کمال کی باتیں
’’کمال کی باتیں‘‘ شخصی خاکے ہیں لیکن اس سے زیادہ یہ کمال احمد رضوی کی اپنی زندگی کی کہانی ہے
''کمال کی باتیں'' شخصی خاکے ہیں لیکن اس سے زیادہ یہ کمال احمد رضوی کی اپنی زندگی کی کہانی ہے بکھری یادوں کی صورت میں۔ اگر کچھ رہ گیا تھا تو وہ عشرت جہاں رضوی نے ''کمال کے ساتھ'' کے عنوان سے اپنی تحریر میں پورا کردیا ہے۔ کمال کے ساتھ انھوں نے جو اکتیس سال گزارے ان کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتی ہیں ''کمال کی شخصیت کے اتنے رنگ تھے کہ ان کو سمجھنے کے لیے شاید اتنے ہی سال درکار تھے۔'' کمال کی زندگی کے یہ تمام رنگ ان کی اپنی نوشتہ ''کمال کی باتیں'' میں نظر آتے ہیں۔ عشرت جہاں لکھتی ہیں ''عمدہ شراب، عمدہ کھانا، دوستوں کی محفل بہت پسند تھی۔ شاید اسی لیے ان کے دوستوں کی بڑی تعداد ان کے اردگرد موجود رہتی تھی۔''
ان ہی دوستوں کا ذکر اس کتاب میں ہے مگر بقول ڈاکٹر رضا کاظمی جہاں ان کے ممدوحین کی شخصیت زندہ ہوکر ہماری آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتی ہے، خود ان کی شخصیت اظہار پانے لگتی ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ ان کا کوئی بھی ممدوح بہت بلندی سے انھیں نہیں دیکھ پاتا۔
کمال احمد رضوی نے سب سے پہلے جس شخصیت کا ذکر کیا ہے وہ فیض صاحب ہیں۔ کمال کو فیض صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع اس وقت ملا جب فیض صاحب آرٹس کونسل میں گئے اور انھوں نے کمال کا رشتہ تھیٹر سے استوار کیا۔ کمال لکھتے ہیں ''پھر میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اس راہ کی رسوائیاں، مشکلات اور آزار اپنی جگہ، لیکن اس کے لیے جس پایہ استقامت کی ضرورت ہوتی ہے وہ کہیں سے کمزور نہیں ہوئی۔''
الحمرا کے دور میں فیض سے قربت ختم ہوئی، الحمرا بھی ان کے جانے کے بعد وہ الحمرا نہیں رہا جب فیض صاحب وہاں تھے۔ کمال لکھتے ہیں ''اس اثنا میں میری زندگی میں بھی کئی موڑ آئے۔ ٹیلی ویژن کی برکتیں، ایک شادی کے بعد دوسری شادی اور پھر لندن کے دن اور لندن کی راتیں۔ سب کے جی بھر کے مزے لوٹے۔ دوسری شادی کے بعد پھر کراچی میں فیض سے ان سے ملاقات ہوئی۔''
کمال فیض صاحب سے اپنی ایک یادگار ملاقات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ لاہور سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ کمال نے انھیں کھانے پر مدعو کیا۔ لکھتے ہیں ''فیض صاحب فلیٹ میں داخل ہوئے تو اس وقت سب دوست جمع ہوچکے تھے۔ پوچھا: کیا پئیں گے۔ بولے: مجھے ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔ میں نے کہا: اس ڈاکٹر کے دل سے خوف خدا اٹھ گیا ہے جو منع کر رہا ہے۔''
کمال کی منٹو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ لکھتے ہیں ''میں نے محسوس کیا وہ بلاضرورت بات نہیں کرتے، گپ لگانا، کسی کی برائی، اچھائی اور تنقید ان کے ہاں عنقا تھی۔ میں خود کو ان پر مسلط کرنے سے کتراتا تھا، کیوں کہ میرے دل میں ان کے لیے ادب کے علاوہ ایک قسم کا خوف بھی لگا رہتا تھا کہ وہ مجھ سے چڑ نہ جائیں یا جو تھوڑی بہت صاحب سلامت ہوگئی ہے وہ بھی ہاتھ سے نہ جاتی رہے۔''
کمال احمد رضوی کی نظر میں ڈی ایچ لارنس، سمرسٹ ماہم، منٹو صاحب سے بڑے نہیں تھے۔ ان ہی کے قد کے لوگ تھے۔ لکھتے ہیں ''اس زاویہ سے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمیں شرم آنی چاہیے کہ ہم نے منٹو صاحب جیسے نابغہ روزگار ادیب کو ان کے اصل کام سے ہٹا کر بوتل کے واسطے وارداتوں کے لیے چھوڑ دیا۔''
کمال احمد رضوی نے احمد پرویز کا ذکر ''نامہربان یادوں'' سے کیا ہے۔ ان دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ دو اور مصور شیخ صفدر اور انور جلال شیزا سے بھی کمال کا یارانہ تھا۔ کمال لکھتے ہیں ''ایسا نہیں تھا کہ میری اور احمد پرویز کی آپس میں لڑائی نہیں ہوتی تھی۔ ہم اکثر ایک دوسرے سے کئی بار نہ صرف زبانی کلامی نبرد آزما ہوتے بلکہ معاملہ گریبانوں تک پہنچ جاتا تھا۔ ہفتوں ہماری بول چال بند رہتی تھی لیکن سوتے ایک ہی بستر میں تھے اور کھاتے بھی اکٹھے ہی تھے۔ اگر کبھی گفتگو کی بہت ضرورت محسوس ہوتی تو ہم نوکر کے ذریعے ایک دوسرے سے پیغام رسانی کرلیتے تھے۔'' یہ ان دنوں کی بات ہے جب احمد پرویز کمال کے ساتھ آکر رہنے لگے تھے۔
کمال نے حمید کاشمیری کی شخصیت اور ان سے وابستہ یادوں کو ایک جملے میں سمیٹ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''کچھ قناعت کے دھنی ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمارا دامن تو خوشیوں سے بھر دیتے ہیں مگر ان کا دامن ہمیشہ خالی رہا۔''
اپنے مصور دوستوں کا جن میں معین نجمی کے علاوہ شاکر علی، انور جلال شیزا، کولن ڈیوڈ، علی امام، ناہید رضا بھی شامل تھے، ذکر کرتے ہوئے کمال احمد رضوی لکھتے ہیں ''جب معین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو اس سے اتنی قربت پیدا ہوگئی کہ صبح، دوپہر، شام اس کے ساتھ رہتا بلکہ بعض دفعہ راتوں کو الحمرا کی پرانی عمارت کی چھت پر چاندنی رات میں بھی ہم مرتضیٰ بشیر کے ساتھ اپنا اپنا کوٹہ لے کر بیٹھ جاتے اور سب کچھ ختم کرنے کے بعد اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوتے۔'' کمال بتاتے ہیں اس قربت کے بعد ہم ایک دوسرے کے رازداں ہوگئے اور اپنے سربستہ راز بھی ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
صفدر میر سے کمال کی کچھ تلخ اور کچھ خوشگوار دونوں طرح کی یادیں وابستہ ہیں وہ لکھتے ہیں ''صفدر صاحب مرنجان مرنج طبیعت کے آدمی تھے۔ گھڑی میں ماشہ گھڑی میں تولہ۔ ان کی خوبیوں میں سے ان کی برائیوں کو الگ کرنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا ان کی برائیوں میں سے ان کی خوبیاں الگ کرنا۔'' تاہم وہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی ذہنی اور فنی تربیت میں صفدر صاحب کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ ان کے آگے بڑھانے میں ان کا حصہ تھا۔
سبط حسن نے کمال احمد رضوی کو ڈاکٹر عبدالوحید سے ملوایا اور کمال ان کے بچوں کے رسالے ''تعلیم و تربیت'' کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔ مگر ان کا نام رسالہ پر بطور ایڈیٹر نہیں چھپتا تھا۔ کمال اس سے خوش نہ تھے۔ پھر یہ ہوا کہ کمال تھیٹر کی دنیا میں واپس آگئے۔ لکھتے ہیں ''میں تو اس پبلشنگ ادارے کی پتلی گلی سے نکل گیا۔ لیکن یاد نہیں سبط حسن وہاں مزید اور کتنا خوار ہوئے۔ پھر تھیٹر کی راہ نوردی ختم ہوئی تو میں ٹیلی ویژن کی نذر ہوگیا۔ ٹیلی ویژن پر مجھے خلاف توقع ایسی مقبولیت حاصل ہوئی جس نے میرے لیے شہرت، دولت کا بھی دروازہ کھول دیا۔ اب پاکستان میں کوئی بشر شاید ہی ایسا ہو جو کمال احمد رضوی کو نہ جانتا ہو۔''
ستارہ کانپوری ایک پلے بیک سنگر تھیں۔ ان سے کمال احمد رضوی کی ملاقات کی کہانی بڑی رومانٹک ہے۔ یہ جب چھوٹے سے تھے تو انھوں نے اپنے ماموں کے گرام فون پر ایک گیت سنا۔ یہ ایسا درد بھرا گیت تھا کہ ان کے اندر اٹک گیا۔ یہ گیت جس کے بول تھے ''من کاہے گھبرائے۔'' یہ ستارہ کانپوری نے فلم ''من کی جیت'' کے لیے گایا تھا۔
کمال لکھتے ہیں ''میں گاؤں میں آکر جب یہ گیت دوستوں کو سناتا تھا تو وہ بہت محظوظ ہوتے تھے اور شاید اداس بھی ہوجاتے تھے۔'' کمال نے یہ فلم اس وقت نہیں دیکھی تھی۔ بعد میں جب یہ کراچی آئے تو یہاں دیکھی۔ لکھتے ہیں ''وہ تمام رات مجھے یاد ہے کہ میں بستر پر لیٹا اپنے ذہن کی اسکرین پر بار بار چلا کر یہ فلم دیکھتا رہا اور اس روز سے ستارہ بائی کا عشق کچھ دگنا جادو جگا گیا۔'' پھر یہ ہوا کہ جب کمال لاہور میں تھے تو ستارہ کانپوری وہاں آئیں۔ انھیں معلوم ہوا۔ یہ ان سے ملنے پہنچ گئے۔ ملاقات ہوئی۔ انھوں نے سارا احوال سنایا تو ستارہ اداس لہجے میں کہنے لگیں۔ ''میں تو ایک بھولی بسری داستان ہوں۔'' پھر انھوں نے کمال سے پوچھا، تمہیں میرا کون سا گیت پسند ہے۔
انھوں نے کہا ''نگری میری کب تک یوں ہی برباد رہے گی۔'' یہ گیت جوش ملیح آبادی نے لکھا تھا۔ کمال کی فرمائش پر ستارہ نے گیت گنگنایا۔ برسوں کا گایا ہوا گیت پھر زندہ ہوگیا، کچھ دیر فضا میں گونجا اور پھر کمال کی یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔''کمال کی باتیں'' کمال احمد رضوی کی بے لاگ تحریریں ہیں جن کی اشاعت میں راشد اشرف کا بڑا ہاتھ ہے۔
انھوں نے کمال احمد رضوی کو اپنی یادیں تحریر کرنے اور انھیں کتابی صورت میں شایع کرنے پر آمادہ کیا۔ راشد بتاتے ہیں کہ اس کتاب کا عنوان ''کمال کی باتیں'' کمال اپنی زندگی ہی میں طے کرگئے تھے۔ راشد نے ان کی بیگم عشرت جہاں سے کتاب کے لیے مضمون لکھوایا۔ خود بھی ان پر لکھا، انٹرویو کیا جو اس کتاب میں شامل ہے۔
ان ہی دوستوں کا ذکر اس کتاب میں ہے مگر بقول ڈاکٹر رضا کاظمی جہاں ان کے ممدوحین کی شخصیت زندہ ہوکر ہماری آنکھوں کے سامنے لہرانے لگتی ہے، خود ان کی شخصیت اظہار پانے لگتی ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ ان کا کوئی بھی ممدوح بہت بلندی سے انھیں نہیں دیکھ پاتا۔
کمال احمد رضوی نے سب سے پہلے جس شخصیت کا ذکر کیا ہے وہ فیض صاحب ہیں۔ کمال کو فیض صاحب کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع اس وقت ملا جب فیض صاحب آرٹس کونسل میں گئے اور انھوں نے کمال کا رشتہ تھیٹر سے استوار کیا۔ کمال لکھتے ہیں ''پھر میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔ اس راہ کی رسوائیاں، مشکلات اور آزار اپنی جگہ، لیکن اس کے لیے جس پایہ استقامت کی ضرورت ہوتی ہے وہ کہیں سے کمزور نہیں ہوئی۔''
الحمرا کے دور میں فیض سے قربت ختم ہوئی، الحمرا بھی ان کے جانے کے بعد وہ الحمرا نہیں رہا جب فیض صاحب وہاں تھے۔ کمال لکھتے ہیں ''اس اثنا میں میری زندگی میں بھی کئی موڑ آئے۔ ٹیلی ویژن کی برکتیں، ایک شادی کے بعد دوسری شادی اور پھر لندن کے دن اور لندن کی راتیں۔ سب کے جی بھر کے مزے لوٹے۔ دوسری شادی کے بعد پھر کراچی میں فیض سے ان سے ملاقات ہوئی۔''
کمال فیض صاحب سے اپنی ایک یادگار ملاقات کا ذکر کرتے ہیں۔ وہ لاہور سے کراچی آئے ہوئے تھے۔ کمال نے انھیں کھانے پر مدعو کیا۔ لکھتے ہیں ''فیض صاحب فلیٹ میں داخل ہوئے تو اس وقت سب دوست جمع ہوچکے تھے۔ پوچھا: کیا پئیں گے۔ بولے: مجھے ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔ میں نے کہا: اس ڈاکٹر کے دل سے خوف خدا اٹھ گیا ہے جو منع کر رہا ہے۔''
کمال کی منٹو صاحب سے ملاقات ہوئی۔ لکھتے ہیں ''میں نے محسوس کیا وہ بلاضرورت بات نہیں کرتے، گپ لگانا، کسی کی برائی، اچھائی اور تنقید ان کے ہاں عنقا تھی۔ میں خود کو ان پر مسلط کرنے سے کتراتا تھا، کیوں کہ میرے دل میں ان کے لیے ادب کے علاوہ ایک قسم کا خوف بھی لگا رہتا تھا کہ وہ مجھ سے چڑ نہ جائیں یا جو تھوڑی بہت صاحب سلامت ہوگئی ہے وہ بھی ہاتھ سے نہ جاتی رہے۔''
کمال احمد رضوی کی نظر میں ڈی ایچ لارنس، سمرسٹ ماہم، منٹو صاحب سے بڑے نہیں تھے۔ ان ہی کے قد کے لوگ تھے۔ لکھتے ہیں ''اس زاویہ سے میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ ہمیں شرم آنی چاہیے کہ ہم نے منٹو صاحب جیسے نابغہ روزگار ادیب کو ان کے اصل کام سے ہٹا کر بوتل کے واسطے وارداتوں کے لیے چھوڑ دیا۔''
کمال احمد رضوی نے احمد پرویز کا ذکر ''نامہربان یادوں'' سے کیا ہے۔ ان دونوں میں بڑی دوستی تھی۔ دو اور مصور شیخ صفدر اور انور جلال شیزا سے بھی کمال کا یارانہ تھا۔ کمال لکھتے ہیں ''ایسا نہیں تھا کہ میری اور احمد پرویز کی آپس میں لڑائی نہیں ہوتی تھی۔ ہم اکثر ایک دوسرے سے کئی بار نہ صرف زبانی کلامی نبرد آزما ہوتے بلکہ معاملہ گریبانوں تک پہنچ جاتا تھا۔ ہفتوں ہماری بول چال بند رہتی تھی لیکن سوتے ایک ہی بستر میں تھے اور کھاتے بھی اکٹھے ہی تھے۔ اگر کبھی گفتگو کی بہت ضرورت محسوس ہوتی تو ہم نوکر کے ذریعے ایک دوسرے سے پیغام رسانی کرلیتے تھے۔'' یہ ان دنوں کی بات ہے جب احمد پرویز کمال کے ساتھ آکر رہنے لگے تھے۔
کمال نے حمید کاشمیری کی شخصیت اور ان سے وابستہ یادوں کو ایک جملے میں سمیٹ لیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ''کچھ قناعت کے دھنی ایسے بھی ہوتے ہیں جو ہمارا دامن تو خوشیوں سے بھر دیتے ہیں مگر ان کا دامن ہمیشہ خالی رہا۔''
اپنے مصور دوستوں کا جن میں معین نجمی کے علاوہ شاکر علی، انور جلال شیزا، کولن ڈیوڈ، علی امام، ناہید رضا بھی شامل تھے، ذکر کرتے ہوئے کمال احمد رضوی لکھتے ہیں ''جب معین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو اس سے اتنی قربت پیدا ہوگئی کہ صبح، دوپہر، شام اس کے ساتھ رہتا بلکہ بعض دفعہ راتوں کو الحمرا کی پرانی عمارت کی چھت پر چاندنی رات میں بھی ہم مرتضیٰ بشیر کے ساتھ اپنا اپنا کوٹہ لے کر بیٹھ جاتے اور سب کچھ ختم کرنے کے بعد اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوتے۔'' کمال بتاتے ہیں اس قربت کے بعد ہم ایک دوسرے کے رازداں ہوگئے اور اپنے سربستہ راز بھی ایک دوسرے کے ساتھ بانٹ لیتے تھے۔
صفدر میر سے کمال کی کچھ تلخ اور کچھ خوشگوار دونوں طرح کی یادیں وابستہ ہیں وہ لکھتے ہیں ''صفدر صاحب مرنجان مرنج طبیعت کے آدمی تھے۔ گھڑی میں ماشہ گھڑی میں تولہ۔ ان کی خوبیوں میں سے ان کی برائیوں کو الگ کرنا اتنا ہی مشکل تھا جتنا ان کی برائیوں میں سے ان کی خوبیاں الگ کرنا۔'' تاہم وہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ ان کی ذہنی اور فنی تربیت میں صفدر صاحب کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ ان کے آگے بڑھانے میں ان کا حصہ تھا۔
سبط حسن نے کمال احمد رضوی کو ڈاکٹر عبدالوحید سے ملوایا اور کمال ان کے بچوں کے رسالے ''تعلیم و تربیت'' کے ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔ مگر ان کا نام رسالہ پر بطور ایڈیٹر نہیں چھپتا تھا۔ کمال اس سے خوش نہ تھے۔ پھر یہ ہوا کہ کمال تھیٹر کی دنیا میں واپس آگئے۔ لکھتے ہیں ''میں تو اس پبلشنگ ادارے کی پتلی گلی سے نکل گیا۔ لیکن یاد نہیں سبط حسن وہاں مزید اور کتنا خوار ہوئے۔ پھر تھیٹر کی راہ نوردی ختم ہوئی تو میں ٹیلی ویژن کی نذر ہوگیا۔ ٹیلی ویژن پر مجھے خلاف توقع ایسی مقبولیت حاصل ہوئی جس نے میرے لیے شہرت، دولت کا بھی دروازہ کھول دیا۔ اب پاکستان میں کوئی بشر شاید ہی ایسا ہو جو کمال احمد رضوی کو نہ جانتا ہو۔''
ستارہ کانپوری ایک پلے بیک سنگر تھیں۔ ان سے کمال احمد رضوی کی ملاقات کی کہانی بڑی رومانٹک ہے۔ یہ جب چھوٹے سے تھے تو انھوں نے اپنے ماموں کے گرام فون پر ایک گیت سنا۔ یہ ایسا درد بھرا گیت تھا کہ ان کے اندر اٹک گیا۔ یہ گیت جس کے بول تھے ''من کاہے گھبرائے۔'' یہ ستارہ کانپوری نے فلم ''من کی جیت'' کے لیے گایا تھا۔
کمال لکھتے ہیں ''میں گاؤں میں آکر جب یہ گیت دوستوں کو سناتا تھا تو وہ بہت محظوظ ہوتے تھے اور شاید اداس بھی ہوجاتے تھے۔'' کمال نے یہ فلم اس وقت نہیں دیکھی تھی۔ بعد میں جب یہ کراچی آئے تو یہاں دیکھی۔ لکھتے ہیں ''وہ تمام رات مجھے یاد ہے کہ میں بستر پر لیٹا اپنے ذہن کی اسکرین پر بار بار چلا کر یہ فلم دیکھتا رہا اور اس روز سے ستارہ بائی کا عشق کچھ دگنا جادو جگا گیا۔'' پھر یہ ہوا کہ جب کمال لاہور میں تھے تو ستارہ کانپوری وہاں آئیں۔ انھیں معلوم ہوا۔ یہ ان سے ملنے پہنچ گئے۔ ملاقات ہوئی۔ انھوں نے سارا احوال سنایا تو ستارہ اداس لہجے میں کہنے لگیں۔ ''میں تو ایک بھولی بسری داستان ہوں۔'' پھر انھوں نے کمال سے پوچھا، تمہیں میرا کون سا گیت پسند ہے۔
انھوں نے کہا ''نگری میری کب تک یوں ہی برباد رہے گی۔'' یہ گیت جوش ملیح آبادی نے لکھا تھا۔ کمال کی فرمائش پر ستارہ نے گیت گنگنایا۔ برسوں کا گایا ہوا گیت پھر زندہ ہوگیا، کچھ دیر فضا میں گونجا اور پھر کمال کی یادوں میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔''کمال کی باتیں'' کمال احمد رضوی کی بے لاگ تحریریں ہیں جن کی اشاعت میں راشد اشرف کا بڑا ہاتھ ہے۔
انھوں نے کمال احمد رضوی کو اپنی یادیں تحریر کرنے اور انھیں کتابی صورت میں شایع کرنے پر آمادہ کیا۔ راشد بتاتے ہیں کہ اس کتاب کا عنوان ''کمال کی باتیں'' کمال اپنی زندگی ہی میں طے کرگئے تھے۔ راشد نے ان کی بیگم عشرت جہاں سے کتاب کے لیے مضمون لکھوایا۔ خود بھی ان پر لکھا، انٹرویو کیا جو اس کتاب میں شامل ہے۔