’’دبئی چلو‘‘

’’میچ سے زیادہ مفت ٹکٹ مانگنے والوں کا پریشر تھا‘‘

’’میچ سے زیادہ مفت ٹکٹ مانگنے والوں کا پریشر تھا‘‘. فوٹو: فائل

''ہیلو سلیم بھائی''

جی بات کر رہا ہوں

پہچانا مجھے میں آپ کے بچپن کے دوست فلاں کا فلاں کزن بول رہا ہوں، پتا چلا کہ آپ دبئی آئے ہوئے ہیں تو سوچا سلام کر لوں

جی وعلیکم اسلام

سلیم بھائی کیا کل کے فائنل کے 4 پاسز مل جائیں گے

قارئین ایسی کئی فون کالز میں نے گذشتہ دنوں پی ایس ایل فائنل سے قبل دبئی میں وصول کیں، بعض ایسے لوگوں نے بھی رابطہ کیا جو ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بھی نہیں ملتے تھے مگر اب رشتے داروں کو ٹکٹ دینے کیلیے اچانک یاد آ گئی، مجھ سے غلطی یہ ہوئی کہ اپنے فیس بک پیج پر دبئی کا نمبر لکھ دیا، یہ مجھ جیسے ایک عام صحافی کا حال تھا، آپ سوچیں پی سی بی سے منسلک افراد کی کیا پوزیشن ہو گی۔

اسلام آباد یونائٹیڈ کے کپتان مصباح الحق نے توپریس کانفرنس میں ازرائے مذاق یہ تک کہہ دیا کہ ''میچ سے زیادہ مفت ٹکٹ مانگنے والوں کا پریشر تھا''۔ایسے میں مجھے وہ دن یاد آ گئے جب ہمارے ملک میں بھی انٹرنیشنل میچز ہوا کرتے تھے، عموماً میچ سے قبل ہی تمام ٹکٹیں فروخت ہو جاتیں، افسوس کہ اب ایسا نہیں ہے مگر پی ایس ایل نے کم از کم دیار غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو دبئی اور شارجہ میں ہی گھر جیسا میچ کا ماحول فراہم کر دیا، پاکستان میں رہنے والے شائقین ٹیلی ویژن پر مقابلوں سے لطف اندوز ہوئے۔

ایسا بھی نہیں ہے کہ تمام میچز میں اسٹیڈیمز شائقین سے کھچا کھچ بھرے رہے یہ اختتامی مراحل میں زیادہ ہوا،کوئٹہ گلیڈی ایٹرز سے میچ میں پشاور زلمی کی ایک رن سے شکست والا مقابلہ ایونٹ کیلیے آکسیجن ثابت ہوا، اس سے قبل شارجہ میں جمعے کے دن ''ہاؤس فل'' رہا، بیشتر دیگر میچز میں بھی خاصا کراؤڈ آیا، البتہ ٹکٹوں کے بارے میں پی سی بی کی پالیسی زیادہ اچھی نہ تھی، ویب سائٹ کے ذریعے بیشتر ٹکٹ فروخت کر دیے گئے، پھر جب لوگ اسٹیڈیم پہنچتے تو علم ہوتا کہ ٹکٹ دستیاب ہی نہیں ہیں، ایسے میں اچانک بلیک میں فروخت کرنے والے سامنے آ جاتے اور چار گنا زیادہ رقم کماتے، اس بارے میں منتظمین کو بہتری لانے کی ضرورت ہے۔


میں فائنل کے وقت دبئی کرکٹ اسٹیڈیم میں ہی موجود تھا، بہت دور سے ہی راستہ بند کر دیا گیا تھا جہاں سے لوگ پیدل چل کر اسٹیڈیم آتے، کسی ڈومیسٹک میچ کیلیے اتنا کراؤڈ لوگوں نے کم ہی دیکھا ہو گا، دوران میچ پریس باکس میں نجم سیٹھی بھی آئے جو خوشی سے پھولے نہیں سما رہے تھے۔

تمام تر تنقید سہنے کے بعد انھوں نے آخرکار پی ایس ایل کرا ہی دی جس کا کریڈٹ ضرور دینا چاہیے، ایونٹ کی فاتح ٹیم مصباح الحق کی اسلام آباد یونائٹیڈ بنی جس کے بارے میں کسی نے ایسا سوچا بھی نہ تھا، اس میں آندرے رسل اور محمد سمیع کی شاندار بولنگ کے ساتھ پشاور زلمی سے میچ میں شرجیل خان کی فتح گر سنچری کا بھی بڑا کردار رہا، مصباح الحق گوکہ ٹوئنٹی 20سے ریٹائر ہو چکے مگر انھوں نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کا اچھے انداز سے استعمال کیا، البتہ بڑھتی عمر کے اثرات ان پر حاوی دکھائی دیے اور فٹنس مسائل نے دوران ایونٹ خاصا پریشان کیا،ٹورنامنٹ کی فیورٹ ٹیم کوئٹہ گلیڈی ایٹرز فائنل میں ہمت ہار گئی مگر اس مرحلے تک رسائی بھی بڑا کارنامہ ہے۔

سرفراز احمد نے عمدگی سے قیادت کے فرائض نبھائے،اس سے حکام کو مستقبل کے حوالے سے اطمینان میسرآگیا ہو گا، البتہ شائقین کو ان کی انفرادی کارکردگی نے تشویش کا شکار کر دیا، اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو قومی ٹیم کے کوچ وقار یونس کیا کریں گے یہ سب جانتے ہیں۔

ایونٹ کے دوران کوئٹہ کیلیے مینٹور کا کردار ادا کرنے والے ویوین رچرڈز کا بڑا ذکر رہا، اگر واقعی انھوں نے 20 دن میں ایک ٹیم کو فاتح دستے میں بدل دیا تو وہ جتنی بھی رقم مانگیں انھیں قومی ٹیم کے ساتھ منسلک کر دینا چاہیے،اگر باؤنڈری پر بیٹھ کر ان کے صرف خوشیاں منانے سے کوئٹہ کا حوصلہ بڑھا تو واقعی بڑی بات ہے، ویسے آپس کی بات ہے ایونٹ کے ٹاپ 10بیٹسمینوں میں کوئٹہ کے احمد شہزاد اور کیون پیٹرسن ہی شامل ہیں، دونوں رچرڈز کی کوچنگ سے پہلے بھی خاصا پرفارم کر رہے ہیں، اس بات کا مقصد سابق عظیم ویسٹ انڈین اسٹار کی اہمیت کو کم کرنا نہیں، یقیناً انھوں نے اپنی پوری کوشش کی،انھیں یو اے ای بلانے کیلیے کروڑوں روپے خرچ کیے گئے۔

مگر کسی بھی ٹیم نے جاوید میانداد کی جانب نہیں دیکھا وہ بھی عظیم بیٹسمین تھے، غیروں کو عزت ضرور دیں مگر اپنے قومی ہیروز کو بھی فراموش نہ کریں، کوئٹہ کی ٹیم کے ساتھ موجود اعظم خان کو ڈگ آؤٹ میں عظیم کرکٹرز کے ساتھ دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی،کے سی سی اے سے تعلق رکھنے والے زونل آفیشل چند ماہ قبل تک پریس ریلیز شائع کرانے کیلیے صحافیوں کے آگے پیچھے گھومتے تھے۔

مگر پی ایس ایل میں معاملہ الٹ رہااور وہ خود کسی سپراسٹار کی طرح انٹرویوز دیتے دکھائی دیے،کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ''کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں''، ایسے میں ٹیم اونر ندیم عمر کو ضرور کریڈٹ دینا چاہیے کہ انھوں نے اپنے کلب آفیشل کو اتنی بڑی پوسٹ سے نوازا۔

پی ایس ایل کا اولین ایڈیشن خوش اسلوبی سے ہو گیا، اچھی بات یہ ہے کہ منتظمین نے آئندہ اپنے ملک میں بھی بعض میچز کرانے کا فیصلہ کر لیا، اس سے شائقین کی کچھ تو تسلی ہو سکے گی، ایونٹ کے دوران اسٹیڈیم میں خاصا ہلا گلا رہا، پی سی بی نے فائنل میں پریس باکس بالکل قذافی اسٹیڈیم لاہور یا نیشنل اسٹیڈیم کراچی کی طرح فل کرنے کیلیے کوئی کسر نہ چھوڑی،اسپورٹس کے ساتھ کئی دیگر شعبوں کے صحافی و اینکرز بھی میچ دیکھنے آئے۔

البتہ پریس باکس کا کوئی پرسان حال نہ تھا، ایک صحافی کے پاس لیپ ٹاپ کیلیے دبئی والا تھری پلگ نہ تھا،وہ میچ ختم ہونے تک میڈیا ڈپارٹمنٹ کے فرد واحد سے درخواست کرتا رہا مگر کسی نے ایک نہ سنی، اتنے بڑے ایونٹ میں میڈیا کے 2،3آفیشلز تو بھیجنے چاہیے تھے یہاں ایک آدمی کا کام نہ تھا، میڈیا کے حوالے سے فرنچائزز کا رویہ بھی اچھا نہ رہا،سب اونچی ہواؤں میں اڑتے رہے اس شعبے پر کسی نے توجہ نہ دی، اسی وجہ سے ایک قابل احترام سینئر صحافی کو بھی ناروا سلوک کا سامنا کرنا پڑا جو قابل مذمت ہے، کسی صحافی کو پریس کانفرنس میں شرکت سے کیسے روکا جا سکتا ہے؟ امید ہے کہ فرنچائز مالکان آئندہ اس اہم شعبے کو نظرانداز نہیں کریں گے۔

ایونٹ بظاہر تو کامیاب نظر آتا ہے مگر اصل علم حساب کتاب کے بعد ہی ہو سکے گا،تمام اخراجات نکال کر بھی اگر پی سی بی نے رقم کمائی تو اسے ضرورکامیاب قرار دینا چاہیے، نئے ٹیلنٹ کے لحاظ سے ایونٹ زیادہ موثر نہ تھا، شرجیل خان کی ایک سنچری ہٹا دیں تو کوئی بھی نیا کھلاڑی ٹاپ10میں نظر نہ آیا،البتہ بولرز میں محمد نواز اور محمد اصغر نے بہتر کھیل پیش کیا، ویسے شکر ہے فائنل میں کسی پاکستانی کھلاڑی نے غیرمعمولی کارکردگی نہیں دکھائی ، احمد شہزاد ویسے ہی زیرعتاب ہیں، ورنہ ورلڈ ٹی 20 اسکواڈ میں جگہ بنانے کیلیے ہارون رشید اینڈ کمپنی کو پھر ٹیم سے ''ان فٹ'' کرکٹرز تلاش کرنا پڑتے۔
Load Next Story