نیب کو دور رکھنے کے لیے ہر روز ایک دھمکی
بدقسمتی سے پاکستان میں بُری حکمرانی نے کرپشن، اقربا پروری اور لالچ کے ساتھ مل کر ان افراد کا دامن داغدار کر رکھا ہے
اقتصادی ترقی کے لیے تسلسل کے ساتھ اچھی حکمرانی درکارہوتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں بُری حکمرانی نے کرپشن، اقربا پروری اور لالچ کے ساتھ مل کر ان افراد کا دامن داغدار کر رکھا ہے جنھیں ہمارے لیڈر ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
جب امیر امیر سے امیر تر اور غریب غریب سے غریب تر ہونے لگیں تو یہ معاشرے میں کرپشن کے پھلنے پھولنے کی علامت ہوتی ہے، لیکن اس کے نتیجے میں پر تشدد انقلاب کا راستہ کھل جاتا ہے۔ جس طرح ''عرب بہار'' کی صورت میں ظاہر ہوا اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ بات ہے کہ اس طرح معاشرے میں بُری حکمرانی اور مسخ شدہ نظریات کو اور زیادہ شدت کے ساتھ پھیلنے کا موقع ملتا ہے۔
سیاستدان نیب کے ہاتھ باندھنے کے لیے شور مچا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے مشن سے ہٹ جائے ۔ 2002ء سے سول اور فوجی لیڈر شپ نے اپنے مفادات کے لیے نیب کو محدود مقاصدکے لیے استعمال کیا،لیکن آخر کار نیب واپس اپنے اصل ٹریک پر آگیا ہے۔ نیب نے جو حالیہ غیر جانبدارانہ فیصلے کیے ہیں ان کو کھلے عام تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگرچہ انتظامیہ کے وضاحتی بیان دینے والوں نے اصل بات کو اپنی پیچیدہ لفاظی میں کچھ اور معنی پہنا دیے۔ وزیراعظم کو نیب کے خلاف کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی تاآنکہ معاملہ ان کے خاص لوگوں کا نہ ہوتا۔ رانا ثناء اللہ کو میاں صاحب کے ''ہٹ مین'' ہونے کا درجہ حاصل ہے۔
انھوں نے اگلے ہی روز بیان جاری کر دیا جب کہ بعدازاں وزیراعلیٰ شہباز شریف نے بھی بات کی۔ اس کے بعد ''پر کاٹنے'' کی اصطلاح کو بڑھے ہوئے ''ناخن تراشنے'' میں تبدیل کر دیا گیا۔ اسی دوران زرداری آصف زرداری کا بیان آیاکہ آخر جنرل راحیل کی طرف سے عہدے کی توسیع نہ لینے کا اعلان قبل ازوقت ہے۔
زرداری کے اس اچانک بیان کی ایک وجہ یہ بھی سمجھی جا رہی ہے کہ آرمی اور رینجرز انسداد دہشت گردی کی مہم میں کرپشن اور قتل و غارت گری کو بھی ہدف بنا رہے ہیں۔ ڈاکٹر عاصم کے ساتھ عذیر بلوچ وغیرہ بھی زیر حراست ہیں جب کہ ذوالفقار مرزا ک سے بھی پوچھ گچھ ہورہی ہے جس سے زرداری صاحب کے ردعمل کی وجہ سمجھ میں آتی ہے۔ اس بھید کو اور زیادہ پراسرار بنانے میں جو کسر رہ گئی تھی اسے کائرہ اور شیری رحمن جیسے ترجمانوں نے پورا کر دیا۔ لیکن ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔
آصف زرداری کا دبئی منتقل ہونے کا منظر بھی ذہن میں لائیں۔جب ہمارے بہادر فوجی دہشت گردی اور باغیانہ سرگرمیوں کو کچلنے کے لیے اپنی قیمتی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں دوسری طرف حد سے زیادہ کرپشن کے ذریعے دولت اکٹھی کی جا رہی ہے جس سے عالیشان محلات اور فارم ہاؤسز وغیرہ خریدے جا رہے ہیں ۔ ادھر مسلح افواج میں کرپشن کو روکنے کا خود کار نظام نافذ ہے جسے افراد کے حق کے بجائے ادارے اور ملک کے حق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ خوش قسمتی سے آج مسلح افواج میں ایک بہترین نوع کی نسل شامل ہے جیسی گزشتہ پانچ عشروں میں نہیں دیکھی گئی۔ کئی سابقہ اعلیٰ افسروں اور ان کے پارٹنرز کو گرفتار کیا گیا ہے ۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بھائی معاملہ بھی سب کے سامنے ہے۔ میرے دوستوں اور خیر خواہوں نے کیانی کو اس معاملے سے مطلع کیا تھا ۔جاگیردار کبھی اس بات کو برداشت نہیں کر سکتے کہ گراس روٹ کی سطح پر سٹیک ہولڈرز کو اختیارات مل جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کی بااختیار بنانے کی اجازت نہیں دیں گے کیونکہ اس سے حکمرانی قابل مواخذہ ہو جاتی ہے۔ جاگیردار (کاروباری حضرات صنعت کاروں، بیورو کریٹس، سروس مینز اور ججز وغیرہ کو) اچھوت خیال کرتے ہیں۔
جاگیردار ذہنیت والے لوگ نہ صرف اثر و رسوخ کو خرید سکتے ہیں بلکہ معاشرے میں اونچے مناصب پر براجمان بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر عدالت میں ٹھوس شہادتیں پیش نہ کی جا سکیں تو احتساب بہت مشکل کام بن جاتا ہے۔ سیاست میں اقربا پروری کو اولین اہمیت دی جاتی ہے بہت سے ایسے لوگ جو سابقہ حکومتوں میں بھی حکمرانوں کے بے حد قریب رہے ہیں وہ بآسانی اپنی وفاداریاں تبدیل کر لیتے ہیں تا کہ قومی خزانے کی لوٹ مار میں بدستور حصہ لے سکیں۔ وہ سیاست میں بااثر پوزیشنز پر قبضہ کر لیتے ہیں تا کہ فیصلہ سازی میں انھیں غلبہ حاصل ہو سکے۔
لیکن احتساب صرف اسی صورت میں موثر ثابت ہو سکتا ہے جب مطلوبہ شخص کی حیثیت' پوزیشن اور اس کے روابط کو مدنظر نہ رکھا جائے۔ جو شخص اپنے عہدے کو اپنے لیے یا اپنے گھر والوں یا دوست احباب کے لیے مالی فوائد کے حصول کے لیے استعمال کرتا ہے وہ لازمی طور پر کرپٹ گردانا جائے گا۔ احتساب کو موثر بنانے کے لیے یہ لازم ہے کہ مندرجہ ذیل افراد کو سخت ترین سزا دی جائے۔-1 جو حلف اٹھا کر غلط گواہی دے۔-2 جو تحقیقات کے معاملے میں اصل حقائق کی پردہ پوشی کی کوشش کرے۔ وہائٹ کالر جرائم کرنے والے لمبے ہاتھ مار کر نکل جاتے ہیں اور شاذونادر ہی کوئی ثبوت چھوڑتے ہیں۔
ان کی گرفتاری کے لیے بالواسطہ طریقہ کار استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس کی ایک مثال امریکا کے بدنام زمانہ مجرم 'الکپون' کی ہے جو قتل' لوٹ مار اور بھتہ خوری جیسے گھناؤنے جرائم میں ملوث تھا لیکن عدالت میں اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں کیا جا سکا کیونکہ کوئی بھی اس کے خلاف گواہی دینے پر تیار نہیں تھا چنانچہ بالآخر ٹیکس نادہندگی کے الزام میں پکڑا گیا کیونکہ وہ اپنی ظاہر آمدنی سے کہیں زیادہ پرتعیش زندگی گزار رہا تھا اور اپنی صحیح آمدنی کو ظاہر نہیں کرتا تھا۔ جب کسی مجرم کے خلاف عدالت میں ٹھوس ثبوت نہ پیش کیے جا سکیں تو اس صورت میں استغاثے کو جرم ثابت کرنے کے لیے بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے۔
اس سلسلے میں "KISS" کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جو مخفف ہے "Keep it Simple, Stupid" کا۔ ہماری مراد یہ ہے کہ سیاست میں دروغ گوئی سے کام لینے والے اور لوٹ مار کرنے والے کو کسی صورت میں قانون سازی کے منصب پر فائز نہیں کیا جانا چاہیے اور نہ ہی حکمرانی میں ان کا کوئی کردار ہونا چاہیے۔صوبائی حکومتوں کے خلاف بھاری کرپشن' بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں، ایسی صورت میں جمہوریت کس طرح کامیاب ہو سکتی ہے جب کہ حکمرانی کرنے والے خود مجرمانہ کردار کے حامل ہوں۔
وہ لوگ صرف قاتلوں اور کرپٹ افراد کا تحفظ کریں گے جو سیاسی انتظامیہ میں موجود ہوںگے۔ نیب کا کام صرف نگاہ رکھنے کا ہے اور یہ دیکھنے کا ہے کہ جس خزانے کی حفاظت کے لیے کسی کو بٹھایا گیا ہے وہ اس کو ہڑپ نہ کرنا شروع کر دے۔
1960ء کے عشرے میں جب ایوب خان کی حکومت تھی تو امریکی جریدے ریڈرز ڈائجسٹ نے لکھا کہ بیوروکریٹس کے بچوں کی شادی کے موقع پر انھیں کاریں' ایئر کنڈیشنر اور ریفریجریٹرز وغیرہ تحفے میں دیے جاتے ہیں۔ ان بیوروکریٹس کے ساتھ تاش سے جوا بھی کھیلا جاتا تھا جس میں انھیں خواہ مخوا جتا دیا جاتا ہے۔ اب تاش کا یہ کھیل ''اسٹاک مارکیٹ'' کے اتار چڑھاو میں بدل چکا ہے۔
ان کے خریدے ہوئے حصص کبھی خسارے میں نہیں جاتے۔ انھیں ہمیشہ قانونی طور پر جیت کا حقدار قرار دیا جاتا ہے۔ دبئی' لندن' نیو یارک میں ان کے لیے بنگلے اور جائیدادیں خریدی جاتی ہیں۔ مشرف کے این آر او نے کرپشن کو ادارہ جاتی مقام دینے کی کوشش کی۔ کیا یہ قومی تذلیل کا معاملہ نہیں کہ کرپٹ افراد اب بھی اہم عہدوں پر فائز ہیں جو ہماری اجتماعی منافقت کا ایک ثبوت ہے۔