ہم بھاگے جا رہے ہیں
بے خودی بھی مزے کی چیز ہے، انسان کو دنیا سے بیگانہ کر دیتی ہے میں اور میں اور صرف میں
MUMBAI:
بے خودی بھی مزے کی چیز ہے، انسان کو دنیا سے بیگانہ کر دیتی ہے میں اور میں اور صرف میں، بس اتنی مختصر ہوجاتی ہے زندگی! حالانکہ بہت پھیلی ہوتی ہے زندگی مگر جب ''میں'' کی قید میں آتی ہے تو بس بہت مختصر ہوجاتی ہے۔
اب یہ بے خودی کسی طرح کی بھی ہوسکتی ہے یہ ایک بدمست ہاتھی کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے یا پھر ایک سادہ مفلوک الحال کی شکل میں بھی مگر اہم بات یہ ہے کہ اس میں یہ بے خودی انسان کو عبرت بناتی ہے یا عقیدت کی مسند پر بٹھاتی ہے جی ہاں جس میں جتنا ظرف ہوتا ہے وہ اتنی ہی سمجھ رکھتا ہے، جس کا ظرف بڑا ہوگا وہ اللہ کی طرف سے دینے والا ہاتھ ہوگا، جس کا ظرف چھوٹا ہوگا وہ اتنا ہی سازشی منصوبہ ساز ہوگا، شکل اچھی مگر دل کالا۔
دونوں صورتوں کی شکلیں ہماری روز مرہ زندگی میں نظر آتی ہیں، ہر شخص زمانے کو برا کہتا ہوا نظر آتا ہے مگر کر وہی رہا ہوتا ہے جہاں اس کو اپنا فائدہ نظر آتا ہے ۔ مرتے مرتے بھی اپنے فائدے کی سوچ رہا ہوتا ہے۔ اولاد کو بچپن سے غلام کی شکل دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ بڑھاپا آرام سے گزر جائے مگر جب اولاد سیانی ہوتی ہے تو وہ بھی زمانہ کی رنگینی میں بدمست ہوتی نظر آتی ہے اور اس طرح زندگی کا پہیہ چلتا جا رہا ہے مگر کامیاب صرف وہی لوگ تھے جو دیانتداری سے اللہ کے بنائے گئے تمام رشتوں کو نبھا رہے ہوتے ہیں۔
اور اسی زمانے میں رہتے ہوئے اچھے اچھے کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں، آج بھی کچھ لوگ اپنے کھانوں کو پڑوسیوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں، آج بھی لوگوں اور رشتے داروں کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں آج بھی لوگ مشکل میں گرفتار لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور آج انجانے لوگوں کو صحیح راستہ بتا دیتے ہیں۔
ایک بڑا گروپ آج بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہیں جو نہ صرف اپنے لوگوں کا حق مارتے ہیں بلکہ ایسے تمام لوگوں کے سہولت کار بنتے ہیں نہ ان کی دنیا اور نہ دین، مگر باتیں ایسی عالم فاضل جیسے سارا ایمان ان کے دل میں بسا ہوا ہے ہم ان کو منافق بھی کہتے ہیں مگر یہ اپنے آپ کو عالم فاضل سمجھتے ہیں، اور اسی سمجھ کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور اپنی سوچ اور منصوبے اپنی اولاد میں بھی ٹرانسفرکرجاتے ہیں۔
جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے محسوس یہی ہوتا ہے کہ سوچ اور عمل دونوں پستی کی طرف گامزن ہیں۔ حساب کتاب نے تمام فریب کاروبار میں بدل دیا ہے اور کاروبار بھی صرف خسارے کا۔ پھر بھی ہم دوڑے جا رہے ہیں، بھاگ رہے ہیں منہ بھی کالے اور ہاتھ بھی کالے۔
جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو والدین صرف کارٹون دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں، وہ ایک گھنٹہ یا دو، پھر آرڈر کھانا کھاؤ، پھر آرڈر سو جاؤ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بچپن غلامی سے شروع ہوتا ہے، پھر کڑاکے دار جوانی، ہر چیز میں ''میں'' پھر بے بس کردینے والا بڑھاپا۔ تھکا ماندہ جسم، تھکی ہوئی سوچ۔ بے بسی اور پھر تنہائی، اسی لیے یورپ میں اولڈ ہاؤسز بنے جن کا فائدہ ہمارے لوگ جب یورپ میں بستے ہیں تو پورا فائدہ اٹھاتے ہیں، مصروف اتنے ہوتے ہیں کہ والدین کو وقت نہیں دے سکتے۔
محبت تو ویسی ہی قلیل ہوجاتی ہے، بہت سے تو جاتے ہی ادھیڑ عمری میں ہے تو بس دفن بھی وہیں ہوجاتے ہیں، رشتے دار بھی فخر سے بتاتے ہیں کہ ہمارے فلاں رشتے دار لندن کے فلاں فلاں قبرستان میں دفن ہے۔ ہمارا معاشرہ اور عوام تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور تنزلی کی طرف اخلاقیات جا رہی ہے یا ہم یوں کہہ لیں کہ اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے اور کندھے دینے والے بھی نہیں ، میچور لوگوں سے نوجوانوں تک، اسمارٹ فون سے لے کر تمام نئی ٹیکنالوجی تک، ہم سب بھاگے جا رہے ہیں، بھاگے جا رہے ہیں بغیر کسی پلاننگ کے، بغیر کسی سوچ کے، کیا حال ہے کیا مستقبل ہوگا؟
لگتا ایسا ہے کہ مطلب ، لالچ، حسد اور حرص کے سوا کسی کے پاس کچھ رہا ہی نہیں۔ تمام رشتے داریاں، تمام محبتیں ایک ہی نقطے پر مرکوز ہے کہ ہمیں مل کیا رہا ہے؟ سیمینار اور کانفرنس بھی اب اپنا اثر کھوتی جا رہی ہے مقالے پڑھنے والے بھی اچھا پیکیج دیکھ کر آجاتے ہیں اور ایک اچھے ماحول میں بات چیت کرتے ہیں۔ تبادلہ خیالات ہوتی ہے ہائی ٹی کا اہتمام اور خدا حافظ کہ بس ہم کیا کرسکتے ہیں، معاشرہ اسی طرح کا ہوگیا ہے۔
معاشرہ ہے کیا ہے؟ میں اور آپ ہی تو معاشرہ ہے۔ اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ اللہ کہتا ہے کہ ہدایت پانے والے تھوڑے ہوں گے اور گمراہ ہونے والے بہت زیادہ، لیکن اللہ انسان کو اشرف المخلوقات کہتا ہے اور فیصلے کا حق دیتا ہے، ہدایت اور گمراہی کھول کھول کر بتائی جاتی ہے اور پھر فیصلے کا اختیار انسان کے پاس ہے ۔
تمام نبیوں نے سادہ زندگی گزاری، اللہ کی نعمتوں و رحمتوں کے ساتھ ساتھ، مخلوق کی خدمت کی، انسانوں کے لیے بھلائی کی، بہتر معاشرہ بنایا، عدل و انصاف قائم کیا، عورتوں اور بچوں سمیت سب کی عزت و حرمت کا خیال رکھا، امیر اور غریب ہمیشہ رہیں مگر ان میں توازن پیدا کیا، ناپ تول، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور ان ہی جیسے تمام معاملات پر قانون بنائے اور ان کو معاشرہ میں قائم کیا۔ خلفائے راشدین نے بھی ان ہی بتائے گئے اصولوں پر اپنی اپنی حکومتیں قائم کی اور کامیاب و کامران رہے۔
انھوں نے ہیرے جواہرات سے اپنے محل نہ بنائے نہ سجائے، 50، 50 ڈشزکے دسترخوان نہ لگائے، بڑے بڑے مخملی دیوانوں پر دراز نہ ہوئے، بلکہ سب کچھ پاور اللہ کی طرف سے حاصل ہونے کے باوجود، انسانوں کے لیے خیر اور بھلائی کا راستہ منتخب کیا، گلیوں میں گشت کیا، بھیس بدل بدل کر عوام میں گئے، ان کے مسائل دیکھے ان کے دکھوں کو محسوس کیا اور سب سے اعلیٰ کہ اللہ کا خوف ہمیشہ اپنے دل میں رکھا کہ ہم سب کو اللہ کے سامنے ہی جوابدہ ہونا ہے۔بدقسمتی ہماری کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آج تک بھٹک رہے ہیں۔
روز روز نئے قانون بناتے ہیں اور ان قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہیں، بادشاہوں جیسی زندگی کے خواب دیکھتے ہیں اور بے تحاشا عزت و مرتبہ جو اللہ کی طرف سے ہمیں ملتا ہے اس کو چھوڑ کر دنیاوی محل، ہیرے جواہرات اور پتہ نہیں کیا کیا ہماری ترجیحات ہوگئی ہے، ہم بھاگے جا رہے ہیں اور بھاگے جا رہے اس چمک کے پیچھے جو ہمیں سونا لگتی ہے جو ہمیں طاقت نظر آتی ہے حالانکہ مٹی کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں!
چند سیکنڈ درکار ہوتے ہیں اللہ کو ہماری اوقات بتانے کے لیے، اونچے اونچے محلات، زیستوں کی گہرائیوں میں دفن ہوجاتے ہیں، نہ کوئی نشان ملتا ہے نہ باقیات صرف اللہ کا نام ہی رہ جاتا ہے، دنیا دنگ رہ جاتی ہے، حالیہ سالوں میں ہی بہت مثالیں ہے ہمارے پاس۔ زلزلے، سونامی، سیکنڈوں میں شہروں کے نقشے بدل دیتے ہیں، کہیں آسمانی بجلی گرجاتی ہے اور گھر اور گھر والے سب اس کی نذر ہوجاتے ہیں، بھٹکانے والے ایسے دوستوں کی شکل میں آپ کے ساتھ ہوتے ہیں کہ ساری زندگی کو غارت کردیتے ہیں۔
والدین کو ATM مشینیں سمجھنے والے خود بے انتہا مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں بے شک اللہ عالی شان دلوں میں رہتا ہے اگر ہماری نیت صاف ہے اور ہم اللہ ہی کو تمام قوتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہیں اور اس کے اصولوں پر فالو کرتے ہیں تو پھر یقینا فلاح و بہبود ہی ہمارا مقدر ہوگی۔ ہمارے اپنے بنائے ہوئے اصول، ریاکاری، لالچ کے سوا کچھ نہیں، ہم صرف اپنی ''میں'' میں رہتے ہیں اور صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔
اور تمام زندگی بھٹکتے ہوئے ہی گزار دیتے ہیں۔ جس اولاد کے لیے ہم دوسروں کا حق مارتے ہیں وہی اولاد آپ کو دربدر بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے، ڈاکوؤں کی طرح والدین کی دولت سمیٹتی اور تن تنہا لاوارث چھوڑ دیا، بے چارے کیسے وہ جئے اور کیسے مرے۔ حساب کتاب تو اللہ صرف یوم آخرت میں ہی کرے گا مگر نیتوں کا اثر ہوگا کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہی ہے۔
بے خودی بھی مزے کی چیز ہے، انسان کو دنیا سے بیگانہ کر دیتی ہے میں اور میں اور صرف میں، بس اتنی مختصر ہوجاتی ہے زندگی! حالانکہ بہت پھیلی ہوتی ہے زندگی مگر جب ''میں'' کی قید میں آتی ہے تو بس بہت مختصر ہوجاتی ہے۔
اب یہ بے خودی کسی طرح کی بھی ہوسکتی ہے یہ ایک بدمست ہاتھی کی شکل میں بھی ہوسکتی ہے یا پھر ایک سادہ مفلوک الحال کی شکل میں بھی مگر اہم بات یہ ہے کہ اس میں یہ بے خودی انسان کو عبرت بناتی ہے یا عقیدت کی مسند پر بٹھاتی ہے جی ہاں جس میں جتنا ظرف ہوتا ہے وہ اتنی ہی سمجھ رکھتا ہے، جس کا ظرف بڑا ہوگا وہ اللہ کی طرف سے دینے والا ہاتھ ہوگا، جس کا ظرف چھوٹا ہوگا وہ اتنا ہی سازشی منصوبہ ساز ہوگا، شکل اچھی مگر دل کالا۔
دونوں صورتوں کی شکلیں ہماری روز مرہ زندگی میں نظر آتی ہیں، ہر شخص زمانے کو برا کہتا ہوا نظر آتا ہے مگر کر وہی رہا ہوتا ہے جہاں اس کو اپنا فائدہ نظر آتا ہے ۔ مرتے مرتے بھی اپنے فائدے کی سوچ رہا ہوتا ہے۔ اولاد کو بچپن سے غلام کی شکل دینے کی کوشش کرتا ہے تاکہ بڑھاپا آرام سے گزر جائے مگر جب اولاد سیانی ہوتی ہے تو وہ بھی زمانہ کی رنگینی میں بدمست ہوتی نظر آتی ہے اور اس طرح زندگی کا پہیہ چلتا جا رہا ہے مگر کامیاب صرف وہی لوگ تھے جو دیانتداری سے اللہ کے بنائے گئے تمام رشتوں کو نبھا رہے ہوتے ہیں۔
اور اسی زمانے میں رہتے ہوئے اچھے اچھے کام سر انجام دے رہے ہوتے ہیں، آج بھی کچھ لوگ اپنے کھانوں کو پڑوسیوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں، آج بھی لوگوں اور رشتے داروں کے جنازوں میں شریک ہوتے ہیں آج بھی لوگ مشکل میں گرفتار لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور آج انجانے لوگوں کو صحیح راستہ بتا دیتے ہیں۔
ایک بڑا گروپ آج بھی ایسے لوگوں پر مشتمل ہیں جو نہ صرف اپنے لوگوں کا حق مارتے ہیں بلکہ ایسے تمام لوگوں کے سہولت کار بنتے ہیں نہ ان کی دنیا اور نہ دین، مگر باتیں ایسی عالم فاضل جیسے سارا ایمان ان کے دل میں بسا ہوا ہے ہم ان کو منافق بھی کہتے ہیں مگر یہ اپنے آپ کو عالم فاضل سمجھتے ہیں، اور اسی سمجھ کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں اور اپنی سوچ اور منصوبے اپنی اولاد میں بھی ٹرانسفرکرجاتے ہیں۔
جیسے جیسے وقت گزرتا جا رہا ہے محسوس یہی ہوتا ہے کہ سوچ اور عمل دونوں پستی کی طرف گامزن ہیں۔ حساب کتاب نے تمام فریب کاروبار میں بدل دیا ہے اور کاروبار بھی صرف خسارے کا۔ پھر بھی ہم دوڑے جا رہے ہیں، بھاگ رہے ہیں منہ بھی کالے اور ہاتھ بھی کالے۔
جب ہم چھوٹے ہوتے ہیں تو والدین صرف کارٹون دیکھنے کی اجازت دیتے ہیں، وہ ایک گھنٹہ یا دو، پھر آرڈر کھانا کھاؤ، پھر آرڈر سو جاؤ، کہنے کا مطلب یہ ہے کہ بچپن غلامی سے شروع ہوتا ہے، پھر کڑاکے دار جوانی، ہر چیز میں ''میں'' پھر بے بس کردینے والا بڑھاپا۔ تھکا ماندہ جسم، تھکی ہوئی سوچ۔ بے بسی اور پھر تنہائی، اسی لیے یورپ میں اولڈ ہاؤسز بنے جن کا فائدہ ہمارے لوگ جب یورپ میں بستے ہیں تو پورا فائدہ اٹھاتے ہیں، مصروف اتنے ہوتے ہیں کہ والدین کو وقت نہیں دے سکتے۔
محبت تو ویسی ہی قلیل ہوجاتی ہے، بہت سے تو جاتے ہی ادھیڑ عمری میں ہے تو بس دفن بھی وہیں ہوجاتے ہیں، رشتے دار بھی فخر سے بتاتے ہیں کہ ہمارے فلاں رشتے دار لندن کے فلاں فلاں قبرستان میں دفن ہے۔ ہمارا معاشرہ اور عوام تیزی سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں اور تنزلی کی طرف اخلاقیات جا رہی ہے یا ہم یوں کہہ لیں کہ اخلاقیات کا جنازہ نکل رہا ہے اور کندھے دینے والے بھی نہیں ، میچور لوگوں سے نوجوانوں تک، اسمارٹ فون سے لے کر تمام نئی ٹیکنالوجی تک، ہم سب بھاگے جا رہے ہیں، بھاگے جا رہے ہیں بغیر کسی پلاننگ کے، بغیر کسی سوچ کے، کیا حال ہے کیا مستقبل ہوگا؟
لگتا ایسا ہے کہ مطلب ، لالچ، حسد اور حرص کے سوا کسی کے پاس کچھ رہا ہی نہیں۔ تمام رشتے داریاں، تمام محبتیں ایک ہی نقطے پر مرکوز ہے کہ ہمیں مل کیا رہا ہے؟ سیمینار اور کانفرنس بھی اب اپنا اثر کھوتی جا رہی ہے مقالے پڑھنے والے بھی اچھا پیکیج دیکھ کر آجاتے ہیں اور ایک اچھے ماحول میں بات چیت کرتے ہیں۔ تبادلہ خیالات ہوتی ہے ہائی ٹی کا اہتمام اور خدا حافظ کہ بس ہم کیا کرسکتے ہیں، معاشرہ اسی طرح کا ہوگیا ہے۔
معاشرہ ہے کیا ہے؟ میں اور آپ ہی تو معاشرہ ہے۔ اور ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ اللہ کہتا ہے کہ ہدایت پانے والے تھوڑے ہوں گے اور گمراہ ہونے والے بہت زیادہ، لیکن اللہ انسان کو اشرف المخلوقات کہتا ہے اور فیصلے کا حق دیتا ہے، ہدایت اور گمراہی کھول کھول کر بتائی جاتی ہے اور پھر فیصلے کا اختیار انسان کے پاس ہے ۔
تمام نبیوں نے سادہ زندگی گزاری، اللہ کی نعمتوں و رحمتوں کے ساتھ ساتھ، مخلوق کی خدمت کی، انسانوں کے لیے بھلائی کی، بہتر معاشرہ بنایا، عدل و انصاف قائم کیا، عورتوں اور بچوں سمیت سب کی عزت و حرمت کا خیال رکھا، امیر اور غریب ہمیشہ رہیں مگر ان میں توازن پیدا کیا، ناپ تول، ملاوٹ، ذخیرہ اندوزی اور ان ہی جیسے تمام معاملات پر قانون بنائے اور ان کو معاشرہ میں قائم کیا۔ خلفائے راشدین نے بھی ان ہی بتائے گئے اصولوں پر اپنی اپنی حکومتیں قائم کی اور کامیاب و کامران رہے۔
انھوں نے ہیرے جواہرات سے اپنے محل نہ بنائے نہ سجائے، 50، 50 ڈشزکے دسترخوان نہ لگائے، بڑے بڑے مخملی دیوانوں پر دراز نہ ہوئے، بلکہ سب کچھ پاور اللہ کی طرف سے حاصل ہونے کے باوجود، انسانوں کے لیے خیر اور بھلائی کا راستہ منتخب کیا، گلیوں میں گشت کیا، بھیس بدل بدل کر عوام میں گئے، ان کے مسائل دیکھے ان کے دکھوں کو محسوس کیا اور سب سے اعلیٰ کہ اللہ کا خوف ہمیشہ اپنے دل میں رکھا کہ ہم سب کو اللہ کے سامنے ہی جوابدہ ہونا ہے۔بدقسمتی ہماری کہ ہم سب کچھ ہوتے ہوئے بھی آج تک بھٹک رہے ہیں۔
روز روز نئے قانون بناتے ہیں اور ان قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہیں، بادشاہوں جیسی زندگی کے خواب دیکھتے ہیں اور بے تحاشا عزت و مرتبہ جو اللہ کی طرف سے ہمیں ملتا ہے اس کو چھوڑ کر دنیاوی محل، ہیرے جواہرات اور پتہ نہیں کیا کیا ہماری ترجیحات ہوگئی ہے، ہم بھاگے جا رہے ہیں اور بھاگے جا رہے اس چمک کے پیچھے جو ہمیں سونا لگتی ہے جو ہمیں طاقت نظر آتی ہے حالانکہ مٹی کے ڈھیر کے سوا کچھ بھی نہیں!
چند سیکنڈ درکار ہوتے ہیں اللہ کو ہماری اوقات بتانے کے لیے، اونچے اونچے محلات، زیستوں کی گہرائیوں میں دفن ہوجاتے ہیں، نہ کوئی نشان ملتا ہے نہ باقیات صرف اللہ کا نام ہی رہ جاتا ہے، دنیا دنگ رہ جاتی ہے، حالیہ سالوں میں ہی بہت مثالیں ہے ہمارے پاس۔ زلزلے، سونامی، سیکنڈوں میں شہروں کے نقشے بدل دیتے ہیں، کہیں آسمانی بجلی گرجاتی ہے اور گھر اور گھر والے سب اس کی نذر ہوجاتے ہیں، بھٹکانے والے ایسے دوستوں کی شکل میں آپ کے ساتھ ہوتے ہیں کہ ساری زندگی کو غارت کردیتے ہیں۔
والدین کو ATM مشینیں سمجھنے والے خود بے انتہا مشکلات کا شکار نظر آتے ہیں بے شک اللہ عالی شان دلوں میں رہتا ہے اگر ہماری نیت صاف ہے اور ہم اللہ ہی کو تمام قوتوں کا سرچشمہ سمجھتے ہیں اور اس کے اصولوں پر فالو کرتے ہیں تو پھر یقینا فلاح و بہبود ہی ہمارا مقدر ہوگی۔ ہمارے اپنے بنائے ہوئے اصول، ریاکاری، لالچ کے سوا کچھ نہیں، ہم صرف اپنی ''میں'' میں رہتے ہیں اور صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔
اور تمام زندگی بھٹکتے ہوئے ہی گزار دیتے ہیں۔ جس اولاد کے لیے ہم دوسروں کا حق مارتے ہیں وہی اولاد آپ کو دربدر بھٹکنے پر مجبور کردیتی ہے، ڈاکوؤں کی طرح والدین کی دولت سمیٹتی اور تن تنہا لاوارث چھوڑ دیا، بے چارے کیسے وہ جئے اور کیسے مرے۔ حساب کتاب تو اللہ صرف یوم آخرت میں ہی کرے گا مگر نیتوں کا اثر ہوگا کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہی ہے۔