انوکھی جمہوریت
’’انسان آزاد پیدا ہوا مگر وہ پا بہ زنجیر ہے‘‘ یہ جملہ ہے 18 ویں صدی عیسوی کے ابتدائی ادوار کے فلسفی روسو کا ہے۔
''انسان آزاد پیدا ہوا مگر وہ پا بہ زنجیر ہے'' یہ جملہ ہے 18 ویں صدی عیسوی کے ابتدائی ادوار کے فلسفی روسو کا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے 500 برس قبل بھی یونان میں آزادی کے آثار ملتے ہیں۔ سولون (Solon) نے حضرت عیسیٰؑ کی پیدائش سے تقریباً 450 سال پہلے اخلاقیات کے اصول، امرا اور عام درمیانی شخص کے لیے وضع کیے اور اصلاحات کو ترتیب دیتے رہے۔ہر دور میں انسان کے اجتماعی شعور میں ترقی ہوتی گئی۔
گو انسانی خونیں معرکوں نے تہذیب کو داغدار بنایا۔ ہندوستان کی قدیم تاریخ میں پنچایتی نظام کے شواہد 6000 برس قبل مسیح میں نظر آتے ہیں، مگر آج جو بھی عام انسان کو تحفظ حاصل ہے پہلے کبھی نہ تھا۔ ٹیمپل یونیورسٹیوں کا بھی تذکرہ شمالی امریکا میں ملتا رہا ہے۔ اٹھارویں صدی کے ابتدائی دور میں انسانی غلامی کے دور کی سختیوں کی اصلاحات اور اس سے بھی قبل اسلام کی آمد آمد اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک اور ان کی آزادی پر اجر کی عملی مثالیں شروع ہو چکی تھیں۔ جنگ اور امن کی حالتیں اور اصول وضع ہو چکے تھے اور حکومت کرنے کے طریقے، جنگ اور صلح کے اصول طے کیے جا چکے تھے۔
حکمرانی کے لیے عام آدمی نہ سہی صاحب الرائے یعنی جو شخص شعور اور سیاسی معاملات میں علم رکھتا ہے، اس کی رائے۔ عام، کم فہم، لاعلم، آدمی تو درحقیقت کسی کے کہنے پر رائے دیتا ہے لہٰذا اس کی رائے خود اپنی رائے نہیں ہوتی ہے، وہ ہمنوا کی رائے پر چلتا ہے۔ عام آدمی کی رائے کا احترام کرنا اور خاص آدمی کی رائے کا احترام اگر برابر ہے تو پھر ایک خاص آدمی کی حق تلفی کے مترادف ہے۔
مگر خاص آدمی خود پیچھے ہٹ گیا ہے اور عالموں نے خود اس پر اجماع کر لیا ہے۔ اس لیے ہر آدمی کا ووٹ برابر ہے۔ مگر یہ جمہوریت کی منزل آخر نہیں اسی لیے کمیونسٹ یا سوشلسٹ نظام میں پنچایت کا دوسرا متبادل طریقہ رائج ہے، جس کو یکسر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ فرانس میں 1807ء میں غلامی کے خلاف پہلی بار ایک قرارداد منظور ہوئی، نیوزی لینڈ میں 1878ء میں پہلی بار عورتوں کے حقوق کو منظور کیا گیا۔
مگر اصولوں کی خلاف ورزیاں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ ایک حکومت اپنی ساخت کا نظام دوسرے ملک پر تھوپنا چاہتی ہے، مثلاً بش ڈاکٹرائن (Bush Doctrine) رجیم چینج (Regime Change) جیسا کہ عراق، لیبیا، تیونس میں ہوا اور شام میں ہوتے ہوتے رہ گیا، مگر غلط چیزوں کو دوام حاصل نہ ہوا۔
خود برطانیہ نے غلط کہہ کر رد کر دیا، جیسا کہ ٹونی بلیئر نے غلطی کا اعتراف کیا۔1917ء کے انقلاب روس نے اس جمہوریت میں نئی جہتیں پیدا کیں، یہ مزدور، کسان اور پسماندہ طبقات کا انقلاب تھا۔ اس انقلاب نے دنیا کو سرمایہ دار جمہوریت اور پرولتاریہ جمہوریت یعنی پسماندہ طبقات کی جمہوریت کی دو شکلیں عطا کیں۔دنیا دو دھڑوں میں تقسیم ہوگئی معاہدہ وارسا اور نیٹو معاہدہ۔ وارسا تو ختم ہوا مگر معاہدہ نیٹو ہنوز باقی ہے۔
دوسرا حصہ اب نئی شکل میں موجود ہے۔ 1940ء کے بعد آزاد ہونے والی ریاستیں بھی دو شکلوں میں جمہوریت کو لے کر نکلیں۔ بھارت اور پاکستان چونکہ برطانیہ عظمیٰ کی نو آبادی تھی اور جدوجہد کے آئینی طریقے سے آزاد ہوئی۔ اس لیے یہ اپنے آبائی طریقے یعنی پارلیمانی طرز پر آزاد ہوئے اور آج تک ان کا طریقہ کار پارلیمانی جمہوریت ہے۔ 1949ء میں چین چونکہ بہ زور شمشیر ماؤزے تنگ کی قیادت اور جوزف اسٹالن کی حمایت سے عوامی جمہوری انقلاب کے طرز پر آزاد ہوا، یہاں کچی آبادیاں اور ان کے مقابل بلند بالا بلڈنگیں نہیں ہیں، کیوبا شمالی کوریا اور دیگر ممالک بھی اسی طرز پر ہیں۔
انقلاب ثور نور کے بانی محمد ترہ کئی افغانستان میں ناکام ہوئے، جب کہ آیت اللہ خمینی کا انقلاب ایران کامیاب رہا جس کو انھوں نے اسلامی انقلاب کہا۔ اسی انقلاب کے تسلسل سے امریکا اور ایران کی رنجش بڑھتی گئی اور اسرائیل سے بھی کافی تلخ تعلقات رہے۔ یہ نہ سوشلسٹ انقلاب تھا اور نہ سرمایہ دارانہ، یہ ایک عوامی رفاہی انقلاب تھا، جو بین بین ہے۔ ان کے ایک صدر احمدی نژاد نے ملک میں تمام ساکنان کو مالک مکان بنا دیا، 30، 35 اور 25 سال کی آسان اقساط پر فلیٹ کے قرضے تہران میں اور چھوٹے مکانات کے قرض۔ جب کہ پاکستان میں اور بھارت میں کرایہ داروں کی زندگی کافی تلخ ہے۔ بڑے شہروں میں تقریباً 35 فیصد لوگ کرائے کے مکانوں میں زندگی گزار رہے ہیں اور اسٹیٹ ایجنسی کا کاروبار زور و شور پر ہے، بمبئی اور کراچی میں لوگوں کی نسل در نسل کرائے کے مکانوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
پاکستانی جمہوریت ایک اور وجہ سے بد سے بدتر ہے کہ پاکستان میں مزدوروں کے ساتھ جو سلوک ہوا خصوصاً پی آئی اے کے ساتھ، اس کی مثال دنیا میں ناممکن ہے، چھپ کے کارکنوں پر وار کیا گیا، کون قاتل تھا معلوم نہیں۔ اختلاف اس بات پر ہوا کہ حکومتی ایئرلائن کو نجی بنایا جائے، کیونکہ وہ منافع بخش نہیں اور نہ بنائی جا سکتی ہے، پھر بھی قابل فروخت ہے۔ جو چیز کوئی خریدار اپنے لیے پسند کر رہا ہے اس کا مطلب وہ منافع بخش ہو سکتی ہے۔
مگر ملک کے تمام مستحکم ادارے فروخت کیے جا رہے ہیں۔ کیونکہ ان کا انتظامی ڈھانچہ درست نہیں اور حکومت کی بے جا مداخلت ہے۔ اسٹیل مل خسارہ میں چل رہی ہے اور اب اس کے ملازمین تنخواہ سے محروم ہو رہے ہیں۔ وجہ نہ پروڈکشن ہے اور نہ سیلز ہے اور محض اندرونی خرد برد۔ پاکستان کے لیڈران درحقیقت کوئی استعداد نہیں رکھتے، محض پیسہ لوٹنے کے عادی ہیں۔ اسی لیے ان پر بار بار مداخلت کرنی پڑتی ہے۔
ہر لیڈر اپنے چہیتوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کرتے ہیں پھر باقی ماندہ کاروبار میں دنیا کے تمام حکمراں براہ راست کاروباری میں نہیں ہوتے، کیونکہ اس سے ان کی ساکھ متاثر ہوتی ہے، یہاں تک کہ پڑوسی ملک بھارت میں بھی نریندر مودی کو کھلے عام سرمایہ داروں نے سپورٹ کیا مگر وہ کسی بڑے ادارے کے سیٹھ نہ بنے۔ اس طرح وزارت کا تقدس پامال نہ ہوا، مگر وزارت کے ساتھ عوامی اقتدار کی ساکھ پاکستان کے حکمرانوں نے ڈبو رکھی ہے۔
ملک روز بروز آئی ایم ایف کے قرض کے تحت ڈوب رہا ہے اور اب تو کھل کر وہ ڈکٹیشن دے رہا ہے کہ تیل اس بھاؤ، نجکاری ان اداروں کی، سیاست میں کن لائنوں پر اور پاکستان کو جنگ کی لپیٹ میں لے جانے کے منصوبے، ایٹمی پالیسی پر بھی ڈکٹیشن۔ خارجہ پالیسی کا قلمدان نہ وزیراعظم کے پاس کلیتاً ہے اور نہ کلیتاً مشیر وزارت خارجہ کے پاس، لہٰذا پاکستان کی جمہوریت چوں چوں کا مربہ کی شکل اختیار کر چکی ہے۔
بیرونی دوروں کے اخراجات کے عوض ان سے حاصل شدہ فوائد ملک کو اب تک حاصل نہ ہو سکے۔ نہ انسانی حقوق، نہ تعلیم، صحت، روزگار، بے روزگاری سے لوٹ مار، صاحب ظرف کے لیے خودکشی آرام موت، ایک طرف وڈیرہ شاہی چور بازاری، مٹھی میں بھوک کی موت، یہ ہے انوکھی جمہوریت۔