پیٹ سے سوچنے والے
یاد تک نہیں ہے کہ چیختے چلاتے روتے کتنا وقت بیت چکا ہے
یاد تک نہیں ہے کہ چیختے چلاتے روتے کتنا وقت بیت چکا ہے، دہائیاں دے دے کر آواز بھی ہم سے روٹھ چکی ہے لیکن کریں توکریں کیا؟ بااختیار، طاقتور، تختوں پر بیٹھے ہمیں بھونکتے انسانوں سے زیادہ کوئی حیثیت ، رتبہ یا مرتبہ دینے کو تیار ہی نہیں ہیں۔اپنا ڈھانچہ چباتے بھونکتے انسان زنجیروں میں جکڑے سلاخوں کے پیچھے قید بھونکتے انسان اس کے علاوہ اورکچھ بھی نہیں ہیں، حد تو اب یہ ہوگئی ہے کہ کوئی پیچھے مڑکر دیکھنے تک کو تیار نہیں ہے کیونکہ انہیں اچھی طرح سے معلوم ہوگیا ہے کہ یہ صرف بھونکنے کے علاوہ اورکچھ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔
اس لیے ان کی طرف دیکھ کر اپنا وقت کیوں ضایع کیا جائے اور واقعی سچ بھی تو یہ ہی ہے کہ کوئی ہم سے آخر ڈرے تو ڈرے کیوں ؟کیونکہ بقول ان کے ہم نے اب تک بھونکنے کے علاوہ کیا کچھ ہے، جواب کچھ کریں گے ساری زیادتیوں، سارے ظلم وستم ساری ناانصافیوں کے باوجود چین کی زندگی گذار رہے ہیں۔
کبھی کبھار دوچار ہزار کی چوری کرنے والوں کو سرعام پیٹ کر یا انہیں نذرآتش کرکے اپنا غصہ نکال لیتے ہیں، کبھی کبھی بجلی،گیس کی لوڈ شیڈنگ پرکھمبوں کو ڈنڈے یا پتھر مارکر خوش ہوجاتے ہیں تو پھر ظاہر ہے ہمیں اہمیت دینا زیادتی ہی ہوگی۔ ان کے نزدیک ہم بھوکے ننگوں کی ایک فوج ہیں کیڑے مکوڑوں کا ایک جم غفیر ہیں۔
زمین پر رینگتے ، سسکتے ، سانس لیتے کیڑے ہیں جوکبھی کبھار سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ پیلے چہروں،گندی آنکھوں ، بہتی ناک، فاقہ زدوں کا ایک قافلہ ہیں کمزور،لاغر،افلاس کے ماروں کا ایک ہجوم ہیں، جسم سے باہر نکلتی پسلیوں والوں پھٹے پرانے کپڑوں میں ملبوس وقت سے پہلے قبروں میں ڈالے گئے مردوں کا جلوس ہیں اور مردوں سے کیا ڈرنا کیو ں ڈرنا ؟ اور ویسے بھی ہم صرف مال ہیں صرف سودا ہیں اس لیے ہم سب ٹھیکے پر ہیں۔
آج ہمیں کسی نے ٹھیکے پر لے رکھا ہے کل اورکوئی ٹھیکیدار یا سوداگر آئے گا وہ اس سے زیادہ بولی لگا کر ہمارا سودا کر لے گا حضور اعلیٰ کبھی مال یاسودے کی کوئی مرضی یا منشا یا خواہش نہیں ہوتی ہے ہمیشہ ٹھیکیدار یا سوداگر کی مرضی ، منشا اور خواہش چلتی ہے ہمارے ساتھ تو اس سے بھی برا ہونا چاہیے، کیونکہ ہم اسی لائق اور قابل ہیں اور اسی سلوک کے مستحق ہیں ہم سے زیادہ بے حس لوگ دنیا میں کوئی اور ہوہی نہیں سکتے ہیں۔ قصور سارا خود کا ہوتا ہے، الزام دوسروں کو دیتے پھرتے ہیں چوری ، ڈاکے،کرپشن ، لوٹ مارکی اجازت خود دیتے پھرتے ہیں اور نصیبوں اور قسمت کو برابھلا کہتے پھرتے ہیں۔
لٹیروں کا ساتھ خود دیتے پھرتے ہیں اور جب وہ اپنا کام کر چکے ہوتے ہیں تو بیچ چوراہے پر بیٹھ کر لٹنے کی دہائیاں دیتے پھرتے ہیں اور تو اور اپنی بزدلی ،کمزوری ،خوف ، ڈرکی وجہ سے چوروں ، لٹیروں کا نام لینے تک کانپتے ہیں اور غضب خدا کا سارا الزام ملک دشمنوں پر لگاتے پھرتے ہیں۔
آئیں اب باتیں کرتے ہیں چوروں ، لٹیروں اور کمیشن ایجنٹوں کی ۔ اصل میں یہ سب بہت ہی دلچسپ مخلوق ہیں جو ذہن یادل سے نہیں بلکہ پیٹ سے سوچتے ہیں،ان سب نے اپنا پہلا قاعدہ ہی غلط پڑھا ہواہے۔ یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ زندگی کی تمام خوشیاں، راحتیں، مسرتیں اور سکون و چین سب روپوں پیسوں ہیرے جواہرات ، محلوں میں چھپی ہوئی ہیں۔
اگر ان سب کی زندگیوں کا نفسیاتی مطالعہ کرلیاجائے تو یہ بات کھل کر سامنے آکھڑی ہوگی کہ یہ سب زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر محرومیوں اورناکامیوں کا شکار رہے ہیں اور وہ محرومیاں آج تک ان کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی ہیں۔ اصل میں یہ سب ادھورے انسان ہیں جو اپنے آپ کو مکمل کرنے کی کوششوں میں اپنے آپ کو اور ادھورا کرتے جارہے ہیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ انہیں اس بات کا احساس تک نہیں ہے یہ سب خود لذتی کا شکار ہیں۔
یہ اپنے آپ کو تسکین پہنچانے کی خاطر کسی کا بھی چین لوٹنے میں ایک سیکنڈ کی دیر نہیں لگاتے ہیں۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں ہے کہ دنیا کا بد ترین انسان وہ ہے جس کی وجہ سے کوئی دوسرا انسان روئے اور دوسری دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب دراصل انتہائی ڈرپوک ، بزدل اورکمزور ہیں۔
اسی لیے عبادت گاہوں کی طرف بھاگتے ہیں کیونکہ اندرکا خوف اور ڈر انہیں چین لینے نہیں دیتا ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں کی طرح خدا کو بھی بے وقوف بناسکتے ہیں اور وہ اپنی سی اس کوشش میں مصروف رہتے ہیں اگرآپ ان کے چہروں کو بغور پڑھیں تو آپ کو ان کی پریشانیاں ، تفکرات صاف پڑھنے میں آجائیں گی۔
یاد رہے یہ سب عذابوں میں گرفتار ہیں اسی لیے انہیں لوٹ مار،کرپشن کے سوا اورکچھ سجھائی نہیں دیتا ہے کہتے ہیں تمام قسم کی بھوک بیماری کی علامت ہوتی ہیں ۔ بھوک وہ عذاب ہے کہ جس کو چمٹ جائے تو پھر قبر تک ساتھ جاتی ہے ان سب کی ساری زندگی رشوت لیتے لیتے دھوکا بازی کرتے کرتے کرپشن اور لوٹ مار کر تے کرتے گذر تی ہے اور جیسے ہی بڑھاپا ان کے سامنے آجاتا ہے تو ایک دن آپ کو اچانک پتا چلتا ہے کہ فلاں صاحب نے ساری برائیاں چھوڑ دی ہیں اور اب اللہ والے بن گئے ہیں۔
یہ سنتے ہی آپ کے ذہن میں فوراً یہ سوال جاگتا ہے اور آپ یہ سوال کر بیٹھتے ہیں تو کیا ان صاحب نے اپنی ساری دولت ، جائیداد ، محل خیرات کردیے ہیں تو آپ کو یہ حیران کن جواب سننے کو ملتا ہے کہ نہیں خیرات تو کچھ نہیں کیا، لیکن اب اللہ والے بن چکے ہیں لمبی داڑھی رکھ لی ہے ، بیوی اور بچیاں برقعہ پہننے لگے ہیں ہر سال عمرے کرتے ہیں ۔ ہر سال حج کی سعادت حاصل کررہے ہیں نماز اور روزوں کی پوری پابندی کرنے لگے ہیں۔ سر پر ٹوپی لگائے اونچی شلوار کے ساتھ ہاتھ میں تسبیح پکڑے پانچ وقت مسجد آتے جاتے نظر آتے ہیں اور ہر بات کے بعد انشاء اللہ ، ماشاء اللہ اور الحمد اللہ کہنا ان کاتکیہ کلام بن گیا ہے۔
ایک درویش بازار میں بیٹھا تھا، بادشا ہ کا گذر وہاں سے ہوا تو اس نے پوچھا کہ'' بھائی کیا کررہے ہو تو درویش نے کہاکہ بندوں کی اللہ سے صلح کروارہاہوں، اللہ تو مان رہا ہے مگر بندے نہیں مان رہے۔'' کچھ دنوں بعد درویش قبرستان میں بیٹھا تھا کہ اتفاق سے بادشاہ وہاں آپہنچا تو پھر پوچھا کہ ''بھائی یہاں کیاکررہے ہو۔'' درویش نے کہا '' اللہ کی بندوں سے صلح کروارہا ہوں لیکن آج بندے تو مان رہے ہیں مگر اللہ نہیں مان رہا ۔ یاد رکھو آج اللہ تومان رہا ہے لیکن اگر دیر ہوگی تو پھر اللہ نہیں مانے گا۔''