر عمل کا مظاہرہ بھی کیا گیا تو وہ بغلیں جھانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان میں تو بعض ایسے مصنفین اور مولفین بھی ملتے ہیں جنہوں نے باقاعدہ اور خصوصاً انگریزی زبان میں (تاکہ اُن کا ''پیغام'' اہلِ مغرب تک پہنچ سکے) کتابیں لکھ کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستان ملٹری اپنا پیشہ ورانہ کام تو نہیں کر رہی البتہ وہ ''تجارت اور کاروبار'' میں خوب مگن ہے۔
اِس سلسلے میں ہم اسلام آباد میں فروکش ایک ''محقق'' خاتون کا نام کیسے بھول سکتے ہیں جنھیں آج کل ''ماہرِ اُمورِ دفاع'' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے ۔یہ ایک منفی رویہ ہے جس کی حوصلہ شکنی کی ضرورت ہے۔ اگر ہمیں پاکستان میں رہنا ہے تو پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت اور دفاع کرنے والوں کی بھی ضرورت رہے گی۔ اُن کے اخراجات بھی اٹھانا ہوں گے اور ملک کے لیے ان کی بے شمار اورلاتعداد قربانیوں کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ ہاں، سیکیورٹی فورسز اور اُن کے کئی افسروں سے ماضی میں غلطیاں ہوئی ہیں۔
اِس کا اعتراف افواجِ پاکستان کے سالارِ اعلیٰ جنرل پرویز کیانی نے بھی چند روز قبل اپنے خطاب میں کیا ہے جس کی بنیاد پر بعض لوگوں نے طوفان اٹھانے کی کوشش کی ہے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ غلطیوں کا ارتکاب کس سے نہیں ہوا ہے؟ خطرناک اور بھیانک بات یہ ہے کہ کسی بھی ادارے کے ایک یا چند ذمے دارافراد کی دانستہ یا نادانستہ غلطیوں کی بنیاد پر پورے ادارے کو موردِ الزام ٹھہرانے کی جرأت و جسارت کی جا رہی ہے اور اِس سلسلے میں آئین کی حرمت کا بھی پاس نہیں کیا جا رہا۔ ایسے میں کسی قومی ادارے سے وابستہ ہر شخص کو سزا دینے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے؟ آیا کسی ایک یا چند افراد کی لغزش کی بنیاد پر سارے ادارے ہی کو اکھاڑ پھینک دینے کا مطالبہ کیا جا سکتا ہے؟ خصوصاً افواجِ پاکستان کے کسی ایک یا چند ذمے دار افراد کی غلطی کی وجہ سے پورے ادارے کو بدنام کرنا یا اُس پر بین السطور طنز کرنا قرینِ انصاف ہو گا؟ پاکستان کی سلامتی کا تقاضا یہ ہے کہ ہمیں اِس رویے سے احتراز کرنا ہوگا۔ یاد رکھا جائے دنیا میں جب کسی بھی ملک میں فوج کا شیرازہ بکھرتا ہے تو اُسے دوبارہ یک جا نہیں کیا جا سکتا۔
اِس سلسلے میں گزشتہ روز وفاقی وزیرِ اطلاعات نے نہایت مستحسن بات کہی۔ وزیراعظم ہائوس میں ایک ظہرانہ دیا جا رہا تھا جس میں وفاقی وزیر اطلاعات جناب قمر زمان کائرہ بھی شریک تھے۔ ظہرانے سے قبل مین ہال میں میڈیا میں جاری جنگ کے حوالے سے گفتگو ہو رہی تھی۔ ایسے میں کائرہ صاحب نے راقم سے بات چیت کرتے ہوئے کہا: ''دیکھیے، اختلافات اپنی جگہ لیکن جب ہم افواجِ پاکستان کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں، تو ہمیں بہت احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔'' پھر اُنہوں نے نہایت متانت اور سنجیدگی سے کہا: ''پاکستان پیپلز پارٹی کے آغاز سے لے کر آج تک، ہمارے اور افواجِ پاکستان کے درمیان جیسے بھی تعلقات رہے ہیں، وہ سب پر عیاں اور آشکار ہیں لیکن ہم نے اپنی سیکیورٹی فورسز کے بارے میں بات کرتے ہوئے ہمیشہ اپنی زبان کو بتیس دانتوں میں رکھا ہے۔'' انھوں نے انتباہ کرتے ہوئے ایک مثال بھی دی: ''عراق میں ایک مضبوط فوج تھی لیکن بوجوہ ایک بار اُس کے پائوں اکھڑے ہیں تو آج تک زمین پر نہیں لگ سکے ہیں حالانکہ اب امریکا گزشتہ چند برسوں سے عراقی فوج کو وجود میں لانے اور اِسے مستحکم کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کر رہا ہے لیکن کامیاب ہو سکا ہے نہ عراقی فوج کو ایک اکائی کی شکل دے سکا ہے۔
یہی حال افغانستان میں ہے۔ افغان آرمی تباہ ہو چکی ہے اور اِس کا شیرازہ ایسا بکھرا ہے کہ سنبھالے سے نہیں سنبھل رہا ہے۔ افغانستان میں موجود امریکی اور اتحادی فوجیں افغانستان کی اپنی مضبوط فوج بنانے پر بلین آف ڈالرز خرچ کر رہے ہیں لیکن وہ اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پا رہے اور سخت تشویش میں مبتلا ہیں۔'' قمر زمان کائرہ کا کہنا تھا کہ ہمیں اِس منظر نامے سے سبق سیکھنا چاہیے لیکن محسوس یہی ہو رہا ہے کہ ابھی سبق سیکھنے کے دن نہیں آئے۔ بدقسمت اور اپنے مستقبل کی پروا نہ کرنے والی قوموں کے ساتھ یہی ہوا کرتا ہے کہ اُنہیں اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا موقع نہیں ملتا۔ ہمارے ہاں موجودہ صورتحال سے بھارت کو سب سے بڑا فائدہ پہنچ رہا ہے اور وہ تالیاں بجا رہا ہے اور ہم ہیں کہ باہم دست و گریباں ہو رہے ہیں اور دعویٰ یہ ہے کہ راستے میں پڑے کانٹے چُن رہے ہیں۔