انتظامی ڈھانچے کے نقائص
پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں جو کمزوریاں اور خامیاں ہیں،ان کی وجہ سے چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی گھمبیر ہوجاتا ہے۔
WASHINGTON:
29اکتوبرکوریاست ہائے متحدہ امریکا کے مشرقی ساحل کی سات ریاستوں سے تاریخ کا بدترین سمندری طوفان ہیریکین سینڈی ٹکرایا۔یہ ایک قسم کی قیامت صغریٰ یا مثل طوفانِ نوح تباہی تھی،جس نے نیویارک سمیت درجنوں شہروں کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
اس ناگہانی آفت کے نتیجے میں 6کروڑ کے قریب لوگ متاثر ہوئے اور خاصی بڑی تعداد میں املاک کو نقصان پہنچا۔مجموعی طور پر اربوں ڈالرکا نقصان ہوا۔لیکن حکومتی اداروں کی چابک دستی اور عوام کے سماجی شعور کی وجہ سے جانی نقصان 100سے بھی کم تھا۔دوسری قابل ذکر بات یہ طوفان کا زورٹوٹتے ہی معمولات زندگی بھی معمول پر آنے لگیں۔یعنی دو روز بعد ہی یعنی 31اکتوبرکو اسٹاک ایکسچینج بھی کھل گیا اور سب ویز میں ٹرینوں کی آمدورفت بھی شروع ہوگئی۔اتنے بڑے سانحے اورنقصان کے بعد انتخابات بھی وقت پر ہی ہوئے۔
اس صورتحال کا بنیادی سبب ریاست کے مختلف اداروں کی فعالیت، ان میں آفات سے نمٹنے اور ان کی پیش بندی کرنے کی صلاحیت اور مختلف اداروں کے درمیان پیشہ ورانہ اور ادارہ جاتی تعاون ہے۔جیسے ہی محکمہ موسمیات نے اس طوفان کی پیش گوئی کی تمام ادارے اپنی اپنی ذمے داریوں کے حوالے سے چوکس ہوگئے۔ انھوں نے اس عفریت سے نمٹنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ معلومات شیئرکرتے ہوئے منصوبہ بندی شروع کردی ۔ کسی قسم کا کنفیوژن پیدا کرنے کے بجائے ہر ادارے نے با اختیاریت کے ساتھ نقصان کو کم سے کم کرنے پر توجہ مرکوز کی۔مقامی حکومت سے ریاستی حکومت تک اور ریاستی حکومت سے وفاقی حکومت تک ایک دوسرے کی مدد اور تعاون کر رہے تھے۔ نتیجہ ہمارے سامنے ہے کہ 48گھنٹوں کے اندر ہی معاملات درستی کی طرف بڑھنے لگے۔ چند روز تک انتخابی مہم کو معطل رکھنے کے بعد صدارتی امیدوار ایک بار پھر فعال ہوگئے ۔یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا،بلکہ ہر قدرتی آفت کے موقعے پر ایسا ہی ہوتا ہے۔
امریکا سمیت ترقی یافتہ ممالک جس انداز میں قدرتی آفات کا مقابلہ کرتے ہیں ،اس سے کئی سبق حاصل ہوتے ہیں۔اول،ان ممالک میں ڈزاسٹرمینجمنٹ کا شعبہ انتہائی فعال،متحرک اور مستعد ہے۔ دوئم ،ایسے مواقعے پر ریاست کے تمام ادارے ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون کرتے ہیں۔سوئم، عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد کا مضبوط رشتہ ہونے کی وجہ سے عوام حکومتی ہدایات پرعمل کرتے ہیں۔ چہارم،پولیس اور انتظامیہ امن وامان کو برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ ان اقدامات کے ذریعے ان ممالک کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ قدرتی آفات جن پر قابو پانے کی انسان ابھی قدرت حاصل نہیںکرسکا ہے، ان کے نتیجے میں ہونے والے نقصان کو تو کم سے کم کیا جاسکے۔ یہی سبب ہے کہ امریکا ہو یا جاپان، تمام ترقی یافتہ ممالک اپنے انسانی وقدرتی وسائل اور توانائیاں شہریوںکو بہترسہولیات اوران کے تحفظ پر صرف کرتے ہیں۔نتیجتاً عوام اور ریاست کے درمیان مضبوط رشتہ قائم ہے۔
اب ذرا پاکستان پر نظرڈالیے۔ دوماہ کے دوران کراچی میں آتشزدگی کے دو بھیانک واقعات ہوئے۔ پہلا واقعہ11ستمبرکو ایک گارمنٹس فیکٹری میں ہوا،جس میںآگ لگنے سے املاک کے علاوہ 300سے زائد قیمتی جانیں بھی لقمہ اجل ہوگئیں۔اسی روز لاہور کی لیدر فیکٹری میں آگ لگنے سے ڈیڑھ درجن کے قریب لوگ اپنی زندگیاں ہارگئے۔ان واقعات سے ٹھیک ڈیڑھ ماہ بعدکراچی کی ایک کیمیکل فیکٹری میں بقرعید کے روز آگ لگ گئی، جس پر 30گھنٹوں بعد بمشکل قابو پایا جا سکا، مگرعمارت مکمل تباہ ہوگئی۔ عید کی چھٹی کی وجہ سے اس روز فیکٹری بند تھی،اس لیے جانی نقصان نہیں ہوا۔یہ تین اہم واقعات دو ماہ کے اندر ہوئے۔ان کے علاوہ چھوٹے موٹے حادثات اورسانحات اور ان کے نتیجے میںجانوںاور املاک کا نقصان روز کا معمول ہیں۔
ان تینوں واقعات میں ہونے والے نقصان اور قیمتی جانوں کے زیاں کا جائزہ لیاجائے، تو حکومتی اداروں میں قدرتی آفات پرقابو پانے کی صلاحیت کا فقدان، ضروری سازوسامان کی عدم دستیابی،مختلف اداروں کے درمیان روابط اور تعاون کی عدم موجودگی اور ویژن کی کمی جیسی کمزوریوں کی نشاندہی ہوتی ہے۔اگر متعلقہ اداروں میں عملہ باصلاحیت اور تربیت یافتہ اور ضروری سازوسامان سے لیس ہو تو جانی اور نقصان کو بہت حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
اب دوسری طرف آئیے۔پاکستان گزشتہ 7برسوںکے دوران سنگین نوعیت کی کئی شدید نوعیت کی قدرتی آفات سے دوچار ہوا ہے۔جن میں2005 میں ملک کی تاریخ کا بھیانک زلزلہ،2010 اور 2011 میں سیلاب کی بدترین تباہ کاریاں،گلیشئرکے پگھلنے سے گلگت کے قریب پانی کی مصنوعی جھیل کا وجود میں آنا اور سیاچن کے گیاری سیکٹر میں برف کے تودے تلے ایک فوجی دستے کا دب جانا شامل ہیں۔ان قدرتی آفات کو روکنا یا ان کا رخ موڑنا ممکن نہیں تھا۔ مگر ان سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جاسکتا تھا۔ جس طرح دنیا بھر میںکسی ایک واقعے سے حاصل تجربات کی بنیاد پرآیندہ کے لیے منصوبہ بندی کی جاتی ہے،پاکستان میں ایسا رجحان سامنے نہیں آیا ۔کیونکہ 2005 سے 2011 تک قدرتی آفات سے نمٹنے اور2012 کی خوفناک آتشزدگیوں نے ثابت کیا کہ حکومت اور متعلقہ اداروں میں ہنگامی حالات سے نمٹنے اور نقصان کو کم سے کم کرنے کی صلاحیت نہیں ہے، بلکہ ہاتھ پر ہاتھ رکھے بیٹھے رہتے ہیں۔
شمال مشرقی علاقوں میں زلزلے کے بعد متاثرہ خاندانوں کو فوری ریلیف اور بحالی میں حکومتی اداروں کی کارکردگی مایوس کن رہی۔اگر قومی اورعالمی امدادی تنظیمیں یہ ذمے داری قبول نہ کرتیں،تو متاثرہ خاندانوں کے مصائب کئی سوگنا زیادہ ہوسکتے تھے۔آزاد کشمیر اور خیبر پختونخواہ کے متاثرہ اضلاع کے ان گنت خاندان سات برس گذر جانے کے بعد آج بھی امدادی رقوم کی آخری قسط کے لیے دربدرٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ اس وقت یہ اعلان کیا گیاتھا کہ بالاکوٹ شہرکو نئی جگہ منتقل کردیا جائے گا، وہ کام بھی ہنوز تشنہ ہے۔اسی زمانے میں ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی قائم کی گئی،لیکن2010 کے بدترین سیلاب کے دوران اس ادارے کی کارکردگی سامنے نہیں آئی۔ فوج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے متاثرہ افراد کو محفوظ مقام تک نہ پہنچاتی تو نقصان کئی گنا زیادہ ہوتا۔حالانکہ محکمہ موسمیات نے اسی وقت بتا دیا تھا کہ موسمیاتی تغیرات کی وجہ سے بارشوں کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے اور آیندہ برس بھی ملک سیلاب سے دوچار ہوسکتا ہے۔
مگر کوئی پیش بندی نہیں کی گئی۔یوں 2011 میں آنے والے سیلاب کے نقصانات کسی طور پر2010 کے سیلاب سے کم نہ تھے۔آج صورتحال یہ ہے کہ مناسب منصوبہ بندی اور پیشہ ورانہ اہلیت کے فقدان کی وجہ سے 2010 کے سیلاب متاثرین ڈھائی برس اور2011 کے سیلاب کے متاثرین ڈیڑھ برس گذرجانے کے باوجود آج تک بحالی کے انتظار میں مختلف شہروں میں سڑکوں کے کنارے لگے خیموں اور کراچی کی ایک لیبر کالونی میں مزدوروں کے لیے تعمیرکیے گئے فلیٹوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
پاکستان کے انتظامی ڈھانچے میں جو بنیادی کمزوریاں اور خامیاں ہیں،ان کی وجہ سے چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ بھی گھمبیر ہوجاتا ہے۔ان خامیوں اور کمزوریوں کے کئی اسباب ہیں۔اول،پاکستان میں ریاستی انتظام کی عدم مرکزیت پر توجہ نہیں دی جا رہی۔جس کی وجہ سے اختیارات چند ہاتھوں میں مرتکز رہتے ہیں۔جس سے بہت سے اہم امور تاخیرکا شکار ہو جاتے ہیں۔اگر اختیارات صحیح معنی میں نچلی سطح پر منتقل ہوں،توکسی ہنگامی صورتحال میں فوری ریلیف اور بحالی کے کام کو بہتر انداز میں تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔دوئم،سماجی ترقی اور عوامی فلاح وبہبود کے لیے مناسب رقم تفویض نہیںکی جاتی،جس کی وجہ سے زلزلوں، سیلابوں اور آتشزدگی جیسی آفات سے نمٹنے کے لیے ضروری سازوسامان اور اہم آلات کی قلت ہے۔سوئم،حکمران اشرافیہ اور سیاسی جماعتوں میں اس سیاسی بصیرت اور عزم کا فقدان ہے، جو کسی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے درکارہوتی ہے۔ چہارم، ریاستی اداروں میں اہلیت اور صلاحیت کی کمی ایک طرف ،لیکن ادارہ جاتی احتساب اور جوابدہی کے مکینزم کی عدم موجودگی کی وجہ سے بدعنوانیاں اور کرپشن بھی اپنے عروج پر ہیں۔جس کے نتیجے میں متاثرین کو بروقت امداد نہیں مل پاتی۔
جدید دنیا میں روایتی انداز میں حکمرانی کا تصور تقریباًختم ہوچکا ہے۔ آج حکمرانی کے لیے مینجمنٹ سائنس کی اہمیت بہت زیادہ بڑھ چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بیشتر ممالک میں سیاسی جماعتیں ایسے لوگوں کو حکومت میں شامل کرتی ہیں، جن میں انتظامی امور کو جدیداندازمیں چلانے کی صلاحیت ہو۔تیسری دنیا کے بیشترممالک میں گوکہ سیاسی جماعتیں انتخابات جیتنے کے لیے Electablesپر انحصار کرتی ہیں،لیکن ساتھ ہی وہ ایسے ماہرین کی خدمات بھی حاصل کرتی ہیں،جو اہم انتظامی امورکی پالیسی سازی میں ان کی رہنمائی کرسکیں۔ پاکستان میں اب جب کہ فوجی مداخلت کے امکانات تقریباً ختم ہوتے محسوس ہو رہے ہیں،سیاسی جماعتوں کو اپنے اندازِفکر کو تبدیل کرنے اور دو اقدامات پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔یعنی انتظامی ڈھانچے کو جدید خطوط پر استوار کرتے ہوئے اختیارات کی نچلی سطح تک بامعنی منتقلی تاکہ کسی ہنگامی صورتحال سے فوری طور پر نمٹنے کی سبیل ہوسکے۔ دوئم،بجٹ میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے خاطرخواہ رقم مختص کرنا شامل ہے۔ یاد رہے کہ جب ملک آفات میں گھرا ہوگا تو کہاں کا دفاع اور کہاں کی سلامتی۔اس لیے روایتی سوچ سے نکلنا وقت کی ضرورت ہوگئی ہے۔