دریچۂ عالم امبرٹو ایکو
امبرٹو ایکو 19 فروری 2016 کو اس دنیا سے رخصت ہوا
امبرٹو ایکو (Umberto Eco) جب19 فروری 2016 کو اس دنیا سے رخصت ہوا، تو دنیا کے بڑے بڑے اخبارات نے عہد کے اس اہم ناول نگار، نقاد اور دانش ور کو خراج عقیدت پیش کیا۔ نیویارک ٹائمز نے لکھا کہ دو دنیاؤں کی جستجو کرنے والا مسافر ہمارے رخصت ہو گیا۔ امبرٹو ایکو اپنے پہلے ناول ''گلاب کا نام'' (The Name of Rose) کے حوالے سے جانا جاتا ہے، جو 1980 میں شائع ہوا، تب اس کی عمر اڑتالیس سال تھی۔ اس کا انگریزی ترجمہ 1983 میں ہوا اور اس کے ساتھ ہی امبرٹو ایکو کے عالمی سطح پر معروف ہونے کا آغاز ہوا۔
امبرٹو ایکو اطالوی فکشن اور دانش کی وہ آواز ہے، جسے آج کی عالمی صورتِ حال میں غور سے سنا جاتا ہے۔ اُس کے پہلے ناول کے حوالے سے لکھا گیا کہ یہ ناول دانشوری کے اسرار سے بھرا ہوا ہے، جس میں فکشن کی معنی پذیری، بائبل کا تجزیاتی مطالعہ، عہدِ وسطیٰ کے مطالعات اور ادبی تھیوری یک جا ہو گئے ہیں :
"The book is an intellectual mystery, combing semiotic in fiction, biblical analysis, medieval studies and literary theory."
امبرٹو ایکو کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے نہ صرف اٹلی کی ثقافت سے دنیا کو روشناس کرایا بلکہ اطالوی ثقافت کو تبدیل کر دیا، اطالوی ناول کی ساخت میں بنیادی تبدیلیاں کیں مثلاً، اُس کا پہلا ناول "The Name of Rose" کا بیانیہ اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ ناول اطالوی فضا میں وقوع پذیر ہوتا ہے، مرکزی کردار William of Baskerville، پراسرار طور پر قتل ہوئے کئی افراد کے بارے میں تفتیش کر رہا ہے۔ اس ناول نے دنیا بھر کے قارئین پر اپنے اثرات مرتب کیے اور پھر اس پر ایک عمدہ فلم بھی بنائی گئی، جس میں Sean Connery نے ولیم کا نہایت مشکل کردار بڑی مہارت سے کیا۔
امبرٹو نے ناول کے سادہ بیانیے کو پیچیدہ بیانیے سے بدل دیا۔ Guardian کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ لوگ سادہ چیزوں سے تھک چکے ہیں۔ وہ صحافت کی اس روش سے بھی بیزار تھا کہ بات کو سادہ انداز میں لوگوں تک پہنچایا جائے، اسی لیے اس کے ناول پیچیدہ بھی ہوتے ہیں اور ان میں فکری سوال بھی اٹھاتا ہے۔
امبرٹو ایکو نے اپنے پہلے ہی ناول میں یورپ کی ثقافتی اور دانش ورانہ ترقی کے بارے میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ نشأۃ ثانیہ کو جیسے ایک یورپی اور امریکی نہایت فخر سے پیش کرتا ہے تو کیا واقعی نشأۃ ثانیہ میں کوئی بہت اہم بات ہوئی جس نے اس کرۂ ارض پر انسانی ترقی کا رخ متعین کیا؟۔ ایکو اس حوالے سے اپنے واضح شکوک کا اظہار کرتا ہے اورسمجھتا ہے کہ نشأۃ ثانیہ میں انسانی وجود کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ ہوا ہے کہ وہ اپنی راہ سے ہٹ گیا۔
دنیا میں نشأۃ ثانیہ کو ایسا عہد مانا جاتا ہے، جب انسان نے الوہی ہدایت کے دائرے سے نکل کر اپنی عقل اور حسیات کو معیار بناکر معاملات و کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ایسا نہیں کہ ایکو مذہب پر یقین نہیں رکھتاتھا یا خدا کے وجود سے کائنات کی تفہیم کرناچاہتا ہے۔ اس جملے پر غور کریں تو خدا کے بارے میں اُس کے تصورات کو آسانی سے سمجھ میں آتے ہیں ''جب انسان کا خدا پر یقین ختم ہو جاتا ہے، تو ایسا نہیں کہ اُس کا کسی بات پر یقین نہیں رہتا، (بل کہ) وہ ہر بات پر یقین کرنے لگتا ہے۔''
"When men stop believing in God, it isn't that they then believe in nothing: They believe in everything."
امبرٹو ایکو اپنے اس ذہنی رویے کے ساتھ جب نشأۃ ثانیہ کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے تو ہمیں اُس کے سوال پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے ناولوں میں باربار عہد وسطیٰ کی جانب پلٹتا ہے اور اُس عہد کے انسان کے ذہن اور نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، جو نیا نیا الوہیت کے دائرے سے نکلا تھا اور اپنے اردگرد کی کائنات اور انسانی زندگی پر عقل اور حسی حوالوں سے غور کر رہا تھا۔
امبرٹو ایکو نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے ناول جیسی صنف کو اختیار کیا، اُس کے چھے ناول اب تک شایع ہو چکے ہیں :
The Name of Rose - 1980
Foucault's Pendulum - 1988
Baudolino - 1997
2004 -The Mysterious Flame of Queen Loana
-The Prague Cemitery 2010
2014 - Numero Zero
امبرٹو ایکو کے ناولوں پر بات کرنے والے نقادوں کے مطابق ہمیں اُس کے یہاں زبان اور علامتوں کا ماہرانہ استعمال ملتا ہے، وہ مختلف باتوں کو عجیب و غریب حوالوں سے استعمال کرتا ہے۔ اپنے ناولوں میں معمے کو مہارت سے استعمال کرتا ہے اور یوں اپنا بیانیہ خود تشکیل دیتا ہے، جس کی کوئی دوسری مثال کم از کم ہم عصر ادب میں دکھائی نہیں دیتی۔
امبرٹو ایکو جب برطانیہ میں اپنے ناول Numero Zero کی تعارفی تقریب کے لیے آیا تو اُس نے ادب کے حوالے سے ایک بہت دل چسپ نکتہ بیان کیا کہ ''حقیقی ادب ناکام لوگوں کے بارے میں ہوتا ہے (Real literature is about losers)۔ اپنے اس ناول میں بھی اس نے اِسی نکتے کو تخلیقی انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ عظیم لوگ کیوں سازشوں کا شکار ہوتے ہیں اور کبھی کام یابی حاصل نہیں کر پاتے۔ یہاں ہمیں ایکو پر قدیم یونانی فکر کے اثرات بھی دکھائی دیتی ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی تمام کام یاب لوگ ادب کا کردار اس لیے نہیں بن پاتے کہ وہ کسی المیے سے منسلک نہیں ہوتے؟۔
امبرٹو ایکو ادب کے حوالے سے اپنے تصورات کا اکثر اظہار کرتا رہتا تھا، 'ادیب کو کیسے لکھنا چاہیے؟' اس سوال کا جواب ایکو نے یوں دیا ہے : ''میرے خیال میں لکھنے والے کو وہ بات لکھنی چاہیے، جس کی توقع قارئین کو نہ ہو۔۔۔مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں، بلکہ انہیں تبدیل کرنا ہے... اُس طرح قاری تیار کرنا، جو آپ ہر کہانی کے لیے چاہتے ہوں۔''
ہمارا زمانہ ذرائع ابلاغ سے بری طرح متاثر ہے۔ ہم لوگوں کی رائے کو اہم سمجھتے ہیں مگر ایکو کا خیال ہے کہ عام لوگوں کی رائے جن حقائق سے تشکیل پاتی ہے، وہ جعلی ہوتے ہیں۔ ایکو اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ ایک فلسفہ ہے اور ناول صرف ہفتہ وار چھٹیوں میں لکھتا ہے۔
بطور فلسفی وہ اپنی سب سے زیادہ دل چسپی سچائی میں دیکھتا ہے اور یہ سچائی ہی ہے، جس کو چھپانے کے لیے ذرائع ابلاغ دن رات چیخ چیخ کر اعلانات، لوگوں کے کان میں انڈلتے رہتے ہیں، یہاں ایکو بڑا دل چسپ موقوف اختیار کرتا ہے، کہتا ہے ''میں نے یہ جاناکہ مسیحائی کو جاننا آسان نہیں، اس لیے میں جعلی حقائق کے تجزیے سے سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں''۔
اپنے ناولوں کے بارے میں ایکو کہتا ہے کہ وہ ان میں بہت سے ایسے حقائق بیان کرتا ہے، جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے، کہ اُس کی ایجاد ہیں۔ اپنے ناول "The Island of Day Before" کے حوالے سے وہ کہتا ہے کہ اُس میں ایک پراسرار مشین کا تذکرہ ہے،جو جیوپیٹر کا مشاہدہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ مزاحیہ بات یہ ہے کہ اسے مشین گلیلیو نے بنایاتھا اور اُس نے اسے ہالینڈ والوں کو بھیجنے کی کوشش کی۔ یہ کام یاب کوشش نہیں تھی بلکہ بالکل مضحکہ خیز تھی مگر جب آپ اِسے بطور کہانی بیان کرتے ہیں، تو یہ پُرلطف ہوتی ہے
"Reality is fascinating because it's more inventive than fiction."
امبرٹو ایکو نے علمی سفر کا آغاز بطور عہدِوسطیٰ اور معنیات کے پروفیسر کے کیا۔ 1980 میں اُس کا پہلا ناول شائع ہوا تو اس کی ایک کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس نے خود ناول نگار کی قلب ماہیت کر دی۔ اب وہ اطالیہ کا سب سے مقبول اور کام یاب ادیب بن چکا تھا۔
ایکو نے اپنے حوالے سے ایک اہم بات بتائی ہے کہ وہ اپنے باپ کا پہلوٹا تھا، اُس کا پہلا بچہ بھی لڑکا تھا اور اُس لڑکے کے ہاں بھی پہلا لڑکا ہی پیدا ہوا۔ ایکو چھے سال کا تھا جب اُس کے دادا کا انتقال ہوا۔ امبرٹو ایکو کو کتابیں پڑھنے کی لت، باپ، دادا سے ورثے میں ملی تھی۔
امبرٹو نے یہ بات کبھی نہیں چھپائی کہ اسکول کے دنوں میں وہ میسولینی والا فاشسٹ یونیفارم پہناکرتاتھا۔وہ 1943-45 کے دو سال کبھی نہیں بھلا پایا، جب بمباری سے بچنے کے لیے وہ اِدھر اُدھر چھپتے پھرتے تھے۔ ایکو نے یہ سال اپنی ماں اور بہن کے ساتھ گاؤں میں گزارے۔
امبرٹو ایکو اپنے تخلیقی سفر کے بارے میں کہتا ہے کہ جب پندرہ سولہ سال کی عمر میں نظمیں لکھنے سے آغاز کیاتھا تاہم وہ اپنے اس کام کومخصوص جذباتی ابال سے چھٹکارا پانے کی کوشش قرار دیتا ہے۔
امبرٹو ایکو جب یہ بتاتا ہے کہ اُس کی نانی اماں نے اُس کے اندر تخلیق کی جوت جگائی تو ہمیں بے اختیار انتظار حسین یاد آتے ہیں کہ اپنے زمانے کے فیشن کے برعکس انتظار حسین بھی اس بات کا اقرار کرتے شرماتے نہیں تھے کہ انھیں کہانیاں لکھنے کی طرف اُن کی نانی اماں نے مائل کیاتھا، جو انہیں کہانیاں سناتی تھیں۔ دراصل حقیقی لکھنے والا ہوتا ہی وہ ہے، جو زمانے کے فیشن سے مرعوب ہونے کے بجائے چیزوں کی اصلیت پر زور دیتا ہے اور اصل حقیقت کو قبول کرتا ہے۔
ناول کے فن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امبرٹو ایکو دعویٰ کرتا ہے کہ عموماً سارے ناول کسی نہ کسی حد تک ناول نگاروں کی سوانح اپنے اندر لیے ہوتے ہیں،کوئی ناول نگار جب کوئی کردار تخلیق کرتا ہے، تو اپنی ذات کے کسی نہ کسی حصے کو اُس کردار میں سمو دیتا ہے، اگرچہ ناول نگار سوانح نہیں لکھتا مگر سارے ناول اُس کی سوانح لیے ہوتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امبرٹو ایکو اپنے ناولوں کے بعض ٹکڑوں کی طرف وضاحت سے یہ بتاتا ہے کہ وہ اُس کی حقیقی زندگی کے واقعات ہیں۔
مثلاً اپنے ناول Foucault's Pendulum میں موجود ایک سین، جس میں ایک کردار Belbo قبرستان میں ٹرمپٹ بجا رہا ہے تو اقرار کرتا ہے کہ یہ اُس کی زندگی کا حقیقی واقعہ ہے۔ یہاں یہ سوال ضرور اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا اس طرح ناول کے واقعات کے بارے میں نشان دہی سے وہ خود اپنے ناول کی تفہیم میں اپنی منشا کو شامل کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا؟۔
امبرٹو کے ناولوں کے حوالے سے مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے ہمارے عہد میں ایسے ناول تخلیق کیے،جن میں فکری گہرائی بھی ہے اور زبان کا دل چسپ اور مختلف اظہار بھی۔ وہ اپنے ناولوںمیں جان دار کردار تخلیق کرتاہے اور اپنے عہد کے بارے میں سوال بھی اٹھاتا ہے۔ وہ اپنے قاری کو ابھارتاہے کہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا پر بار دگر نگاہ ڈالے، ذرائع ابلاغ کے پھیلائے ہوئے جعلی حقائق میں سے انسانی وجود کے بارے میں اُس سچائی کو دریافت کرنے کی کوشش کرے، جس پر معلومات کی گرد ڈالی جا رہی ہے اور یہ ہمارے عہد کا انتہائی اہم کارنامہ ہے۔
امبرٹو نے مضامین، بچوں کی کتابیں، طلبا کے لیے کتابیں اور ادبی تھیوری کے تجزیے پر مبنی کتابیں بھی لکھیں۔ جب وہ جدید ثقافت کے بارے میں لکھتا ہے تو اُس کے ہاں طنز و مزاح کا بھرپور اظہار ملتا ہے، علامتی اظہار، انسانی ابلاغ، تشریح، تجزیہ اور جمالیات پرلکھتا ہے، تو اُس کی فکری گہرائی، استدلالی انداز اور بات کرنے کا سلیقہ، اُس کے مخالفین کو بھی اُسے غور سے سننے پر مجبور کرتاہے۔ اس حوالے سے اُس کی مندرجہ ذیل کتابیں زیادہ قابل اعتنا ہیں:
1973-Travels in Hyper Reality 1989-The Open Work 1992 -Interpretation and over Interpretation
1993 - How to Travel with a Salman and other Essays
2004 - History of Beauty - On Ugliness 2007
یہاں ہم امبرٹو کی صرف ایک کتاب Interpretation and over Interpretation کے حوالے سے بات کرکے اس کالم کو ختم کرتے ہیں۔ ایکو نے 1990 میں کیمبرج کے کلیئرہال میں 1990 میں جو تین ٹرنر خطبات دیے تھے، وہ اس کتاب کی بنیاد بنے۔ اپنی اس کتاب میں ایکو نے ادبی تھیوری اور ادبی متن کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم نقطے کو بنیاد بنایا ہے۔
ایکو کہتا ہے کہ جب کوئی لکھنے والا متن کی تشکیل کرتا ہے تو اُس کا کوئی نہ کوئی منشا ضرور ہوتا ہے۔ جب متن کی تفہیم کی جاتی ہے تو اُس کے خیال کو سامنے رکھ کر متن کو سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایکو کہتا ہے کہ دوسری طرف تشریح کرنے والے کا بھی ایک منشا ہوتا ہے، جس کی بنا پر وہ کسی بھی متن سے اپنی پسند کے معنی دریافت کرتا ہے اور متن کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھالتا ہے۔
مگر ان دونوں سے ہٹ کر ایک تیسری بات بھی منشائِ متن (Intention of Text) بھی ہوتا ہے، جو متن کی تفہیم میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے ہمیں ایکو کے ہاں مابعد جدید تنقیدی تصورات کے بارے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کااندازہ ہوتا ہے۔ اپنی زیر نظر کتاب میں اُس نے مابعد جدید نقادوں کو اپنے مخصوص طنزیہ، مزاحیہ انداز میں ہدف تنقید بناتا ہے۔ وہ بطور خاص ''قاری اساس تنقید'' اور رد تشکیل کے طریقۂ کار کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ متن کی تفہیم لامحدود نہیں ہو سکتی ہے، یہ کسی دائرہ کار میں ہوگی، دائرے کا تعین نہ تو مصنف کرے گا اور نہ تفہیم کرنے والا بلکہ حدود کا تعین خود متن کرتا ہے۔
امبرٹو اپنے ناولوں اور مضامین، دونوں میں اپنے عصر کے بارے میں فکری سوالات اٹھاتا ہے۔ وہ قاری کو گہرائی میں سوچنے اور سامنے دکھائی دینے والی حقیقت کے بارے میںسوال اٹھانے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ ایک حقیقی دانش ور اور تخلیق کار کے طور اپنے زمانے کے مروجہ فیشن اور چلن کو رد کرتا ہے اور زندگی کی اصل حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
اُس نے اپنے ناولوں میں فکری اور فلسفیانہ سوال اٹھائے ہیں اور اپنے مضامین میں ایسا بیانیہ تشکیل دیا ہے، جو غیرفکشن سے دور اور فکشن کے قریب ہے۔ یوں امبرٹو ایکو کے ہاں ہمیں ناول اور مضمون ایک دوسرے کے بہت قریب آتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے ایک مربوط تخلیقی اور فکری شخصیت موجود ہے اور یہ شخصیت مختلف سطحوں پر اپنے عہد سے مکالمہ کر رہی ہے اور ہمیں اس میں شرکت کی دعوت دیتی ہے۔
امبرٹو ایکو اطالوی فکشن اور دانش کی وہ آواز ہے، جسے آج کی عالمی صورتِ حال میں غور سے سنا جاتا ہے۔ اُس کے پہلے ناول کے حوالے سے لکھا گیا کہ یہ ناول دانشوری کے اسرار سے بھرا ہوا ہے، جس میں فکشن کی معنی پذیری، بائبل کا تجزیاتی مطالعہ، عہدِ وسطیٰ کے مطالعات اور ادبی تھیوری یک جا ہو گئے ہیں :
"The book is an intellectual mystery, combing semiotic in fiction, biblical analysis, medieval studies and literary theory."
امبرٹو ایکو کے حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اُس نے نہ صرف اٹلی کی ثقافت سے دنیا کو روشناس کرایا بلکہ اطالوی ثقافت کو تبدیل کر دیا، اطالوی ناول کی ساخت میں بنیادی تبدیلیاں کیں مثلاً، اُس کا پہلا ناول "The Name of Rose" کا بیانیہ اس طرح تشکیل دیا گیا ہے کہ ناول اطالوی فضا میں وقوع پذیر ہوتا ہے، مرکزی کردار William of Baskerville، پراسرار طور پر قتل ہوئے کئی افراد کے بارے میں تفتیش کر رہا ہے۔ اس ناول نے دنیا بھر کے قارئین پر اپنے اثرات مرتب کیے اور پھر اس پر ایک عمدہ فلم بھی بنائی گئی، جس میں Sean Connery نے ولیم کا نہایت مشکل کردار بڑی مہارت سے کیا۔
امبرٹو نے ناول کے سادہ بیانیے کو پیچیدہ بیانیے سے بدل دیا۔ Guardian کو انٹرویو دیتے ہوئے اس نے کہا تھا کہ لوگ سادہ چیزوں سے تھک چکے ہیں۔ وہ صحافت کی اس روش سے بھی بیزار تھا کہ بات کو سادہ انداز میں لوگوں تک پہنچایا جائے، اسی لیے اس کے ناول پیچیدہ بھی ہوتے ہیں اور ان میں فکری سوال بھی اٹھاتا ہے۔
امبرٹو ایکو نے اپنے پہلے ہی ناول میں یورپ کی ثقافتی اور دانش ورانہ ترقی کے بارے میں یہ سوال اٹھایا تھا کہ نشأۃ ثانیہ کو جیسے ایک یورپی اور امریکی نہایت فخر سے پیش کرتا ہے تو کیا واقعی نشأۃ ثانیہ میں کوئی بہت اہم بات ہوئی جس نے اس کرۂ ارض پر انسانی ترقی کا رخ متعین کیا؟۔ ایکو اس حوالے سے اپنے واضح شکوک کا اظہار کرتا ہے اورسمجھتا ہے کہ نشأۃ ثانیہ میں انسانی وجود کے ساتھ کوئی ایسا معاملہ ہوا ہے کہ وہ اپنی راہ سے ہٹ گیا۔
دنیا میں نشأۃ ثانیہ کو ایسا عہد مانا جاتا ہے، جب انسان نے الوہی ہدایت کے دائرے سے نکل کر اپنی عقل اور حسیات کو معیار بناکر معاملات و کائنات کو سمجھنے کی کوشش کی۔ ایسا نہیں کہ ایکو مذہب پر یقین نہیں رکھتاتھا یا خدا کے وجود سے کائنات کی تفہیم کرناچاہتا ہے۔ اس جملے پر غور کریں تو خدا کے بارے میں اُس کے تصورات کو آسانی سے سمجھ میں آتے ہیں ''جب انسان کا خدا پر یقین ختم ہو جاتا ہے، تو ایسا نہیں کہ اُس کا کسی بات پر یقین نہیں رہتا، (بل کہ) وہ ہر بات پر یقین کرنے لگتا ہے۔''
"When men stop believing in God, it isn't that they then believe in nothing: They believe in everything."
امبرٹو ایکو اپنے اس ذہنی رویے کے ساتھ جب نشأۃ ثانیہ کے بارے میں سوال اٹھاتا ہے تو ہمیں اُس کے سوال پر سنجیدگی سے غور کرنا پڑتا ہے۔ وہ اپنے ناولوں میں باربار عہد وسطیٰ کی جانب پلٹتا ہے اور اُس عہد کے انسان کے ذہن اور نفسیات کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے، جو نیا نیا الوہیت کے دائرے سے نکلا تھا اور اپنے اردگرد کی کائنات اور انسانی زندگی پر عقل اور حسی حوالوں سے غور کر رہا تھا۔
امبرٹو ایکو نے اپنے تخلیقی اظہار کے لیے ناول جیسی صنف کو اختیار کیا، اُس کے چھے ناول اب تک شایع ہو چکے ہیں :
The Name of Rose - 1980
Foucault's Pendulum - 1988
Baudolino - 1997
2004 -The Mysterious Flame of Queen Loana
-The Prague Cemitery 2010
2014 - Numero Zero
امبرٹو ایکو کے ناولوں پر بات کرنے والے نقادوں کے مطابق ہمیں اُس کے یہاں زبان اور علامتوں کا ماہرانہ استعمال ملتا ہے، وہ مختلف باتوں کو عجیب و غریب حوالوں سے استعمال کرتا ہے۔ اپنے ناولوں میں معمے کو مہارت سے استعمال کرتا ہے اور یوں اپنا بیانیہ خود تشکیل دیتا ہے، جس کی کوئی دوسری مثال کم از کم ہم عصر ادب میں دکھائی نہیں دیتی۔
امبرٹو ایکو جب برطانیہ میں اپنے ناول Numero Zero کی تعارفی تقریب کے لیے آیا تو اُس نے ادب کے حوالے سے ایک بہت دل چسپ نکتہ بیان کیا کہ ''حقیقی ادب ناکام لوگوں کے بارے میں ہوتا ہے (Real literature is about losers)۔ اپنے اس ناول میں بھی اس نے اِسی نکتے کو تخلیقی انداز میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ عظیم لوگ کیوں سازشوں کا شکار ہوتے ہیں اور کبھی کام یابی حاصل نہیں کر پاتے۔ یہاں ہمیں ایکو پر قدیم یونانی فکر کے اثرات بھی دکھائی دیتی ہیں، سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعی تمام کام یاب لوگ ادب کا کردار اس لیے نہیں بن پاتے کہ وہ کسی المیے سے منسلک نہیں ہوتے؟۔
امبرٹو ایکو ادب کے حوالے سے اپنے تصورات کا اکثر اظہار کرتا رہتا تھا، 'ادیب کو کیسے لکھنا چاہیے؟' اس سوال کا جواب ایکو نے یوں دیا ہے : ''میرے خیال میں لکھنے والے کو وہ بات لکھنی چاہیے، جس کی توقع قارئین کو نہ ہو۔۔۔مسئلہ یہ نہیں کہ وہ کیا چاہتے ہیں، بلکہ انہیں تبدیل کرنا ہے... اُس طرح قاری تیار کرنا، جو آپ ہر کہانی کے لیے چاہتے ہوں۔''
ہمارا زمانہ ذرائع ابلاغ سے بری طرح متاثر ہے۔ ہم لوگوں کی رائے کو اہم سمجھتے ہیں مگر ایکو کا خیال ہے کہ عام لوگوں کی رائے جن حقائق سے تشکیل پاتی ہے، وہ جعلی ہوتے ہیں۔ ایکو اپنے بارے میں کہتا ہے کہ وہ ایک فلسفہ ہے اور ناول صرف ہفتہ وار چھٹیوں میں لکھتا ہے۔
بطور فلسفی وہ اپنی سب سے زیادہ دل چسپی سچائی میں دیکھتا ہے اور یہ سچائی ہی ہے، جس کو چھپانے کے لیے ذرائع ابلاغ دن رات چیخ چیخ کر اعلانات، لوگوں کے کان میں انڈلتے رہتے ہیں، یہاں ایکو بڑا دل چسپ موقوف اختیار کرتا ہے، کہتا ہے ''میں نے یہ جاناکہ مسیحائی کو جاننا آسان نہیں، اس لیے میں جعلی حقائق کے تجزیے سے سچائی تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہوں''۔
اپنے ناولوں کے بارے میں ایکو کہتا ہے کہ وہ ان میں بہت سے ایسے حقائق بیان کرتا ہے، جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے، کہ اُس کی ایجاد ہیں۔ اپنے ناول "The Island of Day Before" کے حوالے سے وہ کہتا ہے کہ اُس میں ایک پراسرار مشین کا تذکرہ ہے،جو جیوپیٹر کا مشاہدہ کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ مزاحیہ بات یہ ہے کہ اسے مشین گلیلیو نے بنایاتھا اور اُس نے اسے ہالینڈ والوں کو بھیجنے کی کوشش کی۔ یہ کام یاب کوشش نہیں تھی بلکہ بالکل مضحکہ خیز تھی مگر جب آپ اِسے بطور کہانی بیان کرتے ہیں، تو یہ پُرلطف ہوتی ہے
"Reality is fascinating because it's more inventive than fiction."
امبرٹو ایکو نے علمی سفر کا آغاز بطور عہدِوسطیٰ اور معنیات کے پروفیسر کے کیا۔ 1980 میں اُس کا پہلا ناول شائع ہوا تو اس کی ایک کروڑ کاپیاں فروخت ہوئیں اور اس نے خود ناول نگار کی قلب ماہیت کر دی۔ اب وہ اطالیہ کا سب سے مقبول اور کام یاب ادیب بن چکا تھا۔
ایکو نے اپنے حوالے سے ایک اہم بات بتائی ہے کہ وہ اپنے باپ کا پہلوٹا تھا، اُس کا پہلا بچہ بھی لڑکا تھا اور اُس لڑکے کے ہاں بھی پہلا لڑکا ہی پیدا ہوا۔ ایکو چھے سال کا تھا جب اُس کے دادا کا انتقال ہوا۔ امبرٹو ایکو کو کتابیں پڑھنے کی لت، باپ، دادا سے ورثے میں ملی تھی۔
امبرٹو نے یہ بات کبھی نہیں چھپائی کہ اسکول کے دنوں میں وہ میسولینی والا فاشسٹ یونیفارم پہناکرتاتھا۔وہ 1943-45 کے دو سال کبھی نہیں بھلا پایا، جب بمباری سے بچنے کے لیے وہ اِدھر اُدھر چھپتے پھرتے تھے۔ ایکو نے یہ سال اپنی ماں اور بہن کے ساتھ گاؤں میں گزارے۔
امبرٹو ایکو اپنے تخلیقی سفر کے بارے میں کہتا ہے کہ جب پندرہ سولہ سال کی عمر میں نظمیں لکھنے سے آغاز کیاتھا تاہم وہ اپنے اس کام کومخصوص جذباتی ابال سے چھٹکارا پانے کی کوشش قرار دیتا ہے۔
امبرٹو ایکو جب یہ بتاتا ہے کہ اُس کی نانی اماں نے اُس کے اندر تخلیق کی جوت جگائی تو ہمیں بے اختیار انتظار حسین یاد آتے ہیں کہ اپنے زمانے کے فیشن کے برعکس انتظار حسین بھی اس بات کا اقرار کرتے شرماتے نہیں تھے کہ انھیں کہانیاں لکھنے کی طرف اُن کی نانی اماں نے مائل کیاتھا، جو انہیں کہانیاں سناتی تھیں۔ دراصل حقیقی لکھنے والا ہوتا ہی وہ ہے، جو زمانے کے فیشن سے مرعوب ہونے کے بجائے چیزوں کی اصلیت پر زور دیتا ہے اور اصل حقیقت کو قبول کرتا ہے۔
ناول کے فن کے حوالے سے بات کرتے ہوئے امبرٹو ایکو دعویٰ کرتا ہے کہ عموماً سارے ناول کسی نہ کسی حد تک ناول نگاروں کی سوانح اپنے اندر لیے ہوتے ہیں،کوئی ناول نگار جب کوئی کردار تخلیق کرتا ہے، تو اپنی ذات کے کسی نہ کسی حصے کو اُس کردار میں سمو دیتا ہے، اگرچہ ناول نگار سوانح نہیں لکھتا مگر سارے ناول اُس کی سوانح لیے ہوتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ امبرٹو ایکو اپنے ناولوں کے بعض ٹکڑوں کی طرف وضاحت سے یہ بتاتا ہے کہ وہ اُس کی حقیقی زندگی کے واقعات ہیں۔
مثلاً اپنے ناول Foucault's Pendulum میں موجود ایک سین، جس میں ایک کردار Belbo قبرستان میں ٹرمپٹ بجا رہا ہے تو اقرار کرتا ہے کہ یہ اُس کی زندگی کا حقیقی واقعہ ہے۔ یہاں یہ سوال ضرور اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیا اس طرح ناول کے واقعات کے بارے میں نشان دہی سے وہ خود اپنے ناول کی تفہیم میں اپنی منشا کو شامل کرنے کی کوشش تو نہیں کر رہا؟۔
امبرٹو کے ناولوں کے حوالے سے مختصراً کہا جا سکتا ہے کہ اُس نے ہمارے عہد میں ایسے ناول تخلیق کیے،جن میں فکری گہرائی بھی ہے اور زبان کا دل چسپ اور مختلف اظہار بھی۔ وہ اپنے ناولوںمیں جان دار کردار تخلیق کرتاہے اور اپنے عہد کے بارے میں سوال بھی اٹھاتا ہے۔ وہ اپنے قاری کو ابھارتاہے کہ وہ اپنے اردگرد کی دنیا پر بار دگر نگاہ ڈالے، ذرائع ابلاغ کے پھیلائے ہوئے جعلی حقائق میں سے انسانی وجود کے بارے میں اُس سچائی کو دریافت کرنے کی کوشش کرے، جس پر معلومات کی گرد ڈالی جا رہی ہے اور یہ ہمارے عہد کا انتہائی اہم کارنامہ ہے۔
امبرٹو نے مضامین، بچوں کی کتابیں، طلبا کے لیے کتابیں اور ادبی تھیوری کے تجزیے پر مبنی کتابیں بھی لکھیں۔ جب وہ جدید ثقافت کے بارے میں لکھتا ہے تو اُس کے ہاں طنز و مزاح کا بھرپور اظہار ملتا ہے، علامتی اظہار، انسانی ابلاغ، تشریح، تجزیہ اور جمالیات پرلکھتا ہے، تو اُس کی فکری گہرائی، استدلالی انداز اور بات کرنے کا سلیقہ، اُس کے مخالفین کو بھی اُسے غور سے سننے پر مجبور کرتاہے۔ اس حوالے سے اُس کی مندرجہ ذیل کتابیں زیادہ قابل اعتنا ہیں:
1973-Travels in Hyper Reality 1989-The Open Work 1992 -Interpretation and over Interpretation
1993 - How to Travel with a Salman and other Essays
2004 - History of Beauty - On Ugliness 2007
یہاں ہم امبرٹو کی صرف ایک کتاب Interpretation and over Interpretation کے حوالے سے بات کرکے اس کالم کو ختم کرتے ہیں۔ ایکو نے 1990 میں کیمبرج کے کلیئرہال میں 1990 میں جو تین ٹرنر خطبات دیے تھے، وہ اس کتاب کی بنیاد بنے۔ اپنی اس کتاب میں ایکو نے ادبی تھیوری اور ادبی متن کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم نقطے کو بنیاد بنایا ہے۔
ایکو کہتا ہے کہ جب کوئی لکھنے والا متن کی تشکیل کرتا ہے تو اُس کا کوئی نہ کوئی منشا ضرور ہوتا ہے۔ جب متن کی تفہیم کی جاتی ہے تو اُس کے خیال کو سامنے رکھ کر متن کو سمجھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایکو کہتا ہے کہ دوسری طرف تشریح کرنے والے کا بھی ایک منشا ہوتا ہے، جس کی بنا پر وہ کسی بھی متن سے اپنی پسند کے معنی دریافت کرتا ہے اور متن کو اپنے مقصد کے مطابق ڈھالتا ہے۔
مگر ان دونوں سے ہٹ کر ایک تیسری بات بھی منشائِ متن (Intention of Text) بھی ہوتا ہے، جو متن کی تفہیم میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے ہمیں ایکو کے ہاں مابعد جدید تنقیدی تصورات کے بارے میں بڑھتی ہوئی بے چینی کااندازہ ہوتا ہے۔ اپنی زیر نظر کتاب میں اُس نے مابعد جدید نقادوں کو اپنے مخصوص طنزیہ، مزاحیہ انداز میں ہدف تنقید بناتا ہے۔ وہ بطور خاص ''قاری اساس تنقید'' اور رد تشکیل کے طریقۂ کار کو رد کرتا ہے اور کہتا ہے کہ متن کی تفہیم لامحدود نہیں ہو سکتی ہے، یہ کسی دائرہ کار میں ہوگی، دائرے کا تعین نہ تو مصنف کرے گا اور نہ تفہیم کرنے والا بلکہ حدود کا تعین خود متن کرتا ہے۔
امبرٹو اپنے ناولوں اور مضامین، دونوں میں اپنے عصر کے بارے میں فکری سوالات اٹھاتا ہے۔ وہ قاری کو گہرائی میں سوچنے اور سامنے دکھائی دینے والی حقیقت کے بارے میںسوال اٹھانے کی دعوت دیتا ہے۔ وہ ایک حقیقی دانش ور اور تخلیق کار کے طور اپنے زمانے کے مروجہ فیشن اور چلن کو رد کرتا ہے اور زندگی کی اصل حقیقت تک رسائی حاصل کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
اُس نے اپنے ناولوں میں فکری اور فلسفیانہ سوال اٹھائے ہیں اور اپنے مضامین میں ایسا بیانیہ تشکیل دیا ہے، جو غیرفکشن سے دور اور فکشن کے قریب ہے۔ یوں امبرٹو ایکو کے ہاں ہمیں ناول اور مضمون ایک دوسرے کے بہت قریب آتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے ایک مربوط تخلیقی اور فکری شخصیت موجود ہے اور یہ شخصیت مختلف سطحوں پر اپنے عہد سے مکالمہ کر رہی ہے اور ہمیں اس میں شرکت کی دعوت دیتی ہے۔