ہوگو شاویز جیت گیا

دو طبقات ٹکراتے ہیں پھر یا تو ایک دوسرے پر حاوی رہے یا دونوں طبقات سرے سے تباہ ہوجائیں اور نئے طبقات وجود میں آئیں۔


Zuber Rehman November 07, 2012
[email protected]

امریکی سامراج USA کے 100 کلو میٹر فاصلے پر تقریباً ایک کروڑ آبادی والا ملک وینزویلا جہاں شرح تعلیم 98 فیصد ہے، صدارتی انتخاب میں ریڈیکل اصلاحات کرنیوالے صدر ہوگو شاویز نے مزدروں کو بیروزگار کرنے اور ملازمتوں میں کٹوتی کرنیوالے صدارتی امیدوار کیپریلس کو شکست دے دی۔

یہاں ریڈیکل اصلاحات تو ہو رہی ہیں لیکن کچھوے کی رفتار سے مگر عالمی سرمایہ داری کی انحطاط پذیری نے اس کہاوت "Slow and Steady win the race" کو رد کر دیا ہے۔ بہرحال ان انتخابی نتائج سے عالمی سامراج کو مایوسی ہوئی ہے اور امریکی پالیسیوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہونگے ۔ اس انتخاب میں قابل ذکر بات یہ تھی کہ کراکس میں واقع پوش اور امیروں کے علاقوں میں پولنگ اسٹیشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے کوئی موجود ہی نہ تھا جب کہ محنت کشوں اور غریبوں کے علاقوں میں پولنگ اسٹیشنوں پر عوام کا جم غفیر ووٹ ڈالنے کے لیے منتظر تھا۔ ہر چند کہ ان بیچارے محنت کشوں کو یہ معلوم تھا اور نہ بتایا گیا تھا کہ ووٹ ڈالنے سے ان کے مسائل حل نہیں ہونگے۔

ریاست کی موجودگی میں ووٹ ڈالنے اور مثبت نتائج کے خواب غفلت میں رہنے کا نتیجہ سب کے سامنے عیاں ہے جیسا کہ شاویز کے مخالف سرمایہ داروں کے صدارتی امیدوار کیپر یلس اور ان کے رفقاء کی جانب سے انتخابات کے سرکاری طور پر اختتام سے پہلے ہی بیہودہ الزامات کی مہم چلانے کی تیاریاں کر رکھی تھیں۔ نام نہاد "Exitpolls" (جہاں ساتھ ہی ساتھ ووٹنگ کے نتائج پتہ چلتے رہتے ہیں) کے بارے میں جن میں سے کچھ میں کیپریلس کو شاویز سے 10نکات کی برتری بھی حاصل ہوئی۔ افواہیں پھیلائی گئیں جس کا مقصد دنیا کو یہ تاثر دینا تھا کہ کیپریلس جیت رہا تھا تا کہ سرکاری نتائج کو بعد میں مشکوک بنایا جا سکے۔

یہ گزشتہ کئی مہینوں سے مسلسل جاری پروپیگنڈے ہی کا تسلسل تھا مگر وہ پاکستان کے جنرل اسد درانی اور جنرل مرزا اسلم بیگ کی طرح کامیابی سے ہم کنار نہیں ہو پائے تھے اس لیے بھی کہ وہاں کے عوام نے پارٹیوں اور لیڈروں کے مقابلے میں اپنے آپ پر زیادہ انحصار کیا۔ عین انتخابات کے دن بھی اسپین کے ایک ''لبرل'' اخبار EL PAIS نے جو کہ بآواز بلند کیپریلس کی حمایت کرتا چلا ا ٓرہا تھا اور اپنے اداریے میں لکھا 'وینزویلا کے عوام صرف ایک ووٹ نہیں ڈال رہے ہیں بلکہ دو متضاد سماجی نظاموں میں ایک کا انتخاب کر رہے ہیں۔'' چند ہفتے پہلے شاویز نے کیپریلس کے معاشی مشیروں کی طرف سے شایع کردہ ایک کتابچے کا پول کھولنے اور ان کے اصل مقاصد کو بے نقاب کرنے کی جانب توجہ دلائی۔ یہ کتابچہ دراصل کٹوتیوں کے پیکیج سے لبریز تھا جس میں سماجی فلاح و بہبود کے پروگراموں میں کمی ، پینشن اور مزدوروں کے حقوق پر حملے شامل تھے۔

''درحقیقت 1989 میں کارکنوں کی سڑکوں پر عالمی انقلاب کا آغاز ہوا تھا جو بعد میں یونان، اسپین، اور پرتگال کی سڑکوں کے ساتھ ساتھ دنیا کے باقی خطوں میں پھیل چکا ہے'' یونان پرتگال اور سب سے بڑھ کر اسپین میں جاری احتجاجوں اور ہڑتالوں کی لہر نے بھی وینزویلا کے مزدوروں، نوجوانوں اور محکوم طبقات کو متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ وینزویلا میں شاویز کے جیتنے کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ شہریوں کو کچھ سہولتیں ملی ہیں جن سے لوگوں کی معیار زندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ علاج معالجے کی سہولیات، تعلیم اور حالیہ عرصے میں ایک حد تک رہائش بھی لوگوں کو ملی ہیں۔ CNE کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کی 23 میں سے21 ریاستوں میں شاویز نے کامیابی حاصل کی ہے تاہم برانڈا میں جہاں کیپریلس گورنر تھا جیتنے والے امیدوار کا معاملہ فی الوقت متنازعہ ہے۔

شاویز نے 2010کے قومی اسمبلی کے انتخابات میں PSUV (سوشلسٹ موومنٹ) کے ووٹوں سے پندرہ لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کیے لیکن حزب اختلاف نے انھیں اوقات میں20 لاکھ ووٹوں کا اضافہ کیا یہ سب کچھ اس لیے ہو رہا ہے کہ ریاست کے خاتمے کے بغیر جتنی بھی ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے شہریوں کو مشاورت، آزادی انصاف اور ذرایع پیداوار کا مالک نہیں بنایا جا سکتا۔ وقتی طور پر بھی انقلاب کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوا اس لیے کہ شاویز نے ایک حد تک نجی ملکیت کو نقصان پہنچایا ہے لیکن وینزویلا کی معیشت اور ریاست اب بھی بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ ہے اور 100 امیر خاندانوں کے تسلط میں ہے جن کے سامراج کے ساتھ گہرے اور سازشی رشتے ہیں۔ انقلاب کی منزل تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ معیشت کے کلیدی شعبوں کو نچلی سطح کے عوام کی پنچائیتوں کو منتقل کیا جائے پیداواری کارکنوں کو سرمایہ داری کے جوئے سے آزاد کرایا جائے۔

اس کام میں واشنگٹن اور میڈرڈ کے حکمران طبقات کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا لیکن پورے لاطینی امریکا اور یورپ کے کروڑوں مزدوروں، کسانوں اور نوجوانوں کی بہادرانہ جرأت مندانہ اور ایماندارنہ حمایت حاصل ہو گی۔ وینزویلا میں شاویز کو اقتدار میں آئے تقریباً 15سال ہو گئے عوام غربت کی لکیر کی 25 فیصد کی سطح 5 فیصد تک آ گئے ہیں مگر بھوک، افلاس اور ناانصافی کا خاتمہ نہیں ہوا اس لیے کہ اقتدار اور اختیار نچلی سطح پر منتقل نہیں ہوئے بلکہ اوپر سے سارے احکامات جاری کیے جا رہے ہیں۔ انقلاب کے فوراً بعد اگر ریاست کے خاتمے اور فوراً اس کا متبادل پنچائیتی نظام کے قیام کا اعلان کیا جاتا اور سارے عوام کو لازمی فوجی تربیت دی جاتی اور ساری ملکیت، ذرایع پیداوار اور وسائل کو خود کار مقامی انتظامی کمیٹیاں چلانا شروع کر دیتیں تو اب تک وینزویلا سے بھوک، افلاس، ناانصافی اور ریاستی غلامی کا خاتمہ ہو سکتا تھا مگر ریاست کی موجودگی میں اور اقتدار کی بالادستی میں یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟ اگر ہونا ہوتا تو روس، چین، کیوبا، کوریا، ہندچینی، مشرقی یورپ، کوہ قاف، وسطی ایشیا، بالٹک ریاستوں، بلقان ریاستوں، شام، لیبیا، الجرائز، برما، عراق، انگولا اور موزنبیق وغیرہ میں عوام کے مسائل حل ہونے کے بجائے رد انقلاب نہ آتا۔

تاریخ کا اصول ہے کہ جب دو طبقات ٹکراتے ہیں پھر یا تو ایک دوسرے پر حاوی رہے یا پھر دونوں طبقات سرے سے تباہ ہوجائیں اور نئے طبقات وجود میں آئیں۔ غلامانہ نظام جب ختم ہوا تو کوئی غلام صدر نہیں بن سکا۔ بحیثیت مجموعی آزاد شہریوں کی حکومت قائم ہوئی یورپ میں جب جاگیرداری اور بادشاہت کا خاتمہ ہوا تو سرمایہ دار یا ان کا نمایندہ اقتدار میں آیا۔ اب جب سرمایہ داری کا خاتمہ ہوگا تو غیر طبقاتی معاشرے کا قیام عمل میں آئے گا اور وہ شہریوں کا آزاد معاشرہ تشکیل پائے گا۔ اس کا جائزہ لیں کہ دفاع کیسے ہوتا ہے؟ بقول پروفیسر نوم چومسکی امریکی سامراج نے اب تک 88 ملکوں میں بلاواسطہ اور بالواسطہ مداخلت کی ہے جس کے نتیجے میں ڈھائی کروڑ انسانوں کا قتل ہوا جب کہ ہلہ بول فوج نے ویت نام، لاؤس، کمبوڈیا، موزنبیق اور کوریا میں امریکی لام بند فوج کو شکست سے دوچار کیا، زرعی پیداوار میں گزشتہ 50 برسوں میں 10 گنا اضافہ ہوا جب کہ اس دنیا میں ہر روز 50 ہزار انسان بھوک سے مر جاتے ہیں۔

صنعتیں پیداوار کر رہی ہیں لیکن اربوں مزدور بیروزگار ہیں اور مزید ہوتے جا رہے ہیں، بینکوں اور مالیاتی اداروں سے کھربوں روپے لے کر سرمایہ دار ہڑپ کر جاتے ہیں، پیداواری کارکنان تجارت نہیں کر پاتے بلکہ جو پیداوار نہیں کرتے ہیں وہی تجارت کرتے ہیں جو شہری خورو نوش پیدا کرتے ہیں وہی بھوکے رہتے ہیں جو مزدور تعلیمی اداروں کی تعمیرات کرتے ہیں انھیں کے بچے ان پڑھ رہ جاتے ہیں جو صحت کے شعبوں میں خدمات انجام دیتے ہیں انھیں کے بچے لاعلاج رہتے ہیں لہٰذا پیداواری کارکنان اگر پیداوار کر سکتے ہیں تو اس کی تقسیم، انتظام اور معقول بندوبست بھی کر سکتے ہیں۔ اور برازیل کے عوام بھی اس راستے پر چل پڑیں گے اور یہ انقلاب ریاستی سرحدوں کو توڑتے ہوئے میکسیکو، ریاست ہائے متحدہ امریکا اور کینیڈا تک جا پہنچے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں