کرپشن بلا امتیاز کارروائی کی ضرورت
اگر ملک سے کرپشن کو ختم کرنا ہے تو چاروں صوبوں میں ایک ساتھ اور بلا امتیاز آپریشن کیا جانا چاہیے تھا
ایک عرصے سے یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب میں بھی دہشت گردوں ٹارگٹ کلرز اور ان کے سہولت کاروں کو کرپشن کے خلاف آپریشن شروع کرے۔ اب افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ نیب پنجاب میں کارروائی کی تیاریوں میں مصروف ہے۔
اس امکان کو تقویت یوں حاصل ہو رہی ہے کہ وزیر اعظم نے ایک تقریب کے دوران نیب پر نہ صرف سخت تنقید کی بلکہ نیب کو اس کی حدود میں رکھنے کے لیے قانون سازی کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان کو سیاسی اور دانشورانہ حلقوں میں نیب کو پنجاب میں کارروائی سے باز رکھنے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ملک سے کرپشن کو ختم کرنا ہے تو چاروں صوبوں میں ایک ساتھ اور بلا امتیاز آپریشن کیا جانا چاہیے تھا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوا بلکہ آپریشن کا دائرہ سندھ خصوصاً کراچی تک محدود کر دیا گیا۔ اس حوالے سے یہ اعتراض بھی شروع ہو گئے کہ یہ ٹارگٹڈ آپریشن ہے۔ متحدہ اور پیپلزپارٹی کے کارکن چونکہ احتساب کی زد میں نمایاں تھے، لہٰذا ان جماعتوں نے انتقامی کارروائی کا نام دینا شروع کیا اور بادیٔ النظر ان جماعتوں کا موقف زور دار اس لیے بن گیا کہ میڈیا میں ان ہی دو جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو ہائی لائٹ کیا جاتا رہا۔
بد قسمتی سے عشروں سے یہ شکایت عام ہے کہ پاکستان میں چھوٹے صوبوں کے خلاف امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور اس شکایت میں عموماً اقتصادی اور سیاسی امتیازات کا پہلو نمایاں رہتا تھا۔ ہمارے ملک میں آبادی کے حوالے سے جو بہت بڑا تفاوت موجود ہے اس کے منصفانہ حل کے بغیر ان شکایتوں کا ازالہ ممکن نہیں، جو لوگ پاکستان میں مزید صوبے بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے ان پر رنگ برنگ الزامات لگانے کے بجائے سنجیدگی سے صوبوں میں اضافے کا مطالبے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن ملک کی عمر کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور پاکستان کی عمر میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے کرپشن میں اضافہ بھی اسی تناسب سے ہو رہا ہے۔
اس حوالے سے حقیقت کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اربوں، کھربوں کرپشن کا ارتکاب کرنے والے نہ کسان ہیں نہ مزدور نہ عام غریب عوام کیوں کہ انھیں جن طبقاتی حد بندیوں میں قید کر کے رکھا گیا ہے وہاں کرپشن کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ 80 فی صد بھوکے عوام اپنا سارا وقت روٹی کے حصول میں ہی لگا دیتے ہیں تو نہ ان کے پاس کرپشن کے مواقعے ہوتے ہیں نہ وقت۔ کرپشن دراصل ہماری اشرافیہ کی ضرورت ہے اور وہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک یہ طبقاتی فرض بڑی ذمے داری سے ادا کر رہی ہے۔
اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ ہمارے وزیر اعظم کا تعلق اس با اختیار صوبے سے ہے جس کے اکابرین کو ہمیشہ سات خون معاف رہتے ہیں۔ پنجاب اسی ملک کا ایک صوبہ ہے، کرپشن کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اسے کسی ایک صوبے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں بلا امتیاز جاری رہنا چاہیے اگر کوئی کارروائی محض رسمی رہ جاتی ہے تو اس کی حیثیت ایک شعبدہ بازی سے زیادہ نہیں ہوتی۔
کرپشن نے ہمارے ملک کی جڑیں ہی کھوکھلی نہیں کیں بلکہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کی زندگی کو بھی عذاب بنا دیا ہے کیوں کہ جب ملک کی دولت کا 80 فی صد حصہ دو فی صد کے ہاتھوں میں مرکوز ہو جائے تو منطقی طور پر 90 فی صد عوام مفلس اور قلاش ہی رہیں گے، پچھلے 68 سالوں سے یہ بہیمانہ سلسلہ ڈنکے کی چوٹ پر جاری ہے، اس قسم کی بد عنوانیوں کو روکنے کی ذمے داری حکومتوں پر ہوتی ہے، اگر حکمران ہی بد عنوان ہوں تو بد عنوانی رکتی نہیں بلکہ پروان چڑھتی ہے اور ہمارے ملک میں یہی ہو رہا ہے۔
ہر جمہوری ملک میں خواہ وہاں کی جمہوریت نام نہاد ہی کیوں نہ ہو، اپوزیشن حکومت کی بد اعمالیوں کے خلاف آواز بہر حال اٹھاتی ہے لیکن جن ملکوں میں اپوزیشن فرینڈلی ہوتی ہے تو دونوں فرینڈز مل کر ملک کا وہ حشر کر دیتے ہیں جس کی ایک ''درخشاں'' مثال پاکستان ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن کس قدر بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے اس کا اندازہ صرف ایک اسکینڈل سے لگایا جا سکتا ہے، ہماری ایلیٹ نے قرض کے نام پر ڈھائی کھرب روپے بینکوں سے لے کر معاف کرا لیے۔
یہ کیس عشروں سے عدلیہ کی میزوں پر پڑا سڑ رہا ہے کوئی پرسان حال نہیں۔دولت کی ہوس نے ہماری ایلیٹ کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں اور امداد و قرضوں میں اربوں کی کرپشن سے ان کا دل بھرتا ہی نہیں۔ ان اکابرین نے قومی اداروں میں اپنے عزیز رشتے داروں کے ذریعے اربوں کی کرپشن کروا کر قومی اداروں کو نقصان زدہ اداروں میں بدل دیا اور نقصان کو جواز بنا کر ان کی نجکاری کی راہ ہموار کی اور اس بزنس میں بھی اربوں کمانے کی راہ ہموار کر لی۔
نجکاری اصل میں سرمایہ دارانہ لوٹ مار کا ایک بڑا اور اہم ذریعہ ہے۔ وہ تمام ممالک جہاں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے نجکاری حکومتوں کی اولین ترجیح بن گئی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ہمدردوں کی کارکردگی واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے۔
ہمارے احتسابی ادارے عشروں سے حکومتوں کے دباؤ میں رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بوجوہ اب یہ ادارے حکمران طبقے کے دباؤ سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس جرأت رندانہ کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ پنجاب میں اب تک آپریشن کا نہ ہونا انھیں کوششوں کا مرہون منت کہلایا جا رہا ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس پس منظر میں جہاں کرپشن کا پھیلاؤ بھی بڑا ہونا ایک فطری بات ہے، برسوں سے احتساب کو اس صوبے سے کامیابی کے ساتھ دور رکھا گیا اب جب احتسابی ادارے اس صوبے کا رخ کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں تو یہاں نیچے سے اوپر تک ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔
حکمرانوں کی طرف سے تو احتساب کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے تھا لیکن اس ادارے پر الزامات لگاکر اسے آپریشن سے روکنے کی کوششوں سے نہ صرف ملک تیزی سے تباہی کی طرف جائے گا بلکہ 68 سال سے جاری اس خونی کھیل سے عوام اب تنگ ہی نہیں بلکہ سخت اشتعال کی طرف آ رہے ہیں۔ اگر چاروں صوبوں میں بلا امتیاز کرپشن کے خلاف سخت آپریشن نہ کیا گیا تو اس بات کے امکانات اور خدشات موجود ہیں کہ عوام اس کام کو اپنے ہاتھوں میں نہ لے لیں اگر ایسا ہوا تو پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
اس امکان کو تقویت یوں حاصل ہو رہی ہے کہ وزیر اعظم نے ایک تقریب کے دوران نیب پر نہ صرف سخت تنقید کی بلکہ نیب کو اس کی حدود میں رکھنے کے لیے قانون سازی کرنے کا عندیہ بھی دیا ہے۔ وزیراعظم کے اس بیان کو سیاسی اور دانشورانہ حلقوں میں نیب کو پنجاب میں کارروائی سے باز رکھنے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔
اس حوالے سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر ملک سے کرپشن کو ختم کرنا ہے تو چاروں صوبوں میں ایک ساتھ اور بلا امتیاز آپریشن کیا جانا چاہیے تھا لیکن بوجوہ ایسا نہ ہوا بلکہ آپریشن کا دائرہ سندھ خصوصاً کراچی تک محدود کر دیا گیا۔ اس حوالے سے یہ اعتراض بھی شروع ہو گئے کہ یہ ٹارگٹڈ آپریشن ہے۔ متحدہ اور پیپلزپارٹی کے کارکن چونکہ احتساب کی زد میں نمایاں تھے، لہٰذا ان جماعتوں نے انتقامی کارروائی کا نام دینا شروع کیا اور بادیٔ النظر ان جماعتوں کا موقف زور دار اس لیے بن گیا کہ میڈیا میں ان ہی دو جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں کو ہائی لائٹ کیا جاتا رہا۔
بد قسمتی سے عشروں سے یہ شکایت عام ہے کہ پاکستان میں چھوٹے صوبوں کے خلاف امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے اور اس شکایت میں عموماً اقتصادی اور سیاسی امتیازات کا پہلو نمایاں رہتا تھا۔ ہمارے ملک میں آبادی کے حوالے سے جو بہت بڑا تفاوت موجود ہے اس کے منصفانہ حل کے بغیر ان شکایتوں کا ازالہ ممکن نہیں، جو لوگ پاکستان میں مزید صوبے بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
اس حوالے سے ان پر رنگ برنگ الزامات لگانے کے بجائے سنجیدگی سے صوبوں میں اضافے کا مطالبے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ پاکستان میں کرپشن ملک کی عمر کے ساتھ ساتھ چل رہی ہے اور پاکستان کی عمر میں جیسے جیسے اضافہ ہو رہا ہے کرپشن میں اضافہ بھی اسی تناسب سے ہو رہا ہے۔
اس حوالے سے حقیقت کو ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ اربوں، کھربوں کرپشن کا ارتکاب کرنے والے نہ کسان ہیں نہ مزدور نہ عام غریب عوام کیوں کہ انھیں جن طبقاتی حد بندیوں میں قید کر کے رکھا گیا ہے وہاں کرپشن کی سرے سے کوئی گنجائش ہی نہیں۔ 80 فی صد بھوکے عوام اپنا سارا وقت روٹی کے حصول میں ہی لگا دیتے ہیں تو نہ ان کے پاس کرپشن کے مواقعے ہوتے ہیں نہ وقت۔ کرپشن دراصل ہماری اشرافیہ کی ضرورت ہے اور وہ قیام پاکستان کے بعد سے آج تک یہ طبقاتی فرض بڑی ذمے داری سے ادا کر رہی ہے۔
اسے ہم اتفاق کہیں یا حسن اتفاق کہ ہمارے وزیر اعظم کا تعلق اس با اختیار صوبے سے ہے جس کے اکابرین کو ہمیشہ سات خون معاف رہتے ہیں۔ پنجاب اسی ملک کا ایک صوبہ ہے، کرپشن کے خلاف کوئی کارروائی ہوتی ہے تو اسے کسی ایک صوبے تک محدود نہیں رہنا چاہیے بلکہ پنجاب سمیت چاروں صوبوں میں بلا امتیاز جاری رہنا چاہیے اگر کوئی کارروائی محض رسمی رہ جاتی ہے تو اس کی حیثیت ایک شعبدہ بازی سے زیادہ نہیں ہوتی۔
کرپشن نے ہمارے ملک کی جڑیں ہی کھوکھلی نہیں کیں بلکہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام کی زندگی کو بھی عذاب بنا دیا ہے کیوں کہ جب ملک کی دولت کا 80 فی صد حصہ دو فی صد کے ہاتھوں میں مرکوز ہو جائے تو منطقی طور پر 90 فی صد عوام مفلس اور قلاش ہی رہیں گے، پچھلے 68 سالوں سے یہ بہیمانہ سلسلہ ڈنکے کی چوٹ پر جاری ہے، اس قسم کی بد عنوانیوں کو روکنے کی ذمے داری حکومتوں پر ہوتی ہے، اگر حکمران ہی بد عنوان ہوں تو بد عنوانی رکتی نہیں بلکہ پروان چڑھتی ہے اور ہمارے ملک میں یہی ہو رہا ہے۔
ہر جمہوری ملک میں خواہ وہاں کی جمہوریت نام نہاد ہی کیوں نہ ہو، اپوزیشن حکومت کی بد اعمالیوں کے خلاف آواز بہر حال اٹھاتی ہے لیکن جن ملکوں میں اپوزیشن فرینڈلی ہوتی ہے تو دونوں فرینڈز مل کر ملک کا وہ حشر کر دیتے ہیں جس کی ایک ''درخشاں'' مثال پاکستان ہے۔ ہمارے ملک میں کرپشن کس قدر بڑے پیمانے پر کی جا رہی ہے اس کا اندازہ صرف ایک اسکینڈل سے لگایا جا سکتا ہے، ہماری ایلیٹ نے قرض کے نام پر ڈھائی کھرب روپے بینکوں سے لے کر معاف کرا لیے۔
یہ کیس عشروں سے عدلیہ کی میزوں پر پڑا سڑ رہا ہے کوئی پرسان حال نہیں۔دولت کی ہوس نے ہماری ایلیٹ کو اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں اور امداد و قرضوں میں اربوں کی کرپشن سے ان کا دل بھرتا ہی نہیں۔ ان اکابرین نے قومی اداروں میں اپنے عزیز رشتے داروں کے ذریعے اربوں کی کرپشن کروا کر قومی اداروں کو نقصان زدہ اداروں میں بدل دیا اور نقصان کو جواز بنا کر ان کی نجکاری کی راہ ہموار کی اور اس بزنس میں بھی اربوں کمانے کی راہ ہموار کر لی۔
نجکاری اصل میں سرمایہ دارانہ لوٹ مار کا ایک بڑا اور اہم ذریعہ ہے۔ وہ تمام ممالک جہاں سرمایہ دارانہ نظام رائج ہے نجکاری حکومتوں کی اولین ترجیح بن گئی ہے۔ اس حوالے سے پاکستان پر نظر ڈالی جائے تو سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے ہمدردوں کی کارکردگی واضح طور پر سامنے آ جاتی ہے۔
ہمارے احتسابی ادارے عشروں سے حکومتوں کے دباؤ میں رہے ہیں۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ بوجوہ اب یہ ادارے حکمران طبقے کے دباؤ سے نکلنے کی کوشش کر رہے ہیں، اس جرأت رندانہ کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ پنجاب میں اب تک آپریشن کا نہ ہونا انھیں کوششوں کا مرہون منت کہلایا جا رہا ہے۔ پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اس پس منظر میں جہاں کرپشن کا پھیلاؤ بھی بڑا ہونا ایک فطری بات ہے، برسوں سے احتساب کو اس صوبے سے کامیابی کے ساتھ دور رکھا گیا اب جب احتسابی ادارے اس صوبے کا رخ کرنے کے لیے پر تول رہے ہیں تو یہاں نیچے سے اوپر تک ایک کھلبلی مچی ہوئی ہے۔
حکمرانوں کی طرف سے تو احتساب کا خیر مقدم کیا جانا چاہیے تھا لیکن اس ادارے پر الزامات لگاکر اسے آپریشن سے روکنے کی کوششوں سے نہ صرف ملک تیزی سے تباہی کی طرف جائے گا بلکہ 68 سال سے جاری اس خونی کھیل سے عوام اب تنگ ہی نہیں بلکہ سخت اشتعال کی طرف آ رہے ہیں۔ اگر چاروں صوبوں میں بلا امتیاز کرپشن کے خلاف سخت آپریشن نہ کیا گیا تو اس بات کے امکانات اور خدشات موجود ہیں کہ عوام اس کام کو اپنے ہاتھوں میں نہ لے لیں اگر ایسا ہوا تو پھر نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔