قومی دفاع اور استحکام کا نظریہ
پاک فوج نے گھوڑوں کی تیاری میں کسی غفلت اور کوتاہی کا ثبوت نہیں دیا ۔ اس کے لیے اسے تھپکی ملنی چاہیے۔
میں پہلی مرتبہ چیف جسٹس کے کسی بیان پر تبصرہ کر رہا ہوں، یہ بات انھوںنے بعض افراد سے گفتگو کے دوران کہی۔یہ عدالتی فیصلہ ہوتا تو میں اپنی زبان بند رکھتا، اس پر قانون جاننے والے ہی رائے زنی کر سکتے تھے۔لیکن ان کے بیان کا حوالہ دینے سے پہلے میں قرآن حکیم کے ایک واضح حکم کو نقل کرنا چاہتا ہوں۔
سورہ انفال کی آیت ساٹھ کا ترجمہ ہے:مقابلے کے لیے جس قدر ہتھیار تمہارے اختیار میں ہوں ،سامان جنگ اور ہمیشہ تیار رہنے والے گھوڑے مہیا رکھو، اس سے تم اللہ کے دشمنوں اور اپنے دشمنوں اور ان کے علاوہ ان لوگوں کو جنھیں تم نہیں جانتے،خوفزدہ رکھو گے ۔
یہ ہے قرآن کا نظریہ دفاع اور اب میں صحیح بخاری( کتاب الوصایا) کی ایک حدیث بیان کرنا چاہوں گا جس میں حضور ﷺ کی رحلت کے وقت ان کے ترکے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ انھوں نے اپنے ترکے میں کوئی درہم ودینار، نہ غلام اور لونڈی بلکہ ایک خچر، تلوار اور ڈھال چھوڑی، کچھ زمین بھی تھی جسے وہ صدقہ فرما چکے تھے۔
ان بین احکامات کے بعد ہمیں اپنے دفاع کے لیے کسی اور نظریے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے، دنیا میں حرب وضرب کے نامی گرامی ماہرین ہو گزرے ہیں، سکندر اعظم سے لے کر منٹگمری اور رومیل تک،چانکیہ سے لے کر کلاز وٹز تک۔سب میں ایک ہی نکتہ مشترک ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔مسلمانوں نے جب تک قرآن اور سیرت کی روشنی میںاپنے گھوڑے تیار رکھے، وہ دنیا میں ایک سپر پاور کی حیثیت رکھتے تھے۔اور جب ہم نے ان احکامات کو پس پشت ڈال دیا تو غلامی ہمارا مقدر بن گئی۔پاکستان کی مثال ہمارے سامنے ہے، پینسٹھ میں ہم نے مقبوضہ کشمیر میں گوریلے داخل کیے تو بھارت نے ہماری بین الاقوامی سرحدوں کو پامال کر دیا۔مگر ننانوے میں ہم نے کارگل میں پیش قدمی کی تو بھارت کو انٹرنیشنل بارڈر پر جارحیت کی جرات نہیں ہو سکی، اس لیے کہ اس وقت تک ہم ایٹمی اسلحے اور اس کے ڈیلوری سسٹم سے لیس ہو چکے تھے۔
یہ فلسفہ کہ فی زمانہ ٹینک اور میزائل سلامتی اور استحکام کی ضمانت نہیں بن سکتے، اس وقت سامنے آیا جب سوویت روس جیسی سپر پاور افغانستان میں ڈھیر ہو گئی حالانکہ اس کے پاس ایٹمی اسلحہ بھی تھا، بین البر اعظمی میزائل بھی تھے۔مگر یہ نظریہ اس لیے دوسروں کے لیے مثال نہیں بن سکاکہ آج بھی اسرائیل کی طاقت کا راز اس کا اسلحہ ہے، امریکا کی طاقت کا راز اس کا اسلحہ ہے، نیٹو کی طاقت کا راز اس کا اسلحہ ہے۔
چیف جسٹس کے ریمارکس ایک عمومی تناظر میں دیکھے جانے چاہئیں، میرے خیال میں انھوں نے کوئی دفاعی نظریہ دینے کی کوشش نہیں کی بلکہ ایک ریاست کو کامیابی سے چلانے کے لیے تمام ضروری عوامل کی نشاندہی کی ہے مگر قربان جائوں اپنے میڈیا کے جس نے اس بیان کو یوں آمنے سامنے پیش کیا جیسے دو ادارے دو بدو ہوں۔ یہ درست ہے کہ ہم ایک عبوری دور سے گزر رہے ہیں، تمام آئینی ادارے اپنے دائرہ کار اور حدود کے تعین میں مصروف ہیں،عدلیہ کا کہنا ہے کہ آئین کی حفاظت اس کی ذمے داری ہے، فوج اپنے حلف اور اپنی طاقت کی بنا پر سمجھتی ہے کہ بالادستی اسے حاصل ہونی چاہیے اور ماضی میں وہ کئی مرتبہ بالا دست رہ بھی چکی ہے مگر اب اس کی طرف سے ایسی کسی خواہش کا اظہار سامنے نہیں آیا۔ پارلیمنٹ سمجھتی ہے کہ آئین صرف اسی کو کلی بالادستی عطا کرتا ہے۔یہ صورت حال یا تو ایک عبوری دور میں دیکھنے میں آتی ہے یا اسے طوائف الملوکی سے تعبیرکیا جاتا ہے۔
میں اداروں کی حدود و قیود کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا کیونکہ اس وقت تمام ریاستی ادارے اپنے طور پر بے انتہا طاقتور ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ان کی ورکنگ ریلیشن شپ کا تعین خود بخود ہو جائے گا، اس میں مجھے تو کسی پریشانی کی وجہ نظر نہیں آتی۔تاہم فوج کو یہ احساس ضرور ہو گا کہ اسے جائز یا ناجائز طور پر ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔وار آف ٹیرر کے حوالے سے، امریکی حلیف ہونے کے ناتے،لاپتہ افراد کی پیٹیشنوں کی آڑ میں، ایف سی اور رینجرز کے مظالم کی داستانیں بیان کرکے، ایجنسیوں ، خاص طور پر آئی ایس آئی، اور ایم آئی کے دیو مالائی قصے کہانیوں کے ذریعے،ماضی میں بعض اعلی فوجی افسروں کے معاملات کو زیر بحث لا کر ،تاثر یہ پھیل رہا ہے کہ فوج بحیثیت ادارہ ان معاملات میں ملوث ہے اور ہماری تمام ترمشکلات کی ذمے دار بھی۔اس پس منظر میں اگر یہ بات بھی کر دی جائے کہ اب وہ زمانہ لد گیا تو عام آدمی اس کی صحیح تفہیم نہیں کر سکتا، ویسے ہی ہمارے ہاں یہ بحث روز اول سے جاری ہے کہ فوج پر بجٹ کا بڑا حصہ خرچ کر کے ہم نے اپنے آپ کو کنگال کر لیا ہے، خاص پر ایٹمی پروگرام اور میزائلوں، ٹینکوں، طیارہ بردار جہازوں اور آبدوزوں کا ڈھیر لگا کر در اصل ہم نے اپنا مقدر بگاڑ لیا ہے۔
یہ بحثیں نیک نیتی سے کی جائیں تو ان میں کوئی حرج بھی نہیں مگر اس بحث میں شریک وہ عناصر ہیں جن کو پاک فوج سے خدا واسطے کا بیر ہے، وہ واہگہ کی لکیر کو مٹانے کی کھل کر بات کرتے ہیں ، ان کے من میں امن کی آشائیں پلتی ہیں،وہ ڈالر کی کھنک پر ڈھیر ہو ہو جاتے ہیں۔اس طرح پاک فوج کو کمزور کرنا ایک بیرونی ایجنڈہ بن جاتا ہے۔مصیبت یہ ہے کہ فوج کے لیے اپنے دفاع میں بولنا بھی ممکن نہیں ، عدلیہ کی جو بھی حمایت کرتا ہے، کھل کر کرتا ہے، کوئی ن لیگ کا مداح ہے تو اس کا تنخواہ دار بن کر بھی اپنے آپ کو آزاد اور غیر جانبدار مبصر خیال کرتا ہے ، کوئی جیالوں کی طرح پیپلز پارٹی کے گن گاتا ہے مگر فوج اس پوزیشن میں نہیں ، نہ اس کی خواہش ہے کہ کوئی پی سی او جاری کرے اور اپنی عزت بچانے کی کوشش کرے کیونکہ اس طرح بنیادی حقوق اور آزادی اظہار کا مسئلہ کھڑا کر دیا جاتا ہے۔
بہر حال جہاں تک قومی دفاع اور استحکام کا تعلق ہے تو اس پر رائے زنی کرتے ہوئے ہمیں قرآنی احکامات اور سیرت طیبہ کو پیش نظر ضرور رکھنا چاہیے۔چیف جسٹس صاحب نے تو ایک مجموعی تناظر میں بات کر دی لیکن اس کو بنیاد بنا کر اگر میڈیا اور سول سوسائٹی اس ایجنڈے پر لگ جائے کہ ہمیں بھاری دفاعی بجٹ سے نجات حاصل کرنی ہے ، میزائلوں کو زنگ لگنے دینا ہے، ایٹمی اسلحہ خواہ بھارت چوری کر لے جائے، خواہ اسرائیل اڑا لے جائے ، خواہ امریکی کمانڈو اسے اچک لیں،ہمیں اس سے کیا واسطہ تو یہ اس طبقے کی سخت بھول ہو گی۔ممبئی سانحے کے بعد بھارتی ایئر فورس کے چند جہاز پاکستان میں سرجیکل اسٹرائیک کے لیے فضا میں بلند ہوئے تو ساتھ ہی ہمارے شاہینوں نے اسکریمبل کیا، یاد رہے، بھارتی جہازوں میں صرف بھاری بم تھے یا تباہ کن میزائل ، مگر ہمارے جہاز ایٹمی وار ہیڈ سے لیس تھے اور پھر سب نے دیکھا کہ بھارتی دم دبا کر بھاگ گئے۔
اس سے قبل جب بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا تو پاکستان پر چڑھائی کرنے کی غرض سے بھارتی افواج نے ہماری سرحدوں کی جانب پیش قدمی کی تو ہم نے عین بارڈر لائن پر اپنے ایٹمی میزائل نصب کر دئے تھے،اور دنیا نے دیکھا کہ بھارتی فوج جس تیزی سے ہماری سرحدوں پر مورچہ زن ہوئی تھی، اس سے بھی زیادہ پھرتی کے ساتھ رفو چکر ہو گئی۔اس سے بھی پہلے بھارت نے براس ٹیک مشقوں کی آڑ میں ہماری سرحدوں پر جارحانہ مورچہ بندی کی تو ہمارے ایک فوجی صدر میچ دیکھے کے بہانے بھارت گئے جہاں انھوں نے راجیو گاندھی کے کان میں کھسر پھسر کرتے ہوئے کہا تھا کہ مہاراج! ہوشیار باش! ہم ایٹم بم تیار کر چکے ہیں۔
کلدیپ نائر اور مشاہد حسین کو ڈاکٹر عبدالقدیر نے جو انٹرویو عنایت فرمایا تھا، اس کا مقصد بھی بھارتی لالے کو خبردار کرنا ہی تھا۔اس طرح انیس سو اٹھاسی کے بعد سے اب تک پاکستان کی سلامتی کے تحفظ میں ہماری فوجی قوت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔اس لیے ہمارا میڈیا اور ہماری دانش مند سول سوسائٹی ، چیف جسٹس صاحب کی ایک عمومی بات کا کوئی ایسا مطلب اخذ نہ کرے جو چیف صاحب کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ہمارے لیے قرآن کا حکم ،نص قطعی ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھو اور یاد رہے ، پاک فوج نے گھوڑوں کی تیاری میں کسی غفلت اور کوتاہی کا ثبوت نہیں دیا ۔ اس کے لیے اسے تھپکی ملنی چاہیے۔