اوباما کا خطاب

ایسے ماحول میں کہ جب اوباما اپنی مدت صدارت کے آخری سال میں ہیں اور امریکا میں صدارتی انتخاب ہوا ہی چاہتا ہے


[email protected]

نائن الیون کے بعد امریکی و یورپی مسلمان جس عدم تحفظ میں مبتلا ہوئے اس عدم تحفظ میں بعد کے رونما ہونیوالے واقعات پیرس دہشتگردی، امریکی کمیونٹی سینٹر میں چودہ افراد کا قتل اور اس جیسے دیگر واقعات نے بتدریج مسلمانوں کی مشکلات میں اضافہ کیا، مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں آج 3گنا اضافہ ہوچکا ہے جس کا نشانہ مسلمانوں کا ہر طبقہ، ادارے اور مساجد ہیں۔ امریکا و یورپ میں مسلمانوں کے خلاف تعصب و تشدد مسلسل بڑھ رہا ہے اور نظریہ و تہذیبوں کے تصادم کو مسلسل ہوا مل رہی ہے۔

ایسے ماحول میں کہ جب اوباما اپنی مدت صدارت کے آخری سال میں ہیں اور امریکا میں صدارتی انتخاب ہوا ہی چاہتا ہے کہ ریپبلکن پارٹی کے صدارتی امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ ان حالات میں سیاسی فائدہ اٹھانے کے لیے انتہا درجے کا مسلمانوں کے خلاف زہر اگل کر بدترین تعصب کا مظاہرہ کرکے دائیں بازو کے انتہا پسند امریکیوں کے ووٹ حاصل کرنے کا راستہ بنا رہا ہے۔

تعصب کا عالم دیکھئے کہ ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے 61 فیصد امریکی اوباما کو مسلمان سمجھتے اور غیر امریکی قرار دیتے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مد مقابل ہیلری کلنٹن بھی صدارتی امیدوار کی دوڑ میں شامل ہیں اگرچہ خیال پایاجاتا ہے کہ ٹرمپ کی نسبت ہیلری کے صدر منتخب ہونے کی صورت میں عالم اسلام کے لیے بہتری کی نوید ہے تو یہ کہنا محال ہے کیونکہ مسلمانوں کے خلاف عالمی سطح پر امریکی پالیسی میں شکل و صورت یا ناموں کی تبدیلی سے کچھ خاص فرق پڑنے والا نہیں۔

فرق نظام اور پالیسی کی تبدیلی سے پڑتا ہے ناموں اور چہروں کی تبدیلی سے نہیں۔ ہر امریکی صدر اسی پالیسی کو لے کر چلنے پر مجبور ہوتا ہے جو عالمی سطح پر نیو ورلڈ آرڈر کے تحت طے شدہ چلتے آرہی ہے۔ سیکولرازم میں ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ہے، اس میں ریاست کا مذہب صرف سیاست ہوتا ہے، جاگیردارانہ نظام کے بعد آج سرمایہ دارانہ نظام دنیا پر براجمان ہے اور دنیا کی 80 فیصد سے زائد دولت پر قابض اور 90 فیصد سے زائد عوام اس کے شکنجے میں جکڑے ہوئے ہیں اور ظالمانہ طبقاتی نظام دنیا بھر کے انسانوں کا استحصال کررہا ہے۔

مسلمان اور عالم اسلام بھی اس نظام سے خود کار طریقے سے متاثر ہیں۔ دشمنان اسلام غیر مسلم سامراجی قوتیں اور دیگر عالمی طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کے حقوق کو عبادات و رسومات کی حد تک تو تسلیم کرتے اور انھیں آزادی دیتے ہیں لیکن اسلام بطور نظام عالمی سطح پر یا کسی ایک ملک میں اپنی اصل شکل و صورت کے ساتھ نافذ ہو جائے یہ کسی قوت کو قطعی نامنظور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا و یورپ میں شخصی آزادی ہے، شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ مذہبی آزادی بھی مل جائے گی۔ آپ مساجد بنائیں یا مدرسے، تبلیغ کریں یا غیر مسلموں کو حلقۂ بگوش اسلام، باہم شادیاں کریں یا علیحدگی اختیار کریں آپ کو اختیار حاصل ہے۔

کوئی روکنے والا نہیں لیکن نظام ان کا چلے گا جہاں آپ نے اسلام کو بطور نظام نافذ کرنے کی کوشش کی، آپ تنہا رہ جائینگے، نفرت، تعصب اور انتقام کا نشانہ بن جائینگے،۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا و یورپ میں بڑی تعداد میں مساجد ہیں اور مدارس بھی اور مسلمان امریکا اور دیگر یورپی ممالک میں بطور سائنسدان، ماہر تعلیم، ڈاکٹر و انجینئر کے ساتھ ساتھ قانون نافذ کرنیوالے اداروں و سکیورٹی ایجنسیوں سمیت مختلف شعبوںمیں خدمات سرانجام دے رہے ہیں ۔

اب صورتحال بدل رہی ہے اور دنیا بھر کے مسلمان خود کو غیر محفوظ سمجھنے پر مجبور ہوگئے ہیں، چند ایک مٹھی بھر افراد کا کفارہ تمام مسلموں کو ادا کرنا پڑ رہا ہے، سب مسلمانوں کو قصور وار گردانا جا رہا ہے جب کہ اس روشن حقیقت سے تمام عالمی طاقتیں بخوبی واقف ہیں کہ تمام مسلمان دہشتگرد ہیں اور نا ہی ہو سکتے ہیں اور یہ بھی کہ اسلام ایک امن پسند دین ہے۔ امن و سلامتی اور احترام آدمیت و تکریم انسانیت اس کا خاصا ہے اور اسلام کے نزدیک ایک انسان کی جان بچانا ایسا ہے کہ گویا آپ نے پوری انسانیت کو بچالیا، ان حالات میں دنیا کے سامنے اسلام کی سچی تصویر اور درست تشخص کو پیش کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ تمام دنیا اسلام اور مسلمانوں کی حقیقی خوبیوں سے واقف ہوسکے اور نفرت و تعصب کی بجائے مسلمانوں سے محبت و قربت کے جذبات پروان چڑھیں۔

نیز مسلمان اور دہشتگرد کا فرق واضح ہوجائے بالکل ایسے جیسے دن اور رات ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں، قطعی جدا۔صدر اوباما نے بھی گزشتہ دنوں اسی حقیقت کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے اپنے دور صدارت میں پہلی مرتبہ بالٹی مور میں واقع ایک مسجد کا دورہ کیا اور اس حقیقت کی نشان دہی کی کہ دہشتگردی کے واقعات پر اسلام کی غلط تصویر کشی کی گئی حالانکہ قرآن فرماتا ہے کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔ مسلمانوں کے ساتھ مل کر ہی انتہا پسندی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ مسلمان امریکی معاشرے کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں، مذہب کی بنیاد پر سیاست کو مسترد کردینا چاہیے، اسلام امن کا دین ہے اور ہمیشہ سے امریکا کا حصہ رہا ہے۔

انتہا پسند تنظیمیں اسلام کا غلط تصور پیش کررہی ہیں، اوباما نے حاضرین کو یقین دلایا کہ مسلمانوں کے خلاف بے بنیاد باتیں کرنیوالوں کی امریکا میں کوئی جگہ نہیں کسی ایک عقیدے کے خلاف حملے کو تمام عقائد کے خلاف حملہ تصور کیا جائے گا اور حکومت ایسی صورت میں محض تماشائی نہیں رہے گی مساجد امریکا میں طویل عرصے سے قائم ہیں اور ان کا وجود پورے امریکا میں ہے اور وہ مسجد میں آنیوالے پہلے امریکی صدر نہیں جنھیں مسلمان کہا گیا بلکہ تاریخی امریکی صدر تھا مسٹر جینفرسن کو بھی مخالفین مسلمان کہتے تھے۔

امریکی صدر نے تسلیم کیا کہ اس وقت امریکی مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جس پر ان کو تشویش ہے زیادہ تر امریکی، مسلمانوں اور اسلام سے لا علم ہیں لہٰذا کسی بھی دہشتگردی کے واقعے کے بعد جب غیر ذمے دارانہ عناصر مسلمانوں پر الزام تراشی کرتے ہیں تو اکثر امریکی بھی تاثر لیتے ہیں جو غلط ہے۔

انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں کے خلاف ابہام طرازی ہرگز قابل معافی نہیں اوباما نے یہ واضح حقیقت بھی تسلیم کی کہ یہ مساجد ہی ہیں جہاں بہت بھاری تعداد میں مسلمان آتے ہیں جو دیگر عقائد کے ساتھ افہام و تفہیم کے پل تعمیر کرتے ہیں اور عیسائیوں اور یہودیوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں، نیز وہ صحت کے مراکز بھی چلاتے اور بچوں کو تعلیم بھی دیتے ہیں ۔اوباما نے کہا انھیں علم ہے کہ وہ جس مسجد میں آئے ہیں اس پر دو مرتبہ حملہ ہوچکا ہے، امریکا میں دیگر مقامات پر بھی مساجد میں توڑ پھوڑ اور مسلمانوں پر تشدد کیا گیا، اوباما کا اپنے صدارتی دور کے آخر میں یہ خطاب اگرچہ امریکی مسلمانوں کے لیے قدرے حوصلہ افزا تاہم سیاسی معلوم ہوتا ہے۔

اوباما نے دو مرتبہ صدارتی امور کے انتظامات سنبھالے تاہم ان کے دور بھی بش سینئر اور جونیئر سے کچھ خاص مختلف نہ رہے، تبدیلی کے نعرے باوجود امریکی پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی واقع ہوئی نا ہی مسلم ممالک پر لشکر کشی اور ان کے سیاسی معاملات میں امریکی عمل دخل ہی کچھ خاص کم ہوا اور واضح ہوگیا کہ امریکی نظام میں چہروں اور ناموں کی تبدیلی سے امریکی پالیسی (بالخصوص عالم اسلام کے خلاف) کچھ خاص تبدیل نہیں ہوتی۔ تمام تر صورتحال کے ذمے دار اسلام دشمن طاقتیں ہی نہیں ہیں کچھ خامیاں ہم میں بھی ہیں بہت سے واقعات کے ہم خود بھی ذمے دار ہیں، بہت سے مظالم اور نا انصافیاں خود مسلمانوں کے ہاتھوں اپنے ہی مسلمان بھائیوں سے سرزد ہو رہی ہیں جن کا پرسان حال ہے کوئی نا خبر گیر وداد رس، یہ ظلم غیروں کے ظلم سے کہیں بڑھ کر ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں