سانپ سرگوشیوں میں کہتے ہیں

آستینوں کا انتظام کرو … لیجیے شعر مکمل ہوا، لیکن میرا مقصد محض شعر سنانا نہیں ہے

saifuzzaman1966@gmail.com

آستینوں کا انتظام کرو ... لیجیے شعر مکمل ہوا، لیکن میرا مقصد محض شعر سنانا نہیں ہے، بلکہ میری تحریرکا عنوان ملک کے موجودہ حالات کا آئینہ دار ہے۔ مثلاً میں اپنے مسلسل دوکالمز سے اس حقیقت پر مصر ہوں اور میرا یقین نجانے کیوں کامل ہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری جیسے اسٹیک ہولڈرز خطے میں گیم چینجر کا نام دیتے ہیں۔ واقعی گیم چینجر ہوسکتا ہے لیکن Change کس کے حق میں ہوگی۔

کس کے خلاف؟ ابھی چند روز قبل متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے اپنے ایک اعلامیے میں عوام سے صرف 15 روزکا راشن اکٹھا کرنے کی اپیل کی تھی وجہ یہ انھوں نے پیش آمدہ ملکی حالات کو قرار دیا۔ یعنی ان کے بقول کچھ نہ کچھ ایسا ہونے والا ہے جس کے ہونے پر ایک عام آدمی گھر کا راشن لینے کے لیے قریب کی دکان تک نہیں جاسکے گا۔

اگرچہ MQM سے ایسے ہر بیان کی توقع بڑی آسانی سے کی جاسکتی ہے جو عام فہم نہ ہو بلکہ سر پر سے گزر جانے والا ہو، لیکن موجودہ اندرونی و بیرونی حالات کے پس منظر میں ان کے بیان کو اہمیت دیتا ہوں اور ان کی پارٹی پوزیشن، ان کے منشور، ان کی وفاداریوں نے ان کے بیان کو میرے نزدیک زیادہ اہم بنادیا۔ بھئی Big Boss کے فارن آفس سے کوئی پالیسی بیان آئے یا 9 زیرو سے فرق مقام کا ہوسکتا ہے متن کا نہیں۔ لہٰذا کراچی میں پہلے سے جاری آپریشن میں یکدم تیزی، وجہ کس قدر صاف ہے ممکن ہے عوام الناس کا بڑا طبقہ سمجھے لیکن اندر حویلی خاص میں تو سب سمجھتے ہیں۔ گویا

میں پرانی حویلی کا پردہ مجھے

کچھ کہا یاد ہے، کچھ سنا یاد ہے

ادھر حکومت حاضرہ احتساب کے ادارے NAB کی کارکردگی سے مطمئن نہیں۔ وزیراعظم کے نزدیک NAB کا ادارہ ایسی کوششوں میں مصروف ہے جس کا خاطر خواہ نتیجہ نہ ماضی میں برآمد ہوسکا نہ مستقبل میں اس کا امکان ہے۔ لہٰذا موجودہ حکومت اسمبلی میں ایک بل یا قرارداد پیش کرنے کا اہتمام کرتی نظر آرہی ہے جس میں NAB کے اختیارات کو محدود کردیا جائے یا کوئی اور کمیٹی جو اس پر نگراں ہو۔


قارئین کرام اس معاملے پر میڈیا میں اس قدر بحث ہوچکی اور اس قدر پہلوؤں سے ہوچکی کہ راقم کی رائے محض مکرر ہوگئی لیکن ہمیں بھی ضد ہے اور بچپن سے ہے کہ لاکھ کوئی عالم ہو۔علمیت جھاڑ کر ہم بھی رہیںگے۔ چنانچہ میری رائے میں وزیراعظم اگر NAB کو مکمل آزادی سے کام کرنے دیں تو بہتر ہوگا چلیے میں ان کی سیاسی معاونت بھی کرتا چلوں در اصل ان کے NAB سے متعلق بیان سے ملک بھر میں یہ تاثر عام ہوا جیسے وہ بے ایمانوں یا بے ایمانی کے خلاف احتساب نہیں چاہتے۔

دیکھیے آپ لاکھ تاویلیں پیش کریں یا آپ کے وزرا کہ آپ احتساب کے خلاف نہیں بلکہ معاملے کو ترتیب میں لانا چاہتے ہیں یعنی ایک گرفت کرے دوسرا تفتیش، لیکن جو عام رائے عوام کی ہے جو آواز خلق خدا میں گونجی وہ تو یہی ہے کہ آپ انصاف نہیں چاہتے آپ مجرمین کا جو لوٹ کر کھا گئے سارا ملک تحفظ چاہتے ہیں یا آپ کی خواہش ہے کہ ان سے نرمی برتی جائے۔

محترم حاکم وقت، کیا یہ درست ہے؟ ملک کی خون تھوکتی ہوئی عوام، فاقوں سے مرتی ہوئی عوام کا پیسا انھیں واپس دلانے کی تو آپ نے انتخابی جلسوں میں قسمیں کھائی تھیں۔ بڑے وعدے کیے تھے کہ آپ سوئٹرز لینڈ کے بینکوں میں جمع عوام کی خون پسینے کی کمائی ملک میں واپس لائیںگے، خیر وہ تو واپس نہیں لائے بلکہ ان سب سیاسی جماعتوں کے حلیف ہیں، ان سیاست دانوں کے قریب ہیں جن کے خلاف آپ نے 2013 کے الیکشن میں اپنی انتخابی مہم چلائی تھی لیکن جو پکڑ دھکڑ ایسے حضرات کی ہورہی ہے اسے تو ہونے دیں۔

یعنی جدھر دیکھتا ہوں ادھر تو ہی تو ہے۔ دولت کے K2 یا ہمالیہ پر نظر جائے تو چوٹی پر آپ تشریف فرما، بحیرہ عرب یا اٹلانٹک روشن کی سمت دیکھیں تو سطح سے گہرائی تک آپ ہی کے گوہر نایاب۔ کبھی تو جینے کا حق ہمیں بھی دیجیے۔ اگر آپ کو یاد نہ ہو تو میں دلادوں کہ ہم عام لوگ بھی اسی رب کی مخلوق ہیں جس نے آپ کو خلق کیا۔ قارئین کرام میں شاید موضوع سے ہٹ گیا وجہ وہ تکلیف رہی جو حکمرانوں کے نیب سے متعلق بیان کے بعد دل کو پہنچی۔ بہر حال آج ہمیں ملک میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ایک ایسی مضبوط اپوزیشن ہے جو خالص ہو۔

عوام کی خادم ہو، ملک سے مخلص ہو، میں اس معاملے میں اب عمران خان سے تقریباً مایوس ہوچکا کیوں کہ ایک انھیں چھوڑ کر ان کے گرد و پیش میں جو قیادت ہے وہ کسی بھی طور PTI نہیں بلکہ وہ سارے خواتین و حضرات تو PPP،PML(N)، ANP، JUI سے نکلے یا نکالے ہوئے ہیں اور کچھ تو PTI میں کلیدی عہدوں پر فائز ہوکر بھی اپنی سابقہ جماعتوں سے در پردہ رابطے میں ہیں۔ لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ PTI یا عمران خان اب کوئی متبادل قیادت ہیں۔

شاید یہی وجہ ہو کہ آج ملک کی کثیر الاستعداد لوگوں کے ہیرو جنرل راحیل شریف ہیں۔ جن کے بہادرانہ اقدامات کے باعث ملک میں کسی قدر امن بحال ہوا۔ دنیا بھر میں ملکی وقار میں اضافہ ہوا، سیاسی قیادت سے عوام کی مایوسی میں اضافہ ہورہاہے، دن بہ دن سال بہ سال بجلی کے وعدے، انرجی کے وعدے، مہنگائی ختم کرنے کے دعوے، روزگار اسکیمیں، سب صدا بہ صحرا صاف لگتا ہے کہ یہ حکومت میں آنے کا بس ایک راستہ تھا ، ایک نہ ختم ہونے والا کھیل جیسے پیپلزپارٹی ان دنوں کوئی ایسا راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔

کوئی ایسا نعرہ، ایک نیا جھوٹ، سفید جھوٹ لیکن چاندی سونے کے ورق سے مزین، جسے بول کر وہ آیندہ بھی اپنی حکومت سندھ کی حد تک تو بچالے اور زیادہ کرم ہوجائے تو مرکز میں بنالے اس جہد مسلسل میں ایک آدھ شہید بھی ہوجائے تو چلے گا۔ میں دیکھتا ہوں کہ سب ختم ہوگیا سول سوسائٹی، ادارے، عوامی طبقات، سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں، حب الوطنی، پاکستانیت، سب ختم۔ میں سوچتا ہوں کہ آخر تعمیر کہاں سے ہو،کیسے ہو اور اس پر آرمی چیف نے بھی کہہ دیا کہ وہ ایکسٹینشن نہیں لیںگے۔
Load Next Story