پاکستان کی جوہری صلاحیت اور خطے کی صورتحال
جنوبی ایشیا کے خطے میں پاکستان اور بھارت دونوں ایک دوسرے کے بڑے حریف ہیں
آئی ایس پی آر کے ترجمان کے مطابق نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی کا 22 واں اجلاس بدھ کو وزیراعظم میاں محمد نوازشریف کی زیر صدارت اسلام آباد میں ہوا جس میں کہا گیا کہ پاکستان کی جوہری صلاحیت خطے میں استحکام کا سبب ہے، علاقے میں دیرپا امن وخوشحالی کے لیے ضروری ہے کہ تمام تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔
اجلاس میں وزیر دفاع، وزیر خزانہ، وزیر داخلہ، مشیر برائے امور خارجہ، معاون خصوصی برائے امور خارجہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوںمسلح افواج کے سربراہان اور ایس پی ڈی کے ڈائریکٹر جنرل سمیت دیگر سینئر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے شرکاء نے عالمی اور علاقائی سلامتی کے ماحول کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے علاقے میں روایتی اور جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں مسلسل اضافے کا نوٹس لیا اور اس کے خطے کے امن و استحکام پر مرتب ہونے والے مضراثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔نیشنل کمانڈاینڈ کنٹرول اتھارٹی نے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کا جواب دینے کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر تمام تر اقدامات کرنے اور کم از کم ایٹمی ڈیٹرنس کی پالیسی کے تحت ''فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس'' برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جوہری ہتھیاروں اور ایٹمی تنصیبات کے لیے اقدامات پر مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ سمیت ایٹمی صنعت کے تمام معاہدوں میں شامل ہونے کے لیے تمام تقاضے پورے کرتا ہے۔ اجلاس میں مختلف میزائلوں کے حالیہ کامیاب تجربات پر سائنسدانوں اور انجینئرز کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو خراج تحسین اور مبارکباد پیش کی گئی۔
جنوبی ایشیا کے خطے میں پاکستان اور بھارت دونوں ایک دوسرے کے بڑے حریف ہیں' دونوں کے درمیان موجود باہمی تنازعات پر جنگیں ہو چکی ہیں۔ دوستانہ ماحول پیداکرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود کشیدگی کی فضا اب بھی موجود ہے جس کا اظہار کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری سے ہوتا رہتا ہے۔
چونکہ اب دونوں ممالک کے پاس جوہری صلاحیت کے ساتھ ساتھ جدید ترین میزائل اور مہلک ہتھیار موجود ہیں اس لیے سرحدوں پر ہونے والی فائرنگ کے باوجود دونوں کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آتی کیونکہ دونوں ممالک کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ اگر بات بڑھتے بڑھتے جنگ تک آ پہنچی اور کسی ایک فریق نے بھی ایٹمی ہتھیار اور میزائل چلانے میں پہل کر دی تو پھر اس خطے میں ہونے والی تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اس جنگ میں نہ کوئی فاتح ہو گا اور نہ مفتوح بس ہر طرف تباہی اور بربادی کے مناظر ہی دکھائی دیں گے اور عشروں تک یہاں باقی ماندہ زندگی سسکتی رہے گی۔
بعض تجزیہ نگار ایٹمی ہتھیاروں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کو ہتھیاروں کی دوڑ میں شریک ہونے کے بجائے یہ رقم اپنے عوام اور ملک کی خوشحالی پر خرچ کرنا چاہیے۔ ان کی بات اپنی جگہ درست مگر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایٹمی ہتھیار دونوں ممالک کے درمیان جنگ روکنے کا واحد ذریعہ بن چکے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک خطے میں دیرپا امن اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے باہمی تنازعات کو دھمکیاں دینے کے بجائے مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی کوشش کریں۔
یہی وہ واحد راستہ ہے جو اس خطے میں امن لا سکتا ہے۔اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی حکمرانوں کا جنگی جنون روز بروز بڑھتا جا رہا اور وہ خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے روایتی اور جوہری ہتھیاروں کے انبار لگاتے چلے جا رہے ہیں' اس صورت حال پر پاکستان کی تشویش بالکل بجا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے اس منفی رویے کے باعث پورے خطے کا امن خطرے میں پڑتا دکھائی دیتا ہے۔
بھارت کے اس جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے جواب میں پاکستان بھی کم از کم ایٹمی صلاحیت رکھنے پر مجبور ہے تاکہ اس کی سلامتی اور بقا پر آنچ نہ آنے پائے۔ بھارت سمیت دیگر ممالک کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تاکہ اس پر دباؤ بڑھا کر ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیا جائے مگر پاکستان پوری دنیا پر یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ ایک ایٹمی ملک ہونے کے ناتے اپنی تمام ذمے داریاں بااحسن پوری کر رہا ہے اور اس کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اس نے اس کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کر رکھے ہیں اس لیے اس کے ایٹمی پروگرام کے خلاف چلائی جانے والی کوئی بھی پروپیگنڈا مہم بے معنی ہے ۔
اگرچہ پاکستان نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے لیکن وہ ایک ذمے دار ملک ہونے کے ناتے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے تمام عالمی معاہدوں کی پاسداری کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ سمیت ایٹمی صنعت کے تمام معاہدوں میں شامل ہونے کے لیے تمام تقاضے پورے کرتا ہے۔
اجلاس میں وزیر دفاع، وزیر خزانہ، وزیر داخلہ، مشیر برائے امور خارجہ، معاون خصوصی برائے امور خارجہ، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، تینوںمسلح افواج کے سربراہان اور ایس پی ڈی کے ڈائریکٹر جنرل سمیت دیگر سینئر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے شرکاء نے عالمی اور علاقائی سلامتی کے ماحول کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے علاقے میں روایتی اور جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں مسلسل اضافے کا نوٹس لیا اور اس کے خطے کے امن و استحکام پر مرتب ہونے والے مضراثرات پر تشویش کا اظہار کیا۔نیشنل کمانڈاینڈ کنٹرول اتھارٹی نے ملکی سلامتی کو لاحق خطرات کا جواب دینے کے لیے ہتھیاروں کی دوڑ میں شامل ہوئے بغیر تمام تر اقدامات کرنے اور کم از کم ایٹمی ڈیٹرنس کی پالیسی کے تحت ''فل اسپیکٹرم ڈیٹرنس'' برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات کا تفصیلی جائزہ لینے کے بعد جوہری ہتھیاروں اور ایٹمی تنصیبات کے لیے اقدامات پر مکمل اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ سمیت ایٹمی صنعت کے تمام معاہدوں میں شامل ہونے کے لیے تمام تقاضے پورے کرتا ہے۔ اجلاس میں مختلف میزائلوں کے حالیہ کامیاب تجربات پر سائنسدانوں اور انجینئرز کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو خراج تحسین اور مبارکباد پیش کی گئی۔
جنوبی ایشیا کے خطے میں پاکستان اور بھارت دونوں ایک دوسرے کے بڑے حریف ہیں' دونوں کے درمیان موجود باہمی تنازعات پر جنگیں ہو چکی ہیں۔ دوستانہ ماحول پیداکرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود کشیدگی کی فضا اب بھی موجود ہے جس کا اظہار کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری پر بھارت کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری سے ہوتا رہتا ہے۔
چونکہ اب دونوں ممالک کے پاس جوہری صلاحیت کے ساتھ ساتھ جدید ترین میزائل اور مہلک ہتھیار موجود ہیں اس لیے سرحدوں پر ہونے والی فائرنگ کے باوجود دونوں کے درمیان جنگ کی نوبت نہیں آتی کیونکہ دونوں ممالک کو اس حقیقت کا بخوبی ادراک ہے کہ اگر بات بڑھتے بڑھتے جنگ تک آ پہنچی اور کسی ایک فریق نے بھی ایٹمی ہتھیار اور میزائل چلانے میں پہل کر دی تو پھر اس خطے میں ہونے والی تباہی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، اس جنگ میں نہ کوئی فاتح ہو گا اور نہ مفتوح بس ہر طرف تباہی اور بربادی کے مناظر ہی دکھائی دیں گے اور عشروں تک یہاں باقی ماندہ زندگی سسکتی رہے گی۔
بعض تجزیہ نگار ایٹمی ہتھیاروں پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ دونوں ممالک کو ہتھیاروں کی دوڑ میں شریک ہونے کے بجائے یہ رقم اپنے عوام اور ملک کی خوشحالی پر خرچ کرنا چاہیے۔ ان کی بات اپنی جگہ درست مگر اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایٹمی ہتھیار دونوں ممالک کے درمیان جنگ روکنے کا واحد ذریعہ بن چکے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ دونوں ممالک خطے میں دیرپا امن اور خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے باہمی تنازعات کو دھمکیاں دینے کے بجائے مذاکرات کی میز پر حل کرنے کی کوشش کریں۔
یہی وہ واحد راستہ ہے جو اس خطے میں امن لا سکتا ہے۔اس حقیقت کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ بھارتی حکمرانوں کا جنگی جنون روز بروز بڑھتا جا رہا اور وہ خطے میں اپنی بالادستی قائم کرنے کے لیے روایتی اور جوہری ہتھیاروں کے انبار لگاتے چلے جا رہے ہیں' اس صورت حال پر پاکستان کی تشویش بالکل بجا ہے کہ بھارتی حکمرانوں کے اس منفی رویے کے باعث پورے خطے کا امن خطرے میں پڑتا دکھائی دیتا ہے۔
بھارت کے اس جنگی جنون کو دیکھتے ہوئے جواب میں پاکستان بھی کم از کم ایٹمی صلاحیت رکھنے پر مجبور ہے تاکہ اس کی سلامتی اور بقا پر آنچ نہ آنے پائے۔ بھارت سمیت دیگر ممالک کی جانب سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف پروپیگنڈا کیا جاتا ہے تاکہ اس پر دباؤ بڑھا کر ایٹمی پروگرام رول بیک کر دیا جائے مگر پاکستان پوری دنیا پر یہ واضح کر چکا ہے کہ وہ ایک ایٹمی ملک ہونے کے ناتے اپنی تمام ذمے داریاں بااحسن پوری کر رہا ہے اور اس کا ایٹمی پروگرام مکمل طور پر محفوظ ہاتھوں میں ہے اور اس نے اس کے تحفظ کے لیے بھرپور اقدامات کر رکھے ہیں اس لیے اس کے ایٹمی پروگرام کے خلاف چلائی جانے والی کوئی بھی پروپیگنڈا مہم بے معنی ہے ۔
اگرچہ پاکستان نے این پی ٹی پر دستخط نہیں کیے لیکن وہ ایک ذمے دار ملک ہونے کے ناتے ایٹمی عدم پھیلاؤ کے تمام عالمی معاہدوں کی پاسداری کر رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے اجلاس میں اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا گیا کہ پاکستان نیوکلیئر سپلائرز گروپ سمیت ایٹمی صنعت کے تمام معاہدوں میں شامل ہونے کے لیے تمام تقاضے پورے کرتا ہے۔