قطرگیس پائپ لائن معاہدہ
پاکستان کی تاریخ میں ہونے والا ایل این جی کی خریداری کا یہ سب سے بڑا معاہدہ 2 سالہ بات چیت کے نتیجے میں طے پایا
پاکستان اورقطرکے درمیان طے پانیوالے مایع قدرتی گیس (ایل این جی) کی درآمدکا معاہدہ اس اعتبار سے توانائی کا گیم چینجر ثابت ہوسکتا ہے کہ اس سے پاکستان کے گھریلو اورصنعتی صارفین کو بجلی کی پیداوار میں تقریباً دوہزارمیگاواٹ اضافے کی توقع کی جارہی ہے جو نہایت خوش آیند امر ہے۔
پاکستان کی تاریخ میں ہونے والا ایل این جی کی خریداری کا یہ سب سے بڑا معاہدہ 2 سالہ بات چیت کے نتیجے میں طے پایا ہے، اس دوران کئی نشیب وفراز بھی آتے رہے لیکن آخر کار 10 فروری کو دوحہ میں وزیر اعظم محمد نوازشریف اور امیر قطرتمیم بن حمد التھانی کی موجودگی میں اس معاہدے پر دستخط کیے گئے، سالانہ ایک ارب ڈالر کی قدرتی گیس کی خریدوفروخت کے 15 سالہ طویل مدتی معاہدے پر پاکستان کی طرف سے وفاقی وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی اور قطرکے گیس بورڈ آف ڈائریکٹر کے چیئرمین سعد شیریدہ القابی نے دستخط کیے۔
معاہدے کی تفصیلات سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کو قطر سے ملنے والی گیس 5.35 ڈالر فی ایم ایم برٹس تھرمل یونٹ پڑے گی۔ اس طرح یہ ایران پائپ لائن اور تاپی معاہدے کے تحت فراہم ہونے والی گیس سے بھی زیادہ کم قیمت پڑیگی کیونکہ پاک ایران گیس پائپ لائن کے ذریعے حاصل ہونے والی ایل این جی کے نرخ 5.70 ڈالر ایم ایم بی ٹی یو جب کہ تاپی گیس پائپ لائن کے ذریعے ملنے والی مایع قدرتی گیس کے نرخ 5.90 ایم ایم بی ٹی یو بتائے جارہے ہیں لہٰذا اس اعتبار سے اس معاہدے کو زیادہ پذیرائی حاصل ہونی چاہیے۔
اقتصادی رابطہ کمیٹی نے جولائی 2013 میں وزارت پیٹرولیم کو حکومتی سطح پر قطر گیس کے ساتھ ایل این جی کی درآمد کے حوالے سے مذاکرات کا اختیار دیا تھا۔ وفاقی کابینہ نے 18 اپریل 2014 کو قطر سے مایع قدرتی گیس درآمد کرنے کی پالیسی کی منظور دی تھی۔ اس پالیسی کے تحت پاکستان قطر سے ابتدائی طور پر دو سو ملین مکعب فٹ روزانہ گیس درآمد کریگا جو ایک سال میں بڑھ کر چار سو ملین مکعب فٹ روزانہ تک پہنچ جائے گی۔
ایک انٹرویو میں وفاقی وزیر پیٹرولیم خاقان عباسی نے امید ظاہر کی تھی کہ پالیسی کے تحت یہ گیس نومبر 2014 تک پاکستان کو ملنا شروع ہوجائے گی لیکن اسلام آباد میں جاری دھرنوں کی وجہ سے نومبر تک اس گیس کی پاکستان آمد ممکن نہ ہو سکی۔ یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان نے ایران سے قدرتی گیس کے حصول کے لیے 4 سال پہلے گیس پائپ لائن بچھانے کے کام کا آغاز کیا تھا لیکن ایران پر عائد عالمی اقتصادی پابندیوں کے باعث یہ کام زیادہ دن جاری نہیں رہ سکا۔ پاکستان میں قدرتی گیس کے بحران کے حل کے لیے آج بھی اس گیس منصوبے کو اہمیت حاصل ہے۔
اب صورتحال یہ ہے کہ ایران پر سے اقتصادی پابندیاں ہٹنے کے بعد پاک،ایران گیس پائپ لائن منصوبے سمیت توانائی کے بہت سے معاہدوں پر عملدرآمد کے امکانات روشن ہوگئے ہیں اور آیندہ آنیوالے دنوں میں اس منصوبے پر بھی مزید پیشرفت ہوگی۔ جہاں تک تاپی گیس منصوبے کا تعلق ہے تو جب تک افغانستان میں امن قائم نہیں ہو گا، اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانا مشکل دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان کے موجودہ حالات میں توانائی کے اس اہم ترین ذریعے کی درآمد کا معاہدہ طے پانا خوش آیند بات ہے۔
بڑی مقدار میں ایل این جی درآمد کی جائے گی تو پاکستان میں قدرتی گیس کی قلت دو رکرنے میں مدد ملے گی اور یوں توانائی کے بدترین بحران کی وجہ سے ترقی اور خوشحالی کا جو سفر رک چکا ہے یاسست روی کا شکار ہوگیا ہے وہ ایک بار پھر پوری رفتار سے آگے بڑھ سکے گا۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو کافی عرصے سے توانائی کے بحران کا سامنا کررہے ہیں۔ ملک میں خاص طور پر موسم گرما میں بجلی کی طلب میں زبردست اضافہ ہوجاتا ہے اور یہ طلب بجلی کی پیداوار سے کہیں زیادہ ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے لوڈ شیڈنگ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے اور یوں گھریلو صارفین کے علاوہ صنعتی و زرعی شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوتا ہے۔
اس طرح موسم سرما میں لوگ سردی سے بچنے کے لیے گیس کے ہیٹر اور گیزر استعمال کرتے ہیں جس کے باعث سردیوں میں گیس کی طلب بڑھ جاتی ہے اور پیداوار طلب کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے گیس کی لوڈ مینجمنٹ کرنی پڑتی ہے۔ گیس نہ ملنے کی وجہ سے صنعتی و زرعی پیداوار بھی متاثر ہوتی ہے۔
توقع کی جانی چاہیے کہ اب اگر قطر سے ایل این جی درآمد کرنے کا معاہدہ ہو گیا ہے تو مذکورہ شعبوں پر بھی خصوصی توجہ دی جائے گی۔ اس کے ساتھ ساتھ کھاد بنانیوالی فیکٹریوں کو بھی خاص طور پر گیس فراہم کی جانی چاہیے تاکہ پاکستان کھاد درآمد کرکے جو ذرمبادلہ خرچ کرتا ہے وہ بچایا جاسکے۔ جب یہ قیمتی زر مبادلہ بچایا جائے گا تو اس سے ملک کی معیشت مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔ حالیہ معاہدے کے بعد قوی امید ہے کہ آنیوالے دنوں میں پاکستان کی معیشت مزید مضبوط ہوگی۔ بجلی صارفین کو لوڈ شیڈنگ اور گیس کے صارفین کو گیس لوڈ مینجمنٹ کے عذاب سے نجات دلانے میں مدد ملے گی اور 2000 میگاواٹ بجلی کی پیداوار سے نئی صنعتیں لگیں گی۔
بند کارخانوں کا پہیہ رواں ہوگا، بیروزگار اور ہنر مندوں کے لیے روزگار کے نئے مواقعے پیداہونگے۔ میرا خیال ہے کہ یہ گیس معاہدہ روشن پاکستان کی جانب ایک اہم پیشرفت ثابت ہوگا۔ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے اس تاریخی معاہدے کی غرض سے قطر کا خاص طور پر دورہ کیا جہاں ان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ ان کے دورے کی کامیابی صرف گیس پائپ لائن منصوبہ ہی نہیں ہے بلکہ قطر میں پاکستانی ہنرمندوں کی بہت طلب ہے۔ خیال ہے کہ آیندہ مہینوں میں پاکستان سے مزید ایک لاکھ افراد کے لیے مختلف شعبوں میں خدمات کے مواقع پیدا ہونگے۔
قطر کی معیشت ترقی کی نئی منزلیں طے کررہی ہے۔ پاکستان سے آنیوالے افراد کے لیے مواقعے پیدا کرنے کی غرض سے قطر حکومت کی آمادگی بھی اہم پیشرفت ہے، اب ضرورت اس امر کی ہے کہ سفارتی کوششوں کو مزید تیز کیا جائے۔
پاکستان اور قطر کے درمیان دفاع کے شعبے میں تعاون بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے جن کے باعث قطر کے فوجی افسروں کو اعلیٰ تربیت کے مواقعے پیش کیے جائینگے۔ قطر پاکستان سے اپنی افواج کے لیے اسلحہ اور گولہ بارود بھی خریدیگا۔ قطر پاکستان سے جے ایف 17- تھنڈر کثیر المقاصد جنگی طیارے اور سپر مشاق تربیتی طیارے خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتا ہے۔ وزیر اعظم نوازشریف نے اپنے دورے کے دوران پاکستانی سفارتخانے کا بھی دورہ کیا اور اس کی کارکردگی کا جائزہ لیا۔ انھوں نے قطر میں موجود پاکستانیوں کے اجتماع سے بھی خطاب کیا اور کہا کہ پی آئی اے کو قطر ایئرویزکے برابر لائینگے۔ ماضی کے حکمرانوں نے عوام کے ساتھ بہت زیادتیاں کیں۔
1999 کے بعد ملک کو پیچھے دھکیل دیا گیا ہے۔ بہت جلد ایک نئے اور خوشحال پاکستان کی بنیاد رکھیں گے۔ اقتصادی راہداری منصوبے سے پاکستان میں معاشی انقلاب برپا ہوگا۔ سیکیورٹی کے حوالے سے اب صورتحال خوش آیند ہے۔ دہشتگردوں کی کمر توڑ دی ہے۔ آپریشن کو آخری حد تک لے کر جائینگے، انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ چین توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کررہا ہے، قرضے نہیں دے رہا۔
اب ایل این جی سے کارخانے چلیں گے، بجلی سستی ہوگی اور اس کے علاوہ وزیر اعظم محمد نوازشریف نے قطر سرمایہ کاری اتھارٹی کے سربراہ عبداللہ محمد التھانی سے ملاقات کے موقعے پر کہا کہ قطر کے سرمایہ کاروں کو پاکستان میں خاص طور پر توانائی، بنیادی ڈھانچے کی ترقی اور صارف انڈسٹری سے متعلق منصوبہ جات میں سرمایہ کاری کے مواقع کا جائزہ لینے کی دعوت دی۔ وزیر اعظم قطر میں 30 گھنٹے مقیم رہے۔
اس دوران انھوں نے تقریباً 15 ملاقاتیں کیں۔ پاکستانی باشندوں سے خطاب کیا۔ جے ایف تھنڈر اور سپر مشاق طیاروں کا فضائی مظاہرہ دیکھا اور دوحہ کے ہوائی اڈے کے مختلف حصوں کا معائنہ کیا۔ بلاشبہ اس دورے سے وزیر اعظم نوازشریف کی قدرومنزلت میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اور اس دورے کے نتائج سے وہ خود ہی نہیں بلکہ ہر پاکستانی مطمئن دکھائی دیتا ہے۔
وزیراعظم محمد نوازشریف نے اقتدارسنبھالنے کے بعد اس عزم کا برملا اظہار کیا تھا کہ وہ پاکستان سے توانائی کا بحران ختم کرکے رہیں گے اور ملک کی معیشت کو جو انتہائی زوال پذیر تھی اسے بہتر بنانے کے لیے بھرپور کوششیں کرینگے۔ بلاشبہ ڈھائی سال سے زائد عرصے کے دوران انھوں نے ایسے شاندار منصوبے پاکستان کو دیے ہیں جن سے ملک و قوم کی ترقی و خوشحالی کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دے رہی ہے اور اس کا اعتراف اب عالمی سطح پر بھی کیا جانے لگا ہے۔ موٹر ویز، پاک چائنا اقتصادی راہداری، عوامی ہیلتھ اسکیم، ملک میں امن و امان کا قیام اور متعدد پاور پروجیکٹس کے علاوہ حالیہ معاہدہ لائق تحسین ہے۔